لا تنبر باسمي کا صحیح مطلب

 

لغات الحديث  (1)

جامع ترمذی شریف کی ایک (شرح) کے مقدمہ میں لفظ ( نبی ) کی اصل پر بحث کرتے ہوئے ، یہ حدیث پیش کی گئی ہے کہ : ایک اعرابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ( یا نبیء اللہ ) [ ھمزہ کے ساتھ ] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " لا تَنبِز باسمي فإنما أنا نبي الله"  اور اس کی تشریح یہ کی کہ : مجھ پر عیب مت لگاؤ ، میں اللہ کا نبی ہوں ۔

اقول : یہ حدیث مستدرک حاکم(2906) میں ہے :

جاء أعرابي إلى رسول الله ﷺ فقال : يا نبيء الله ، فقال : لست بنبيء الله ولكني نبيُّ الله . رواه الحاكم بسنده من طريق حُمران بن أعيَن عن أبي الأسود الدُّؤلي عن أبي ذر .

قال الذهبي في "تلخيص المستدرك" : حديثٌ منكر وحُمران رافضي ليس بثقة . انتهى.

ایک اور روایت میں ہے : " إنا معشرَ قریشٍ لا نَنبِـر " ذکرہ فی "تاج العروس" ۔ یعنی قریش کی زبان میں ھمزہ صاف صاف نہیں بولا جاتا ہے ، بلکہ ھمزہ کو حروف مدہ سے بدل دیا جاتا ہے ، یا حذف کردیا جاتا ہے تسہیلا وتخفیفا ۔

یہ لفظ : " لا تَنبِر " بے نقطے والی راء سے ہے ، نبر ینبر [ باب ضرب ] سے ہے ، اس کے کئی معانی ہیں ، ان میں ایک معنی ہے : لفظ پر ھمزہ لگانا ، تو حدیث کا مفہوم ہے کہ :( نبیء ) ھمزہ لگاکر مت کہو ، بلکہ بغیر ھمزہ کے ( نبی ) بولو ۔

اوپر شارح ترمذی سے سہو ہوا ، انہوں نے اس کو ( لا تنبز ) زا سے لکھا ہے ، از قبیل ( لا تنابزوا بالالقاب ) اور تشریح بھی اس کے مطابق کی ہے ۔

مگر یہ درست نہیں ہے ، اور شاید شارح کوسہو اس وجہ  ہوا کہ عربی شروحات میں " لا تنبر " کا معنی : ( لا تَـهمِز ) لکھا ہوگا، شارح اس کو (ھمز ) سے بمعنی الغمز واللمز سمجھے ، حالانکہ یہاں ( لا تہمز ) سے مراد ہے : لا تقل نبیء بالہمز ۔ واللہ اعلم

 

سطرہ محمد طلحہ بلال احمد منیار

4/9/2018


Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت