لا ادری نصف العلم کی تحقیق



سوال: « لا ادری نصف العلم » کیا یہ حدیث کے الفاظ ہیں؟ اور اس سے مرادکیا ہے؟
الجواب : یہ حدیث مرفوعا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے ، البتہ بعض صحابہ و تابعین سےاس طرح کے الفاظ یا ان کا مفہوم مروی ہے، اس لئے پہلے روایات پیش کی جائیں گی ، پھر مطلب کے بارے میں بحث ہوگی ۔
مطلب واضح کرنے کی غرض سے چند اور باتوں پر بھی بحث کی جائے گی ، جن کے بارے میں (نصف العلم) کہا گیا ہے ۔

صحابہ کرام کی روایات :

۱۔حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ :
 قال أبو عمر بن عبد البر: صح عن أبي الدرداء - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أنه قال: لا أدري نصفُ العلم . [ الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ص: 38] حضرت ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کہا : « میں نہیں جانتا »کہنا ،علم کا آدھا حصہ ہے ۔
قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : قَوْلُ الرَّجُلِ فِيمَا لَا يَعْلَمُ " لَا أَعْلَمُ " نِصْفُ الْعِلْمِ . [ الذخيرة للقرافي 1/ 52] حضرت ابو الدرداء  رضی اللہ عنہ نے فرمایا : آدمی کا اس بات کے بارے میں کہنا جس کو وہ نہیں جانتا  « مجھے  معلوم نہیں  » یہ علم کا آدھا حصہ ہے ۔

۲۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ :
وَحُدِّثْتُ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عِيسَى بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ : سَأَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ بَعْضَ أَصْحَابِهِ عَنْ شَيْءٍ فَقَالَ : لا أَدْرِي، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَحْسَنْتَ، كَانَ يُقَالُ: إِنَّ قَوْلَ لا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ.[ أنساب الأشراف للبلاذري 4/ 52] بلاذری کہتے ہیں : مجھ سےیہ روایت بیان کی گئی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک ساتھی سے کوئی بات دریافت کی ، انہوں نے جوابا "مجھے علم نہیں "کہا ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب کی تحسین فرماتے ہوئے کہا کہ : یوں کہا جاتا ہے کہ : « میں نہیں جانتا » کہنا، علم کا آدھا حصہ ہے ۔

۳۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ :
فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ [4809] عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه مِنْ قَوْلِهِ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ : اللَّهُ أَعْلَمُ ، فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ : اللَّهُ أَعْلَمُ .

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہے تو وہ اس کو بیان کرے ،اور جو نہیں جانتا ہے تو اس کو کہنا چاہئے کہ: « اللہ زیادہ جانتا ہے » اس لئے کہ یہ بھی علم ہی کی بات ہے کہ جو جس چیز کو نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ: اللہ زیادہ جانتا ہے۔

۴۔حضرت علی رضی اللہ عنہ :
وَبِإِسْنَادٍ حَسَنٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قَالَ : مِنْ عِلْمِ الرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ " اللَّهُ أَعْلَمُ " لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ لِرَسُولِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: ﴿ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ ﴾ [سورة ص: 86] ] . الآداب الشرعية والمنح المرعية 2/ 58]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے باسناد حسن منقول ہے کہ : آدمی کے علم کی نشانی یہ ہے کہ وہ جو جس چیز کو نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ: « اللہ زیادہ جانتا ہے »  اس لئے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا : آپ فرمادیجئے : میں اس (تبلیغ) پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا، اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں ۔

۵۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ :
1001 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ: نَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: نَا عُمَرُ بْنُ حُصَيْنٍ قَالَ: نَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: كِتَابٌ نَاطِقٌ، وَسُنَّةٌ مَاضِيَةٌ، وَلَا أَدْرِي» .[ أخرجه الطبراني في الأوسط (1/299) ]
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الْحَافِظُ ،أَخْبَرَنَا حَرَمِيُّ بْنُ أَبِي الْعَلَاءِ الْمُكِّيُّ بِبَغْدَادَ قَالَا :حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ بَكَّارٍ ،حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ دَاوُدَ الزَّنْبَرِيُّ، عَنْ مَالِكٍ ،عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصْيَنِ ،عَنْ طَاوُسٍ كِلَيْهِمَا عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ : كِتَابٌ نَاطِقٌ ، وَسُنَّةٌ قَائِمَةٌ ، وَلَا أَدْرِي. [ذم الكلام وأهله (3/ 165)]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہےکہ : علم کے تین حصے  ہیں : آیتِ محکمہ(جو ناقابلِ نسخ ہو )اور سنتِ رائجہ معمول بہا ، اور تیسرا  « میں نہیں جانتا » کہنا ۔

تابعین کی روایات :

۱۔ امام شعبی رحمہ اللہ  :
186 - أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ ،عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ «لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ» [  سنن الدارمي (1/ 276) ، ورواه الهروي في " ذم الكلام وأهله "(5/ 14) ، والبيهقي في " المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي " (ص: 435) من طريق ابن مهدي عن أبي عوانة به ]۔
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : « میں نہیں جانتا » کہنا، علم کا آدھا حصہ ہے ۔

۲۔ امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ :
قال محمد بن حميد: حدثنا أبوتميلة، حدثنا مصعب بن حيان أخو مقاتل قال: كنت عند عطاء بن أبي رباح فسُئل عن شيء، فقال: "لا أدري نصف العلم، ويقال: نصف الجهل." [ الطبقات الكبرى لابن سعد ۲/۳۸۶ ]
مصعب بن حیان نے بیان کیا کہ : میں حضرت عطاء کی خدمت میں حاضر تھا ، آپ سے کوئی بات دریافت کی گئی تو آپ نے کہا : « میں نہیں جانتا » کہنا ،علم کا آدھا حصہ ہے،یا کہا جاتا ہے کہ :جہل کا آدھا حصہ ہے ۔

۳۔  امام سعید بن عبد العزیز رحمہ اللہ :
حدثنا أبو زرعة قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَقُولُ: لَا أَدْرِي لِمَا لَا أدري : نصف العلم.[ تاريخ أبي زرعة الدمشقي ص: ۳۶۱ ]
ابو مسہر حضرت سعید بن عبد العزیزکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : جس بات کا علم نہ ہو ، اس کے متعلق « میں نہیں جانتا » کہنا، علم کا آدھا حصہ ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ : یہ جملہ (لا أدري نصف العلم)حدیث نبوی نہیں ہے ، جیساکہ تخریج کی کتابوں میں اس کی تصریح ہے ، دیکھئے :[ المقاصد الحسنة (ص: 713) كشف الخفاء (2/ 425) أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب (ص: 315) الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 380) الجد الحثيث في بيان ما ليس بحديث (ص: 254)]

متقدمین کی تشریحات

۱۔ یحیی بن آدم کی تشریح :
قَالَ يَحْيَى: وَتَفْسِيرُ قَوْلِهِ: "لَا أَدْرِي، نِصْفُ الْعِلْمِ" أَنَّ الْعِلْمَ إِنَّمَا هُوَ: أَدْرِي، وَلَا أَدْرِي، فَأَحَدُهُمَا نِصْفُ الْآخَرِ . [ تعظيم قدر الصلاة لمحمد بن نصر المروزي ۱/۴۳۵ ]
یحیی بن آدم کہتے ہیں : : « لَا أَدْرِي، نِصْفُ الْعِلْمِ » کا مطلب یہ ہے کہ : علم کے دو حصے ہیں :جانا ہواحصہ(معلومات)یا نہ جانا ہواحصہ(مجہولات) تو اس طرح سے ہر ایک دوسرے کا آدھا  ہوا۔

۲۔ جاحظ کی تشریح :
وقال سعيد بن عبد العزيز : "من قال : لا أدري ، فقد أحرز نصفَ العلم" لأن الذي له على نفسه هذه القُوة قد دَلَّنا على جَودة التثبُّت ، وكثرة الطَّلب ، وقُوة المُنّة . [ البيان والتبيين ۱/۳۱۴ ]
سعید بن عبد العزیز فرماتے ہیں کہ : جس نے «میں نہیں جانتا »کہا اس نے علم کا آدھا حصہ حاصل کرلیا۔اس لئے کہ جس کو اپنے نفس پر اتنا قابو ہوکہ وہ حقیقت حال صاف صاف بتادے ، تو اس نے اپنی ذات میں بہترین جستجو ، علم کی حرص ، اور محنت وکاوش کی عادت  سے آراستہ ہونے کی اطلاع دی ہے ۔

۳۔ ابن حجر کا قول :
إِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ : «لَا أَعْلَمُ» أَيْ أَنَّ تَمْيِيزَ الْمَعْلُومِ مِنَ الْمَجْهُولِ نَوْعٌ مِنَ الْعِلْمِ ، وَهَذَا مُنَاسِبٌ لِمَا اشْتَهِرَ مِنْ أَنَّ «لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ» وَلِأَنَّ الْقَوْلَ فِيمَا لَا يُعْلَمُ قِسْمٌ مِنَ التَّكَلُّف .[ فتح الباري لابن حجر ۸/۵۱۲ ]
علم ہی کا ایک حصہ  ہے کہ : انسان اس بات کے متعلق جس کو وہ نہیں جانتا ،یوں کہدے کہ : « مجھے معلوم نہیں » اس لئے کہ جانی ہوئی اور نہ جانی ہوئی بات کے مابین امتیاز قائم کرنا بھی ایک طرح کا علم ہے ، اور یہی مطلب اس مشہور عبارت «لَا أَدْرِي نِصْفُ الْعِلْمِ» کا ہے ۔اور کیونکہ لا علمی کے باوجود مجہول چیز کے بارے میں کچھ رائے دینا تکلف کی ایک قسم ہے بلکہ جرات ہے۔

بقیہ باتوں پر بحث جن کو (نصف العلم )سے موسوم کیا گیا

(۱) « حُسْنُ السُّؤَال نصفُ الْعِلم »
زیر بحث الفاظ « لا ادری نصف العلم »کےقریب ایک دوسری روایت وارد ہے ،وہ ہے : « حُسْنُ السُّؤَال نصفُ الْعِلم » .
یہ الفاظ بروایت حضرت انس بن مالک مرفوعا بعض کتابوں میں وارد ہیں ، جیسے : اصلاح المال لابن ابی الدنیا (۳۴۹)ریاضۃ المتعلمین لابن السنی (۲۱۹) لیکن حافظ ابن حجر نے فتح الباري (۱۲/۱۳۸) میں اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔
خطیب بغدادی نے الکفایہ (ص: 166) پر ابن سیرین کا قول نقل کیا کہ : انہوں نے کہا : «التَّثَبُّتُ نِصْفُ الْعِلْمِ». یعنی کسی بات کی جانچ پڑتال کرنا بھی اس بات کی مکمل جانکاری حاصل کرنے کا آدھا حصہ ہے ۔

« حُسْنُ السُّؤَال نصفُ الْعِلم » کا مطلب :
مطلب یہ ہے کہ کسی علمی مسئلہ میں خوب سوچ سمجھ کر اور اچھی طرح سوال کرنا آدھا علم ہے ،کیونکہ جو شخص سوال کرنے میں دانا اور سمجھ دار ہوتا ہے ،وہ اسی چیز کے بارے میں سوال کرتا ہے جو بہت زیادہ ضروری ہو اور بہت کارآمد ہو ،اور چونکہ وہ اپنے علم میں اضافہ کا متمنی ہوتا ہے ،او اس کے ساتھ ہی وہ پوچھی جانے والی چیزوں کے درمیان تمیز کرنا جانتا ہے کہ: کیا پوچھنا چاہیے اور کس سے پوچھنا چاہیے، اس لئے جب وہ اپنے سوال کا جواب پا لیتا ہے تو حل طلب مسئلہ میں اس کا علم پورا ہو جاتا ہے، اس اعتبار سے گویا علم کی دو قسمیں ہوئیں : ایک تو سوال اور دوسرے جواب۔
رہی یہ بات کہ: اچھی طرح سوال کرنے کا مطلب ،تو جاننا چاہیے کہ اچھے سوال کا اطلاق اس سوال پر ہوتا ہے کہ جس کے تمام پہلوؤں کی تحقیق کر لی گئی ہو، اس میں جتنے احتمالات پیدا ہو سکتے ہیں ان سب کی واقفیت ہو، تاکہ شافی کافی جواب پائے ،اور جواب میں کوئی پہلو تشنہ نہ رہنے پائے ۔اس طرح کا سوال بذات خود علم کی ایک شق ہوگا۔اور اس پر یہ اشکال وارد نہ ہوگا کہ :جب سوال کرنا جہل اور تردد پر دلالت کرتا ہے ،تو سوال کرنے کو نصف علم کس طرح کہا گیا ہے؟
تاہم مذکورہ اشکال کے پیش نظر ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ :جو شخص خوب سوچ سمجھ کر اور صحیح اندازہ میں سوال کرتا ہے اس کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ: یہ ایک ایسا شخص ہے جو علمی ذوق کا حامل ہے، اور علم میں اپنا کچھ حصہ ضرور رکھتا ہے، اور اس بات کا خواہش مند ہے کہ اپنے ناقص علم کو پورا کرے، لہذا اس کے سوال کو نصف علم کہنا موزوں ہوگا۔ اس کے برخلاف جو شخص بغیر سوچے سمجھے اس اور خراب انداز میں سوال کرتا ہے ،وہ اپنے اس سوال کے ذریعہ اپنے نقصان عقل و کمال اور جہالت پر دلالت کرتا ہے۔ (مظاہر حق)
خلاصہ یہ ہے کہ : اچھا سوال نصف علم ہے ، کیونکہ آدھا علم اچھے سائل کے سوال میں آگیا ، اور آدھا علم جواب دینے والے کے جواب میں آگیا ، لہذا سلیقہ سے سوال کرنا علم کے اضافہ کا ذریعہ ہے جو نصف علم ہے ، اچھے سوال کا اچھا جواب آئے گا تو سائل کا نصف علم جواب سے پورا پوجائے گا ، اور مسئول کا نصف علم سائل کے سوال سے پورا ہوجائے گا۔ تو اچھا سوال سائل ومسئول دونوں کے لئے نصف علم ہے۔(توضیحات)

 (۲) « عِلم الفَرائضِ نصفُ الْعِلم »

علم مواریث کو(نصف العلم) کہا گیا ہے ، جیساکہ روایت ہے :
«تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا النَّاسَ، فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ» [ سنن ابن ماجة 2719].

قَالَ الطِّيبِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: وَإِنَّمَا سَمَّاهُ نِصْفَ الْعِلْمِ إِمَّا تَوَسُّعًا فِي الْكَلَامِ، أَوِ اسْتِكْثَارًا لِلْبَعْضِ، أَوِ اعْتِبَارًا لِحَالَيِ الْحَيَاةِ وَالْمَمَاتِ ، وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.

قَالَ السَّيِّدُ الشَّرِيفُ: وَإِنَّمَا جَعَلَ الْعِلْمَ بِهَا نِصْفَ الْعِلْمِ إِمَّا : لِاخْتِصَاصِهَا بِإِحْدَى حَالَيِ الْإِنْسَانِ، وَهِيَ الْمَمَاتُ ، دُونَ سَائِرِ الْعُلُومِ الدِّينِيَّةِ فَإِنَّهَا مُخْتَصَّةٌ بِالْحَيَاةِ ، وَإِمَّا لِاخْتِصَاصِهَا بِإِحْدَى سَبَبْي الْمِلْكِ، أَعْنِي الضَّرُورِيَّ دُونَ الِاخْتِيَارِيِّ لِشِرَاءِ وَقَبُولِ الْهِبَةِ وَالْوَصِيَّةِ وَغَيْرِهَا، وَإِمَّا لِلتَّرْغِيبِ فِي تَعَلُّمِهَا لِكَوْنِهَا أُمُورًا مُهِمَّةً .[ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح 5/ 2034 ]

قَوْله : "فَإِنَّهُ نصف الْعلم" قَالَ السُّبْكِيّ فِي "شرح الْمِنْهَاج" :  قيل : جُعلت نصفَ الْعلم تَعْظِيمًا لَهُ ، وَقيل : لِأَنَّهُ مُعظَم أحكام الْأَمْوَات فِي مُقَابلَة أحكام الأحياء ، وَقيل : لِأَنَّهُ  إِذا بُسِطت فروعه وجزئياته كَانَ مِقْدَارَ بَقِيَّة أَبْوَابِ الْفِقْه .[ شرح سنن ابن ماجه للسيوطي وغيره ص: 195]
 "فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ" قَالَ ابْنُ الصَّلَاحِ: لَفْظُ النِّصْفِ هَهُنَا عِبَارَةٌ عَنْ الْقِسْمِ الْوَاحِدِ وَإِنْ لَمْ يَتَسَاوَيَا.[ نيل الأوطار 6/ 66 ]

یعنی علم فرائض ومواریث کو نصف العلم قرار دینے کی چند وجوہات ہوسکتی ہیں :
۱۔ موت اور حیات انسان کی دو حالتیں ہیں، اور علم الفرائض کا تعلق اُن میں سے ایک یعنی بعد الممات سے ہے ۔
۲۔ اس علم کو سیکھنے کی رغبت دلانے اوراس فن کی  اہمیت کو واضح کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔
۳۔ وراثت کے ذریعہ ملکیتِ اضطراری حاصل ہوتی ہے ، جو ملکیت کی دو قسموں یعنی ملکیتِ اختیاریہ اور ملکیتِ اضطراریہ میں سے ایک ہےپس ملکیت کی ایک قسم سےتعلق ہونے کی وجہ سے اسے نصفِ علم کہا گیا ہے۔
۴۔ نصف کے معنیأَحَدُ الْقِسْمَيْنِیعنی دو قسموں میں سے ایک قسم کے ہیں ، اگرچہ وہ دونوں برابر نہ ہوں ، پس ایک وراثت کا علم ہوا اور دوسرا واجباتِ شرعیہ کا ۔ اِس طرح سے یہ نصفِ علم ہے،اور یہی توسع فی الکلام ہے۔

(۳) « أحاديث وُصِفَت بِنِصْفِ الْعِلم »

بعض علماء نےبعض خاص خاص احادیث کو نصف العلم کہا ہے ، جیسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دریا کے پانی کے بارے میں جو حدیث ہے (ہو الطہور ماؤہ ) اس کے متعلق ابو عبیدہ جواد نے کہا : « هَذَا نِصْفُ الْعِلْمِ، لِأَنَّ الدُّنْيَا بَرٌّ وَبَحْرٌ، فَقَدْ أَفْتَاكَ فِي الْبَحْرِ وَبَقِيَ الْبَرُّ » [ابن ماجه]
یہ قول مذکورہ بالا پہلی توجیہ پر محمول کیا جائے ، کیونکہ زمین کے دو حصے ہیں : خشکی اور دریائیں ، اور یہ حدیث دوسرے حصہ کے بارے میں خاص ہے ۔

اسی طرح حدیث (انما الاعمال بالنیات) کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے کہ: یہ نصف علم میں داخل ہے ، "مرقاۃ" میں اس کی توجیہ یہ بیان کی : "وَوَجْهُهُ: أَنَّ النِّيَّةَ عُبُودِيَّةُ الْقَلْبِ، وَالْعَمَلَ عُبُودِيَّةُ الْقَالِبِ، أَوْ أَنَّ الدِّينَ إِمَّا ظَاهِرٌ وَهُوَ الْعَمَلُ، أَوْ بَاطِنٌ وَهُوَ النِّيَّةُ ".

آمدم بر سر مطلب  :
ان نصوص ونقولات سے « لا أدری نصف العلم » کا مطلب واضح کرنا آسان ہوگیا ،یعنی مراد ہےکہ:
۱۔ علم کے دو حصے ہیں :جانا ہواحصہ(معلومات)یا نہ جانا ہواحصہ(مجہولات)تو اس طرح سے ہر ایک دوسرے کا آدھا ہوا۔یعنی برابر سرابر آدھا حصہ ہونا مراد نہیں ، بلکہ اس کا شِق ثانی اور قَسِیم یا احد القسمین ہونا  مراد ہے ۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كُلُّ شَيْءٍ كَانَ تَحْتَهُ نَوْعَانِ: فَأَحَدُهُمَا نِصْفٌ لَهُ، وَسَوَاءٌ كَانَ عَدَدُ النَّوْعَيْنِ عَلَى السَّوَاءِ، أَوْ أَحَدُهُمَا أَزِيدَ مِنَ الْآخَرِ ۔ یعنی  ہر وہ چیز جس کے دوحصے ہوں یا اس کے ماتحت دو نوع ہوں ، تو دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا آدھا مانا جائے گا ، چاہےکمیت ومقدار میں دونوں برابر ہوں یا نہ ہوں۔اسی کے قریب ابن الصلاح کی عبارت بھی گذرچکی ۔
۲۔ جانی ہوئی اور نہ جانی ہوئی بات (معلومات ومجہولات)کے مابین امتیاز قائم کرنا ، اور اپنے علم کاصحیح طور پرتجزیہ کرنابھی ایک طرح کا علم ہے،جیساکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے ۔
۳۔ علم سے مراد اس مخصوص مسئلہ کا علم ہے ، یعنی کوئی بھی چیز ہو ، یا تو انسان کواس کا علم ہوگا یا نہ ہوگا ، تو جہل وعلم دو ہی احتمال (اوپشن )ہیں ،اس طرح سے اس بات کا جہل آدھا حصہ ہے ، اور اس کا علم باقی حصہ ہے ۔
یعنی پورے علم کا آدھا حصہ ہونا مراد نہیں ہے ،بلکہ  جو اس طرح کا مفہوم لیکر اپنے جہل کی تبریر کرتا ہے ، یاعلم وتعلم میں کوتاہی کرنے کے لئے بہانہ ڈھونڈتا ہے ، اور عذرِ لنگ کا سہارا لیتا ہے ،تو اس کو امام صاحب  کایہ جواب دینا چاہئے :
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے ایک شخص کا تذکرہ کیا گیا جو یوں کہتا ہے : « لا أدری نصف العلم » تو حضرت نے فرمایا : اس کو کہو کہ : دو مرتبہ « لا أدری » کہہ دے تاکہ باقی آدھا حصہ مل کر اس کا علم کامل ہوجائے ۔
۴۔ اس طرح کی عبارت کہنے والے کی تحسین مراد ہے ، اور لا علمی کے باوجود جواب دینے کا تکلف کرنے سے احتراز کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، گویا کہ تواضع اختیار کرتے ہوئے اپنی لا علمی کا اظہار کرنا اہل علم کا شعار ہے ۔جیساکہ بزرگوں کے واقعات میں مذکور ہے کہ وہ اس جملہ کو بار بار دہرانے میں عار وشرم محسوس نہیں کرتے تھے ۔
لطیفہ : حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ کوئی حدیث بیان کی ، ایک شخص نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ :یہ حدیث تو ہم نے نہیں سنی۔ تو امام احمد نے اس سے کہا کہ :تم نے احادیث کا آدھا حصہ سنا ہے ؟جواب دیا :ہاں، فرمایا : اور باقی آدھا حصہ ؟ کہا : نہیں ،وہ باقی ہے ۔تو ارشاد فرمایا کہ : یہ حدیث اس آدھے حصہ میں سےہے جس کو تم نے نہیں سنا ہے ۔

جمعه ورتبه العاجز محمد طلحة بلال أحمد منيار

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت