Posts

Showing posts from January, 2017

حضرت عمر فاروق کا بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کی حقیقت میرا سوال ہے کہ : کیا یہ بات ثابت ہے کہ : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے  جاہلیت کے زمانہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور (دفن ) کیا تھا  ؟ جواب : قرآن کریم سے یہ تو ثابت ہے کہ جاہلیت میں بعض عرب ایسا کرتے تھے ، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ( وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (59) [ النحل ] وقال : ( وَإِذَا المَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ (9) بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ  (10) [التكوير ]   . لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس طرح کے فعل کی نسبت باطل اور سراسر جھوٹ ہے ، اس میں روافض کا  دخل بھی ہوسکتاہے ۔ اس لئے کہ یہ بات تاریخ سےثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پہلی بیوی تھیں : حضرت زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا ، ان سے حضرت عمر کی اولاد میں سے : ام المؤمنین حضرت حفصہ  ،عبد اللہ بن عمر، عبدالرحمن بن عمر رضی

جوان کی توبہ سے عذاب قبر کا رفع ہونا

جوان کی توبہ سے عذاب قبر رفع ہونا ایک پوسٹ نیٹ پر گردش کررہی ہے جس میں ایک یہ بات حدیث بتا کر ذکر کی گئی ہے کہ : " جوان آدمی جب توبہ کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی مشرق اور مغرب کے درمیان سارے قبر والوں سے عذاب چالیس دن کے لئے ہٹا دیتے ہیں " ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے اور نہ ہی حدیث کی کسی کتاب میں مذکور ہے، یہ من گھڑت معلوم ہوتی ہے ، اور اس کو " سنن ابن ماجہ " کی طرف منسوب کرنا بھی بالکل غلط اور جھوٹ ہے   ۔ اس کے مفہوم میں ایک اور بے اصل حدیث نقل کی جاتی ہے  :  ( ﺇﻥ ﺍﻟﻌﺎﻟﻢَ ﻭﺍﻟﻤُﺘﻌﻠﻢ ﺇﺫﺍ ﻣَﺮّﺍ ﺑﻘﺮﻳﺔ ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺮﻓﻊُ ﺍﻟﻌﺬﺍﺏَ ﻋﻦ ﻣﻘﺒﺮﺓ ﺗﻠﻚ ﺍﻟﻘﺮﻳﺔ ﺃﺭﺑﻌﻴﻦ ﻳﻮﻣﺎ ً ‏) . قال السیوطي في "تخریج أحادیث شرح العقائد" : لا أصل له (كشف الخفاء 672)   وأقره عليه الملا علي القاري في کتابه "فرائد القلائد في تخریج أحادیث شرح العقائد" وكذلك في "المصنوع" ص 65 ۔ اس لئے اسے بھی حدیث سمجھنا یا اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا باعث گناہ ہے ۔  اس سے بچنا چاھئے ۔

شفا کے لئے بارش کے پانی پر پڑھنے کا عمل

سوال :ایک روایت کی صحت معلوم کرنی ہے کہ : حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل بتایا کہ : بارش کے پانی پر جو شخص ستر ۷۰ بار سورہ فاتحہ،سورہ اخلاص ، اور معوذتین پڑھ کر ، اس پانی کو سات دن تک صبح شام پئے ، تو اس کو ہر بیماری سے شفا حاصل ہوگی ۔ جواب : یہ عمل اس ترکیب کے ساتھ عموما روافض کی کتابوں میں نیسان ( سریانی شمسی تقویم میں چوتھے ) مہینے کے اعمال ووظائف میں ملتاہے ۔ رافضی عالم مجلسی کی کتاب ( بحار الأنوار ) میں یہ عمل حسین بن حسن بن خلف کاشونی کی کتاب ( زاد العابدین ) کے حوالے سے منقول ہے ، اور سند اس طرح سے مذکور ہے : قال الکاشونی : أخبرنا الوالد أبو الفتح ، حدثنا أبوبکر محمد بن عبدالله الخشابی البلخی ، حدثنا أبو نصر محمد بن أحمد بن محمد الباب حریزی ، أخبرنا أبو نصرعبدالله بن عباس المذکر البلخی ، حدثنا أحمد بن أحید ، حدثنا عیسی بن هارون ، عن محمد بن جعفر بن عبد الله بن عمر ، حدثنا نافع ، عن ابن عمر ....فذكره سند مذکورعلی فرض ثبوتہ کے بعض رواۃ اواخر سند میں معروف ہیں ، باقی مجاہیل یا ضعفاء ہیں ، خصوصا اوائل سند میں مذکورہ روا

کیا کھانے سے پہلے اور اخیر میں نمکین چیز کھانا سنت ہے؟

جواب: کھانے میں نمکین سے ابتدا و اختتام سنت نہیں، جیساکہ بعض کتابوں (شامی ، عالمگیری،اور الدر المنتفی وغیرہ میں کھانے کے منجملہ آداب وسنن) میں لکھا ہوا ہے، اسلئے کہ اس بارے میں جتنی   احادیث ہیں وہ سب موضوعہ ہیں، لہذاا ُ س کو سنت قرار دینا تسامح (غلطی ) ہے۔ (احسن الفتاوی 9/91) بہرحال یہ سنت تو دور مستحب بھی   نہیں ہے، اسلئے کہ کسی بھی حکم کے اثبات کے لئے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے خواہ مستحب ہی ہو، اور یہاں کوئی معتبر دلیل نہیں ہے، اور مذکورہ بالا احادیث سے کسی بھی حکم کا ثبوت اصولی اعتبار سے درست نہیں! لہذا ان دلیلوں سے حجت پکڑنا صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ روایات ایسی شدید ضعیف ہیں جس سے استحباب ثابت کرنا اصول کے خلاف ہے، بلکہ اسی وجہ ( روا ت کے مجہول و وضّاع ہونے کی وجہ ‍) سے کئی لوگوں نے اس سلسلے کی احادیث کو موضوع قرار دیا ہے ۔ رہی بات بعض اکابرین کی، کہ انہوں نے اپنی کتب وغیرہ میں اِسے سنت یا مستحب لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اکابر کی تحقیق سر آنکھوں پر، لیکن در حقیقت یہاں تحقیق نہیں ہے، بلکہ ’’عالمگیری‘‘ کے جزئیہ "البدء بالملح والختم بالملح" کی توضیح ہے، حا

کنت کنزا مخفیا ...کی تحقیق

" کنت کنزا مخفیا ... الخ " کا جو فقرہ حدیث قدسی کے عنوان سے مشہور ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی سند سے ثابت نہیں ہے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "  کنت کنزا لا أُ عرَف فأحببتُ أن أُعرَف    ... قال ابن تیمية : إنه لیس من کلام النبي صلی الله عليه وسلم ، ولا یعرف له سندٌ صحیح ولا ضعیف ، و تبعه الزرکشيُّ و شیخُنا ( یعنی ابن حجر ) "(المقاصد الحسنہ   للسخاوی ص327) ۔ نیز علامہ عجلونی نے بتایا ہے کہ صرف علامہ ابن تیمیہ ہی نہیں، حافظ ابن حجر، علامہ زرکشی اور علامہ سیوطی نے بھی یہی کہا ہے کہ :اس روایت کی کوئی سند نہیں ہے نہ صحیح، نہ ضعیف ۔ (کشف الخفاء للعجلونی 2/173) اور اسنی المطالب (ص ۲۴۳) میں لکھا ہے کہ : اس حدیث کو بعض صوفیاء تساہلاً حدیث قدسی کے طور پر ذکر کرتے ہیں ۔اور علامہ آلوسی روح المعانی (سورہ ذاریات) میں فرماتے ہیں  : ومن يرويه من الصوفية معتر فٌ بعدم ثبوته نقلا لكن يقول : إنه ثابت كشفا ً . البتہ آ یت کریمہ میں ضرور وارد ہوا ہے کہ : { وَمَا خلقتُ الجنَّ و الإنسَ إلا لیَعبُدون ) جس کی تفسیر : (لیعرفون)  سے مجاہد بن ج

بچے کا نام تبرکا (محمد) رکھنے کی روایتیں

    سوال : کیا بچے کا نام (محمد) رکھنے کی احادیث میں کوئی فضیلت وارد ہے ؟ الجواب : حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  : ( مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا تَبَرُّكًا بِهِ كَانَ هُوَ وَمَوْلُودُهُ فِي الْجَنَّةِ ) . ‏[ فضائل التسمیة لابن أبی بکیر : 30 ، مشیخة قاضي المارستان :453 ] . ترجمہ : " جس نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام تبرکاً   محمد رکھا ،  وہ اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے " . حکم : موضوع ‏( من گھڑت ‏) : یہ جھوٹی روایت ہے اسے تراشنے وا لا حامد بن حماد بن مبارک عسکری ہے،  جیسا کہ : ·        حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : " المتهم بوضعه حامد بن حماد العسکري "   اس حدیث کو گھڑنے کا الزام حامد بن حماد عسکری کے سر ہے   [ تلخیص کتاب الموضوعات : ص35 ‏] . ·        حا فظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے [ موضوعات ‏1/57 ]  میں ذکر کیا ہے . ·        جبکہ حافظ سیوطی کا ‏ [ اللآ لیٔ المصنوعة : 1/106 ‏] میں  اس جھوٹی روایت کی سند کو " حسن " کہنا انتہائی درجہ کا تساہل ہے .

انبیاء علیھم السلام کا امت محمدیہ میں آنے کی دعا کرنا

سوال : بیان کیا جاتا ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام نے اس امت میں آنے کی دعا کی ہے ؟  اور بعض لوگ یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ انبیاء میں سے کسی کی دعا قبول نہیں ہوئی سوائے عیسی علیہ السلام کے ۔ تو معلوم کرنا ہے کہ کیا یہ فرمان رسول صلی الله علیہ   وسلم ہے؟ جواب :  تفسیر وحدیث کی مختلف کتابوں میں بہت تلاش کرنے کے باوجود کوئی معتبر مرفوع  حدیث نہیں ملی ، البتہ حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں بعض تفسیر کی کتابوں میں سورہ اعراف کی آیت نمبر 150 : ( وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ ) کے ضمن میں بعض روایات ذکر کی جاتی ہیں ، کہ حضرت موسی علیہ السلام نے جب امت محمدیہ کے فضائل تورات میں دیکھے تو اللہ تعالی سے دعا کی کہ مجھے اس امت میں سے بنادے۔ ( تفسیر طبری    13/124 ) اس طرح کی روایتیں تاریخ وتراجم کی کتابوں میں بھی ہیں ( حلية   الاولیا ء 6/18) لیکن ان سب روایتوں کا دار ومدار حضرت کعب احبار ، وھب بن منبہ اور قتادہ بن دعامہ رحمہم اللہ تعالی پر ہے ، یہ وہ تابعین

کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا قصہ

سوال ۔۔۔ اجیبوا توجروا واعظین اور خطباء سے بیانات میں سنا گیا کہ " نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عورت کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی، ایک دن اس نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر تشریف لے گئے اس کے گھر کو صاف کیا ، پانی بھرا وغیرہ وغیرہ .... تو وہ عورت آپ کے حسن اخلاق و کردار دیکھ کر مسلمان ہوگئی۔ اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔۔۔ یہ واقعہ حدیث کی کسی کتاب میں ہے یا صرف سنی سنائی بات ہے؟؟؟ الجواب باسم ملهم الصواب : یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔۔۔ ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔                            از مولانا سعید صاحب  

تحقیق حدیث "عالم کا سونا عبادت ہے"

سوال :  کیا  یہ حدیث‏ (   نوم العالم ﺧﻴﺮ ﻣﻦ عبادة الجاهل   ‏) صحیح ہے؟             الجواب بعون الله : یہ بات نہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ، نہ کسی صحابی یا تابعی کا قول ہے ۔ کتب احادیث میں بھی یہ معروف نہیں ، اور معتبر کتب حدیث میں تلاش بسیار کے بعد بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔ ہاں شیعہ روافض کی کتابوں میں - جو مجمع الاکاذیب ھوتی  ہیں - یہ بات ملتی ہے ، جیسے شیخ صدوق ( رافضی وفات 381 ﻫـ ) کی کتاب ( من لا یحضرہ الفقیہ ) 4/352 میں یہ روایت اس طرح مذکور ہے : روي ﺣﻤاد ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ، ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ، ﺟﻤﻴﻌﺎ – ﻳﻌﻨﻲ ﺣﻤﺎدا وﻣﺤﻤﺪا والد أنس - ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ، ﻋﻦ ﺟﺪﻩ ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ، ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ وﺳﻠﻢ أنه ﻗاﻟﻪ : - وذكر ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻃﻮﻳﻼ ﺟﺪا، وﻓﻴﻪ : ‏( ﻳﺎ ﻋﻠﻲ ! ﻧﻮم العاﻟﻢ ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﻋﺒادة العابد‏) ۔ مذکورہ  کتاب کے حوالے سے یہ روایت  پھر دیگر کتب روافض میں  پھیل گئی ، جیسے : " ﻣﻜﺎﺭﻡ ﺍﻷﺧﻼﻕ " ﻟﻠﻄﺒﺮﺳﻲ ‏( ﺕ 548 ﻫـ ‏) ‏( ﺹ 441/ ‏) ، ﻭ " ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ " ﻟﻠﻤﺠﻠﺴﻲ ‏( 2/25 ‏) ۔ حدیث کے جعلی ہونے کی علامات بالکل ظاھر ہ