حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قوت حافظہ

 


مفتی ابو زاھر صاحب  سورتی المکرم نے یہ دریافت کیا کہ ڈاکٹر محمود غازی  رحمہ اللہ نے ( محاضرات حدیث ) ص 37 - 39  پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ذکر کیا ہے ، جس میں مروان بن الحکم نے ان کے قوت حافظہ کا امتحان لیا ہے ۔ تو کیا یہ واقعہ اسی طرح ہے ؟

میں نے کہا کہ : واقعہ ثابت ہے ، مگر ڈاکٹر صاحب نے اصل عبارت میں تصرف کیا ہے ، اور کچھ اضافہ بھی کیا ہے ، بلکہ دو الگ الگ واقعوں کو ملاکر مروان کی طرف  دونوں کومنسوب کر دیا ، جبکہ دوسرا واقعہ مروان کا نہیں ہے ۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ مروان کا واقعہ مختصر ہے کہ :  ایک مرتبہ مروان بن حکم نے آپ کے حفظ کے امتحان کی غرض سے آپ کو بلوایا۔ اور مروان نے اپنے کاتب ابو الزعيزعہ کو اپنے تخت کے پیچھے بٹھا دیا۔

أبو الزُّعَيزِعة کہتے ہیں کہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیثیں بیان کرتے رہے اور میں لکھتا رہا۔ مروان نے پھر ایک سال بعد حضرت ابو ہریرہ کو دوبارہ بلوایا اور مجھے پردہ کے پیچھے بٹھایا ، اور مروان نے آپ رضی اللہ عنہ سے انہیں حدیثوں کے دوبارہ سنانے کی فرمائش کی ۔آپ رضی اللہ عنہ نے اسی ترتیب سے سنائیں ، کمی کی نہ زیادتی، مقدم کو موخر کیا نہ موخر کو مقدم۔تو میں نے قوت حافظہ کی تصدیق کردی۔(سیر اعلام النبلاء ۳/۵۲۲) ۔

اس واقعہ میں یہ نہیں ہے کہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروان کو اپنے مکان لے گئے اور لکھی ہوئی احادیث کے رجسٹر دکھائے ۔۔۔ الخ

 بلکہ یہ دوسرا واقعہ ہے جو حسن بن عمرو ضمرى کے ساتھ پیش آیا تھا ، اس میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کو احادیث کے تحریر شدہ اوراق دکھائے تھے ۔ ( فتح الباری ۶/۲۵۰) مگر ذہبی وغیرہ نے اس واقعہ کو منکر بتایا ہے (تلخیص المستدرک۳/۵۸۴)۔

رہ گیا مسئلہ حضرت ابو ہریرہ کی کتابت حدیث کا ، اس لئے کہ مشہور تو یہی ہے کہ وہ احادیث نہیں لکھتے تھے ، جیساکہ خود انہی کا بیان ہے صحیحین میں  ۔

مگر بعض روایتوں میں لکھنے کا تذکرہ ہے جیساکہ حسن بن عمرو ضمری کے مذکورہ واقعہ  میں ہے ، علل احمد (۲/۵۹۱) میں ایک اور شاگرد سے اس طرح کا واقعہ منقول ہے ، نیزمستدرک حاکم کی ایک روایت میں احادیث کے مذاکرہ اور دہرانے کا تذکرہ بھی ہے ۔

 چنانچہ حافظ نے (فتح ۱/۲۰۷) میں تعارض دفع کرنے کے لئے تطبیق یہ پیش کی کہ : آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں لکھتے تھے ، بعد میں لکھا ہوگا ، اور یہ بھی ہو سکتاہے کہ کسی اور سے لکھوایا ہو ، خود نے نہیں لکھا ۔ اس طرح کی تطبیق ابن عبد البر اور ابن عساکر سے بھی منقول ہے ۔

تفصیل کے لئے دیکھیں کتاب ( ابو ہریرہ راویۃ الاسلام ، لعبد الستار الشیخ ص ۲۵۵۔۲۶۹) ۔

 

رقمه العاجز محمد طلحة بلال أحمد منيار

4/7/2018

 

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت