حجر اسود کی دو نشانیاں



بسم اللہ الرحمن الرحیم
حجر اسود کی دو نشانیاں
سوال :حجر اسود کے بارے میں ایک روایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ : حجر اسود پانی میں ڈوبتا نہیں ، اور آگ اس کو گرم نہیں کرسکتی ہے ۔ کیا یہ روایت معتبر ہے ؟
جواب :
یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں عبد اللہ بن علیم (یا عکیم) محدث کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے اپنی سند سے مرفوعا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ :(حجر اسود اللہ تعالی کا دایاں ہاتھ ہے ، جس کے ذریعہ اللہ تعالی زمین پر اپنے بندوں سے مصافحہ فرماتے ہیں،اللہ تعالی نے جنت کے ایک سفید موتی سے  اس کوپیدا کیا،مگر لوگوں کے گناہوں نے اس کو سیاہ کردیا، روز قیامت وہ اس حال میں محشر میں لایاجائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، اور زبان ہوگی جس سے وہ اس کو بوسہ دینے والے کے حق میں ایمان یا نفاق کی گواہی دے گا،اور یہ کہ وہ ایسا پتھر ہے کہ پانی کے اوپری سطح پرہی رہتاہے ، اور آگ اس کو گرماتی نہیں ہے)۔
واقعہ کی تفصیل :
مذکورہ واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ : ابو طاہرسلیمان بن حسن  قرمطی جب خلیفہ مقتدر باللہ عباسی کے زمانہ خلافت میں سن ۳۱۷ ھ میں حجر اسود کو خانہ کعبہ سے نکال کر احساء لے گیا تھا ، تو اس کے واپس لوٹانے کے سلسلہ میں اس وقت کے مسلم حکمران کوششیں کر رہے تھے ، منجملہ ان مساعی کے ایک  کوشش کاواقعہ خلیفہ مقتدر باللہ عباسی کی طرف نسبت کرکے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ:
خلیفہ مقتدر باللہ نے بغداد سے ایک وفد اس سلسلہ میں ابو طاہرجنابی قرمطی کی طرف بھیجا اور حجر اسود کے لوٹانے کے معاوضہ میں تیس ہزار (۰۰۰؍۳۰)  دینار دینے کی پیش کش کی ۔
جب ابو طاہر نے یہ سودہ قبول کیا ، تو اس نے حجر اسود کو منگوایا ، لیکن اس نے موجودہ سفراء سے کہا کہ : تم کو کیسے معلوم ہوگا کہ یہی ہے وہ اصلی (حجر اسود)ہے؟ مان لو اگر میں ریگستان  سےکوئی اور پتھر منگواکر تمہارے حوالے کردوں تو تم کیسے فرق کر پاؤ گے؟
تو اس وقت وہاں پر عبد اللہ بن علیم محدث موجود تھے ، جو غالبا بغداد سے آئے ہوئےسفراء کے وفد میں تھے،انہوں نے کہاکہ : حجر اسود کی اصلیت جاننے کی دو نشانیاں ہیں :ایک یہ کہ وہ پانی میں ڈوبتا نہیں ، اوردوسری یہ کہ آگ اس پر اثر نہیں کرتی ۔
چنانچہ ابو طاہر قرمطی نے پانی کے ایک برتن میں حجر اسود کو ڈالنے کا حکم دیا تو وہ پانی کی سطح پر تیرتا رہا ، پھر آگ میں ڈالا گیا تو اس میں بھی وہ گرم نہیں ہوا ۔ یہ دیکھ کر ابو طاہر متاثر ہوا ، اور ابن علیم سے ان دو نشانیوں کا استناد طلب کیا ، تو عبد اللہ بن علیم نےبسند متصل مذکورہ بالا روایت پیش کی ، اس پر وہ متعجب ہوا ، پھرحجر اسود کو بوسہ دیا ، اور اس کو واپس کرنے پر آمادہ ہوگیا۔
ملخص من : مرآة الزمان في تواريخ الأعيان (16/554) ، تاريخ الإسلام تحقيق بشار (7/221) ، حاشية الجمل على شرح منهج الطلاب (2/451) ، تحفة الراكع والساجد بأحكام المساجد (ص88) .
روایت کا حکم :
قال سبط ابن الجوزي في "مرآة الزمان" : والحديث الذي رواه ابن عُليم لا يصح. ابن علیم نے جو روایت بیان کی وہ صحیح نہیں ہے ۔
وقال الجَرَّاعي في "تحفة الراكع والساجد" : إنه حديث غريب . ونقل عن ابن دحية قوله : عبد الله بن عكيم هذا لا يعرف، والحجر الأسود جَلْمَدٌ لا تَخُلَّل فيه. والذي يطفو على الماء يكون فيه بعض التخلُّل كالخفاف وشبهه. قال وللحجر الأسود علامات غير ذلك.عبد اللہ بن عکیم (یا علیم)کی ذکر کردہ روایت غریب ہے ، اور ابن دحیہ سے نقل کیا کہ : ابن عکیم غیر معروف شخصیت ہے ، اور حجر اسود نہایت سخت اور متماسک الاجزا پتھر ہے جس میں مسامات نہیں ، جبکہ جو پتھر پانی کی سطح پر تیرتا ہے اس میں مسامات ہوتے ہیں جن میں پانی سرایت کرتا ہے ، نیز حجر اسود کی دیگرعلامات بھی ہیں ۔
در اصل اس روایت کے بعض حصے احادیث کی کتابوں میں منقول ہیں ، مثلا :
- الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ يَمِينُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ .صحيح ابن خزيمة  2737، المستدرك للحاكم (1/ 457).
- خَلَقَهُ اللَّهُ مِنْ دُرَّةٍ بَيْضَاءَ مِنْ الْجَنَّةِ . صحيح ابن خزيمة 2734.
- وَإِنَّمَا اسْوَدَّ مِنْ ذُنُوبِ النَّاسِ . سنن النسائي (5/ 226) ، والترمذي (877) ، صحيح ابن خزيمة 2733، 2734، المعجم الكبير 12285.   
- يُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا وَلِسَانٌ يَتَكَلَّمُ بِهِ . سنن الترمذي 961، سنن ابن ماجه 2944، مسند أحمد 2215، صحيح ابن خزيمة 2735، صحيح ابن حبان  3711 .
- يَشْهَدُ لِكُلِّ مَنْ اسْتَلَمَهُ وَقَبَّلَهُ بِالْإِيمَانِ أو النفاق . سنن الترمذي 961، سنن ابن ماجه 2944، مسند أحمد 2215، صحيح ابن خزيمة 2735، صحيح ابن حبان  3711 .
- وَأَنَّهُ حَجَرٌ يَطْفُو عَلَى الْمَاءِ ، وَلَا يَسْخُنُ بِالنَّارِ إذَا أُوقِدَتْ عَلَيْهِ .لم يرد في شيء من كتب الحديث .
معلوم ہواکہ یہ آخری جملہ جو حجر اسود کی دو نشانیوں  پر مشتمل ہے وہ ثابت نہیں ہے ، کسی بھی کتاب میں یا روایت میں وارد نہیں ہے ، تو احتمال ہےکہ عبد اللہ بن عکیم نے اس کو از قبیل تجربہ ذکر کیا ہو ،اگر ایساہے تو اس کا تجربہ کی رو سے ثابت ہونا ممکن ہے ، لیکن اس کو اگرحدیث مذکور کا جزو قرار دیا ہو تو وہ من گھڑت ہے ،معتبر نہیں ہے۔
دوسری بات کہ خود عبداللہ بن علیم یا عکیم مجہول شخص ہے ، غیر معروف ہے ، اور کتابوں میں صرف اسی واقعہ میں ان کا تذکرہ ہے ، اگر حدیث میں ان کا کوئی مقام ہوتا تو ان کے حالات کتابوں میں دستیاب ہوتے۔
تیسری بات کہ تاریخی کتابوں جہاں یہ روایت عبد اللہ بن عکیم کے حوالے سے مذکور ہے وہاں کوئی سند مذکور نہیں ہے ، تاکہ اس کی تحقیق کی جائے ۔جب سند نہیں تو اس کی نسبت حدیث کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔

تنبیہ :
حجر اسود کے مذکورہ بالا واقعہ میں چند اور تاریخی باتیں غلط ہیں ، جن پر محدثین ومؤرخین نے تنبیہ فرمائی ہے ، وہ باتیں یہ ہیں :
۱۔ حجر اسود کےخانہ کعبہ سے نکالنے کا واقعہ ابو سعید قرمطی کے دور میں واقع ہوا ۔ (غلط ہے)اس لئے کہ یہ واقعہ سن ۳۱۷ ھ کا ہے ، جبکہ ابو سعید کا انتقال (۳۰۱ ھ)میں ہوچکا تھے ۔درست یہ ہے کہ یہ واقعہ ابو طاہر بن ابی سعید قرمطی کے دور کا ہے ۔
قال الذهبي في سير أعلام النبلاء (11/516) : وَقَدْ وَهِمَ السِّمْنَانِيُّ، فَقَالَ فِي "تَارِيْخِهِ": إِنَّ الَّذِي نَزَعَ الْحَجَر أَبُو سَعِيْدٍ الجَنَّابيُّ القِرْمِطِيُّ، وَإِنَّمَا هُوَ ابْنه أَبُو طَاهِرٍ.
۲۔ مقتدر باللہ عباسی نے حجر اسود کو تیس ہزار دینار کے عوض ابوطاہر قرمطی سے خریدا۔(غلط ہے)
قال الذهبي في "تاريخ الإسلام" (7/221) : ونقل القليوبيّ -وهو ضعيف- أنّ القَرْمَطيّ باعَ الحجر الأسود من المقتدر بثلاثين ألف دينار، ولم يصح هذا ولا وقع.
۳۔مطیع باللہ عباسی نے حجر اسود کو تیس ہزار دینار کے عوض ابوطاہر قرمطی سے خریدا۔(غلط ہے)اس لئے کہ ابو طاہر قرمطی کی وفات سن(۳۳۲ ھ)میں مطیع کی خلافت سنبھالنے سے پہلے ہوچکی تھی ۔
قال الفاسي في "شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام" (1/ 257) : وكلام القاضي عز الدين بن جماعة في "منسكه" صريح في أن المطيع العباسي اشتراه بهذا القدر من أبي طاهر القرمطي، وفيه نظر، لأن أبا طاهر مات قبل خلافة المطيع في سنة اثنتين وثلاثين وثلاث مئة ،على ما ذكره ابن الأثير وغيره.
۴۔ حجر اسود کومقتدر عباسی کے دور میں خانہ کعبہ کی طرف لوٹایا گیا۔(غلط ہے)اس لئے کہ لوٹانے کا واقعہ سن۳۳۵ ھ یا  ۳۳۹ ھ میں پیش آیا ، اس وقت خلیفۂ وقت ابو العباس مطیع باللہ عباسی تھے ، ان کا دور خلافت از(۳۳۴ ھ) تا (۳۶۴ ھ)ہے۔
قال أبوبكر باذيب في التعليق على "نشر ألوية التعريف" لابن علان (ص: 54) : وتحقيق الأمر: أن الحجر الأسود أخذ سنة 317 هـ ومكث 22 عامًا، أي أنه أعيد سنة 339 هـ وكان الخليفة آنذاك هو المطيع لله أبو العباس الفضل بن جعفر (المقتدر بالله) وكان حكمه من سنة 334 هـ إلى 364 هـ .

ھذا ما تیسر جمعہ وترتیبہ وانا العاجز : محمد طلحہ بلال احمد منیار

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت