کلیجی کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے







کلیجی کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے

ایک موقر مفتی صاحب نے اپنے بیان میں دانت منھ کی صفائی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزیں استعمال نہیں کرتے تھے جس میں بدبو ہو اگرچہ وہ حلال ہوں ، حلال ہونے کے باوجود جن چیزوں میں ہیک(بدبو)ہوتی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم استعمال نہیں کرتے تھے ، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلیجی نہیں کھایا کرتے تھے ، کلیجی خون سے بنی ہوئی چیز ہے ، اس میں ہیک ہوتی ہے ، حلال ہے کھاسکتے ہیں ، مگر ہمارے نبی نے نہیں کھائی ۔اھ

مفتی صاحب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کلیجی نہ کھانے کی جو بات کہی ، اس کی وجہ سے لوگوں میں تشویش ہوئی ، بعض حضرات نے اس سلسلہ میں تحقیق دریافت کی ، لہذا میں نےکتب حدیث  اور حدیث کی شروحات وغیرہ کی طرف مراجعت کی ، تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ  :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےکلیجی تناول فرمانا متعدد روایاتسےثابت ہے۔

تفصیل ملاحظہ فرمائیں :

کلیجی کھانے کے سلسلہ میں جو روایات کتبِ حدیث میں وارد ہوئی ہیں ، ان میں کلیجی پر دلالت کرنے والے الفاظ تین طرح کے ہیں :  ۱ ۔ صریح ،  ۲ ۔فی حکم الصریح ، ۳ ۔اور محتمل ۔

۱ ۔ صریح یعنی کلیجی ہی کا لفظ روایت میں مذکور ہو ، عربی میں کلیجی کو (کَبِد)کہتے ہیں ،اس طرح کی روایات دو ہیں :ایک اونٹ کی کلیجی کھانے کی روایت ، دوسری بکری کی کلیجی کھانے کی ۔

اونٹ کی کلیجی کھانے کی روایت : حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ  سے :

... وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا ...( صحيح مسلم ، كتاب الجهاد والسير ، باب غزوة ذي قَرَد 3/1438 ، حديث 1807)

ترجمہ : اور حضرت بلالؓ نے ان اونٹوں میں سےجو میں نے لٹیروں سے چھینے تھے(چھڑائے تھے) ایک اونٹ کو ذبح کیا، اور اس کی کلیجی اور کوہان کو رسول اللہ کے لئے بھونا۔

تشریح : روایت میں صراحت ہے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت بلالؓ اونٹ کی کلیجی (كَبِدِهَا)آپ ہی کے لئے بھون رہے تھے (يَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ)۔اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلیجی نوش فرمانا واضح ہے ۔

بکری کی کلیجی کھانے کی روایت :

عَن بُرَيْدَةَ رَضيَ الله عنه قَالَ : " كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْفِطْرِ لَمْ يَخْرُجْ حَتَّى يَأْكُلَ شَيْئًا , وَإِذَا كَانَ الْأَضْحَى لَمْ يَأْكُلْ شَيْئًا حَتَّى يَرْجِعَ , وَكَانَ إِذَا رَجَعَ أَكَلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه " . (السنن الكبرى للبيهقي ، كتاب صلاة العيدين ، باب يترك الأكل يوم النحر حتى يرجع 3/ 401) .

ترجمہ : حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  ﷺ عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے، اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے،اور آپ قربانی کے جانور میں سے ابتداءکلیجی تناول فرمانے سے کرتے تھے۔

تشریح : روایت میں (كَبِدِ أُضْحِيَتِه)کے الفاظ کلیجی کھانے پر دلالت کرنے میں صریح ہیں۔

تنبیہ :بیہقی کی روایت عید الاضحی کے دن کلیجی تناول فرمانے کے سلسلہ میں ،راوی کے تفرد اور شدت ضعف کی وجہ سے قابل استدلال نہیں ہے ، جیساکہ میں نے اس کی وضاحت ایک دوسرے مضمون میں کی ہے۔
مگر عید الاضحی میں کلیجی سے ابتداء کرنا قدیم زمانے سے معمول بہا اوررائج ہے ، سردست اس کے چند مؤیدات یہاں ذکر کرتاہوں ،جن سے معلوم ہوگا کہ بیہقی کی روایت کی کوئی اصل ہے ۔ ورنہ (مطلقاحضور کے کلیجی کھانے)کے ثبوت میں اس روایت کا ضعف مؤثر نہیں ہے ۔

المؤیدات ، ولا تخلو من ضعف :

اثر الامام علی رضی اللہ عنہ:
قال الغزالي في الوسيط 3/ 198/ "قال علي - رضي الله عنه - في خطبته بالبصرة: أمَا أن أميركم قد رضيَ من دنياكم بطِمْرَيه لا يأكل اللحمَ إلا فِلذَةً من كبد أضحيته". قال عنه الحافظ ابن حجر في التلخيص 4/ 146 "لم أجده" والله أعلم.
وروي عن علي : أنه ذبح أضحيته فشوى كبدها وتصدق بسائرها ، ثم أخذ رغيفًا وكبدًا بيده الأخرى فأكل . التوضيح لشرح الجامع الصحيح (26/ 653).

اثر سیدنا ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ:
2300 - وَقَالَ مُسَدَّدٌ : حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، ثنا إِبْرَاهِيمُ مُؤَذِّنُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ : شَهِدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ بِالْمُصَلَّى قَالَ لِرَجُلَيْنِ : مَا عِنْدَكُمَا مَا تُضَحِّيَانِ بِهِ ؟ قَالَا : لَا ، فَانْطَلَقَ بِهِمَا إِلَى مَنْزِلِهِ وَأَخْرَجَ شَاتَهُ ، قَالَ : تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَمِنْ فُلَانٍ وَفُلَانٍ ، ثُمَّ أَخَذَ كَبِدَهَا أَوْ شَيْئًا مِنْهَا فَأَكَلُوا مِنْهَا ، ثُمَّ جَزَّأَهَا ثَلَاثَةَ أَجْزَاءٍ فَانْقَلَبَ الرَّجُلَانِ بِثُلُثَيْهَا ، وَدَخَلَ بَيْتَ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ الله عَنْهُ الثُّلُثُ . المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (10/ 478)

قول الامام ابن شہاب الزہری :
وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَأْكُلَ أوَّلا من الكبد. الناسخ والمنسوخ للنحاس (ص: 563) والهداية الى بلوغ النهاية لمكي(7/ 4879) وتفسير القرطبي (12/ 46)

قول الامام الشافعی فی الام :
وَأُحِبُّ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ كَبِدِ ذَبِيحَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ أَوْ لَحْمِهَا، وَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَا بَأْسَ . الأم للشافعي (2/ 239) . وضحه الماوردي بقوله في الحاوي الكبير (4/188): قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ كَبِدِ هَدْيِهِ إِنْ كَانَ تَطَوُّعًا قَبْلَ أَنْ يَمْضِيَ إِلَى الطَّوَافِ وَالْإِفَاضَةِ .

قول الامام البیہقی :
قَالَ الإمام البَيهَقي رحمه الله : وَالسُّنَّةُ فِي عِيدِ الْأَضْحَى أَنْ لَا يَأْكُلَ حَتَّى يَذْبَحَ أُضْحِيَتِه بَعْدَ الصَّلَاةِ ، ثُمَّ يَرْجِعَ فَيَأْكُلَ مِنْ كَبِدِ أُضْحِيَتِه. ( فضائل الأوقات ص: 402) .

۲ ۔فی حکم الصریح ،یعنی روایت میں ایسا لفظ وارد ہو جس کا اولین اطلاق کلیجی پر ہوتا ہو،اگرچہ اس کے اطلاق میں اور دوسرے اجزاء واعضاء کی شمولیت بھی محتمل ہوں۔وہ لفظ ہے (سَوَادُ البَطن)یعنی پیٹ کےسیاہ حصے ، ان سے مراد وہ اجزاء ہیں جوسرخی مائل بسیاہ ہوتے ہیں ، جیسے :کلیجی ، گردے ، دل ، جگر،تلی۔ شراح حدیث ، غریب الحدیث کے مصنفین ، اور علمائے لغت نے (سَوَادُ البَطن)سے کلیجی مراد ہونے کو مقدم مانا ہے،اس لئے میں نے اس کو فی حکم الصریح گردانا ۔

(سَوَادُ البَطن)پرحضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی روایت  :

... وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ البَطْنِ أَنْ يُشْوَى ...إلى أن قال : فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ وَشَبِعْنَا.
 صحيح البخاري 3/164 ، كتاب الهبة ، حديث (2618) صحيح مسلم ، كتاب الأشربة 3/1626 ، حديث (2056)

ترجمہ : اور رسول اللہ ﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا ... پھر ہم سب نے اس میں سے کھایا اور خوب سیر ہو گئے۔

شراح حدیث کے اقوال :

وسواد البطن، قيل: هو الكبد خاصة، وقيل: حشوة البطن كلها، حكاهما صاحب "المطالع". [التوضيح لشرح الجامع الصحيح 14/ 536]
وفي أكل أهل الجيش من الكبد على قِلّته علامة باهرة من أعلام نبوته، وآية باهرة من آياته. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح 16/ 398]
وفيه : استعجالُ شيِّ الكبد. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح 26/ 112]
وَأما قَوْله : وأتى بسواد بَطنهَا فَقيل : الكبد ، وَقيل حشْوَة الْبَطن كلهَا . [ فتح الباري لابن حجر 1/ 135 ]
 (بسواد الْبَطن) هُوَ الكبد ، قَالَه النَّوَوِيّ. وَقَالَ الْكرْمَانِي : اللَّفْظ أَعمُّ مِنْهُ ، يَعْنِي: يتَنَاوَل كل مَا فِي الْبَطن من كبدٍ وَغَيره. قلت: الَّذِي قَالَه النَّوَوِيّ أقوى فِي المعجزة. [ عمدة القاري شرح صحيح البخاري 13/ 172 ]
(سواد البطن) : الكبد. [ جامع الأصول 11/ 363 ]

غریب الحدیث کے مصنفین کے اقوال :
قوله : "وَأَتَى بِسَوَادِ بَطْنِهَا" قيل: الكبد خاصة. وقيل: حشوة البطن كلها. [ مطالع الأنوارعلى صحاح الآثارلابن قرقول 5/ 545 ]
بسواد الْبَطن فشُوي ، يَعْنِي : الكبد . [ تفسيرغريب ما في الصحيحين البخاري ومسلم للحميدي ص: 387 ]
وفي حديث آخر: ( فأمر بسَوَاد البطن فشُوِي له ) أي بالكبد. [الغريبين في القرآن والحديث للهروي 3/ 951 ]
سَواد الْبَطن: الكبد ، وَقيل : هُوَ الْقلب وَمَا فِيهِ والرئتان وَمَا فيهمَا. [ الفائق في غريب الحديث للزمخشري 2/ 248 ]
فِي الحَدِيث : فَأمر بسواد الْبَطن فشُوي لَهُ : أَي بالكبد. [ غريب الحديث لابن الجوزي 1/ 508 ]
 (هـ) وَفِيهِ « فأمَرَ بِسَوَادِ البَطْن فشُوِى لَهُ » أَيِ الكَبد. [ النهاية في غريب الحديث والأثر 2/ 419 ]

علمائے لغت کے اقوال :
وَفِي الحَدِيث: (فأَمَرَ {بسَوَادِ البَطْنِ فَشُوِيَ لَهُ) (أَي) الكَبِد. [ تاج العروس (8/ 235 ]
فأَمر بِسَوَادِ البَطن فشُوِيَ لَهُ : الْكَبِدُ. [ لسان العرب 3/ 227 ] 
    
۳ ۔محتمل، یعنی ایسا لفظ جس کا اطلاق پیٹ کے مختلف اجزاء پر بشمول کلیجی کے ، یکساں طور پر ہوتا ہو ۔وہ لفظ ہے (بطن الشاة)یعنی بکری کے پیٹ کےاندرونی حصے، ان میں کلیجی بھی مراد ہونا ممکن ہے، بلکہ بعض علماء نے اس کے ذکر پر اقتصار بھی کیا ہے، تو اگرکلیجی کا احتمال قوی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

(بطن الشاة)کےسلسلہ میں دو روایات ہیں :

۱ ۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کی روایت :

عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ : « أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ، ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . صحيح مسلم حديث 357 (1/ 274)
عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: « كُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ، وَقَدْ تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ ، فَيَأْكُلُ مِنْهُ ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ، وَلَا يَتَوَضَّأُ » . السنن الكبرى للنسائي ، حديث 6627 (6/ 230) .
عَنْ أَبِي رَافِعٍ، مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ذَبَحْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً « فَأَمَرَنِي فَقَلَيْتُ لَهُ مِنْ بَطْنِهَا ، فَأَكَلَ مِنْهُ ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى ، وَلَمْ يَتَوَضَّأْ » . مسند أحمد 23868
.
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : اس بات کی قسم کھاتا ہوں کہ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بکری کا پیٹ ( یعنی پیٹ کے اندر کی چیزیں مثلا دل ،کلیجی وغیرہ) بھونتا تھا ، آپ اس سے کھا تے تھے ، پھر نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے اور وضو نہ کرتے ۔

شراح حدیث کے اقوال :
عن أبي رافع قوله : ((بطن الشاة)) يعني الكبد وما معها من القلب وغيرهما. شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 765)
(لقد كنت أشوي لرَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم بطن الشَّاة، ثمَّ صلى وَلم يتَوَضَّأ )
المُرَاد بِبَطْنِهَا مَا فِي الْبَطن من الكبد وَغَيره.  كشف المشكل من حديث الصحيحين (4/ 33)
 (عَنْ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : أَشْهَدُ لَكُنْتُ أَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَطْنَ الشَّاةِ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ ) وَقَوْلُهُ ( بَطْنَ الشَّاةِ ) يَعْنِي الْكَبِدَ وَمَا مَعَهُ مِنْ حَشْوِهَا ، وَفِي الْكَلَامِ حَذْفٌ تَقْدِيرُهُ : أَشْوِي بَطْنَ الشاة فيأكل منه ثم يصلي ولايتوضأ ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ . شرح النووي على مسلم (4/ 46)
( بَطْنَ الشَّاةِ ) : يَعْنِي الْكَبِدَ وَالطِّحَالَ وَمَا مَعَهُمَا مِنَ الْقَلْبِ وَغَيْرِهِمَا . مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 369)

۲ ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت :

384 - عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى فُلَانَةَ بَعْضِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَتْ: " دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي بَطْنٌ مُعَلَّقٌ فَقَالَ: لَوْ طَبَخْتِ لَنَا مِنْ هَذَا الْبَطْنِ كَذَا وَكَذَا. قَالَتْ: فَصَنَعْنَاهُ فَأَكَلَ , وَلَمْ يَتَوَضَّأْ " شرح معاني الآثار (1/ 65)

ترجمہ : حضرت محمد بن منکدر تابعی فرماتے ہیں کہ : میں ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ : ہمارے پاس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمارے یہاں بکری کے پیٹ کا حصہ لٹکا ہوا تھا ، آپ نے فرمایا : اگر اس میں سے ہمارے لئے پکا دو تو کتنا اچھا ہو ( ہم کھالیں ) چنانچہ ہم نے اسے پکا دیا ، آپ نے اسے کھایا ۔

قال العيني في : "نخب الأفكار" (2/ 26) :  وأراد "بالبطن" ما يحتوي عليه البطن من الأحشاء.

الخلاصہ :
۱ ۔مضمون بالا میں پیش کردہ روایات کی روشنی میں پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جاسکتا ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلیجی تناول فرمانامتعدد روایات سے ثابت ہے ، چاہے وہ کلیجی اونٹ کی ہو یا بکری کی ، اس لئے مفتی موصوف کا اس کی نفی کرنا درست نہیں ہے ، جبکہ ان کے پاس نفی کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے ۔
۲ ۔کلیجی کھانے کی نفی کرنے کی جو تعلیل مفتی موصوف نے پیش کی یعنی : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نفیس الطبع ہونا ، خوشبو پسند کرنا ، اور ہر قسم کی بدبو سے احتراز کرنا ، یہ بات اجمالاتومسلّم ہے ، لیکن تفصیل میں جاتے ہوئے اس کی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلا دلیل کسی چیز کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کی نسبت کرنا ، روایات کے باب میں بے احتیاطی کی مانند ہے ۔
۳ ۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ہم حسن وقبح یا صواب وخطا کا کوئی معیار اپنے طور پر مقرر کر کے ، اس خود ساختہ معیار پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قیاس کرنے کی کوشش کریں ، بلکہ اس باب میں استناد واعتمادصحیح روایات اور اقوال سلف پرہی ہوگا ۔

قام بجمعه وتلخيصه العبد الضعيف محمد طلحة بلال أحمد منيار

Comments

  1. جزاکم اللہ خیرا

    ReplyDelete
  2. جزاکم اللہ خیرا

    ReplyDelete
  3. فاتحہ خلف الامام کی تحقیق مطلوب ہے

    ReplyDelete
  4. تحلیل آماری مشکل این روزهای دانشجویان مقطع ارشد و دکترا می باشد. “آراداک” با پتانسیلی که در طول یک دهه فعالیت با انواع نرم افزارهای تحلیل آماری چون اس پی اس اس (spss)، پی ال اس (pls)، ای ماس یا ایموس (amos) و …

    ReplyDelete
  5. اسلام علیکم
    مودبانہ عرض ہے کہ کیا اپ ﷺ پر جادو ہوا تھا جو روایات وارد ہیں اس کیا حکم ہے .
    اکبر حسین اورکزئی حالا مقیم بدولۃ قطر

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت