Posts

Showing posts from 2020

حضور کے زمانہ میں دوپہر کے کھانے کا وقت

  مولوی زبیر صاحب گودھروی کا سوال ہے کہ : دوپہر کا کھانا ظہر کی نماز سے پہلے یا بعد میں کھانا چاہئے ؟ اس کے بارے میں احادیث میں کچھ وارد ہے ؟ بعض مبلغین حضرات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مسنون کیا ہے ۔ الجواب باسم ملہم الصواب : اس سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کوئی صریح روایت تو معلوم نہیں ہے ، البتہ بعض روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو معمول منقول ہے ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ حضرات دوپہر کا کھانا اور قیلولہ دونوں ظہر کی نماز سے پہلے کرتے تھے ۔ مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں : 1- حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : قَالَ : مَا كُنَّا   نَقِيلُ   ، وَلَا نَتَغَدَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ. [ صحیح مسلم 859 جامع ترمذي525 ] یہ روایت بخاری شریف میں بھی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے دن نماز کے بعد ہی کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات جمعہ کی نماز کے لئے اہتمام کے

من باع نخلا بعد التعبير کی تصحیح

  لغات الحديث ( 2 ) (افاضات امیری علی الترمذی) میں ایک جگہ یہ حدیث مذکور ہے : عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : " من باع نخلا بعد التعبیر ..." کذا فیہ ؟! اقول : اس میں دو غلطیاں ہیں ، ایک تو یہ لفظ علی الصواب ( التأبیر ) ہے ھمزہ سے ، تأبیر کے معنی ہیں :درختوں کو قلم لگانا ، گابھا دینا ، تلقیح کرنا ، یعنی نر کھجور کے درخت کی ٹہنی یا شگوفہ کو ، مادہ درخت میں ملانا ۔ اس کو "تعبیر" عین سے لکھنا غلط ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ صحیح وثابت روایات میں حدیث کے الفاظ : " من باع نخلا بعد أن تؤبَّـر " بعدیت کا صرف ذکر ہے ، تابیر سے قبل کے الفاظ ایک ضعیف وشاذ روایت میں وارد ہیں جو ثابت نہیں ہے ، اسی لئے حنفیہ اس سے استدلال نہیں کرتے ، اور ان کے نزدیک قبل و بعد دونوں کا حکم ایک ہے ، اور "تابیر" سے پھل کے ظہور کا معنی   مراد لیتے ہیں ۔ جبکہ شوافع وغیرہ ( بعد أن تؤبر ) کو قید احترازی قرار دیتے ہیں ، اور اس کے مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہوئے قبل وبعد کے حکم میں فرق کرتے ہیں ، لہذا اگر روایت ثابت ہوتی تو اختلاف کا مطلب ہی نہیں تھا ۔ واللہ اعلم   کتبہ

لا تنبر باسمي کا صحیح مطلب

  لغات الحديث   (1) جامع ترمذی شریف کی ایک (شرح) کے مقدمہ میں لفظ ( نبی ) کی اصل پر بحث کرتے ہوئے ، یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ : ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ( یا نبیء اللہ ) [ ھمزہ کے ساتھ ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لا تَنبِز باسمي  فإنما أنا نبي الله "   اور اس کی تشریح یہ کی کہ : مجھ پر عیب مت لگاؤ ، میں اللہ کا نبی ہوں ۔ اقول : یہ حدیث مستدرک حاکم(2906) میں ہے : جاء أعرابي إلى رسول الله ﷺ فقال : يا نبيء الله ، فقال : لست بنبيء الله ولكني نبيُّ الله . رواه الحاكم بسنده من طريق حُمران بن أعيَن عن أبي الأسود الدُّؤلي   عن أبي ذر . قال الذهبي في " تلخيص المستدرك " : حديثٌ منكر وحُمران رافضي ليس بثقة . انتهى. ایک اور روایت میں ہے : " إنا معشرَ قریشٍ لا نَنبِـر " ذکرہ فی "تاج العروس" ۔ یعنی قریش کی زبان میں ھمزہ صاف صاف نہیں بولا جاتا ہے ، بلکہ ھمزہ کو حروف مدہ سے بدل دیا جاتا ہے ، یا حذف کردیا جاتا ہے تسہیلا وتخفیفا ۔ یہ لفظ : " لا تَنبِر " بے نقطے والی راء سے ہے ، نبر ینبر [ باب

علامة المؤمن والمنافق

  سأل بعض الإخوة عن حديث : " قصد المؤمن صلاته ، وقصد المنافق بطنه " . فالجواب : قال الإمام الغزالي في " الإحياء "(3/70) : وَسُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عن علامة المؤمن والمنافق ؟ فقال : " إن المؤمن همّته في الصلاة والصيام والعبادة ، والمنافق همّته في الطعام والشراب كالبهيمة   " . قال الإمام العراقي في " تخريج أحاديث الإحياء " : حديث سئل عن علامة المؤمن والمنافق فقال : إن المؤمن همه في الصلاة والصيام الحديث ، لم أجد له أصلا . انتهى ولكن ورد في كتاب " المنتخب من شيوخ بغداد " لأبي حيان ، حديث رقم ٢٣ :   أَخْبَرَنَا الْعَلامَةُ مُفْتِي   الشَّرَفِ ظَهِيرُ الدِّينِ أَبُو الْمُظَفَّرِ   قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ بِالْمَدْرَسَةِ الْمُغِيثِيَّةِ بِالْجَانِبِ الشَّرْقِيِّ مِنْ بَغْدَادَ ، نا الإِمَامُ الْكَبِيرُ الأُسْتَاذُ شَمْسُ الْمِلَّةِ وَالدِّينِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ السَّتَّارِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَبُو الْوَحْدَةِ   الْعِمَادِيُّ الْكَرْدَرِيُّ ، نا مَحْمُودُ بْنُ عَلِيٍّ الطَّرَازِيُّ   ، نا

اللهم ارزقني طيبا واستعملني صالحا کی تحقیق

  ایک اوڈیو کلپ وائرل ہو رہی ہے ،  جس میں ایک دعا کو حضرت جبریل علیہ السلام کی سکھائی ہوئی دعا بتاکراس کے  پڑھنے کی ترغیب دی جا رہی ہے   ، اور پابندی سے اس کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ، وہ دعا یہ ہے :  اللهم ارزقني طيبا واستعملني صالحا   ۔ تو جان لیں کہ یہ دعا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے ، لہذا اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا ، یا حضرت جبریل علیہ السلام کی بتائی ہوئی دعا کا عنوان دینا ، درست نہیں ہے ۔  ہاں ویسے ہی    اس دعا کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ مگر صحیح دعاؤں کے ہوتے ہوئے ہر عجیب وغریب غیر مستند دعاء کو بڑھا چڑھا کر پھیلانا بھی احتیاط کے خلاف ہے ۔ اس دعا کی روایت صرف اور صرف امام حکیم ترمذی کی کتاب ( نوادر الاصول ۴/۱۳۵) میں ہے ۔ سند یہ ہے : حدثنا محمد بن الحسن اللیثي ، حدثنا ابو الاحوص ، عن غیاث بن خالد ، عن حنظلة مرفوعا : " ما جاءني جبريل إلا أمرني بهاتين الدعوتين : اللهم ارزقني طيبا واستعملني صالحا " . اس کی سند میں یہ تینوں راوی :( ابو الاحوص ، غیاث ، اور حنظلہ) مجہول غیر معروف شخصیات ہیں ، اس لئے یہ روایت معتبر نہیں ہے ۔ اگر یہ واقعی حضرت

نیک لوگوں کی بستی کا نام

  مولوی ادریس صاحب نے " دلیل الفالحین   " کی اس عبارت کے بارے میں دریافت کیا : ثم إن العالم دلّ السائلَ على ما فيه نفعُه بقوله: (انطلق إلى أرض كذا وكذا) اسمها : بصرى ، واسم القرية التي كان بها : كفرة رواه الطبراني. ليفارق دارَ الفساد وأصحابَه الذين كانوا يُعينونه عليه ما داموا كذلك. کہ دونوں بستیوں کے ناموں کا صحیح تلفظ کیا ہے ؟ الجواب : یہ اس شخص کے واقعہ میں ہے جس نے سو آدمیوں کا قتل کیا تھا ، پھر توبہ کی غرض سے اپنی بستی چھوڑ کر ، دوسری نیک لوگوں کی بستی کی طرف ہجرت کی نیت سے روانہ ہوا تھا ، اور راستہ میں انتقال ہوگیا تھا ۔ طبرانی نے "المعجم الکبیر" ۱۳/ حدیث ۷۶ پر حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا قول ان دونوں بستیوں کے ناموں کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے : قال عبد الله : إن القرية الصالحة اسمها نصرة ، واسم الأخرى كفرة . نیک لوگوں کی بستی کا نام ( نَصَرَہ ) تھا ، اوپر "دلیل الفالحین" کی عبارت میں( بصری)  نام غلط ہے ، صحیح نون سے ہے ، جیساکہ مقدمہ "فتح الباری" ( ۱/۲۹۷ )اور "عمدۃ القاری"( ۱۶/۵۶ ) میں ہے ۔ امام صاغانی

نماز میں وسوسہ ڈالنے والے شیطان خنزب کا تلفظ

  مفتی عادل صاحب نے دریافت کیا کہ : حدیث میں ایک شیطان کا نام ( خنزب ) ہے جو نماز میں وسوسہ ڈالتا ہے ، تو اس نام کا صحیح تلفظ کیا ہے ؟ الجواب : قال الإمام النووي في "شرح صحیح مسلم"(14/190) :   ‏أما " خنزب " ‌‏ فبخاء معجمة مكسورة ثم نون ساكنة ثم زاي مكسورة ومفتوحة ، ويقال أيضا بفتح الخاء والزاي ، حكاه القاضي (إكمال المعلم 7/110) ، ويقال أيضا بضم الخاء وفتح الزاي ، حكاه ابن الأثير في " النهاية " (2/83) ، وهو غريب .   وقال القاري في "المرقاة" (1/146) : بخاء معجمة مكسورة ثم نون ساكنة ثم زاي مكسورة ومفتوحة ، كذا في النسخ المصححة، وهو من الأوزان الرباعية كزِبرِج ودِرهَم . ويقال أيضاً بفتح الخاء والزاي ، حكاه القاضي عياض، ونظيره جَعفَر. ويقال أيضاً : بضم الخاء وفتح الزاي ، حكاه ابن الأثير في "النهاية" وهو غريب، وهو في اللغة : الجريء على الفُجور ، على ما يفهم من "القاموس" . وضبط العَيني في " العَلَم الهيِّب شرح الكلم الطيب " (ص 361) الزاي بالفتح ، وقال : إن المشهور في الخاء هو الفتح أو الكسر . خلاصہ یہ ہے کہ : اس

تحقيق حديث : الصخرة من الجنة

  سأل الأخ محمد سهيل عن تحقيق حديث : (الصخرة من الجنة) . فالجواب : قال ابن القيم في "المنار المنيف" :(( و كلُّ حديث في الصخرة فهو كذب مفترى ... )). ولكن اعْتــُرِض على هذه الكُلِّية التي ذكرها ابن القيم بما أخرجه الإمام أحمد (1982)، وابن ماجه (3456) و الطبراني في "الكبير" (4456 و 4457) وابن حجر في "الإمتاع" ص : 166 من طريق المُشمَعِلّ بن إياس ، حدثني عمرو بن سُليم ، سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ عَمْرٍو الْمُزَنِيَّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ : ( الْعَجْوَةُ وَالصَّخْرَةُ مِنَ الْجَنَّةِ ) ، هذا لفظ ابن مهدي . واضطربت الرواية عن المُشمَعِل ، ففي بعضها : الشجرة بدلا من الصخرة . لكن قال ابن مهدي في رواية ابن ماجه :(حفظتُ الصخرة من فيه). قال ابن الأثير في "النهاية" ( 3/15 ): الصخرة من الجنة ، يريد : صخرةَ بيت المقدس . وقال ابن حجر : و المراد بالصخرة : صخرةُ بيت المقدس ، إسناده حسن ( الإمتاع ص :166 ) .وقال البوصيري في "الزوائد" : الحديثُ إسنادُهُ صحيحٌ . والله أعلم الجواب منقول باختصار من ملتقى أهل ا

المرأة إذا صبرت على الزوج الأول

  سأل المفتي عبد الباقي المكرم عن ترجمة هذا الحديث : قال ابن كثيرٍ في الجامع [369/8] : روى الواقدي، عن محمد بن عبد الرحمن، عن عبد العزيز بن عمر، عن المغيرة بن حكيم مرفوعا: "أيما امرأة صبرت على أبي عُذرتها كانت زوجته في الجنة" . فالجواب : ذكر السيوطي في "البدور السافرة" هذين الأثرين : 1- أخرج ابن وهب عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال : ( بلغني أن الرجل إذا ابتكر المرأة تزوجها في الآخرة ) . 2- وأخرج ابن سعد في "طبقاته" عن عكرمة : أن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنها كانت تحت الزبير بن العوام رضي الله عنه وكان شديدا عليها ، فأتت أباها فشكت ذلك إليه ، فقال : " يا بنية اصبري ، فإن المرأة إذا كان لها زوج صالح ، ثم مات عنها فلم تتزوج بعده ، جمع بينهما في الجنة " . وعقد القرطبي في " التذكرة" هذا الباب : باب إذا ابتكر الرجل امرأة في الدنيا كانت زوجته في الآخرة ، وساق فيه أثر أبي بكر المذكور ، ونقل عن ابن العربي في "أحكام القرآن" قوله : هذا حديث غريب .   وأضاف القرطبي : قال حذيفة رضي الله عنه لامرأته : إن سرك أن تكوني زوج

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

  سوال : حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ : یا اللہ جب تو   ناراض ہوتا ہے تو تیری کیا نشانی ہوتی ہے ؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ : دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں ، حکومت بے وقوفوں کےپاس ہو، اور پیسہ بخیلوں کے پاس ہو تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ : جب یا اللہ تو   راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : موسیٰ جب بارشیں وقت پر ہوں ، حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں۔ اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے ۔ از : مفتی شعیب صاحب الجواب : یہ روایت مختصرا تو حدیث کی کتابوں میں ہے ، اس میں رضا اور ناراضگی کی ایک ہی علامت مذکور ہے ، چنانچہ ابن ابی الدنیا کی کتاب العقوبات ص ۳۷، حلیۃ الاولیاء ۶/۲۹۰ وغیرہ میں ہے : وعن قتادة قال: قال موسى: يا رب! أنت في السماء ونحن في الأرض، فما علامة غضبك من رضاك؟ قال: إذا استعملت عليكم خياركم فهو علامة رضائي ، وإذا استعملت عليكم شراري فهو علامة سخطي عليكم. البتہ یہ پوری روایت کتب ادب

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قوت حافظہ

  مفتی ابو زاھر صاحب   سورتی المکرم نے یہ دریافت کیا کہ ڈاکٹر محمود غازی   رحمہ اللہ نے ( محاضرات حدیث ) ص 37 - 39   پر حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا ہے ، جس میں مروان بن الحکم نے ان کے قوت حافظہ کا امتحان لیا ہے ۔ تو کیا یہ واقعہ اسی طرح ہے ؟ میں نے کہا کہ : واقعہ ثابت ہے ، مگر ڈاکٹر صاحب نے اصل عبارت میں تصرف کیا ہے ، اور کچھ اضافہ بھی کیا ہے ، بلکہ دو الگ الگ واقعوں کو ملاکر مروان کی طرف   دونوں کو منسوب کر دیا ، جبکہ دوسرا واقعہ مروان کا نہیں ہے ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مروان کا واقعہ مختصر ہے کہ :  ایک مرتبہ مروان بن حکم نے آپ کے حفظ کے امتحان کی غرض سے آپ کو بلوایا۔ اور مروان نے اپنے کاتب ا بو الزعيزعہ کو اپنے تخت کے پیچھے بٹھا دیا۔ أبو الزُّعَيزِعة کہتے ہیں کہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر ایک سال بعد حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بٹھایا ، اور مروان نے آپ رضی اللہ عنہ سے انہیں حدیثوں کے دوبارہ سنانے کی فرمائش کی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں ، کمی کی نہ زیادتی، مقدم کو مو

وضو کے بعد سورہ انا انزلنا پڑھنا

  سوال : بہشتی زیور میں حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے وضوء کے بعد سورہ ( انا انزلنا ) پڑھنے کا لکھا ہے ، کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ الجواب : شاید اس کا استناد (كنز العمال ۲۶۰۹۰ )کی اس روایت پر ہے : من قرأ في أثر وضوئه : إنا أنزلناه في ليلة القدر واحد ۃً ، كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا يحشره الله محشر الأنبياء ( دیلمي عن انس ) ۔ دیلمی کی سند یہ ہے : الديلمي في ((الفردوس)) (5589) من طريق أحمد بن ماهان الخاقاني ، حدثنا علي بن مهران ، حدثنا عبدالله بن رشيد ، حدثنا أبو عبيدة ، عن الحسن ، عن أنس به. روایت کے بارے میں اقوال اہل علم : قال السخاوي في "المقاصد الحسنة" (ص 664) : " قراءة سورة ( إنا أنزلناه ) عقيب الوضوء : لا أصل له ، وهو مفوّتٌ سنته " انتهى . وقال العجلوني في "كشف الخفاء" رقم2566 :   لا أصل له . انتهى. وقال العامري الغزي في "الجد الحثيث في بيان ما ليس بحديث" (ص 234) : " قراءة سورة القدر عقب الوضوء ، لا أصل لها " . وقال الألباني في " السلسلة الضعيفة " 4 /35 : م

وضو کے بعد کی دعا : اسئلک تمام الوضوء کی تحقیق

  سوال : وضوء کے بعد کی دعا :     اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ الْوُضُوءِ ...إلخ کیا   یہ دعا مستند ہے ؟ الجواب : یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کی جاتی ہے ، مسند حارث بن ابی اسامہ میں اس کی سند مذکور ہے ۔ قال الحارث بن أبي أسامة في "مسنده" كما في "بغية الباحث عن زائد مسند الحارث" برقم ٤٦٩ : حَدَّثَنَا   عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ وَاقِدٍ   ، ثنا   حَمَّادُ بْنُ عَمرو   ، عَنِ   السَّرِيِّ بْنِ خَالِدِ بْنِ شَدَّادٍ   ، عَنْ   جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ   ، عَنْ   أَبِيهِ   ، عَنْ   جَدِّهِ   ، عَنْ   عَلِيٍّ   ، أَنَّهُ قَالَ : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا عَلِيُّ ،   إِذَا تَوَضَّأْتَ فَقُلْ : بِسْمِ اللَّهِ ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ الْوُضُوءِ ، وَتَمَامَ الصَّلاةِ ، وَتَمَامَ رِضْوَانِكَ ، وَتَمَامَ مَغْفِرَتِكَ ٬ فَهَذِهِ زَكَاةُ الْوُضُوءِ .... در حقیقت یہ ایک طویل روایت ہے جو (وصایا علی) سے مشہور ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مزید چند باتوں کی وصیت فر