حب وطن کی ایک روایت کی تحقیق




حب وطن کی ایک روایت کی تحقیق

ایک ویڈیو کلپ دیکھی ، جس میں ایک مدرسہ کے ذمہ دار نے مسلمانوں کو اپنے وطن ہندوستان سے وفاداری کرنے اور اس سے محبت کرنے کی تاکیدکے سلسلہ میں ایک حدیث اس طرح بیان کی: (احفظوا أرضکم فإنها أمكم)اور ترجمہ یوں کیا کہ: اپنی زمین کی حفاظت کرو اس لئے کہ وہ تمہاری ماں ہے ۔
مگر ذمہ دار موصوف نے حدیث کے جو الفاظ بیان کئے وہ درست نہیں ہیں ،اور تشریح بھی صحیح نہیں کی ، در حقیقت  مذکورہ حدیث کا زمین ووطن کی حفاظت سے دور دور کوئی تعلق نہیں ہے ۔

صحیح الفاظ اور تشریح ملاحظہ فرمائیں :
أخرج الطبراني في (المعجم الكبير5/رقم 4596) ومن طريقه أبو نعيم في (معرفة الصحابة) برقم 2766 قال :
حدثنا يحيى بن أَيُّوبَ الْعَلَّافُ الْمِصْرِيُّ ، ثنا سَعِيدُ ابن أبي مَرْيَمَ ، ثنا ابن لَهِيعَةَ ، حدثني الْحَارِثُ بن يَزِيدَ ، أَنَّهُ سمع رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ يقول : إِنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قال :
 (اسْتَقِيمُوا وَنِعِمَّا إِنِ اسْتَقَمْتُمْ ، وحَافِظُوا على الْوُضُوءِ ، فإن خَيْرَ عَمَلِكُمُ الصَّلاةُ ، وتَحَفَّظوا مِنَ الأَرْضِ فَإِنَّهَا أُمُّكُمْ، وَإِنَّهُ ليس من أَحَدٍ عَامِلٍ عليها خَيْرًا أو شَرًّا إِلا وَهِي مُخْبِرَةٌ ) .

الشرح :
(تحفَّظوا من الأرض) بتشديد الفاء أي : احترزوا منها ، يقال : تحفَّظتُ منه أي احترزت ، والمراد احذروا من إتيان القبائح عليها كما تحترزون من المُطَّلِع عليكم. (فإنها أمُّكم) أي خُلقتم منها فاحترزوا منها احترازَكم من الأم في طيّ ما تكرهون فعله ؛ وهي أولى من الأم في ذلك ، لأنها مُخبِرة به. (وإنه ليس من أحد عاملٍ عليها خيراً أو شراً إلا وهي مُخبِرة به) . "التنوير شرح الجامع الصغير" .

ترجمہ : زمین پر گناہ کرنے سے احتراز کرو ، اس لئے کہ وہ تمہاری ماں ہے یعنی تمہارے اس سے پیدا ہونے کے لحاظ سے(منہا خلقناکم)لہذا جس طرح تم اپنی حقیقی ماں کی موجودگی میں گناہ کرنے سےشرم محسوس کرتے ہو،اسی طرح زمین کابھی پاس ولحاظ رکھو ، کیونکہ  زمین پر جو بھی عمل انجام دیا جائیگاخواہ نیکی کا ہو یا برائی کا ، تو زمین قیامت کے دن اس کی اطلاع دے گی ۔
معلوم ہوا کہ حدیث کا تعلق اعمال سے ہے ، اور زمین مطلقا مذکور ہے(من الارض)نہ کے ( ارضکم ) اورانسان کے  زمین سے پیدا ہونے کے اعتبار سے وہ اس کی  ماں ہے ۔
حدیث میں حب الوطن ، حفاظت وطن ، وفاداری ... وغیرہ ، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، لہذا احادیث کے باب میں احتیاط ضروری ہے۔

دوسری بات : مذکورہ بالا روایت بھی ضعیف ہے ، اس میں تین علتیں ہیں جو سبب ضعف ہیں :
۱۔ سند میں  ابن لہیعہ مضطرب الروایہ ہے،اور اس روایت میں ابن لہیعہ سے اضطراب ہوا ہے ، چونکہ بغوی کے ( معجم الصحابۃ ۲/۴۰۰) میں اس حدیث کی اسناداس طرح ہے : ... عن أبي الأسود النضر بن عبد الجبار ، عن ابن لهيعة ، (عن الحارث بن سعيد ، عن عطاء بن أبي رباح) ، عن ربيعة الجرشي .یعنی حارث بن یزید کے بدلے حارث بن سعید ہے، اور عطاء بھی سند میں زائد ہیں ۔
۲۔ مذکورہ بالا حدیث کے جملوں میں تیسرے نمبر کے جملے کے علاوہ ، دیگر جملوں کے احادیث میں شواھد ہیں جن سے ان کی تقویت ہوسکتی ہے ۔ رہا تیسرا جملہ تو وہ صرف اسی روایت وارد ہے ، مگر مفہوم تو صحیح ہے اس لئے کہ تحفظ واحتراز کی علت : زمین کی قیامت کے دن گواہی دینا ہے جو ثابت ہے ۔ فیجوز بیانه لصحة معناه وإن كان في ثبوته عن النبي صلى الله عليه وسلم ضعف .
نیز یہی حدیث ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت ابو امامہ سے مروی ہے ،لیکن  اس میں(وتحفظوا من الارض ...) کے الفاظ نہیں ہیں ۔
۳۔  ربیعہ جرشی کا صحابی ہونا مختلف فیہ ہے ،راجح یہ ہے کہ وہ تابعی ہیں ۔

تنبیہ : البتہ جو روایت( لسان المیزان ۹/۴۴) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب ہے ، اس کی سند باطل ہے،جیساکہ امام دارقطنی نے غرائب مالک میں لکھا ہے،کیونکہ اس کی سند میں ابو حبیب قراطیسی ہیں جو منکرات کی روایت کرتے ہیں ۔

 خلاصہ یہ ہے کہ :
۱۔ حدیث کا تعلق زمین پر گناہوں سے احتیاط کرنے کے بارے میں ہے،حب وطن سے متعلق نہیں ہے۔
۲۔ حدیث میں (تحفظوا) کا لفظ ہے جو احتیاط اور اجتناب کے لئے بولا جاتا ہے ، (احفظوا) حفاظت کرنے کا لفظ نہیں ہے۔
۳۔ حدیث حضرت ابو امامہ حضرت عائشہ اور ربیعہ جرشی کی روایت سے منقول ہے ، اور اس کی اسانید ضعیف ہیں ۔

رقمہ ولخصہ : محمد طلحہ بلال احمد منیار
17/8/2017

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت