رفع الاشكال عن ايضاح الاشكال



بسم اللہ الرحمن الرحیم
رفع الاشکال عن ایضاح الاشکال

تدریب الراوی میں (النوع الثامن الاربعون:معرفۃمن ذکر باسماء ،او صفات مختلفہ)میں سیوطی نے اس فن میں تصنیف کردہ کتابوں میں عبد الغنی بن سعیدازدی کی کتاب (ایضاح الاشکال) کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : (وَصَنَّفَ فِيهِ) الْحَافِظُ (عَبْدُ الْغَنِيِّ بْنُ سَعِيدٍ) الْأَزْدِيُّ كِتَابًا نَافِعًا سَمَّاهُ: " إِيضَاحُ الْإِشْكَالِ "، وَقَفْتُ عَلَيْهِ وَسَأُلَخِّصُ هُنَا مِنْهُ أَمْثِلَةً .انتهى
مجھے یادآیا کہ میں نے شاملہ میں اس نام کی کتاب دیکھی ہے، چنانچہ جاکر اس کو اوپن کیا ،تو ایک کتاب ظاہر ہوئی جس کا عنوان تھا :

الكتاب: إيضاح الإشكال
المؤلف: أبو الفضل محمد بن طاهر بن علي بن أحمد المقدسي الشيباني، المعروف بابن القيسراني (المتوفى: 507هـ)
المحقق: د. باسم الجوابرة
الناشر: مكتبة المعلا - الكويت

کتاب کا نام تو وہی تھا (ایضاح الاشکال)، مگر مصنف کوئی اور شخصیت نکلی ، شروع میں مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے سیوطی سے (إيضاح الإشكال)کے مصنف کے نام لینے میں کوئی اشتباہ ہوا ہوگا ، لہذا شاملہ میں (فہارس الکتب والادلہ) کے ذریعے سرچ کیا تو چند نتائج ظاہر ہوئے :

376 - كتاب الغوامض والمبهمات ، 377 - وَكتاب الرباعي فِي الحَدِيث ، 378 - وَكتاب إِيضَاح الْإِشْكَال . وَكلُّهَا من تأليف عبد الْغَنِيّ بن سعيد الْحَافِظ :
حَدثنِي بِهِا الشَّيْخ أَبُو الْحسن عَليّ بن عبد الله بن موهب عَن أبي الْعَبَّاس أَحْمد بن عمر العُذري عَن أبي بكر أَحْمد بن مُحَمَّد بن عِيسَى البَلوي عَن عبد الْغَنِيّ بن سعيد مؤلفها . [فهرسة ابن خير الإشبيلي ص: 187]
4- إيضاح الإشكال في الرواة. للحافظ المتقن النسَّابة أبي محمد عبد الغني بن سعيد بن علي الأزدي المصري (ت:409 هـ) . ذكره ابن حجر في التهذيب (3/98) ، وابن خير في فهرسته (ص: 219) ، وسزكين في تاريخ التراث (1/1/461) ، وأشار إلى مخطوطة. [التصنيف في السنة النبوية وعلومها في القرن الخامس الهجري ص: 82]
5- إيضاح الإشكال فى الرواة : آصفية 3/ 324، رجال 190 (1335 هـ)، السعيدية بحيدرآباد، رجال 53 (191 ورقة، 528 هـ). [تاريخ التراث العربي لسزكين - العلوم الشرعية 1/ 461]

مذکورہ تین نتائج دیکھ کر اطمینان ہوگیا کہ اس فن میں جو کتاب (ایضاح الاشکال) نامی ہے ، وہ واقعتا حافظ عبد الغنی بن سعید مصری کی ہی ہے ، کیونکہ :
۱۔ ابن خیر نے اپنی سند مصنف تک بیان کی ہے۔
۲۔ ابن حجر وغیرہ نے بھی ان کی طرف منسوب کی ہے ، اور پورا نام اس کا (إيضاح الإشكال فى الرواة) ذکر کیا ہے ۔
۳۔ اس کے دو قلمی نسخے بھارت کے دو بڑے کتبخانوں میں ہیں ، آصفیہ میں (۱۹۰) صفحات میں یہ کتاب ہے جو سن (۱۳۳۵ھ) میں لکھی گئی ہے، اورسعیدیہ میں (۱۹۱) صفحات میں ہے جو سن (۵۲۸ ھ) میں لکھی گئی، بظاہر آصفیہ والی اسی کی نقل ہے ۔
میری جستجو بڑھتی گئی تو میں نے (الباحث فى المخطوطات الاسلامية)پروگرام کے ذریعہ معلوم کرنا چاہا کہ آیا  اس کا کوئی نسخہ مزید کسی اورکتب خانہ میں ہے ، چنانچہ مذکورہ پروگرام میں سرچ کیا تو ایک ہی نتیجہ ظاہر ہوا :

المكتبه
البلد
الرقم
التصنيف
العنوان
المؤلف
الناسخ
عدد الاوراق
الجامعة الاسلامية
السعودية
167۹
رجال الحديث
إيضاح الإشكال فى الرواة ج1،ج2
الأزدي عبد الغني بن سعيد
عبد المؤمن بن خلف الدمياطي
25

پھر (جامع المخطوطات) کا رخ کیا ، اور جامعہ اسلامیہ کے مخطوطات میں نمبر (۱۶۷۹)والےقلمی نسخہ کو ڈاونلوڈ کیا ، تو وہی کتاب عبد الغنی ازدی کی ظاہر ہوئی ، مگر مختصر چند اوراق پر مشتمل تھی ، جبکہ فؤاد  سزکین نے اس کے کل صفحات(۱۹۱) بتائے ہیں ۔
خیر کتاب مل جانے پر خوشی تو ہوئی ،کہ چلو زندگی میں کم از کم کتاب کی زیارت تو نصیب ہوئی ، ورنہ (کم حسرات فی بطون المقابر) مشار الیہ قلمی نسخے کےاوراق اگرچہ مرتب نہیں تھے ، اور تصویر بھی عمدہ نہیں تھی،مگر کہا گیا ہے(ما لا یدرک کلہ لا یترک جلہ)نیزقلمی نسخے کےشروع میں دیکھا تو معلوم ہواکہ یہ نسخہ جامعہ اسلامیہ والوں نے مکتبہ سعیدیہ حیدرآبادسے زیروکس کیا ہے،یہ دیکھ کر بھی  خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک میں کیسے علمی جواہرات گمنامی میں پڑے ہیں ، ولکن ...؟!

مصنف کا مقدمہ  پڑھا تو اس میں حافظ عبد الغنی بن سعید نے لکھا ہے :
الحمد لله حمدا يُوافي نعمه ويكافئ مَزيده ، وصلى الله على سيدنا محمد نبيه وآله وسلم . أما بعد : فهذا كتابٌ أودعتُه [إيضاح] مَن يُعرَف بأسماء مختلفة ونُعوت متفرقة ، تُشكِلُ على مَن ليس له بها خِبرةٌ ، ويظن أن تلك الأسماء والنعوت التي للواحد : أنها لجماعة متفرقين ، فإذا بينَّاها ووصفناها لهم عُلِمَ سِرُّها وأنها بخلاف ما ظَنَّ ، واتَّضح له ما أشكل عليه منها . وبالله التوفيق .
باب المحمَّدين : محمد بن السائب الكلبي صاحب أبي صالح باذام ...وهو أبو النضر الذي روى عنه محمد بن إسحاق ...وهو أبو عمرو القرشي الذي روى عنه سفيان الثوري ...

مصنف کا منہج یہ ہے کہ:وہ ہر نام کے لئے باب قائم کرتے ہیں (باب احمد ، باب اشعث ، باب ایوب )اور باب کے ماتحت اپنی اسانید کے ساتھ ان روایات کو لاتے ہیں جن میں بعض راویوں کے مختلف نام ذکر کئے گئے ہیں ، اور ہر نام کےشروع میں یہ عبارت ذکر کرتے ہیں (وہو فلان الذی روى عنہ فلان) ۔ازدی نےکتاب کا آغاز  اسماء المحمدین سے کیا ہےتبرکا باسم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جیساکہ اسماء الرجال کی بہت ساری کتابوں میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا، اور شاید اس طریقے کے موجد اول امام بخاری ہیں ، جنہوں نے (التاریخ الکبیر)میں  اسماء المحمدین کو تمام اسماء پر مقدم کیا ہے ۔
سیوطی نےعبد الغنی ازدی کی کتاب کے متعلق(تدریب،نوع۴۸)میں کہا : (وَقَفْتُ عَلَيْهِ وَسَأُلَخِّصُ هُنَا مِنْهُ أَمْثِلَةً) ۔ مگر تدریب میں تو سیوطی نے صرف امام نووی کی ذکر کردہ مثالوں کی توضیح کی ہے ، اپنی طرف سے مزید نئی مثالیں پیش نہیں کیں ۔
بہت ممکن ہے کہ سیوطی سے تلخیص پیش کرنے سے ذہول ہواہو ، یا تدریب کا حوالہ دینے میں سہو ہوا ہو ،واللہ اعلم ۔کیونکہ فہارس مخطوطات میں ایک کتاب ملی :
161 - تلخيص إيضاح الإشكال في من عرف بأسماء مختلفة ونعوت متعددة من الرجال لعبد الغني بن سعيد . [بايزيد عمومي 7905 ورقة 47 - 61].
المصدر : معجم تاريخ التراث الإسلامي في مكتبات العالم - المخطوطات والمطبوعات (2/ 1572) .
اس میں صاحب تلخیص کا نام مذکور نہیں ہے ، مگربعید نہیں  ہے کہ یہی سیوطی کی تلخیص ہو ۔

عبد الغنی بن سعید کی (ایضاح الاشکال فی اسماء الرواۃ)غالباابھی تک غیر مطبوعہ ہے ، اتفاقاکتاب کے نام سےکسی کو اشکال ہوا اور اس نےملتقی اہل الحدیث پر لکھا کہ یہ (ایضاح الاشکال)کویت سے چھپ چکی ہے ، مگر وہ غلط ہے ، کویت سے باسم الجوابرہ کی تحقیق سے جو کتاب  بنام (ایضاح الاشکال)چھپی ہے وہ محمد بن طاہر مقدسی کی ہے ، اور اس کا فن وموضوع بھی الگ ہے،لایئے اس کو بھی دیکھ لیں تاکہ اشکال باقی نہ رہے:

ایضاح الاشکال للمقدسی :
قال محمد بن طاهر المقدسي في مقدمة كتابه (إيضاح الإشكال) :
هَذِه أسامي أَقوام من الصَّحَابَة يروي عَنْهُم أَوْلَادهم وَلَا يُسَمَّون فِي الرِّوَايَة ، فيَعسُر على مَن لَيْسَ الحَدِيثُ مِن صِناعته معرفةُ اسْم ذلِك الرجل ، أفردنا لَهُم هَذِه الْأَجْزَاء على اخْتِصَار ، دون ذكر أَحَادِيثهم وَالِاسْتِدْلَال ، إِذْ الْحَاجة تحصُل بِهَذَا الْقدر ، وَالله الْمُوفّق للصَّوَاب .
1 - أَيُّوب بن مُوسَى عَن أَبِيه عَن جده . جده : عَمْرو بن سعيد بن الْعَاصِ بن أُميَّة بن عبد شمس .
2 - إِسْمَاعِيل بن أُميَّة عَن أَبِيه عَن جده . جده أَيْضا : عَمْرو بن سعيد بن الْعَاصِ الْمُقدم ذكره...
3 - طَلْحَة بن مصرف عَن أَبِيه عَن جده . جده : عَمْرو بن كَعْب بن جحدر بن مُعَاوِيَة ...
ابن طاہر مقدسی نے مزیدچند اسماء ذکر کئے ، پھر دوسرے عنوانات قائم کئے : باب الجد ، باب الجدہ ، باب الام ، باب العم ، باب الخال ، باب الزوج والزوجہ ...
اس سے معلوم ہوا کہ ابن طاہر مقدسی کتاب کا موضوع (فن مبہمات)ہے ،یعنی وہ رواۃ جن کا نام مذکور نہیں ہوتا، مگر سیوطی نے تدریب الراوی میں (النوع التاسع والخمسون:المبہمات) میں ابن طاہر کی کتاب پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے : (وَلَكِنَّهُ جَمَعَ فِيهِ مَا لَيْسَ مِنْ شَرْطِ الْمُبْهَمَاتِ) ۔


رقمہ العاجز : محمد طلحہ بلال احمد منیار
۶/۷/۲۰۲۰

Comments

  1. جزاک اللہ سبحانہ وتقدس فی الدارین .انت یا حبیب مستحق بالدعاء الذی دعا النبی صلی اللہ علیہ وسلم للمتعلمی الحدیث. نضر اللہ امرأً سمع الخ
    اللہ یقبل جہدک ویحشرک فی زمرۃ المحدثین

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت