میلاد النبی ﷺ پڑھنے کے مزعومہ فضائل کی تردید





میلاد النبی ﷺ  پڑھنے کے مزعومہ فضائل کی تردید

اور علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ کی طرف سے اظہار براءت

تعارف

علمی خیانت کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ: کوئی تحریر یا تصنیف کسی شخص کی جانب غلط منسوب کر دی جائے۔اپنے عقائد باطلہ کو فروغ دینے کے لئے اہل زیغ و ضلال قدیم زمانےسے یہ یہ ہتھکنڈا استعمال کرتے آئے ہیں۔
پچھلی صدی میں کسی نے ایسی ہی ایک حرکت کی۔مولد النبی پر انتہائی غیر مستند،موضوع واباطیل پر مشتمل کوئی مواد مرتب کر کے اس پر ٹائٹل لگا دیا:
النعمۃ الكبرى على العالم
 فى مولد سيد ولد آدم
اور مصنف کا نام لکھ دیا:حافظ ابن حجر ہیتمی مکی۔
یہ چیز اہل علم وحق کے لئے بڑی پریشانی و فکر کا باعث تھی۔اس سلسلہ میں مکرمنا ومحترمنا الحاج الشیخ طلحہ بلال احمد منیار سلمہ اللہ وعافاہ سے مراجعت کی گئی۔تو شیخ نے تفتیش کی،تحقیق کی۔اس کا جو رپورٹ آیا،وہ اس مضمون میں شیخ نے اپنے مخصوص انداز میں سپرد قلم فرمایا ہے۔شیخ اس پر ہم سب کی جانب سے تبریک وتحسین کے مستحق ہیں۔

فجزاکم اللہ خیرا وبارک فی علمہم وعملہم،ووفقہم للمزید،وایانا للاستفادة بعلومهم والعمل،ولخدمة دينه.اللهم تقبل منا،انك انت السميع العليم.
محمد ابو زاهر سورتى
١٠/٥/١٤٤٠
١٧/١/٢٠١٩

غلو ہر چیز میں چاہے وہ دین کی کوئی ثابت شدہ بات ہی کیوں نہ ہو ، مذموم ہے۔مگر غلو حدود سے تجاوز کرکے کذبِ بیانی پر محمول کردے تو اس کی قباحت میں تردد نہیں  ، اور اگر مکذوبہ باتوں کی نسبت ایسی شخصیات کی طرف کی جائے جن سے ان باتوں کا صدور ہر عاقل کے نزدیک بعید تر ہو ، تو پھر ایسی حرکت کو سفید جھوٹ اور حماقت سے تعبیر کرنا زیادہ موزون ہوگا۔

کچھ ایسی ہی صورتِ حال علامہ ابن حجر مکی ھیتمی شافعی کی کتاب (النعمةُ الكبرىٰ علىٰ العالم في مَولد سيّد ولدِ آدم)کے ساتھ پیش آئی ، کہ اہل علم کی تھوڑی سی غفلت پاکر کسی نابلد نےاصل کتاب کے بجائے میلاد پر لکھا گیا اور کوئی رسالہ اسی نام (النعمۃ الکبری)سے موسوم کر کے، اور اس کی نسبت ابن حجر مکی کی طرف کرتے ہوئے، اس میں محفل میلاد النبی منانے کےبیہودہ اور من گھڑت  فضائل شامل کرکے کتاب کوچھپواکرخوب پھیلادیا۔

ایک طرف تو اس کتاب کے مصنف کا عالی مقام اور شہرتِ علمی ، اور دوسری طرف ان گھڑے ہوئے فضائل کو خلفائے اربعہ راشدین اور امت کے مشہور اولیاء وبزرگان دین کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرنا ۔مذکورہ دونوں باتوں سے جہلاء کی تو ڈھارس بندھ گئی ، اور ان کو اپنی مبتدعہ رسوم کے لئے جواز مل گیا ، اس پر طرفہ کہ بعض جہلاء  ان من گھڑت فضائل کو علامہ ابن حجر مکی کے حوالے سے، اہل حق کے سامنے بطورحجت ودلیل پیش کرنے لگے ، اور سادہ لوح اشخاص کو اپنے داموں میں پھنسانے کے لئے استعمال کرنے لگے ۔

اس صورتِ حال سے بعض اہل علم کو تشویش ہوئی ، انہوں نے مجھ سے ان (مزعومہ فضائل) کی بابت تحقیق طلب کی ، میں نے سب سے پہلے تو علامہ ابن حجر مکی کی(میلاد النبی ﷺ) پر لکھی گئی کتابوں کے قلمی نسخے تلاش کئے ، کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ یہ مذموم حرکت کا ارتکاب صرف مطبوعہ نسخوں کی حد تک کیا گیا ہے ، اور قریبی زمانے میں ہی کیا گیا ہے ، لہذا قدیم قلمی نسخے اس سے پاک ہوں گے۔

اس تحقیق وتفتیش کے نتیجے میں مندرجہ ذیل حقائق منکشف ہوئے :

علامہ ابن حجر احمد بن محمدمکی شافعی رحمہ اللہ(۹۰۹ھ۔۹۷۳ھ)کی میلاد النبی ﷺ کے موضوع پر لکھی گئی تین کتابیں ہیں :

         ۱ ۔مولد کبیر،اس کا نام ہے (النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدم)یا(اتمام النعمۃ الکبری علی العالم بمولد سید ولد آدم)۔

اس کے دوقلمی نسخے:(دارالکتب المصریہ برقم ۱۴۰۴) اور(جامعۃ الامام محمد بن سعودبرقم۱۱۲۴/۲)
کےدستیاب ہوئے،نیزدار الکتب العلمیہ کا مطبوعہ سنہ ۲۰۰۱ء ۔

کتاب کا آغاز ہے  :

أحمدُ الله أتمَّ الحمد وأكملَه ، وأشكره أفضلَ الشكر وأشمَلَه ، إذ بَعَث فينا رسولَه الأعظَم ، ونبيَّه الأكمَلَ الأفخَم ، وجَعَلنا خيرَ أمة أخرِجَت للناس وهُدًى ورحمة ، وأزال عَنّا كلَّ إِصرٍ وغُمَّة ...إلخ

اس کے بعد مصنف نے تاریخ تصنیف اور سبب تصنیف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :

وبعد : فإنه لمَّا كان ليلةُ الأحد ثامنَ شهرِ ربيع الأول سنةَ أربع وستين وتسع مئة خَطَر لي أن أكتبَ ورقاتٍ في بيان أصل عَمَل المولِدِ النبويِّ في هذا الشهر ، ثم ذِكْرِ ما له ذِكرٌ في كُتُب حُفَّاظ المحدِّثين مما سَلِم من وَضْع الوضَّاعين وافتراءِ الكذَّابين ، غيرَ مُتَحاشٍ فيه عن ذكر الضعيف ، بل هو أكثرُه ولا يَضرُّ ، لأن بابَ الفضائل والمَنَاقب كما قاله بعضُ الحفاظ الجامعِين بين المعقول والمنقول يُكتفىٰ فيها بالحديث الضعيف ، لا سيَّما مع الإشارة إلى ضَعفه بنحو " رُوي ويُروى ونُقِل " .
دعاني إلى ذلك اختلافُ الناس في أصل عمل المولد هو بدعةٌ أو لا ، وإكثارُ القُصَّاص والوُعَّاظ ذكرَ أخبار موضوعة وحكاياتٍ وأشعارٍ موضوعة ، غيرَ مُستَحيِين من الله ورسوله في الكذب عليهما عَمدًا تارةً وجهلا أخرىٰ ...

ترجمہ : مجھے شبِ یکشنبہ ،آٹھ ربیع الاول ،سنہ۹۶۴ھ میں اچانک خیال آیا کہ اس مہینہ میں جشن میلاد النبی ﷺمنانے کی اصل تاریخ کے بارے میں لکھوں ، اور اس سلسلہ میں حفاظ حدیث کی کتابوں میں وارداُن فضائل ومناقب کابھی ذکر کروں جو افترا  پردازوں اور جھوٹی روایات تراشنے والوں کی مرویات سے پاک ہوں ۔

تاہم ضعیف روایات ذکر کرنے سےمیں نےبالکلیہ احتراز بھی نہیں کیا ہے  بلکہ اکثر مشتملات کا یہ حال ہے،لیکن اس میں کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ فضائل ومناقب کے باب میں (جیساکہ بعض حفاظ حدیث کی رائے ہے کہ) ضعیف روایات کی گنجائش ہے، خصوصا جبکہ ان کے ضعف کی طرف  " رُوي ويُروى ونُقِل " جیسے الفاظ سے اشارہ بھی کردیا جائے ۔

بہر حال ،میرے اس رسالہ کی تصنیف کے محرکات میں سے ایک تو لوگوں کی جشن میلاد کے بارے میں اختلاف رائے ہے ، کہ اس کا منانا  بدعت ہے یا نہیں ؟  اور دوسرا محرک واعظین اور قصہ گومقررین  کا شرم وحیاکےلبادہ کو اتارتے  ہوئے میلاد النبیﷺکے بارے میں من گھڑت قصے کہانیاں اورمکذوبہ اشعار بیان کرنا ، عمدا یا جہلا ۔

پھر مصنف نے کتاب کے ابواب وفصول کو بیان کرتے ہوئے فرمایا :

ورتَّبتُه على بابين وخاتمة ، الباب الأول في المقدِّمات وفيها فصول :

الفصل الأول : في أصل عَمَل المولِد :

اعلم أنه بدعةٌ ، لأنه لم يُنقَل عمَّن سَلَف من القُرون الثلاثة التي شَهِد النبيُّ ﷺ بخَيريَّتها ، لكنها بدعةٌ حَسَنةٌ لِمَا اشتملتْ عليه من الإحسان الكثير للفقراء ، ومن قراءة القرآن ، وإكثار الذكر ، والصلاة على النبي ﷺ والمَحَبة له ، وإغاظةِ أهل الزَّيغ والعِنادِ من الزَّنادِقة والمُلحِدين والكفَرة والمشركين .

ولأجل ذلك لَمَّا ظهرتْ بعدَ تلكَ القُرون الثلاثة لم تَزَل أهلُ الأقطار في سائر المدن والأمصار يحتفلون بعَمَل المولد في شَهرِه ...إلخ


ثم أورد بعض الأخبار عن إقامة الناس في بلاد الشام ومصر وغيرهما للولائم والاحتفالات بهذه المناسبة ، مع ذكر تحسين بعض أهل العلم لذلك في الأعصار المتأخرة كالشمس الجزري ، وابن دحية ، وأبي شامة ، والحافظ ابن حجر العسقلاني ، وولي الدين العراقي ، وأبي إسحاق إبراهيم ابن جماعة ...

ترجمہ : پہلی فصل : جشن میلاد النبی ﷺکی اصل :
جان لینا چاہئے کہ یہ بدعت ہے ، اس لئے کے اس کا ظہور قرون فاضلہ ثلاثہ کے بعد ہوا ، مگر یہ جشن چند اعمال پر مشتمل ہونے کی وجہ سے بدعتِ حسنہ ہے ، جیسے : فقراء پر احسان ، تلاوتِ قرآن ، ذکر اللہ اور درود شریف کی کثرت ، آپ ﷺ سے اظہار محبت ، اور معاندین مخالفین کے لئے سخت برہمی کا سبب ہونا۔

اس لئے شروع کی تین صدیوں کے بعد جب اس کا ظہور ہوا ،تو  اس وقت سے لیکر آج تک مسلسل مختلف ممالک میں بہت سے لوگ میلاد کا جشن منانے کا اس مہینہ میں اہتمام کرتے ہیں۔

پھر ابن حجر نےجشن میلاد کےسلسلہ میں اہل شام ومصر وغیرہ کا مجالس ومحافل وولائم منعقد کرنے کااہتمام کرنا ، اور ان دنوں میں کثرت سےاطعام واکرام اور خیرات وصدقات کرنے کا تذکرہ بھی کیا ہے، اس کے ساتھ بعض متاخرین اہل علم کے تاییدی اقوال بھی ذکر کئےجوان رسوم ومحافل کو بنظر تحسین دیکھتے تھے ،جیسے ابن الجزری،ابن دحیہ ،ابو شامہ مقدسی،ابن حجر عسقلانی، ولی الدین عراقی ، ابراہیم ابن جماعہ وغیرہم۔

ملاحظہ فرمائیں کہ تایید وتحسین کرنے والے علماء ، سب کے سب چٹھی یاساتویں صدی ہجری وما بعدہ کے ہیں ، کیونکہ عید میلاد النبی ﷺکی رسم کی ابتداکرنے والےعراق میں واقع اربل شہرکے چھٹی صدی ہجری کےحاکم ملک مظفر ابو سعید کوکبری ترکمانی (مولود۵۴۹ھ۔متوفی ۶۳۰ھ) ہیں۔

الفصل الثاني : في قبائحَ صَدَرت من الناس مُقتَرِنة بعمل المواليد ...

پھر من جملہ ان قبائح کے فرمایا :

ومنها : أنهم في تلك المواليد يأتون لمن يقرأ إليهم المَولد الشريف ، على الكيفية التي ألفها الوُعَّاظ في هذه الأزمنة , وذلك مُنكرٌ أيَّ منكرٍ ، لأن الكثرةَ كذبٌ وبهتانٌ واختِلاق ، بل لم يزالوا يُوَلِّدون فيه ما هو أقبحُ وأسمَجُ بما لا تَحِلّ روايتُه ولا سَمَاعُه ...

ترجمہ : میلاد النبی ﷺ کے جشن میں بعض لوگوں نے چند منکرات وممنوعہ افعال بھی منسلک کرلئے ہیں ، منجملہ ان قبائح کے یہ ہے کہ : مولود شریف پڑھنے کے لئے لوگ ایسے رسائل کا انتخاب کرتے ہیں جن کو معاصر واعظین نے مرتب کئے ہیں ، اور جن کی اکثر باتیں بے اصل اور گھڑی ہوئی ہوتی ہیں ، بلکہ واعظین اس سلسلہ میں مزید ایسی مضحکہ خیز کہانیاں بھی بڑھاتے رہتے ہیں جن کا نقل کرنا اور سننا جائز نہیں ہے ۔

الفصل الثالث : في تفضيل ليلة المولد على ليلة القدر .

الباب الثاني : في المقاصد ، وفيها فصول أيضا :
الفصل الأول : في ذكر نَسَبه الشريف .
الفصل الثاني : في ذكر نُبَذ من أصل خَلْقِه ﷺ أولا وآخرا ، وفي ذكر نُبَذ من كراماته التي ظهرت في بعض آياته .
الفصل الثالث : في ذكر شَرَف النسب الشريف .
الفصل الرابع : في تزوُّج عبد الله بآمنة .
الفصل الخامس : في حَمْلِه ﷺ.
الفصل السادس : في ولادته ﷺ.
الفصل السابع : في رَضَاعه ﷺ وبعضِ أحواله الأخرى إلى بلوغه الأربعين .

الخاتمة : في تلخيص ما سَبَق ليَسهُل حفظه وقراءته في مجلس واحد .

مولد کبیر کا خاتمہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ، اس لئے کے مصنف نے بعد میں جب اس کا اختصار کیا ، تو مختصرات کی اصل متن (ان کی زمین)کے مندرجات تھوڑی بہت کمی بیشی کے ساتھ یہی ہیں جو یہاں خاتمہ میں مذکور ہیں ۔

یہ تقریبا (مولد کبیر)کے اہم مضامین ہیں ، سر دست ان کے مندرجات کی تنقید مراد نہیں ہے ، اگرچہ ان میں ابن حجر نے بعض منکر روایات بھی نقل کی ہیں ، لیکن انہوں نے ہر روایت کا مرجع ومصدر ذکر کیا ہے ، اور شدید الضعف مرویات پر جرح وقدح بھی صراحتا کی ہے۔

مولد کبیر کی تفصیلات ذکر کرنے سے میرا مقصد ہے : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کی طرف منسوب مولد جو اسی نام (النعمۃ الکبری)سےپہلی بارمصر اور ترکیا سے سنہ ۱۳۷۱ھ میں شائع ہواہے ، اس کی تردید مطلوب ہے ،مطبوعہ کا آغاز اس خطبہ سے ہے :

الحمد لله الذي نوَّر وقَوَّى هذه الأمة الضعيفة بوجود محمد صلى الله عليه وسلم سيد المرسلين . الذي ألبسه الله تاجَ النبوة وجعله نبيَّ الأنبياء . وآدم مُنجدِل مندَمج في الطين . اصطفاه حبيبًا طيبًا خصوصاً من بين هذا العُموم أجمعين . فقال ربنا تبارك وتعالى وهو أصدق القائلين : (وما أرسلناك إلا رحمة للعٰلَمين) ...إلخ

پھر اس کے بعد مقدمہ ہی کے ضمن میں جشن میلاد کے من گھڑت اور مضحکہ خیز فضائل بلا اسانید خلفائے راشدین ، اور مشہور اولیاء وبزرگان دین کی طرف منسوب کرکے ذکر کئے ہیں۔

اس کے بعد اس مطبوعہ مولود کے جو مضامین ومندرجات ہیں وہ بھی ابن حجر کی اصل کتاب سے مختلف ہیں ، بلکہ عجیب وغریب قسم کے منکرات وخرافات پر مشتمل ہیں۔

تو بتانا یہ ہے کہ یہ مطبوعہ مولود بنام (النعمۃ الکبری)سے حافظ ابن حجر مکی شافعی رحمہ اللہ تعالی کا دامن بالکل پاک ہے ، اس کی نسبت ان کی طرف سراسر جھوٹ اور دروغ گوئی ہے ، چند وجوہات کی بنا پر :

پہلی وجہ : اس مزعومہ مولود کا کوئی قلمی نسخہ نہیں ہے جو ثابت کرسکے کہ اس کے مصنف ابن حجر مکی ہیں ۔

دوسری وجہ:کتاب کا خطبۂ افتتاحیہ (الحمد لله الذي نوَّر وقَوَّى هذه الأمة الضعيفة )بھی ابن حجر کی اصل کتاب یعنی مولد کبیر(النعمۃ الکبری)کے خطبے(أحمدُ الله أتمَّ الحمد وأكملَه)سے مختلف ہے ۔

تیسری وجہ :اصل کتاب(النعمۃ الکبری)کی مقدمہ  میں اور اس کی پہلی فصل میں ابن حجر مکی نے جشن میلاد کو قرون ثلاثہ کے بعد ظہور پذیر ہونے کی بناء پربدعت قرار دیا ہے، جیساکہ اوپرمولد کبیرکےتعارف میں گذرچکا۔

 پھرپتہ نہیں (مطبوعہ مولود)میں اس کےمزعومہ فضائل خلفائے راشدین،نیز حضرت حسن بصری(۱۱۰ھ)معروف کرخی (۲۰۰ھ)اورجنید بغدادی(۲۹۷ھ)وغیرہ متقدمین اولیاء سے اچانک کیسے اور کب صادر ہوئے؟ اور اس طرح کےفضائل سے(میلاد النبی ﷺ) پر لکھی گئی بیشمارکتابیں اور رسائل کیوں خالی ہیں؟

مزید بر آں : رسم میلاد کی تحسین وتایید کرنے والے متقدمین مصنفین نے اپنی کتابوں میں جہاں اس کے ثبوت کےدلائل ذکر کئے ہیں ، وہاں ان مکذوبہ اقوال کو(اگر مستند ہوتے)بطور دلیل پیش کرنے سےکیوں اعراض کیا ؟

اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے ، سوائے اس بات کے اعتراف کرنے کے کہ :یہ مزعومہ فضائل سب من گھڑت ہیں ، کسی بے وقوف نے گھڑے ہیں ، کیونکہ اس طرح کی نازیباحرکت کا ارتکاب علامہ ابن حجر مکی سے ناممکن اور غیر معقول ہے ۔

بس عقلمند کو باور کرانے کے لئے اتنا کافی ہے ، ہاں بیوقوفوں کا کوئی علاج نہیں ہے، جو ہر بات کو آنکھ پر پٹی باندھ کرتسلیم کرنا کمال عقل سمجھتے ہیں، چاہے وہ حقائق تاریخیہ سے کتنے متصادم ہی کیوں نہ ہوں۔

چوتھی وجہ :مطبوعہ مولود کا نام بھی غلط ہے ، کیوں کہ ابن حجر مکی نے یہ نام (النعمۃ الکبری)اپنے بڑے رسالہ کے لئے تجویز کیا ہے ، جس کے مضامین اور ابواب کی تفصیل گذر چکی ہے۔مولد کبیر کی مختصرات کابھی  یہ نام نہیں ہے، جیساکہ آئندہ آرہاہے۔

پانچویں وجہ :مولد کبیر (النعمۃ الکبری)کے مختصرات اور ان پر لکھے گئے حواشی اور شروحات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ :مطبوعہ (النعمۃ الکبری)ابن حجر مکی کی تصنیف نہیں ہے ، اور اس کی نسبت ان کی طرف غلط ہے ۔جیساکہ مولد متوسط میں عرض کیا جائے گا ۔

تنبیہ : دار الکتب العلمیہ سے جو مولد (اتمام النعمۃ الکبری)کے نام سے شائع ہوا ہے ، اس کی نسبت ابن حجر مکی کی طرف درست ہے ، مگر اس مطبوعہ میں طباعت کی اغلاط ہیں۔

          ۲ ۔ مولدمتوسط ،اس کانام ہے (تحفۃ الأخیار فی مولد المختار)اور اختصاراً:مولد ابن حجر سے مشہور ہے۔

          یہ مولدبہت مشہور ومعروف ہے ، اس کا آغاز ہے :

            الحمد لله الذي بَعَث فينا رسولَه الأعظَم ، ونبيَّه الأكمَل الأفخَم ، صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلَّم ، وشَرَّفَ وكرَّمَ وعَظَّمَ . أما بعد : فإن أصدق الحديثِ كتابُ الله تعالى ، وخيرَ الهدي هديُ سيدنا محمد صلى الله عليه وسلم ، وقد قال الله تعالى في كتابه المبين ، وهو أصدق القائلين : (لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَاعَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ * فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ*)[سورة التوبة].

          اس کے دوقلمی نسخے (دار الکتب المصریہ۱۳۹۴/حدیث)اور(جامعۃ الامام محمد بن سعودریاض۱۴۴۶)
کےدستیاب ہوئے۔

          یہ (مولد کبیر )کا اختصار ہے ، ابن حجر نے اس میں ابواب وفصول قائم نہیں کئے ہیں ، بلکہ مولد کبیر کا لُبّ لُباب ایک متنِ کتاب کی شکل میں سرداً   ذکر کیا ہے ،شروع میں سورہ توبہ کی  آخری دو آیتوں کے بعد:خصائص النبی ذکر کئے ، پھر نسبِ شریف ،پھر بقیہ مضامین باختصار۔

مولد متوسط کی ایک خصوصیت یہ ہےکہ اس پر اہل علم کے بکثرت حواشی ہیں ،مثلا:
۔ تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر ،مصنف:شیخ ابراہیم باجوری مالکی
۔ بہجۃ الفکر علی مولد ابن حجر ، مصنف:شیخ محمد محلی
۔ تقریرات علی مولد ابن حجر،مصنف:شیخ احمد العدوی
۔ حاشیہ علی مولد ابن حجر،مصنف شیخ محمد یوسف قش ترکی

شیخ ابراہیم باجوری مالکی نے (تحفۃ البشر علی مولد ابن حجر)کے مقدمہ میں مصنفِ کتاب علامہ ابن حجر مکی تک اپنی سند بھی ذکر کی ہے ، جو اس طرح ہے :

سَنَدنا بهذا الكتاب : نرويه عن شيخنا الأمير الكبير ، وهو يرويه عن شيخه السقَّاط ، وهو يرويه عن سيدي محمد الزُّرقاني ، وهو عن والده الشيخ عبد الباقي الزُّرقاني الكبير ، وهو يرويه عن سيدي علي الأجهُوري، وهو يرويه عن سيدي محمد الرَّملي الصغير ، وهو يرويه عن شهاب الدين أحمد بن محمد بن حَجَر المؤلف.[مخطوطات جامعة الملك سعود5038]

          ۳ ۔ مولدصغیر ،یہ (مولد ابن حجر )کے نام سے مشہور ہے۔

        اس میں مصنفِ کتاب علامہ ابن حجر نے تنقیح وتحریر کرتے ہوئے مزید اختصار سے کام لیا ، اور بعض اخبار وروایات کو حذف کردیا ،اور بالکل مختصر متن پیش کیا تاکہ ایک ہی مجلس میں اس کا پڑھنا آسان ہو ۔مولد صغیر کے متعددقلمی نسخےدستیاب  ہوئے ۔[جامعۃ ابن سعود۷۰۲،مکتبۃقطر۲۲۰،۲۲۲،۲۲۶،معہد الدراسات طوکیو۱۴۴۳]

          اس مولد کا خطبۂ افتتاحیہ ذرا طویل ہے ،اورآغاز ان الفاظ میں ہے :

            الحمدُ لله الذي شَرَّف هذا العالَم بمَولد سيّد ولدِ آدم ، وكمَّل به سُعُودَ الأنبياء والمرسَلين...

          اس کے بعد قرآن مجید کی عظمت وبلندیٔ مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے،وہ آیات پیش کیں جو حضور ﷺ  کی عظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔

پھرحضور ﷺ معجزات وکمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

ولو لم يكن مِن ذلكَ إلا مَا ظَهَرَ عند حَملِه وقُبَيلَه ووقتَ ولادته وفي أيَّام رَضَاعه وتربيتِه : لكَفىٰ ، كما جمعتُ ذلك في كتابٍ سمَّيته (النعمة الکبرىٰ علىٰ العالم في مولد سید ولد آدم ) بأسانيده التي نَقَلها أئمةُ السُّنَن والحديث ، المَوصُوفونَ بالحِفظ والإتقان والجَلَالة والبُرهان في القَديم والحَدِيث، ممَّا هُوَ سالمٌ مِن وَضع الوَضَّاعين وانتحال الملحِدين والمُفتَرين ، لا كحالِ أكثرِ المواليد التي بأيدي الناس ، فإن فيها كثيراً من الكذب  الموضوع ، المختَلَق المصنوع .

پھر اختصار کی غرض واضح فرماتے ہوئے لکھا ہے :

لكنَّ في ذلك الكتابِ بَسْطٌ لا يَتِمُّ معه قراءتُه في مجلسٍ واحدٍ ، فاختصرتُه هُنا بحَذف أسانيده وغَرَائبه ، واقتصرتُ منه على ما يُسنِدُه مُتَابعٌ أو عاضِدٌ ، رَومًا للتسهيل على المَادِحِين ...

ترجمہ : اگرحضورﷺ کے معجزات وکمالات میں سے صرف ان امور کا تذکرہ کیا جائے ، جن کا ظہور آپ ﷺکے حمل ، ولادت ، رضاعت ، اور پرورش  کے وقت ہوا ، تو وہ کافی ووافی ہوں گے۔جیساکہ میں نے ان امورکو اپنی کتاب موسوم بہ(النعمۃ الکبری)میں جمع کیا ہے ، ایسی اسانید سے جن کوحفظ واتقان سے موصوف  ائمہ حدیث نے نقل کیا ہے ، اور جوگھڑنے والوں اور افتراءپردازوں کی غلط بیانیوں سے محفوظ ہیں ،نہ کہ میلاد النبی پر لکھے گئے ان رسائل کی طرح  جو لوگوں کے ہاتھوں میں  ہیں ، کہ ان میں  اکثر رسائل جھوٹی حکایات اور من گھڑت روایات سے لبریز ہیں۔

لیکن اس کتاب (یعنی النعمۃ الکبری)میں کافی طول وتفصیل ہے ، جس کے ہوتے ہوئے اس کا ایک مجلس میں پڑھنا دشوار تھا ، اس لئے میں نے زیر دست کتاب میں مادحین رسول کی  سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئےاختصارسے کام لیا، چنانچہ اسانید وغرائب کو حذف کردیا ، اور روایات میں سے صرف انہی کو لیا جن کے مؤیدات وعواضد موجود ہیں ۔
الخلاصہ:

(النعمة الکبرىٰ علىٰ العالم في مولد سید ولد آدم)کے نام سے جو رسالہ قدیما مصر وترکیا سے ، علامہ ابن حجر مکی کی طرف نسبت کرتے ہوئے چھپا ہے ، اور جس کا آغاز (الحمد لله الذي نوَّر وقَوَّى هذه الأمة الضعيفة )ہے ، اس کی نسبت علامہ ابن حجر مکی کی طرف بالکل غلط ہے ، یہ ان کی تصنیف نہیں ہے ، جس کی وجوہات تفصیلا عرض کردی گئیں ہے۔

لہذااس بات کو اس مضمون میں وارد حقائق ودلائل کی روشنی میں اچھی طرح سے پھیلانے کی ضرورت ہے ، تاکہ علامہ ابن حجر مکی پر لگے ہوئے اس بدنما داغ سے ان کا دامن صاف ہوجائے ، اور ان کی طرف سے دفاع ہوجائے ۔

نیز(مطبوعہ مولود) کے شروع میں جشن میلاد کے متعلق جو مزعومہ فضائل خلفاء اربعہ راشدین اور مشہور بزرگان دین کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ، وہ سب بھی من گھڑت ہیں ، نہ ان کی کوئی اسناد ہے ، نہ مذکورہ اقوال کا اتا پتا کتابوں میں اور میلاد النبی پر لکھی کتابوں اور رسائل میں ملتا ہے ، کیونکہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جشن میلاد کا قرون فاضلہ اولی میں کوئی وجود نہیں تھا ، نہ وہ حضرات اس سلسلہ میں کوئی خاص اہتمام فرماتے تھے ، اس کی ابتداء تو ملک مظفر کوکبری(۵۴۹ھ۔۶۳۰ھ)کے زمانے سے ہوئی ۔

بلکہ اس طرح کے بیہودہ اقوال ان حضرات کی طرف نسبت کرنے میں ان کی توہین ہے ، لیکن غلو میں پڑ کرانسان اتنا اندھا ہوجاتا ہے کے وہ کھلے حقائق سے بھی آنکھیں چراتا ہے ۔

اورکسی مسئلہ میں اتنا غلو ومبالغہ کرنا جو اس کے معتقد کو دروغ گوئی اور افترا پردازی کی حد تک لے جائے ، یہ نہایت افسوس کی بات ہے ، اللہ تعالی سب کو فہم سلیم عطا فرمائے ۔آمین

علامہ ابن حجر مکی شافعی رحمہ اللہ تعالی کی طرف سے دفاع کی بہتر صورت تو یہ تھی کے ان کے مولد کبیر(النعمۃالکبری) کو صحیح نسخوں کی مدد سے طبع کیا جاتا ، لیکن کیونکہ مروجہ محافل میلاد کا کوئی ثبوت بھی نہیں ، اور نہ قرون فاضلہ میں خوشی کے اظہار کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا ، نیز ان رسومات کا بہت سارے مبتدعہ وممنوعہ امور پر مشتمل ہونے کی بناء پر ان کے ممنوع ہونے کا فتوی بھی ہے ۔اس لئے اس کام کےانجام دینے میں تایید  کا شبہ ہونے کی وجہ سے ممکن نہیں تھا، اگرچہ مصنف کتاب علامہ ابن حجر مکی اس کو بدعتِ حسنہ شمار کرتے ہیں ، ان کی وجہتِ نظر اپنی جگہ پر ، لیکن (لکل وجہۃ ہو مولیہا)۔ہاں بغیر قیود کےحضور ﷺ کا تذکرہ کرنا یقینا  ہر وقت موجبِ برکت وسعادت ہے ۔واللہ اعلم

کتبہ العبد العاجز محمد طلحہ بلال احمد منیار عفی عنہ 

Comments

  1. اللہ تعالی قبول فرمائے آمین

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت