حدیث : نوم الصائم عبادۃ کی تحقیق





حدیث :
" نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ، وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ "
 کا خلاصۂ تخریج وحکم

اس حدیث میں پانچ باتیں ہیں : پہلی دو باتیں " نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ " حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید الضعف اسانید کی وجہ سے پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی ہیں ، ہاں موقوفا بعض تابعین رحمہم اللہ کے اقوال سے وارد ہیں ۔
بقیہ تین باتوں " وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ " کا مفہوم صحیح روایات میں وارد ہے ، اس لئے ان کی نسبت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے بیان کرنا درست ہے ۔

ذیل میں ہر بات کا خلاصۂ تخریج وحال عرض کرتاہوں :

1۔-  نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ :
یہ دو الفاظ سے مروی ہے :
پہلا : یہی لفظ (نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ) یہ متعدد صحابۂ کرام سے مرفوعا نقل کیا گیا ہے ، جن میں حضرات : عبد الله ابن ابی اوفی ، عبد الله بن مسعود ، علی بن ابی طالب ، اورعبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہم ہیں ۔
مگر ان تمام حضرات کی روایات کی اسانید ضعفاء مجاہیل بل کہ متہم بالکذب راویوں سے خالی نہیں ہیں ۔
 ابن ابی اوفی کی روایت  کی اسانید میں کہیں سلیمان بن عمرو نخعی (کذاب) ہے ، کہیں خلف بن یحیی عبدی (کذاب) ہے ، یا معروف بن حسان (راوی مناکیر)ہے ، آخر میں عبد الملک بن عمیر ( مختلط مدلس مضطرب الحدیث ) مدار اسانید توموجود ہے ہی ۔
ابن مسعود کی روایت( ابو طیبہ عن کرز بن وبرہ )کے طریق سے مروی ہے ، جوعموما منکر روایات پر مشتمل ہوتا ہے ، ابن عدی (الکامل 5/ 257) میں لکھتے ہیں : "وهذه الأحاديث لكرز بن وبرة يرويها عنه أبو طيبة ، وهي كلها غير محفوظة ، وأبو طيبة هذا كان رجلا صالحاً، ولا أظن أنه كان يتعمد الكذب ، ولكن لعله كان يشبَّه عليه فيغلط".
علی بن ابی طالب کی روایت روافض متہمین بالکذب (سہل بن احمد دیباجی ) یا مجاہیل راویوں پر مشتمل اور منقطع اسانید سے مروی ہے ۔
عبداللہ بن عمر یا ابن عمرو کی روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر (فتح7/ 151)میں فرماتے ہیں  : وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ لَا يَثْبُتُ ، وَقَدْ أَوْرَدَهُ صَاحِبُ مُسْند الفردوس من حَدِيث ابن عُمَرَ، وَفِي إِسْنَادِهِ الرَّبِيعُ بْنُ بَدْرٍ وَهُوَ سَاقِطٌ ۔
مناوی نے جو اس روایت کے بارے میں فرمایا کہ :( یخلو من کذابین ) تو مناوی خود (التيسير بشرح الجامع الصغير 2/ 93) پر لکھتے ہیں : أخرجه أبو زَكَرِيَّا بن مَنْدَه فِي أَمَالِيهِ (فر) عَن ابْن عمر بِإِسْنَاد سَاقِطٍ ۔

دوسرا لفظ : (الصائم في عبادة وان كان راقدا) یا (الصائم في عبادة ما لم یغتب)
یہ حضرت ابو ہریرہ ، انس ، اور ابن عباس کی روایات  سے منقول ہے :
ابو ہریرہ والی  روایت کی ایک سند میں ھاشم بن عیسی ( مجہول منکر الحدیث) ہے ، اور دوسری میں عبد الرحیم بن ھارون غسانی ( ضعیف کذبہ الدارقطنی ) ہے ۔ ہاں صحیح سند سے ابو العالیہ  ریاحی تابعی کے قول سے ثابت ہے ۔اور دوسرا لفظ   (الصائم في عبادة وان كان راقدا) تعبیر کے اعتبار اصح ہے ، کہ روزہ دار عبادت صوم میں شمار ہوتا ہے اگرچہ سو رہا ہو، مگر نفس نوم  صائم کو عبادت شمار کرنا  مطلقابلا نیت کی قید سے درست نہیں ۔
دیلمی نے (الفردوس) میں حضرت انس اور ابن عباس کی روایت سے بھی نقل کیا ہے ، مگر حضرت انس کی سند میں محمد بن احمد بن سہل (وضاع) ہے ، اور ابن عباس کی سند میں عمر بن مدرک (کذبہ ابن معین) ہے۔

 وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ
تخریجه وحکمه مثل الذي قبله سواء بسواء .

                                                                                                                                                                                                                             3۔  وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ
یہ حضرت ابوہریرہ اور ابن مسعود کی روایت سے ثابت ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ، الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ إِلَى مَا شَاءَ الله ، يَقُولُ الله: إِلَّا الصَّوْمَ؛ فإنه لي وأنا أجزِي به ". سنن ابن ماجه (1/ 525) ۔
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ حَسَنَةَ ابْنِ آدَمَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِئَةِ ضِعْفٍ إِلَّا الصَّوْمَ، وَالصَّوْمُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ " ۔ مسند أحمد (7/ 290)۔

5۔ - ودُعاؤه مُستَجابٌ
یہ مطلقا ومقیدا متعدد صحابۂ کرام سے مروی ہے :
مطلق روایت حضرت ابو ہریرہ، انس،ابن عمر،ابن مسعود ، ابن ابی اوفی ، اور حضرت عائشہ سے منقول ہے ۔حضرت ابو ہریرہ ،حضرت انس ،اور عائشہ کی روایات کے علاوہ بقیہ صحابہ کی روایت تو وہی ہے جس کا حال پہلے جملہ میں گذر چکا ، یعنی غیر معتبر۔
البتہ حضرت ابو ہریرہ اور حضرت انس کی روایت معتبر ہے :
 عن أبي مُدِلَّةَ عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاثة لا ترد دعوتهم: الصائم حتى يفطر، والإمام العادل، ودعوة المظلوم يرفعها الله فوق الغمام، ويفتح لها أبواب السماء، ويقول الرب: وعزتي لأنصرنك ولو بعد حين)۔ رواه أحمد في المسند (2/ 304، 445)،والترمذي في سننه (رقم3598)، وابن ماجه (رقم1752)، وابن خُزَيْمَةَ فِي صَحِيْحِهِ (رقم1901)، وابن حبان في صحيحه (رقم3428)۔
عَنْ حُميد الطويل عن أنس بن مالك -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ثلاث دعوات لا ترد: دعوة الوالد، ودعوة الصائم، ودعوة المسافر) . رَوَاهُ البيهقي فِي السنن الكُبْرَى (3/ 345)، والضياء فِي الأحاديث المختارة (2057)، من طَرِيْقِ عبدالله بن بَكْرٍ السهمي ثنا حميد الطويل عن أنس بن مالك رضي الله عَنْهُ بِهِ.وَصَحَّحَهُ الضياء فِي "المختارة".
حضرت عائشہ کی روایت میں جریر بن ایوب بجلی (کذاب) ہے ۔

اور مقیداً بالوقت روایت متعدد صحابۂ  کرام سے مروی ہے :
روي من حَدِيْث عبدالله بن عَمْرٍو، وَحَدِيْثَ عبدالله بن عُمَر، وَحَدِيْث عَلِيّ، وَحَدِيْث ابن عَبَّاسٍ، وَحَدِيْث أَبِي سعيد الخدري ۔
عن عبدالله بن عمرو بن العاص قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إن للصائم عند فطره لدعوة ما ترد)). رَوَاهُ ابن مَاجَهْ (1753)، وابن السني فِي عمل اليوم والليلة (481)، وابن شاهين فِي الترغيب فِي فضائل الأعمال (رقم141)، وَالحَاكِمُ فِي الْمُسْتَدْرَكِ (1/ 583)، وَالبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الإيْمَانِ (3/ 407).
اس کی سند میں اسحاق بن عبید اللہ مدنی ضعیف ہے۔ لیکن اس کی متابعت شعیب بن محمد بن عبد اللہ کر رہے ہیں ، کما رَوَاهُ الطَّيَالِسِيُّ فِي مُسْنَدِهِ (رقم2262)، ومن طريقه البَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الإيْمَانِ (3/ 408)۔
حضرت ابن عمر کی سند میں محمد بن اسحاق بلخی (کذاب) ہے۔
حضرت علی کی سند میں حماد بن عمرو نصیبی (کذاب) ہے۔
حضرت ابن عباس کی سند میں عبد الرحیم بن زید عمی (متروک) ہے۔
حضرت ابو سعید کی روایت متنا وسندا مضطرب ہے ۔

5۔ - وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ
یہ مقیدا درست ہے :
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ» (البخاري) 38 (1/ 22) و(مسلم) 175 - (760)  .
دوسری قید حضرت ابو سعید کی روایت میں ہے :
عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَعَرَفَ حُدُودَهُ، وَتَحَفَّظَ مِمَّا كَانَ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَحَفَّظَ فِيهِ، كَفَّرَ مَا قَبْلَهُ " (مسند أحمد 18/ 84) و (صحيح ابن حبان3433)

خلاصہ یہ ہے کہ : زیر بحث روایت مذکورہ الفاظ" نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ، وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ " سے مرفوعا ثابت نہیں ہے ، ہاں اس کے بعض جملوں کے مفہوم میں بعض صحیح روایات وارد ہیں ، میرا گمان ہے کہ کسی نے مختلف روایات جمع کرکے یہ روایت تیار کی ہے ، پھر مختلف کذابین نے اس پر اسانید کی ترکیب کر کے مختلف صحابہ کی روایت کی طرف منسوب کردی ، اس لئے مذکورہ لفظ کو حدیث نبوی نہ سمجھا جا ئے ، ہاں اس کے آخری جو تین جملے  ہیں  وہ درست ہیں اس کا مفہوم حضور کی طرف نسبت کرتے ہوئےبیان کر سکتے ہیں ۔

رہ گئے آغاز کے دو جملے ،تو پہلے جملے کا صحیح مفہوم اوپر عرض کردیا گیا ،البتہ دوسراجملہ(وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ) یہ سب زیادہ قابل اشکال وانکار ہے ، اور اس کے الفاظ میں اضطراب بھی ہے ، بعض روایات میں (وَنَفَسُہٗ تَسْبِيحٌ) یعنی سانس لینا تسبیح ہے ، بعض میں (وَنَعَسُہٗ تَسْبِيحٌ) ہے ، یعنی اس کا اونگھنا بھی تسبیح ہے ، اور یہ بات میری رائے میں مشکل ہے ،قابل قبول نہیں ہے۔واللہ اعلم


لخصہ من مشارکات الباحثین علی ملتقی أہل الحدیث وغیرہ من التخاریج :
العبد الضعیف محمد طلحہ بلال احمد منیار
ولسنا نلزم أحدا بتخریجاتنا وأبحاثنا ولا بآرائنا ، فمن قبل فلہ ذلک ، ومن رد فلہ ما یراہ ویرضاہ۔



Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت