حضور کے زمانہ میں دوپہر کے کھانے کا وقت
مولوی
زبیر صاحب گودھروی کا سوال ہے کہ : دوپہر کا کھانا ظہر کی نماز سے پہلے یا بعد میں
کھانا چاہئے ؟ اس کے بارے میں احادیث میں کچھ وارد ہے ؟
بعض
مبلغین حضرات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مسنون کیا ہے ۔
الجواب باسم ملہم الصواب :
اس
سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کوئی صریح روایت تو معلوم نہیں
ہے ، البتہ بعض روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو معمول منقول
ہے ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ حضرات دوپہر کا کھانا اور قیلولہ دونوں ظہر کی نماز سے پہلے کرتے
تھے ۔
مندرجہ
ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں :
1-
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :
قَالَ
: مَا كُنَّا نَقِيلُ ، وَلَا نَتَغَدَّى فِي عَهْدِ
رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ. [ صحیح
مسلم 859 جامع ترمذي525 ]
یہ
روایت بخاری شریف میں بھی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے
دن نماز کے بعد ہی کرتے تھے ۔
اس
کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات جمعہ کی نماز کے لئے اہتمام کے ساتھ سویرے مسجد چلے جاتے
تھے ، اور نماز سے فراغت کے بعد ہی لوٹتے تھے ۔
روایت
میں ( یوم الجمعہ ) کی قید سے واضح ہے کہ دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کو صرف جمعہ
کے دن مؤخر کرتے تھے ۔
حافظ
ابن حجر رحمہ اللہ( فتح الباری 1/495) میں فرماتے ہیں : قوله
: ( باب قول الله عز وجل: { فإذا قضيت الصلاة } الآية. أورد فيه حديثَ سهل بن سعد
في قصة المرأة التي كانت تُطعِمهم بعد الجمعة، فقيل : أراد بذلك بيان أن الأمر في
قوله : { فانتشروا } ، { وابتغوا } للإباحة لا للوجوب ، لأن انصرافهم إنما كان
للغداء ثم للقائلة عوضاً عما فاتهم من ذلك في وقته
المعتاد، لاشتغالهم بالتأهب للجمعة ثم بحضورها.
حضرت
مفتی سعید صاحب پالنپوری ( تحفۃ الالمعی 2/)400 میں تحریر فرماتے ہیں کہ : صبح کا کھانا
زوال سے پہلے گیارہ بجے کے قریب کھایا جاتا تھا پھر قیلولہ کیا جاتا تھا ... چونکہ
جمعہ کے دن مسجد جلدی جانا ہوتا ہے ، اس لئے صحابہ جمعہ کے دن یہ دونوں کام مؤخر
کرتے تھے ۔
2-
حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا ان کے چھوٹے بیٹے کے انتقال کے واقعہ میں حضرت ابو
طلحہ رضی اللہ عنہ کے روزانہ کے معمول کے متعلق فرماتی ہیں :
فَكَانَ
أَبُو طَلْحَةَ يَقُومُ صَلَاةَ الْغَدَاةِ يَتَوَضَّأُ، وَيَأْتِي النَّبِيَّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُصَلِّي مَعَهُ، وَيَكُونُ مَعَهُ إِلَى
قَرِيبٍ مِنْ نِصْفِ
النَّهَارِ، فَيَجِيءُ
فَيَقِيلُ وَيَأْكُلُ ، فَإِذَا صَلَّى الظُّهْرَ تَهَيَّأَ وَذَهَبَ فَلَمْ
يَجِئْ إِلَى صَلَاةِ الْعَتَمَةِ. [ مسند احمد 12401]
یعنی
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لئے اٹھتے تو
وضو کر کے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے اور نبی ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کرتے، نصف النہار
کے قریب تک وہیں رہتے، پھر گھر آکر قیلولہ کرتے، کھانا کھاتے . اور ظہر کی نماز کے
بعد تیار ہو کر چلے جاتے، پھر عشاء کے وقت ہی واپس آتے ۔
اس
روایت میں بھی ظہر سے پہلے کھانے اور قیلولہ کرنے کا تذکرہ ہے ۔
3-
حضرت تمیم الداری رضی اللہ عنہ کے مشہور واقعہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا ظہر سے پہلے قیلولہ کرنے کی طرف اشارہ ہے ، حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں :
ایک
مرتبہ نبی علیہ السلام باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی جب رسول اللہ ﷺ نے اپنی
نماز پوری کر لی تو فرمایا کہ : بیٹھے رہو! منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران
ہوئے تو فرمایا : لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی
ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے
کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے ، اور مجھے ایک
بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا ۔
الخلاصہ : مذکورہ بالا روایات کے پیش
نظر یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دوپہر کا
کھانا زوال سے پہلے کھایا جاتا تھا ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت "فی
وقتہ المعتاد"اس کی
مؤید ہے ۔ واللہ اعلم
جمعہ ورتبہ العاجزمحمد طلحہ بلال احمد
منیار
8/9/2018
پھر ناشتہ کب ہو تا تھا؟ یا پہر یہی ناشتہ بھی تھا اور دوپہر کا بھی؟
ReplyDeleteعرب میں ناشتہ کا رواج نہیں تھا عرب میں دوہی وقت کا کھانا پینا تھا۔ ناشتہ تو بعد میں اضافہ کیا گیا ہے
Deleteمتفق
Delete