ابو بکر صدیق کا جگر کباب ہونا



بسم اللہ الرحمن الرحیم
دین کی فکر میں  ابوبکر صدیق کا جگر کباب ہونا

سوال :السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ...کیا یہ بات صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ :مجھے کچے گوشت جلنے کی بو آتی ہے، تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ :حضور !  دین کی فکر میں میرا دل جلتا ہے ...از :سلیمان مظاہری

الجواب :
مذکورہ واقعہ بیان کرنے میں  چندغلطیاں ہیں :
پہلی غلطی :  کتابوں میں جہاں یہ واقعہ ذکر کیا جاتے ہے وہاں کچے گوشت کے جلنے کی بات نہیں ہے ، بلکہ جگر کے بھننے کی بو آنے کا ذکر ہے (رائحة كبد مشوي) .
دوسری غلطی : واقعہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں ہے ، بلکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے ۔
تیسری غلطی : دین کی فکر کی بات ہماری تبلیغی احباب نے چلائی ہے ، اصل واقعہ میں سبب وارد نہیں ہے۔

واقعہ کا مصدر:
یہ واقعہ بہت تلاش کیا ، مگر صرف  ایک کتاب میں اس کی تفصیل اور حوالہ ملا،جس کوعلامہ محب الدین طبری نے اپنی کتاب [الرياض النضرة في مناقب العشرة 1/195]میں نقل کیا ہے:
ورُوي أن عمر بن الخطاب أتَى إلى زوجة أبي بكر بعد موته ، فسألها عن أعمال أبي بكر في بيته ما كانت؟ فأخبَرتْه بقيامه في الليل وأعمالٍ كان يعمَلُها ، ثم قالت: إلا أنه كان في كلِّ ليلة جمعة يتوضَّأ ويصلي العشاءَ ، ثم يجلس مستقبلا القبلةَ رأسُه بين يديه على ركبتيه ، فإذا كان وقتَ السَّحَر رَفَع رأسَه وتنفَّسَ الصُّعَداء ، فيُشَمُّ في البيت رائحةُ كبدٍ مَشْوِيّ . فبكى عمرُ وقال: أنَّى لابنِ الخطَّابِ بكبدٍ مَشوِيّ . خَرَّجه المَلَّاءُ في "سيرته".
ترجمہ : لیکن شب جمعہ میں وضو کرتے تھے ، نماز پڑھتے تھے ، پھر روبہ قبلہ دونوں زانوں میں سر چھپاکر بیٹھ جاتےتھے،جب سحر نمودار ہوتی تو اپنا سر اٹھاتےاور ایک لمبی سانس لیتے جس سے کباب شدہ جگر کی بو محسوس ہوتی تھی۔یہ سن کر عمر رونےلگے اور بولے:پسر خطاب کو کہاں یہ کباب شدہ جگر کی کیفیت نصیب ہو۔

وسیلۃ المتعبدین :
محب الدین طبری متوفی (۶۹۴ھ) نے واقعہ کا جوحوالہ دیا ہے یعنی(المَلاء في "سيرته") اس سے مراد :عمر بن محمدالملاء کی کتاب (وَسِيلة المُتَعَبِّدين إلى مُتَابعة سيِّد المرسلين)ہے، جس پر تفصیلی بحث آرہی ہے۔

عمر الملاء کا ترجمہ :
علامہ زرکلی (الاعلام) میں رقمطراز ہیں :
(000 - 570 هـ = 000 - 1174 م) : عمر بن محمد بن خضر الإربلي الموصلي، أبو حفص، مُعين الدين ، المعروف بالمَـلَّاء : شيخُ المَـوصِل.
كان صالحا زاهدا عالما. له أخبارٌ مع الملك العادل نور الدين محمود بن زنكي. أمر الملك العادل نُوَّابه في الموصل أن لا يُبرِمُوا فيها أمرا حتى يُعلِموا به الملّاء.
وهو الّذي أشار على الملك العادل بعمارة الجامع الكبير في الموصل. وتولَّى الإنفاق عليه، فتم في ثلاث سنوات (سنة 568) وبلغت نفقاته 60 ألف دينار، وقيل أكثر. وهو المعروف اليوم بالجامع النُّوري. وحمل المَلَّاءُ دفاتر حسابه إلى العادل، وهو جالسٌ على دِجلة، فلم ينظر فيها، وقال له: نحن عَمِلنا هذا للَّه ، دع الحسابَ إلى يوم الحساب! وألقى الدفاتر في دجلة.
قال سبط ابن الجوزي: وإنما سمي " المَلَّاء " لأنه كان يَملأ تَنَانِير الآجُرِّ ويأخذ الأجرةَ فيتقوَّت بها، ولا يملك من الدنيا شيئا. وصنف كتاب " وسيلة المُتَعَبِّدين في سيرة سيد المرسلين - خ " بضعة أجزاء منه، في معهد المخطوطات .انتهى
وفي "معجم تاريخ التراث الإسلامي في مكتبات العالم" (3/2291) :
6156 - عمر بن محمد بن خضر ، أبو حفص الأردبيلي ثم الموصلي الصوفي ، المتوفى بدمشق سنة 570هـ/1174م
(انظر: كشف الظنون 2010؛ ذيل كشف الظنون 2/708؛ معجم المؤلفين 7/309)
من تصانيفه:
1 - رموز العارفين وكنوز العاشقين = شرح مشكلات التعرُّف لمذهب أهل التّصوّف للكلاباذي .شهيد علي 2708 ورقة 153 - 247، 855 هـ .
2 - سيرة أمير المؤمنين عمر بن عبد العزيز ، تاريخ التأليف 568 هـ؛ رئيس الكتَّاب 714/2 ورقة 162 - 312، 724 هـ .انتهى
وفي "مرآة الزمان في تواريخ الأعيان" لسبط ابن الجوزي (21/208) :
وكان عمر المَلَّاء من الصَّالحين، وإنما سُمِّي المَلَّاء لأنَّه كان يملأ تَنَانير الآجُرّ، ويأخذ الأُجرة، فيتقوَّت بها، وكان ما عليه من الثِّياب مثل القميص والعِمامة ما يملك غيره، وكان لا يملك من الدُّنيا شيئًا.
وكان عالمًا بفنون العلوم، وجميعُ الملوك والعلماء والأعيان يزورونه لأجل صَلاحه ويتبرَّكون به ، وصنَّف كتاب سيرة النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم ، وكان يعمل مولدَ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم في كلِّ سنة، ويحضُر دعوتَه صاحبُ المَوْصل والأكابر، وكان نور الدين يحبُّه ويكاتبه .انتهى
معلوم ہوا کہ ان کا لقب (ملاء) بفتح المیم وتشدید اللام ملأ یملؤ  سے صیغہ مبالغہ کے وزن پر ہے ، کتابوں میں مختصرا (عمر الملا) بدون ہمزہ کے آتا ہے ، جس کی وجہ سے اس کو (ملا) بضم المیم سمجھنے اور پڑھنے کی غلطی میں پڑنے کا امکان ہے ۔
وجہ تلقیب یہ ہے کہ وہ اینٹ بنانے کی بھٹی کے مالک تھے ، اور وہاں پر اپنے ماتحت چند مزدوروں کی مدد سے(بھٹی)کوپتھروں سے تلاوت کرتے ہوئےبھرتےتھے ، اس وجہ سے اس  لقب سے موسوم ہوئے،تاج الدین تکریتی کی تاریخ میں ان کے کام کی وضاحت اس طرح بیان کی ہے:(كنا نتردَّد إليه ونَمضي معه إلى تنُّوره الذي كان يملؤه بالحجارة لحَرق الجَصّ ومعه مماليك يقدِّمون له الحجارة ، وكلٌّ يعمل شُغلَه وهو يتلو القرآن).[وسیلہ جزء رابع]۔اس میں ان کا بھٹی کے دہانے پر کھڑے ہوکر اس کو بھرنےکے دوران دوسروں کے بجائے خود حرارت وتپش برداشت کرنا حسن تعامل اور اخلاق کے کمال کی بات ہے۔

وسیلۃ  المتعبدین  الى متابعۃ سید المرسلین:
یا (وسیلۃ  المتعبدین  فی سیرۃ سید المرسلین) اور مختصرا (سیرۃ الملا) کےنام کے ساتھ اس کتاب کویاد کیا جاتا ہے ۔
اس کتاب کے بعض اجزاء مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد سے سن ۱۹۷۲میں چھپے تھے ،مکتبۃ الاسکندریہ کی سائٹ پر تین اجزاء دیکھنے کا موقع ملا :[القسم الثاني من الجزء الثاني،القسم الثاني من الجزء الثالث،القسم الاول من الجزء الرابع
جزء رابع کے شروع میں کتاب کے ناشر نے ایک نوٹ لکھا ہے :(لما بدأنا تصحيح هذا الكتاب لم نجد لمعارضته ومقابلته إلا نسخة وحيدة من مخطوطات خزانة بانكي بور(بتنة)وهي أيضا ناقصة الأجزاء، تبتدئ من الجزء الرابع وتنتهي إلى الجزء العاشر ، وقد سقط من بينها الجزء الخامس والسابع كلاهما،ولكننا ظفرنا بجزءيه الأخيرين الحادي عشر والثاني عشر في مخطوطات دار الكتب المصرية، ولما لم يتيسر لنا الأجزاء الثلاثة الأول فلا بد لنا من الابتداء بالجزء الرابع وسميناه القسم الأول ...) .
یعنی دائرۃ المعارف والوں نے بانکی پور پٹنہ (خدا بخش لائبریری)کےناقص الاجزاء نسخہ پر اعتماد کرتے ہوئے کتاب کی طباعت کی ہے ، معہد المخطوطات میں کتاب کے جو اجزاء ہیں اورجس کا حوالہ زرکلی نے (الاعلام) میں دیا ہے وہ مصنف کے خود نوشتہ ہیں ، اور بعض اجزاء میں یہ وضاحت  بھی ہے کہ یہ کتاب مصنف کے سامنےکئی مجالس میں  پڑھی گئی،آخری مجلس ربیع الاول سن ۵۶۹ ھ میں تھی ۔
نیزترکی میں مکتبہ (ولی الدین برقم ۷۹۷) میں ایک نسخہ ہے ، جس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کامل ہے۔
مجھے موقع (الالوکہ)پر سے ایک نسخہ میسر ہوا جو سیرت نبوی کے آخری حصے اور خلفائے راشدین کی سیرت کے ابتدائی حصے پر مشتمل ہے، اس میں حضرت ابوبکر کے مناقب میں زیر بحث واقعہ تقریبا اسی طرح مذکور ہے جس طرح طبری نے (الریاض النضرہ)میں بلا سندنقل کیا ہے۔

منہج المصنف :
وسیلۃ المتعبدین  کےمصنف کے مقدمہ پر مطلع ہوئے بغیر ان کے منہج کی وضاحت صحیح طور پر کرنا مشکل ہے،البتہ مطبوعہ اجزاء کا مطالعہ کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ یہ سیرت نبویہ اور سیرت خلفاء راشدین پر مشتمل ہے ،اور ابواب پر مرتب ہے ، یعنی تقریبا جس طرح(سبل الہدی والرشاد) ابواب پر مرتب ہے۔
کتاب کے مشمولات تو عموما روایات حدیث  ہی ہیں ، لیکن اکثر روایات میں سند محذوف ہے ، پھر بعض میں راوی اعلی (یعنی صحابی)کا صرف نام مذکور ہے ، اور بعض روایات(وروی انہ کذا)کہہ کر نقل کی ہیں ، مگر دونوں طرح کی روایات میں مصدر منقول عنہ کی تصریح نہیں ہے۔

کتاب کی روایات پر نقد:
کتاب کے مشمولات پر متقدمین میں سے حافظ ابن تیمیہ نے اور معاصرین میں سے شیخ جمال الدین قاسمی نےتنقید کی ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
قال الشيخ ابن تيمية في "قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة" (1/195) تعليقا على حديث : "من سره أن يَحفظ فليصم سبعة أيام، وليكن إفطاره في آخر هذه الأيام السبعة ..." :
ولم يذكره من لا يَروي بإسنادٍ مثل كتاب "وسيلة المتعبدين" لعمر الملا الموصلي، وكتاب "الفردوس" لشهريار الديلمي، وأمثال ذلك ، فإن هؤلاء دون هؤلاء الطبقات، وفيما يذكرونه من الأكاذيب أمر كبير.
وقال في "مجموع الفتاوى" (2/ 239) : وَذَكَرَ بَعْضَهُ عُمَرُ الملا فِي "وَسِيلَةِ الْمُتَعَبِّدِينَ" وَابْنُ سَبْعِينَ وَأَمْثَالُهُمْ مِمَّنْ يَرْوِي الْمَوْضُوعَاتِ الْمَكْذُوبَاتِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيثِ .

 وقال القاسمي في "قواعد التحديث" (ص 167) :
ولكن أقام الله للدين مَن يَنفي عنه تحريفَ الغالين وانتحالَ المبطلين وتأويلَ الجاهلين ويحميه من وضع الوضاعين... كمن صنف في الصحيح ... وكذلك الذين تكلموا على الرجال وأسانيدها ... فهؤلاء وأمثالهم أهلُ الذب عن أحاديث رسول الله صلى الله عليه وسلم ، عكسَ حالِ مَن صنف كتبًا فيها من الموضوعات شيءٌ كثيرٌ، وهو لا يميِّز ولا يعرف الموضوع والمكذوب من غيره ، فيجيء الغِرُّ الجاهلُ فيَرَى حديثًا في كتابٍ مُصَنَّفٍ فيغترُّ به وينقله ، وهؤلاء كثير أيضًا مثل مصنف كتاب: "وسيلة المتعبدين" الذي صنفه الشيخ عمر الموصلي ، ومثل: "تنقلات الأنوار" للبكري الذي وضع فيه من الكذب ما لا يخفى على من له أدنى مُسكة عقل.
معلوم ہواکہ کتاب میں صحیح روایات کے ساتھ ساتھ بہت ساری موضوع احادیث اور من گھڑت قصے کہانیاں بھی ذکر کی ہیں ، مگر اس میں مصنف کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے صحیح غلط میں تمیز کئے بغیر ان کو کتاب میں جگہ دی ۔
زیر بحث روایت کے بارے میں ابن تیمیہ فرماتے ہیں : وينقلون عَن عمر أَنه تزوج بِامْرَأَة أبي بكر ليسألها عَن عمله فِي السِّرّ فَقَالَت : كنت أَشمّ مِنْهُ رَائِحَة الكبد المشوية  .
وَهَذَا من أبين الْكَذِب ، وَإِنَّمَا تزوج بِامْرَأَة أبي بكر أَسمَاء بنت عُمَيْسٍ بعده عَليٌّ .[ المنتقى من منهاج الاعتدال ص: 505]
شاید ابن تیمیہ سے واقعہ نقل کرنے میں غلطی ہوئی ، کیونکہ واقعہ میں حضرت عمر کے شادی کرنے کا تذکرہ نہیں ہے ، بلکہ صرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سے ان کے حالات دریافت کرنے کا ذکر ہے ، جیساکہ محب الدین طبری کے حوالہ سے اوپر گذرچکا۔

مگر تعجب کی بات تو یہ ہے کہ نقشبندیہ سلسلہ کی کتابوں میں اس واقعہ کو بلا سند ذکر کیا جاتا ہے ، پھرواقعہ میں مذکورجگرکے بھننے کی بوآنے کی تاویل دو طرح سے بیان کی جاتی ہے :
۱۔ اس کی وجہ حبس نفَس (سانس روکنا)ہے ، یعنی ذکر خفی کرنے کا ایک طریقہ ہے جس کو (پاس انفاس)بھی کہتے ہیں ، اس میں سانس کو روک کر کئی سو مرتبہ ذکر قلبی کیا جاتا ہے ، تو سانس روکنے کی وجہ سے بدن کے اندرونی بعض اعضاء میں حرارت پیدا ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے احتراق  کی سی یہ بوآتی ہے،بعض کتابوں میں یہاں تک لکھا ہے کہ تہجد سے جو سانس روکتے تھے تو صرف ایک مرتبہ سحری کے وقت  ایک لمبی سانس لیتے تھے،اوپر واقعہ میں سانس لینے کے تذکرہ سے شاید یہی مراد ہو۔
۲۔ بعض تصوف کی کتابوں میں اس کی وجہ : مراقبہ معیت لکھا ہے ، اور یہ کہ اس مراقبہ کی تلقین خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق غار کو غار ثور میں تلقین فرمائی تھی ۔ چنانچہ طول مراقبہ کی وجہ سے یہ کیفیت پیدا ہوتی تھی ۔[ارغام المرید للکوثری]۔
صاحب تفسیر روح البیان (۱۰/۸۵)نے ایک دوسری وجہ بیان کی ہے :  وكانوا يشمون من كبد أبي بكر الصديق رضي الله عنه رائحة الكبد المشوي من شد الخوف من الله تعالى .
اور بعض واعظین کے نزدیک اس کی وجہ تلاوت قرآن مجید کے وقت کثرت سے رونا ہے ،اور مبلغین کے یہاں دین کی فکر اوراس کے لئے مہموم ومغموم رہنا۔

الحاصل : فن حدیث کی رو سے یہ واقعہ ثابت نہیں ہے ، کیونکہ اس کی کوئی معتبر سند بھی نہیں ہے ، اور نہ متقدمین کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے ، سب سے پہلے اس کا تذکرہ عمر الملاء کی سیرت کی کتاب میں ملتا ہے ،جو غث وسمین کا مجموعہ ہے۔
لہذابلا سند اس واقعہ کو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں ہے ،رہ گئی  اہل تصوف کی ان کے وظائف ومعمولات کی مستندات، تو وہ میری سمجھ سے بالاتر ہیں،خصوصا کوثری جیسے محدث وناقد کا ان کو بلا نکیر نقل کرنا۔

ہاں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رقتِ قلب مشہور ومعروف ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفاۃمیں جب ارشاد فرمایا تھا کہ : ابو بکر کو حکم پہنچاؤ کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ،تو حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ: میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! ابو بکر رضی اللہ عنہ نرم دل انسان ہیں ،  جب وہ قرآن  پڑھیں گے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں رکھ سکیں گے ،  لہٰذا اگر آپ ابو بکر  ‌‌ ‌  کے بجائے کسی اور کو حکم  دیں تو بہتر ہے ۔
ہجرت سے پہلے کا بھی مشہور واقعہ ہے کہ آپ ایک مرتبہ مشرکین مکہ کی ایذاء رسانیوں سے تنگ آکر جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے کے عزم سے نکلے ، تو آپ ابھی برک  الغماد تک ہی پہنچے تھے کہ ابن الدغنہ(جوکہ مکہ کا کافر اور بااثر ورسوخ باشندہ تھا) سے ملاقات ہوگئی، ابن الدغنہ نے آپ کو سمجھا بجھا کر اور اپنی امان میں  لینے کا اعلان کرکے واپس کیا ، مگرمشرکین مکہ اس شرط  پر راضی ہوئی کہ حضرت ابوبکر اپنے گھر میں ہی قرآن کی تلاوت کیا کریں گے، تاکہ قوم کے بچے اور عورتوں کو فتنہ میں مبتلا نہ کرسکیں۔
چنانچہ حضرت ابوبکر نے اپنے صحن ہی میں ایک جگہ تلاوت کے لیے مختص کرلی، لیکن آپ اس قدر رقیق القلب تھے کہ جب تلاوت فرماتے تو مشرکین کی عورتیں اور بچے اپنی چھتوں پرچڑھ کر آپ کی تلاوت سنتے، جس سے وہ متأثر ہوتے جاتے تھے، قوم کویہ گوارا نہیں ہوا ، فوراً ابن الدغنہ سے اس کی شکایت کی، ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکر سے کہا کہ: یاتو آپ میری امان میں رہیں یا تلاوت اس طرح نہ کریں، جس پر حضرت ابوبکر نے کہاکہ مجھے تمہاری امان کی ضرورت نہیں ہے، مجھے میرے اللہ کی امان کافی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ ان کی رقت قلب مشہور ہے ، مگر جگر کباب ہونے کی بات مستند نہیں ہے ۔

رقمہ العاجز: محمد طلحہ بلال احمد منیار
 8/7/2020

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت