Posts

Showing posts from September, 2020

حضور کے زمانہ میں دوپہر کے کھانے کا وقت

  مولوی زبیر صاحب گودھروی کا سوال ہے کہ : دوپہر کا کھانا ظہر کی نماز سے پہلے یا بعد میں کھانا چاہئے ؟ اس کے بارے میں احادیث میں کچھ وارد ہے ؟ بعض مبلغین حضرات معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مسنون کیا ہے ۔ الجواب باسم ملہم الصواب : اس سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کی کوئی صریح روایت تو معلوم نہیں ہے ، البتہ بعض روایات میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جو معمول منقول ہے ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ حضرات دوپہر کا کھانا اور قیلولہ دونوں ظہر کی نماز سے پہلے کرتے تھے ۔ مندرجہ ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں : 1- حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت ہے : قَالَ : مَا كُنَّا   نَقِيلُ   ، وَلَا نَتَغَدَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ. [ صحیح مسلم 859 جامع ترمذي525 ] یہ روایت بخاری شریف میں بھی ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کے دن نماز کے بعد ہی کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حضرات جمعہ کی نماز کے لئے اہتمام کے

من باع نخلا بعد التعبير کی تصحیح

  لغات الحديث ( 2 ) (افاضات امیری علی الترمذی) میں ایک جگہ یہ حدیث مذکور ہے : عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : " من باع نخلا بعد التعبیر ..." کذا فیہ ؟! اقول : اس میں دو غلطیاں ہیں ، ایک تو یہ لفظ علی الصواب ( التأبیر ) ہے ھمزہ سے ، تأبیر کے معنی ہیں :درختوں کو قلم لگانا ، گابھا دینا ، تلقیح کرنا ، یعنی نر کھجور کے درخت کی ٹہنی یا شگوفہ کو ، مادہ درخت میں ملانا ۔ اس کو "تعبیر" عین سے لکھنا غلط ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ صحیح وثابت روایات میں حدیث کے الفاظ : " من باع نخلا بعد أن تؤبَّـر " بعدیت کا صرف ذکر ہے ، تابیر سے قبل کے الفاظ ایک ضعیف وشاذ روایت میں وارد ہیں جو ثابت نہیں ہے ، اسی لئے حنفیہ اس سے استدلال نہیں کرتے ، اور ان کے نزدیک قبل و بعد دونوں کا حکم ایک ہے ، اور "تابیر" سے پھل کے ظہور کا معنی   مراد لیتے ہیں ۔ جبکہ شوافع وغیرہ ( بعد أن تؤبر ) کو قید احترازی قرار دیتے ہیں ، اور اس کے مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہوئے قبل وبعد کے حکم میں فرق کرتے ہیں ، لہذا اگر روایت ثابت ہوتی تو اختلاف کا مطلب ہی نہیں تھا ۔ واللہ اعلم   کتبہ

لا تنبر باسمي کا صحیح مطلب

  لغات الحديث   (1) جامع ترمذی شریف کی ایک (شرح) کے مقدمہ میں لفظ ( نبی ) کی اصل پر بحث کرتے ہوئے ، یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ : ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ( یا نبیء اللہ ) [ ھمزہ کے ساتھ ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لا تَنبِز باسمي  فإنما أنا نبي الله "   اور اس کی تشریح یہ کی کہ : مجھ پر عیب مت لگاؤ ، میں اللہ کا نبی ہوں ۔ اقول : یہ حدیث مستدرک حاکم(2906) میں ہے : جاء أعرابي إلى رسول الله ﷺ فقال : يا نبيء الله ، فقال : لست بنبيء الله ولكني نبيُّ الله . رواه الحاكم بسنده من طريق حُمران بن أعيَن عن أبي الأسود الدُّؤلي   عن أبي ذر . قال الذهبي في " تلخيص المستدرك " : حديثٌ منكر وحُمران رافضي ليس بثقة . انتهى. ایک اور روایت میں ہے : " إنا معشرَ قریشٍ لا نَنبِـر " ذکرہ فی "تاج العروس" ۔ یعنی قریش کی زبان میں ھمزہ صاف صاف نہیں بولا جاتا ہے ، بلکہ ھمزہ کو حروف مدہ سے بدل دیا جاتا ہے ، یا حذف کردیا جاتا ہے تسہیلا وتخفیفا ۔ یہ لفظ : " لا تَنبِر " بے نقطے والی راء سے ہے ، نبر ینبر [ باب