«صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی» کہنا غلط ہے




«صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی» کہنا غلط ہے

احادیث کی تخریج وتحقیق کرنے والوں کے درمیان یہ طریقہ رائج ہے کہ : وہ جب «مستدرک حاکم » کی طرف کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں ، تو حدیث کے متعلق حاکم کی رائے نقل کرنے کے ساتھ  «مستدرک» کے حاشیہ میں موجودہ مطبوعہ امام ذہبی کی) تعلیقات( کو بھی نقل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ، پھر اگر ذہبی کی تعلیق میں زیرِ بحث حدیث کے متعلق کوئی تجریح وتنقید نہیں ملتی جو حاکم کی تصحیح کو رد کرنے پر دلالت کرے ، تو اس کو ذھبی کی طرف سے حاکم کی تصحیح پرموافقت کرنے  پر محمول کرتے ہوئے لکھتے ہیں : « صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی»۔

تو یہ جان لینا چاہئے کہ ذہبی کے عدم نقد کو ان کی طرف سے موافقت سمجھنا ، یہ ایک پرانی غلطی ہے جس کی ابتداء غالبا امام مناوی کی «فیض القدیر»سے ہوئی ، پھر ان کی تقلید میں بعد میں آنے والے بعض اہل علم نےاس عبارت کواسی معنی میں استعمال کیا ، اورماضی قریب میں اس کو بہت زیادہ پھیلایا گیا ، اس کے پھیلانے میں شیخ احمد شاکر مصری ، شیخ البانی ، شیخ شعیب ارناؤط وغیرہ حضرات کی تخریجات کا زیادہ دخل ہے ، اور پھر اساتیذ حدیث، باحثین ، اور طلبہ نے اس کو گویا کہ قاعدہ مسلمہ مان لیا ، اور کثرت سے تخاریج میں وارد ہونے سے یہ ریت کا تودا پکی دیوار بن گیا۔

جبکہ یہ فہم سراسروہم و غلط ہے ، اور اس کا منشأ حقیقت میں امام ذہبی کے «مستدرک» پرکئے ہوئے کام کی نوعیت سے صحیح طور واقفیت نہ ہونا ہے، جس کی بناپر یہ عبارت کو صحیح سمجھا گیا ، اور اس کی نتیجہ میں امام ذہبی کو بھی نقد کا نشانہ بنایا گیا ، اوران  پر غفلت، تساہل ،اور سکوت علی الضعف الواضح جیسے الزامات لگائے گئے ، بلکہ معاصرایک مصنف نےتو اس طرح کے ایک ہزار کے قریب مواضع جمع کرکے ان کو ذہبی کی  اغلاط شمار کرتے ہوئے  ایک کتاب میں جمع کیا،اور اس کا نام رکھا ہے «إتحاف الناقم بوهم الذهبي والحاكم»فاسمع واعجب ۔
حقیقت میں امام ذہبی کے کام کی نوعیت صرف اتنی ہے کہ : انہوں نے طلبِ علم کے ابتدائی سالوں میں بہت ساری احادیث وتاریخ کی کتابوں کی تلخیص کی ہے ، جن میں ایک کتاب «مستدرک حاکم» بھی ہے ، تلخیص کی غرض صرف تدریب ومشق تھی ، اور آئندہ کے لئے علمی وتصنیفی کاموں میں مددحاصل کرنے کے لئے بطور فہرست تھی ، ان کی غرض ہرگز تحقیق وتدقیق نہیں ہوتی تھی ، اس لئے وہ صرف اصل کتابوں کی عبارتوں کو باختصار نقل کرنے پر اکتفا کرتے تھے ، لیکن فطرت میں کیونکہ تحقیق کا مادہ تھا ، اس لئے تلخیص کےدوران اگر کوئی خطأ فاحش یا ناقابل سکوت کوئی مضمون دیکھتے تھے ، تو وہاں پر اپنا موقف ظاہر فرمادیتے ، لیکن یہ اصل کام پرایک اضافی اور زائد بات تھی جس کا انہوں نےان کی تلخیصات میں  التزام نہیں کیا ،بلکہ طبیعت کے نشاط پر موقوف تھا۔

بعینہ یہی نوعیت «تلخیص المستدرک» کی ہے ، ذہبی نے کہیں یہ نہیں کہا یالکھا ہے کہ : میں نے«مستدرک» کی تحقیق، یا تصحیح وتضعیف کی ہے ، اور نہ ان کے معاصرین وقریب الزمانہ اہل علم نے ان کے کام کو تحقیق قرار دیا ،ورنہ وہ ذہبی کا حوالہ بار بار دیتے ۔مزید بر آن خودامام ذہبی نے حاکم کے ترجمہ میں «سیر اعلام النبلاء» (۱۶/۱۷۶) میں صراحت سے لکھا کہ : «مستدرک حاکم تحقیق وتحریرکی محتاج ہے»اھ ۔اسی لئےتو یہ دیکھا گیا کہ ذہبی نے مابعد کی اپنی تصنیفات میں «مستدرک حاکم» کی بہت ساری احادیث پر کلام کیا ہے، جن پر «تلخیص مستدرک»میں کلام نہیں کیا تھا ۔

اسی طرح ذہبی نے «تاریخ الاسلام» (9/89) میں مستدرک کے بارے میں لکھا ہے :
«مستدرک کی احادیث کا ایک معتد بہ حصہ شیخین یا دونوں میں سے ایک کی شرط پر اترتاہے ، یہ مجموعی طور پر تقریبا کتاب کا آدھا حصہ ہے ، اور اس کا پاؤحصہ صحیح السند توہے لیکن علت سے خالی نہیں ہے ، رہ گیا بقیہ حصہ جو پاؤ کتاب کے برابر ہے ، یہ سب منکر روایات وواہیات پر مشتمل ہے ، اور اسی میں بعض موضوع روایتیں بھی ہیں ، جن کی نشاندھی میں نے مستدرک کے اختصار کے وقت کردی ہے ، اور تنبیہ بھی کردی ہے»اھ ۔

خلاصہ یہ نکلا کہ «مستدرک» کی کل احادیث (۹۰۴۵) میں سے  ذہبی کا جن پرتعقب ہے وہ صرف (۱۱۸۲) احادیث ہیں ، جبکہ کتاب کا پاؤ حصہ (۲۲۶۱)احادیث سے بنتا ہے، جن کو ذہبی نے غیر معتبر قرار دیا ہے ، مگر اس پاؤ کی صرف آدھی روایات پر تعقب ہے ۔

لہذا مذکورہ دونوں وضاحتوں کے بعد ذہبی کی طرف موافقت یا تساہل کی نسبت کرنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟

امام ذہبی کی «تلخیص المستدرک»میں اختصار کا مقصد بالکل واضح ہے ، انہوں نے اسانید کے اکثر حصہ کو حذف کردیا ، متون کے الفاظ بھی مختصر کردیئے، حاکم کی عبارتوں میں بھی اختصار سے کام لیا ، اور اکثرصحیحین کا تذکرہ  رموز واشارات میں کیا ہے(خ م) اور جہاں بھی حاکم کی تصحیح کاتعاقب کیا تو اپنی بات کو (قلت)سے شروع کیا۔

مذکورہ وہم قدیم کے ازالہ میں جو چیز سب سے زیادہ ممد ومعاون بنی ، وہ خود «تلخیص المستدرک»کا تفصیلی جائزہ ہے ، جس کے ذریعہ پورے کام کا دراسہ کیا گیا ، جس سے یہ بات کھل کرآگئی کہ ذہبی کی موافقت یا سکوت کی بات بالکل بے بنیاد ہے ، اور قدیم اہل علم حضرات نے یہ بات ایک دوسرے کی تقلید میں کہی ہےاور وہ معذور ہیں ، مگر تفصیلی بحوث ودراسات مرتب ہونے کے بعدبھی  جو حضرات اس کو قاعدہ مسلمہ مانتے ہیں اور اس کو اپنی تخریجات میں جگہ دیتے ہیں یہ رویہ ان کا درست نہیں ہے ، بلکہ عناد ومکابرہ ہے ، جو اہل علم کے شایان شان نہیں ہے ۔

ذیل میں تخریج حدیث کے شناوربعض معاصر محققین کے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں ، جو (وافقہ الذہبی یا اقرہ الذہبی ) جیسی عبارات کو غلط قرار دیتے ہیں :

قال الدكتور بشار عواد معروف في مقدمة تحقيقه لكتاب «الجامع» للإمام الترمذي 1/44 :
وقد قام الذهبيُّ في أولِ عنايته بطلب الحديث بتلخيص مجموعةٍ من الكتب ، كان «المستدرك» واحدا منها ، ثم جرت عادةُ أهل العصر من المَعنيين بالحديث النبوي الشريف وتخريجه والحكم عليه قولهم : « صححه الحاكم ووافقه الذهبي » وهم يشيرون بذلك إلى تلخيص الذهبي لمستدرك الحاكم المطبوع بهامشه .
وهذا عندنا وَهم كبير يتعيَّن التنبيهُ إليه لا ندري من أين جاء ولا كيف بدأ ، فالذهبي رحمه الله لَخَّص الكتاب ، ولم يكن من وُكده الكلامُ على أحاديثه تصحيحا وتضعيفا ، وإنما تكلم على بعض أغلاط الحاكم الكثيرة الفاحشة في هذا الكتاب ، فذكرها في أثناء الاختصار على عادته عند اختصار أي كتاب .

وقال الشيخ ماهر الفحل :
إن مانجده في بعض تعليقات المحققين وبعض المؤلفين المتأخرين من قولهم : « صححه الحاكم ووافقه الذهبي » وهو محض خطأ لم يُعرف عند العلماء فيما بعد الذهبي وحتى القرن الحادي عشر ، بل لم نجد أحداً استخدمه إلا مراتٍ قليلة عند المُناوي في «فيض القدير» وعلي القاري في بعض كتبه ، ثم استخدمها قليلاً اللكنوي والمباركفوري.
وهذه مسألةٌ ينبغي التنبيه عليها ، وهي : ما شاع وانتشر بين الباحثين عند نقلهم عن الحاكم تصحيحَه لحديث من كتاب «المستدرك» : (صحّحه الحاكم ووافقه الذهبي ) وهذه مسألة لم تكن معروفة عند المتقدمين بل شهرها ونشرها علاّمةُ مصر ومحدّثها الشيخ أحمد شاكر يرحمه الله ، ثم طَفَحت بها كُتب العلامتين الشيخ محمد ناصر الدين الألباني ، والشيخ شعيب الأرنؤوط ، حتى عَمَّت عند أغلب الباحثين .
وهذا خطأ ينبغي التنبيه عليه والتحذير منه ؛ لأنّ الإمام الذهبي لَمْ يحقق «المستدرك» ، بَلْ اختصره كَمَا اختصر عدداً من الكتب ، وَكَانَ من صنيع هَذَا الإمام العظيم أنْ يعلّقَ أحياناً عَلَى بَعْض الأحاديث ، لا أنّه يريد تحقيقَها والحكمَ عَلَيْهَا وتتبُّعَها جميعها ، وذلك لأنّ الذهبي ضعّف كثيراً من الأحاديث التي في «المستدرك» في كتبه الأخرى كـ«الميزان» وغيره .
ثم إنّه نصّ على أنّ الكتاب يُعوِزه تحريرٌ وعملٌ ( السير 17/176 ) فلو أنه وافق الحاكمَ على جميع ما سكت عليه لَما قال ذلك ، ولو كانت هذه المقولةُ صحيحةً لاستخدمها الحافظ ابن المُلَقن و العراقي والهيثمي و ابن حجر العسقلاني والبقاعي والسخاوي والسيوطي وهُم مِن الذين أكثروا التخريج .
ثم بعد ذلك وقفتُ على كلام كتبه الدكتور باسم الجَوابِرة عام 1992 انتهى به إلى نفس النتيجة ، ثم كذلك وقفت على كلام نحوَه للأخ عبد العزيز الطريفي - وفقه الله - وسمعت فيه شريطا للعلامة عبد الله السعد ، انتهى الجميع إلى نفس النتيجة ، ثم كتب في ذلك الدكتور عزيز رشيد الدايني - رحمه الله -رسالتَه الماجستير في ذلك ، والحمد لله على توفيقه .

وقال الشيخ عبد العزيز الطريفي مجيبا على السؤال التالي :
السؤال الثالث عشر: ما رأيكم بمقولة (ووافقه الذهبي)؟
الجواب: إذا كان مقصد السائل موافقةَ الذهبي للحاكم في مستدركه، فهذه العبارة ليست بصحيحة، فالذهبي لم يوافق الحاكمَ في جُلّ ما يُطلق الموافقةَ عليه أهلُ العصر، فالذهبي عملُه على «المستدرك» تلخيصٌ لا استدراك، ومجرّد اختصارِه لمقولة الحافظ الحاكم عقب الأحاديث «صحيح على شرط البخاري ومسلم» أو «على شرط البخاري» أو «شرط مسلم» لا يعني أنه مؤيّد، بل هو ناقلٌ، وإلا فالذهبي ينتقد جزءاً كبير جداً من «المستدرك» .... ومِن أوائل مَن تساهل وأطلق هذه العبارة «ووافقه الذهبي» المُناوي صاحب «الفيض»، وأطلقها جماعة كالخزرجي صاحب «الخلاصة» فقد رأيته أطلق هذه العبارة في ترجمة مهدي الهَجَري، وتجوَّز فيها أيضاً جماعةٌ كصديق حسن خان والصَّنعاني ومن المعاصرين الألباني فقد أكثر منها .

وكتب الشيخ حاتم العوني مقالا في هذا الموضوع على موقع «الإسلام اليوم» هذا نصه:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه، ومن والاه. أما بعد :
أقول وبالله التوفيق: إن الإمام الذهبي قد قام باختصار «المستدرك» كما قام باختصار كتب أخرى كثيرة ، والأصل في الاختصار ألاّ يكون فيه إضافةٌ من مختصِرِه ، بل يقتصر على بعض ما في أصله دون زيادةٍ، لكن الإمام الذهبي لم يكن يُخلي مختصراتِه من تعقُّبات وفوائدَ ينشرها في الكتاب، وهي خارجةٌ عن أصل شرط الكتاب، بل هي فَضلة يتبرَّع بها الذهبي على المُستفيدين، فتأتي هذه الإضافاتُ على غير قاعدة مطَّردة، بل تأتي كيفما اتفق وتيسَّر.
أضِف إلى ذلك الأصل: أن الذهبي لم يذكر عبارةً صريحةً بأنه إن نَقَل حكم الحاكم وسكت عليه يكون موافقاً له، أو أنه لا يكون مخالفاً له إلا إذا تعقَّب حكمه! ونسبةُ رأيٍ إلى الذهبي لا بد أن يكون متيقَّناً أو غالباً على الظن، أمَّا والظن الغالب بخلاف تلك النسبة، فلا تصحُّ.
وواضحٌ من خلال كتاب الذهبي أنه إنما ينقل عَقِب كل حديث حكمَ الحاكم عليه، ثم إذا أراد أن يتعقبه قدَّم التعقُّب بقوله: (قلت)، وعلى هذا فكُل ما خَلا عن كلمة (قلت)، فليس هو إلا رأي الحاكم.
أما الاستدلال بتعقيب الذهبي على أن سكوته يدل على الإقرار، فهو استدلالٌ ضعيف؛ لأنه خلافُ الأصل في عمل المختصر، الذي لا يعدو سكوتُه أن يكون نقلاً لما في الأصل.
ويدل على أن الذهبي لم يلتزم التعقب في كل ما يخالف فيه الحاكم - سوى ما سبق- الأمورُ التالية:
قال الذهبي في "تاريخ الإسلام" في ترجمة الحاكم، مجلد (401هـ- 420هـ)- (132)، وهو يتحدث عن «المستدرك» : « ففي المستدرك جملة وافرة على شرطهما، وجملة كبيرة على شرط أحدهما، لعل مجموع ذلك نحو النصف، وفيه نحو الربع مما صح سنده وفيه بعض الشيء أو له علة. وما بقي وهو نحو الربع فهو مناكير وواهيات لا تصح، وفي بعض ذلك موضوعاتٌ قد أعلمت بها لَمّا اختصرت هذا المستدرك، ونبهتُ على ذلك ».
فهذا النص يدل على أن الذهبي لم يَعتن ببيان كل الواهيات، وإنما اعتنى بالتعليق على بعضها، وخاصة الموضوعات. ألا ترى أنه ذكر أن ربع الكتاب مناكير وواهيات، في حين أنه لم يتعقَّب إلا قدر ثُمُن الكتاب، حيث إن عدد أحاديث الحاكم يبلغ (9045)، وعدد تعقبات الذهبي (1182) حديثاً ، في حين أن ربع أحاديث كتاب الحاكم هو (2261)، وهذه الإحصائية مستفادة من مقدمة تحقيق «مختصر استدراك الذهبي» لابن الملقن (8/9) .
وبناءً على ذلك فإن الذهبي كان يعلم بوجود ضِعْفِ الأحاديث التي تعقبها في «المستدرك» من الواهيات، وقد سكت عنها؛ فهل يصح أن نعتبر سكوتَه بعد ذلك إقراراً؟ بل إن ربع «المستدرك» عند الذهبي - سوى الربع الأول - أحاديث ظاهرُها الصحة، ولها عللٌ خفية تقدح في صحتها، وعلى هذا: فالذهبي كان يعلم أنه لم يتعقَّب إلا قدر ربع الأحاديث المنتقَدة عنده هو، فكيف يُعتقَد أن سكوته إقرار وموافقة بعد ذلك؟!!
ومما يشهد لذلك أيضاً: انتقاد الذهبي لغيرِ ما حديثٍ في «المستدرك» ، في غير المختصر من كتبه الأخرى، مع سكوته عنه في المختصر، ومن ذلك:
(1)  لما صحح الحاكم حديثا (1/544-545)، وسكت عنه الذهبي في المختصر، ذكره في «الميزان» (1/136 رقم 547) حاكماً عليه بالبطلان، ثم قال: «قال الحاكم: صحيح الإسناد. قلت: كلا. قال: فرواته كلهم مدنيون. قلت: كلا. قال: ثقات. قلت: أنا أتهم به أحمد».
(2) وصحح الحاكم حديثاً آخر (2/545)، وسكت عنه الذهبي في المختصر، لكنه قال في «الميزان» (3/179 رقم 6042) : «صححه الحاكم، وهو حديث منكر كما ترى ».
(3) وصحح الحاكم حديثاً ثالثاً (2/493)، وسكت عنه الذهبي في المختصر، وقال في «العُلُو للعلي العظيم» (1/593 رقم 146): «شريك وعطاء فيهما لين، لا يبلغ بهما رد حديثهما، وهذه بلية تحير السامع، كتبتها استطراداً للتعجب، وهو من قبيل اسمع واسكت ».
وبعد هذا كله، لئن أصرَّ مَن فَرَط منه رأيٌ سابقٌ في هذه المسألة، على أن سكوت الذهبي عن تعقب الحاكم إقرار منه وموافقة، أقول له: ما قيمةُ هذا الإقرار؟ وقد صرح الذهبي بأن مختصره للحاكم يُعوِزه عملٌ وتحرير، كما في «السير» (17/176)، وبلغ هذا الإعوازُ إلى حد أنه لم يتعقب إلا نحو ربع ما يستحق التعقب عنده. إن الإصرار على ذلك الرأي إن هو إلا شَين للذهبي لا زَين، وتمسُّكٌ بحبل رَثّ غير متين!!!
وهذا التقرير بأدلته -لا شك- أنه أولى من تقليد بعض أهل العلم، الذين اعتبروا مجرد سكوت الذهبي إقراراً، كالسيوطي في «النكت البديعات» (197)، والمُناوي في «فيض القدير» ، والحُسيني في «البيان والتعريف» ، وغيرهم من العلماء المعاصرين.
والله أعلم، والحمد لله وحده، وصلى الله وسلم على من لا نبي بعده، وعلى آله وصحبه ومن اتقى حده .

وقال الشيخ جاسم بن سليمان الفهيد الدوسري في حاشية تحقيقه وترتيبه لكتاب «فوائد تمام» ، الذي سماه «الروض البسام بترتيب وتخريج فوائد تمام» 4/422 :
ينسُب كثير من العصريين المشتغلين بالحديث إلى الذهبي موافقةً على تصحيحات الحاكم في الأحاديث التي لم يتعقبه فيها في تلخيصه للمستدرك ، فيقولون : «صححه الحاكم ووافقه الذهبي» ، مع أن الذهبي لم ينص على ذلك ، لا تصريحا ولا تلميحا .
وإنما كان عمله في التلخيص : تعليق أسانيد أحاديث المستدرك ، وتلخيص كلام الحاكم عليها ، وقد ينشَط أحيانا ، فيتعقب الحاكم في بعض تصحيحاته المتساهلة .
وهو إنما يفعل ذلك -أعني التعقب - تفضلا منه ، إذ ليس من مهمة المختصر أن يستدرك أو يعقب على صاحب الأصل ، لا سيما إذ لم يصرح بالتزامه بذلك في مقدمة اختصاره .
ولما كانت القاعدة الفقهية المشهورة تنص على أنه : «لا يُنسب إلى ساكت قول» فالواجب أن يكون التعبير في هذه المواضع بعبارة : «وسكت عليه الذهبي» ، فإنها أحكم وأسلم من عبارة : «ووافقه الذهبي» ، التي كثيرا ما ترتَّبَ عليها تخطئةُ الذهبي وتوهيمُه بجَرِيرة تصحيح الحاكم !! انتهى كلام الدوسري .
قال بعض الباحثين : وهو كلام نفيس وتحقيق دقيق ، لكن لي عليه أن عبارة «وسكت عليه الذهبي» قد تُوهم أيضا أن سكوتَه إقرار ، لا سيما عند الذين لا يعلمون طريقة الذهبي ، فالأسلم والأحكم أن لا ننسب للذهبي هاهنا لا موافقةً ولا سكوتاً ، فإذا صحح الحاكم حديثا ، نقول : «صححه» فحسب ، وليس ثمة داعٍ لأن نحشُر سكوتَ الذهبي حَشرا في سياقٍ لا ضرورة لوجوده فيه .

وقال الباحث عزيز رشيد الدايني في أواخر رسالته « تصحيح أحاديث المستدرك » :
حاولتِ الدراسةُ تتبُّعَ ظاهرة خطيرة انتشرت بين المتأخرين مَفادُها : أن الذهبي كان في اختصاره «للمستدرك» ناقداً ومحرراً ومختصراً في آنٍ واحد، بحيث صاروا يعتقدون أنّ كلَّ حديث سكت عنه الذهبي في التلخيص أو نَقَل عبارة الحاكم هي موافقة للحاكم في حكمه الذي أصدره على الحديث.
فقد تمكنَّا بحمد الله ومَنّه أن نثبت وبالأدلة القاطعة والأمثلة الكثيرة التي لا تحتمل الشك خطأ ذلك الزعم، ومن ثَمَّ فقد تبين خطأ ثمرته وهو المصطلح المشهور «صححه الحاكم ووافقه الذهبي» أو «أقره الذهبي»، وأنه خطأ علمي فاحش ، يسر الله تعالى علينا بِمَنِّه وكرمه إثباتَ بطلانه، وذلك مما احتاج دراسةً متأنيةً لتلخيص الذهبي، قائمةً على مقارنة هذه الأحكام بما قرره في كتبه الأخرى، فهي دراسة قامت على التتبع والمقارنة والوصول إلى هذه النتيجة.
والحق أنّ هذه النتيجة هي لُبّ هذه الدراسة إذ لو لم يكن فيها إلا هذا التصحيح لذلك الخطأ العلمي الشائع لكان وحدَه غاية.
ومن هنا صار من المتعيَّن على أهل العلم بعد إنجاز هذه الدراسة الاستقرائية عدمَ استخدام عبارة «صححه الحاكم ووافقه الذهبي» أو «صححه الحاكم وأقره الذهبي» كونَها لا تستند إلى أي أساس علمي يُركن إليه. انتهى كلامه بتمامه

وقال باحث آخر ملخصا كلام الآخرين :
كثر في هذا العصر استعمال بعض الأفاضل اصطلاح: «صححه الحاكم، ووافقه الذهبي»، فيما أورده الإمام الذهبي في كتابه: «تلخيص المستدرك» من كلام أبي عبد الله الحاكم النيسابوري ، معتبرين أن مجرد سكوت الذهبي على كلام الحاكم، هو موافقة منه له. وهذا غلط في غاية البعد عن الصواب ، للأسباب التالية:
1- موضوع كتاب "تلخيص المستدرك" ما هو إلا تلخيص للأحاديث -إسناداً ومتناً- مع تلخيص أقوال الحاكم في أقواله على مروياته فحسب، إضافة إلى بعض التعقبات التي يوردها الذهبي على هذه الأقوال. هذا لا خلاف فيه عند أحد .
2- الإمام الذهبي لَمْ يحقق المستدرك، بَلْ اختصره كَمَا اختصر عدداً من الكتب. وَكَانَ من صنيع هَذَا الإمام العظيم أنْ يعلّقَ أحياناً عَلَى بَعْض الأحاديث، لا أنّه يريد تحقيقها والحكم عَلَيْهَا وتتبعها جميعهاً .
3- لم يذكر الذهبي أبداً - ولا أحد من تلامذته- أن ما سَكَت عليه فهو مُقِرّ للحاكم، ولا ذكر أن كتابه استدراك وتعقُّب .
4- إذا اتفقنا أن شرط الذهبي تلخيص، فكونه يتعقب هو أمرٌ زائدٌ على شرطه لم يلتزمه . بل إن استدراكه قليل جداً، فلا نجعل من تعقبه في بعض المواضع لازما آخر وهو الموافقة .
5- الذهبي ضعّف كثيراً من الأحاديث التي في «المستدرك» في كتبه الأخرى كالميزان وغيره، مع أنه سكت عليها في اختصاره للمستدرك. هل يعني هذا أنه اضطرب؟ طبعا لا، لأنه في «المستدرك» يلخص ، لا يُعَقّب ويوافق. وإلا للزم من هذا أن كل مؤلِّف شَرَح أو عَلَّقَ على كتابٍ أخر فتعقّب في موضعٍ على حديث، أنه موافقٌ فيما ترك .
6- مجرّد اختصاره لمقولة الحاكم عقب الأحاديث «صحيح على شرط البخاري ومسلم» أو «على شرط البخاري» أو «شرط مسلم»، لا يعني أنه مؤيد، بل هو ناقل. وإلا فالذهبي ينتقد جزءً كبيراً جداً من «المستدرك» كما في ترجمة الحاكم من تاريخه، ومن ذلك قوله في «السير» : « في المستدرك شيء كثير على شرطهما. وشيء كثير على شرط أحدهما. ولعل مجموع ذلك ثلث الكتاب، بل أقل. فإن في كثير من ذلك أحاديث في الظاهر على شرط أحدهما أو كليهما، وفي الباطن لها عللٌ خفية مؤثرة. وقطعةٌ من الكتاب إسنادها صالح وحسن وجيد. وذلك نحو ربعه. وباقي الكتاب مناكير وعجائب. وفي غضون ذلك أحاديث نحو المئة يشهد القلب ببطلانها، كنت قد أفردت منها جزءاً » انتهى . فكيف يوافقه. 
7- قال الذهبي عن كتابه «تلخيص المستدرك» في ترجمته للحاكم في «سير أعلام النبلاء» (17/176) : « وبكل حال فهو - أي المستدرك- كتاب مفيد قد اختصرته ، ويُعوِز عملاً وتحريراً ». فلو أنه وافق الحاكم على جميع ما سكت عليه لما قال ذلك . 
8- كتاب «تلخيص المستدرك» ألفه الذهبي في شبابه. فهو ليس في مستوى كتبه الأخرى. وقد سبق بيان ذلك.
9-  لم يكن شائعاً بين أهل العلم المتقدمين من بعد عصر الذهبي مثل هذه المسألة في قولهم : «صححه الحاكم ووافقه الذهبي». وأول من تساهل وأطلق هذه العبارة هو المناوي صاحب «فيض القدير». وتجوَّز فيها أيضاً جماعة كصديق حسن خان والصنعاني. ثم شهرها ونشرها الشيخ أحمد شاكر، ثم طفحت بها كتبُ الشيخ محمد ناصر الدين الألباني، والشيخ شعيب الأرنؤوط، حتى عَمَّت عند أغلب الباحثين. ولو كانت هذه المقولة صحيحة لاستخدمها الحافظ ابن الملقن و العراقي والهيثمي و ابن حجر العسقلاني والبقاعي والسخاوي والسيوطي وهم مِن الذين أكثروا التخريج. انتهى

ومن أراد الاستزادة والاطلاع تفصيلا على الدراسات والبحوث المعنية ، فعليه بالكتب الآتية :
1- «تصحيح أحاديث المستدرك بين الحاكم النيسابوري والحافظ الذهبي» للدكتور عزيز رشيد الدايني .
2- «الإيضاح الجلي في نقد مقولة : صححه الحاكم ووافقه الذهبي» ، بحث للأستاذ الدكتور:خالد الدريس ، وهو من منشورات دار المحدث بالرياض.
3- «إياك والاغترار بما نسب للذهبي من موافقة واقرار» وهو نقد للمصطلح الشائع « صححه الحاكم ووافقه الذهبي » للزبير دحان أبو سلمان.

خلاصہ یہ ہے کہ : مذکورہ عبارت کا استعمال غلط ہے ، اور مستدرک حاکم کی طرف حوالہ دیتے وقت حاکم کی تصحیح پر ذہبی کی طرف سے کوئی رد ومخالفت نہ ہو، تو ذہبی کی طرف کسی قسم کی کوئی بات ( موافقت ، اقرار ، سکوت ) منسوب نہ کریں، بلکہ حاکم کے قول پر اکتفا کریں ، اور حدیث کی تخریج وتحقیق کے بعد اس پر مناسب حکم لگائیں ، ہاں جہاں ذہبی کا تعقب (قلت) کے بعد ہو وہ ذکر کرسکتے ہیں ۔


ھذا ما تیسر جمعہ وتلخیصہ والتنبیہ علیہ ، بعون اللہ وتوفیقہ ، ونسأل اللہ أن یجعلنا ممن یستمعون القول فیتبعون أحسنہ ۔
وکتبہ أضعف العباد محمد طلحہ بلال أحمد منیار  تجاوز اللہ عنہ


Comments

  1. اس مضمون میں بہت تشدد ہے ۔ اور یہ مضمون دور حاضر کے اُن سلفی حضرات کی تحقیق پر مشتمل ہے جو سب خود کو مجتہدین سمجھتے ہیں ۔ اور اُن کے نزدیک اکثر اسلاف کی چیزیں معطل ہوتی جارہی ہیں ۔ اور ان کا زیادہ تر مدار تو اپنی فہم پر ہے ، اور پھر اُن کتب رجال پر ہے جوکہ آدھی سے زیادہ مفقود ہیں ۔
    ترمذیؒ کا حکم ، ابوداودؒ کا سکوت ، نسائی کا اخراج ، سب کچھ معطل ہوچکا ہے ۔کتب کے درجات بھی ختم ۔

    ابھی تو بعض کا یہ بھی نظریہ ہے کہ ذہبی جو کسی کو ضعیف یا ثقہ کہتے ہیں اس کی دلیل کیا ہے ؟
    اس وجہ سے ان کا مسلک ابھی زیر تکمیل ہے ۔
    ابھی مزید تحقیق جاری ہے ۔ بہت کچھ انہوں نے ابھی معطل کرنا ہے ۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت