عورت کا گھر میں ننگے سر ہونا




سوال : ایک بات بیان کی جاتی ہے کہ : جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو(ننگے سر ہو) اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ؟
کیا ایسی کوئی روایت احادیث کی کتابوں میں ملتی  ہے؟

جواب : سوال میں جو بات لکھی ہے وہ روایت سے ماخوذ اس کامفہوم ہے، اور وہ در اصل حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہاکا ایک واقعہ ہے ،جس سے استدلال کیا گیا ہے۔
میرے نزدیک اس واقعہ سے یہ مسئلہ مستنبط کرنا درست نہیں ہے ،لہذا  سب سے پہلےاس واقعہ کی روایات ، اسانید ،اور مرتبہ ذکر کروں گا ، پھر ان کا صحیح مفہوم دیگر  روایات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کروں گا  ان شاء اللہ ۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ
یہ واقعہ تین اسانید سے  منقول ہے  ، ایک حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے متصلا ومرسلا، دوسری حضرت فاطمہ بنت حسین سےمرسلا، اورتیسری حضرت  عائشہ رضی اللہ عنہا سے:

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہاکی روایت

متصل سند :
164 قال أبو نعيم : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: ثنا النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الْفِهْرِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيِّ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ  الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ .  [دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني ص: 216]
6435 وقال الطبراني : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِرْسٍ الْمِصْرِيُّ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ نَضْلَةَ الْمَدِينِيُّ، ثَنَا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيُّ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَة ...
قال الطبراني : لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ إِلَّا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، وَلَا عَنْ إِسْمَاعِيلَ إِلَّا الْحَارِثُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفِهْرِيُّ، تَفَرَّدَ بِهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ . [المعجم الأوسط 6/287 برقم 6435]
متن روایت :
عن أُمُّ سَلَمَةَ، عَنْ خَدِيجَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَا ابْنَ عَمِّي، هَلْ تَسْتَطِيعُ إِذَا جَاءَكَ الَّذِي يَأْتِيكَ أَنْ تُخْبِرَنِي بِهِ؟ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ يَا خَدِيجَةُ» . قَالَتْ خَدِيجَةُ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا خَدِيجَةُ هَذَا صَاحِبِي الَّذِي يَأْتِينِي قَدْ جَاءَ» ، فَقُلْتُ لَهُ: قُمْ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِذِي الْأَيْمَنِ، فَقَامَ ، فَجَلَسَ عَلَى فَخِدِي الْأَيْمَنِ، فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَقُلْتُ لَهُ: تَحَوَّلْ فَاجْلِسْ عَلَى فَخِدِي الْأَيْسَرِ، فَجَلَسَ، فَقُلْتُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، فَقُلْتُ لَهُ: فَتَحَوَّلَ فَاجْلِسْ فِي حِجْرِي، فَجَلَسَ، فَقَالَتْ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «نَعَمْ» ، قَالَتْ خَدِيجَةُ: فَتَحَسَّرْتُ وَطَرَحْتُ خِمَارِي، وَقُلْتُ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قَالَ: «لَا» ، فَقُلْتُ لَهُ: هَذَا وَاللَّهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ، لَا وَاللَّهِ مَا هَذَا شَيْطَانٌ. [دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني ص: 216، المعجم الأوسط 6/287 برقم 6435]
متصل سند کا مرتبہ :  
ابو نعیم کی سند میں نضر بن سلمہ شاذان پر سخت جرح کی گئی ہے ،وضع حدیث کی تہمت تک لگائی گئی ہے[لسان الميزان (8/ 273)] لیکن طبرانی کی سند میں ان کے شیخ محمد بن عبد اللہ بن عرس مصری ان کی متابعت کر رہے  ہیں ،مگر ابن عرس کے حالات دستیاب نہیں ہوئے ، اور یحیی بن سلیمان بن نضلہ میں ضعف ہے ، لیکن اصل واقعہ کی مرسل روایات شواہد بن سکتی ہیں ، جس سے متن کو تقویت ملتی ہے ، اور ضعف منجبر ہوجاتا ہے ۔

مرسل سند :
ابن اسحاق نے سیرت میں اس کو بواسطہ اسماعیل بن ابی حکیم کےحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے مرسلا یا معضلا نقل کیاہے :
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَحَدَّثَنِي إسماعيلُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ مَوْلَى آلِ الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ حُدِّث عَنْ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ ...[ "سيرة ابن هشام "(1/ 223)]
 ابو نعیم اور طبرانی کی سند کے اعتبار سے اسماعیل بن ابی حکیم اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے مابین تین واسطے ساقط ہیں ۔اور متن کے الفاظ قریب قریب ہیں ، موضع شاہد کے الفاظ یہ ہیں : (قَالَ: فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها وَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- جَالِسٌ فِي حِجْرِهَا، ثُمَّ قَالَتْ لَهُ: هَلْ تَرَاهُ؟ قال: "لا"، قالت: يابن عَمِّ، اُثْبُتْ وأبشرْ، فَوَاَللَّهِ إنَّهُ لَمَلَكٌ وَمَا هَذَا بِشَيْطَانٍ).
مرسل سند کا درجہ: سند ضعیف ہے ،انقطاع کی وجہ سے ، لیکن اصل واقعہ دوسری اسانید سے منقول ہے ۔
نیز روایت کے جن الفاظ سے استدلال کیا گیا (فَتَحسَّرْتُ فَطَرَحْتُ خِمَارِي) یا (فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها) اس میں اضطراب ہے ، جیساکہ تفصیل آگے آرہی ہے ۔

حضرت فاطمہ بنت حسین کی روایت

روایت کی سند :
حضرت فاطمہ بنت حسین کی سند ابن اسحاق نے سیرت میں معضلاذکر کی ہے:
قَالَ ابْنُ إسْحَاقَ: وَقَدْ حَدثتُ عبدَ اللَّهِ بْنَ حَسَنٍ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: قَدْ سمعتُ أُمِّي فَاطِمَةَ بِنْتَ حُسين تُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ خَدِيجَة ... [ "سيرة ابن هشام "(1/ 223) ، "دلائل النبوة " للبيهقي (2/ 151 - 152) ، "التاريخ" للطبري (2/ 302 - 303) ]
اس روایت میں  حضرت فاطمہ بنت حسین بن علی  رضی اللہ عنہا اپنی پردادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سےاس واقعہ کو نقل کرتی ہیں ، مگران کا اپنی دادی فاطمہ بنت رسول اللہ سے سماع ثابت نہیں تو پردادی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سےکیسے ثابت ہوگا ؟ضرور درمیان میں دو سے زائد واسطے ساقط ہیں ، لیکن اصل واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں معروف ہے ۔
متن روایت :
سَمِعْتُهَا تَقُولُ: أدخلتْ رسولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَيْنَهَا وَبَيْنَ دِرْعِهَا، فَذَهَبَ عندَ ذَلِكَ جِبْرِيلُ، فَقَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ هَذَا لَمَلَكٌ، وَمَا هُوَ بِشَيْطَانٍ.
معضل سند کا درجہ :
یہ سند معضل(دو واسطوں کے ساقط)ہونے کی وجہ سے ضعیف ٹھیرے گی ، یہ ضعف متصل سندوں  سےدور ہوسکتا ہے ، اسی طرح اسماعیل بن ابی حکیم کی مرسل روایت بھی شاہد بن سکتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت

روایت کی سند :
165 قال أبو نعيم : حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: ثنا النَّضْرُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: ثنا فُلَيْحُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْإِمَامِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ...[ دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني (ص: 218)]
متن روایت :
قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَدْخِلْ رَأْسَكَ تَحْتَ دِرْعِي ، فَفَعَلَ ذَلِكَ ، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ لَهُ : أَتَرَاهُ؟ فَقَالَ النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا ، قَدْ أَعْرَضَ عَنِّي ، قَالَتْ خَدِيجَةُ: أَبْشِرْ فَإِنَّهُ مَلَكٌ كَرِيم ، لَوْ كَانَ شَيْطَانًا مَا اسْتَحْيَى .[ دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني (ص: 218)]
سند کا درجہ :
ضعیف جدا ، سند میں نضر بن سلمہ شاذان متہم ہے ، اور یہاں سیاق سند میں بھی منفرد ہے ۔

واقعہ کا خلاصہ
اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے  ابتداء  وحی کے زمانے میں اس بات کا اطمینان حاصل کرنا چاہا کہ آپ  ﷺکے پاس جو وحی لےکر آتا ہے وہ فرشتہ ہی ہے ، شیطان نہیں ہے۔تو انہوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا  کہ : جب حضرت جبریل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر تشریف لائیں توکیا آپ  مجھے آگاہ کرسکتے ہیں ؟ فرمایا : ہاں۔
چنانچہ ایک بارجب حضرت جبریل علیہ السلام وحی لے کرآئے ، تو حضور نے ان کو آگاہ کردیا ، توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ : آپ میری دائیں ران پر بیٹھ جائیں اور بتائیں کہ : حضرت جبریل نظر آرہے ہیں ؟ حضور نے جواب دیا کہ : ہاں ، پھر اسی طرح بائیں ران پر بیٹھنے کے لئے کہا اور دریافت کیا کہ : اب نظر آرہے ہیں ؟آپ نےجواب دیا  : ہاں ، تیسری بار کہا کہ : آپ میری گود میں بیٹھ جائیں ، پھردریافت کیا کہ : اب حضرت جبریل نظر آرہے ہیں ؟ حضور نے جواب دیا کہ : ہاں۔
اس کے بعد حضرت خدیجہ فرماتی ہیں کہ : میں نے سر سے دوپٹہ اتاردیا جبکہ حضور میری گود میں تھے اور پوچھا کہ : اب نظر آرہے ہیں ؟ حضور نے جواب دیا کہ: نہیں ، اس پر حضرت خدیجہ نے فرمایا : آپ کے لئے خوش خبری ہے ، آپ ثابت قدم رہیں ، بخدا یہ شیطان نہیں ہے ، یہ تو فرشتہ ہے ۔ ابو نعیم کی روایت میں یہ جملہ بھی ہے کہ : اگر شیطان ہوتا تو وہ شرم کے مارے غائب نہیں ہوتا ۔

مذکورہ روایت میں تحقیق کرنے کی ترکیب جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے استعمال کی، اس کے سلسلہ میں دو طرح کی باتیں ہیں :
۔ایک روایت کے اعتبار سے انہوں نے اپنے سر سے دوپٹہ اتار دیا تو وہ آنے والا حضور کی نظروں سے غائب ہو گیا ۔
 ۔اور دوسری روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کو اپنے بدن کے کپڑے اور اپنے جسم کے درمیان کردیا ،(بدن سے لگا لیا ) تو وہ آنےوالا نظروں سے غائب ہو گیا۔

اسی واقعہ سے مذکورہ بالا مفہوم لیا گیا  کہ :جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔

مگریہ استنباط چند وجوہات کی بناء پر صحیح نہیں ہے ، جیساکہ تفصیلا کلام آرہا ہے، یہاں پر ایک بات کی وضاحت بھی کرتے چلیں ، کیونکہ اس کے سمجھنے سے زیر بحث روایت کا مفہوم واضح ہوگا ۔
وہ بات یہ ہے کہ :احادیث میں کنکن حالتوں میں فرشتوں کے گھروں میں آنے نہ آنے کا تذکرہ ہے ، اوران سے  کس قسم کے فرشتے مراد ہیں ، تو ذخیرۂ احادیث میں مندرجہ ذیل تین قسم کی احادیث وارد ہیں  :

پہلی قسم کی احادیث :
۱۔ گھر میں تصویر یا کتے کا ہونا : «إِنَّا لاَ نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلاَ كَلْبٌ» البخاري (3227 ) مسلم (2105 ) من حديث ابن عمر.
۲۔ گھر میں جنبی کا ہونا : في رواية من حديث علي بن أبي طالب : " وَلَا جُنُبٌ" أبوداود (227) النسائي (261) .
۳۔ گھر میں گھنٹی کا ہونا : ومن حديث عائشة : "لا تدخل الملائكة بيتا فيه جرس" أبوداود (4231) مسند أحمد (26052) .
۴۔ گھر میں چیتے کی کھال ہونا : و من حديث أبي هريرة  : « لا تصحب الملائكة رُفقة فيها جلد نمر » أبوداود (4130)  مسند للطبراني (2721) .
فرشتوں سے مراد :
مذکورہ احادیث میں فرشتے عام نہیں ہیں ، بلکہ مراد رحمت کے فرشتے ہیں جن میں حضرت جبریل علیہ السلام کابھی شمار  ہوتا ہے جیساکہ ابن عمر کی روایت میں ہے،جبکہ محافظ فرشتے اور کراما کاتبین توموجود ہوتے ہیں ، جیسا کہ شراح حدیث نے وضاحت کی ہے  ، ملاحظہ فرمائیں :
قال القاضي عیاض : قد يكون تجنُّبُ الملائكة من الجُنُب تنزيهاً لها من أجل الحَدَث الذى عليه، كما نُزِّهَتْ عنه عبادات كثيرةٌ من تلاوةِ القرآن ومسِّ المصحف، ونُزِّه المسجدُ عن دخولِه حتى يتطهرَ، ولما كانوا مطَهَّرِين ووصفهم اللهُ بذلك خصَّهُم بالبُعدِ عمن ليس بهذه الصفة - والله أعلم. وقد قال الخطابي: إن الملائكة التي تجتنبُ الجُنبَ وجاء أنها لا تدخُلُ بيتاً فيه جُنبٌ : هم الملائكة المُنزَلة بالرحمة والبركة ، غير الحَفَظة الذين لا يفارقونه . [إكمال المعلم بفوائد مسلم (2/ 144)]
قوله:" لَا تدْخُلُ المَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ" قال ابن التين : وأراد بالملائكة غير الحفظة ، وكذا قال النووي: إن هؤلاء الملائكة هم الذين يطوفون بالرحمة والتبرك والاستغفار، بخلاف الحفظة. [التوضيح لشرح الجامع الصحيح (19/ 98)]

دوسری قسم کی احادیث :
اس کے بالمقابل وہ احادیث جن میں تمام فرشتوں کے دور ہوجانے کا تذکرہ ہے ، وہ احادیث کشف ستر کی حالتوں کے ساتھ مخصوص ہیں ،  اور ستر سے عورۃمغلظۃمراد ہے ، جیسے : قضاء حاجت ، غسل ، جماع وہم بستری  کی حالات میں ،یا عموما برہنہ ہونا ۔نیز اس طرح کی حالتوں کی روایات میں کشف ستر کا معنی واضح بھی ہے ، اور روایات یہ ہیں :

(1) عن ابن عمر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "إياكم والتعري فإن معكم من لا يفارقكم إلا عند الغائط، وحين يفضي الرجل إلى أهله فاستحيوهم وأكرموهم". رواه الترمذي (2800) وهو ضعيف .
(2) عن ابن عباس - رضي الله عنهما - مرفوعًا بلفظ: "إن الله ينهاكم عن التعري، فاستحيوا من ملائكة الله الذين لا يفارقونكم إلا عند ثلاث حالات: الغائط والجنابة والغسل، فإذا اغتسل أحدكم بالعراء فليستتر بثوبه أو بحذمة حائطٍ أو ببعيره". رواه البزار كما في "كشف الأستار" (317) وهو ضعيف .
(3) عن أبي هريرة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه نهى عن التعري فإن الكرام الكاتبين لا يفارقان العبد إلا عند الخلاء، وعند خلوة الرجل بأهله. ورواه الدارقطني في "العلل" 8/ 232 ، وهو ضعيف .
(4) عن زيد بن ثابت مرفوعًا: "ألم أنهكم عن التعري، إن معكم من لا يفارقكم في نوم ولا يقظة، إلا حين يأتي أحدكم أهله، أو حين يأتي خلاءه، ألا فاستحيوها ألا فأكرموها".
فرشتوں سے مراد :
ان احادیث میں لفظ (تعری)سے برہنہ ہونے کا معنی صریح ہے ، اور ان حالات میں ہر قسم کے فرشتے بشمول حفظۃ اور کتبۃ دور  رہتے ہیں حیاء۔

تیسری قسم کی احادیث :
مگر بعض احادیث کے الفاظ کشفِ ستر میں صریح  نہیں ہیں ،نیز ان میں  صرف حضرت جبریل علیہ السلام کے دوررہنے کا ذکر ہے ، وہ احادیث دو ہیں:
۔ایک تو خود زیر بحث حضرت خدیجہ کے واقعہ کی روایت ہے ۔
۔دوسری یہ ہے : فَإِنَّ جِبْرِيلَ أَتَانِي حِينَ رَأَيْتِ، فَنَادَانِي فَأَخْفَاهُ مِنْكِ، فَأَجَبْتُهُ فَأَخْفَيْتُهُ مِنْكِ، وَلَمْ يَكُنْ يَدْخُلُ عَلَيْكِ وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ . صحيح مسلم (2/ 670) یعنی اس وقت حضرت جبریل علیہ السلام آئے ہوئے تھے ، انہوں نے مجھے آہستہ سے آواز دی ، اور انہوں نے تجھ سے مخفی رکھنا پسند کیا ، اور میں نے بھی ان کو جواب تجھ سے چھپاکر دیا ، کیونکہ مجھے گمان ہوا کہ تو سو گئی ، اور فرمایا کہ : حضرت جبریل علیہ السلام تمھارے پاس اس لئے نہیں آئے کہ تم نے بدن سے کپڑے اتار رکھے تھے ۔

حدیث کا مطلب اور فرشتے سے مراد :
اس روایت میں خصوصا حضرت جبریل علیہ السلام کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل نہ ہونا مذکور ہے ، اور "وضع ثیاب" کا مطلب بقیہ روایت سے واضح ہے ، جس میں حضرت عائشہ فرماتی ہیں: (فَجَعَلْتُ دِرْعِي فِي رَأْسِي ، وَاخْتَمَرْتُ ، وَتَقَنَّعْتُ إزَارِي) یعنی سر ڈھانپا ، اوڑھنی اوڑھی ، اور تہبندپہنی ۔ قال في "ذخيرة العقبى في شرح المجتبى" (20/ 47) (وَتَقَنَّعْتُ إِزَارِي) أي جعلت إزاري قِنَاعًا، والظاهر أنها تلفَّفَت به فوق خِمارها. یعنی  بظاہر حضرت عائشہ نے اوڑھنی کے اوپر چادرڈال لی اور بدن ڈھانپ لیا  نکلتے  وقت ۔

الغرض : زیر بحث حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی روایت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی ، دونوں روایتوں میں چند باتیں مشترک ہیں :
۔۱۔ خصوصی طور پر حضرت جبریل علیہ السلام کا دور رہنا یا غائب ہونا،اس میں  فرشتوں کی تعمیم نہیں ہے ۔
۔۲۔ اور ان کے دور رہنے کا سبب زیر بحث روایت میں یا تو سر سے دوپٹہ اتارنا ، یا پھرحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سے قریب کرناہے، اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ میں (وَقَدْ وَضَعْتِ ثِيَابَكِ)ہے ، جس کی وضاحت گذرچکی،نیز حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیوی کا شوہر کے قریب ہونا مانع دخول نہیں ، جبکہ کسی طرح سےکشف ستر نہ ہو، وہ یہ روایت یہ ہے :
«يَا أُمَّ سَلَمَةَ لاَ تُؤْذِينِي فِي عَائِشَةَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا نَزَلَ عَلَيَّ الوَحْيُ وَأَنَا فِي لِحَافِ امْرَأَةٍ مِنْكُنَّ غَيْرِهَا» (خ) 3775 (اے ام سلمہ ! عائشہ کے معاملہ میں مجھے نہ ستاؤ، اس لئے کہ مجھ پر وحی نازل نہیں ہوتی درآنحالیکہ میں عائشہ کے علاوہ تم میں سے کسی کے لحاف میں ہوتا ہوں ، یعنی صدیقہ کے ساتھ ہم خوابی کے وقت بھی وحی نازل ہوتی تھی ) [ تحفۃ الالمعی]
تو خلاصہ یہ ہوا کہ: دونوں واقعوں میں حضرت جبریل کے دور ہونے کا سبب قریب قریب ہے،مگر اس سے یہ بات جو اخذ کی گئی کہ : جس گھر میں عورت اپنےسر کو کھولے ہوئے ہو اس گھر میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔

اس استنباط میں دو طرح کی غلطی ہے :
ایک غلطی تو :عورت کے ننگے سر ہونے  کوگناہ اور رحمت کے فرشتوں کے نہ آنے کا سبب قرار دینا۔
اور دوسری غلطی : فرشتوں کی تعمیم کرنا کہ تمام فرشتے دور ہوجاتے ہیں ۔
یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں ، مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر:
پہلی بات کا رد: عورت کا گھر میں ہوتے ہوئے سر کھلا رکھنا گناہ نہیں ، اور مانع دخول ملائکہ نہیں ، اس لئے کہ :
۱۔ موانع دخول کی روایات میں کہیں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
۲۔ اگر گناہ ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خودحضرت جبریل علیہ السلا م کے دور ہونے پر زوجہ مطہرہ کو تنبیہ فرماتے۔
۳۔ حضرت خدیجہ کے واقعہ میں اصل علت مذکور ہے، اور وہ ہے استحیاء وشرم ۔
۴۔بیوی کا شوہر کی موجودگی میں بدن کے کپڑوں میں تخفف کرنا ، شوہر کے لئے تزین کے معنی میں داخل ہے ، جو مستحسن ومطلوب ہے۔
۵۔جو موانع دخول منصوص علیہ ہیں، ان میں بھی علماء نے تقیید کی ہے ، مثلا :
کتے کا ہونا مانع دخول ملائکہ ہے ، لیکن اگر کتا شکار کے لئے یا کھیتی بکریوں کی حفاظت کے لئے رکھا ہو ، تو وہ مانع نہیں ۔[تحفۃ الالمعی]
جاندار کی تصویر بھی مانع ہے ، لیکن وہ اگر سر کٹی ہو یا ایسی جگہ ہو جہاں روندی جاتی ہو،تو مانع نہیں بنے گی۔[مظاہر حق]
اور جنبی سے وہ مراد جو غسل جنابت کو اتنا مؤخر کرے کہ نماز کا وقت نکل جائے، یا بلا وضوءسوتا پڑا  رہے[مظاہر حق]
تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ : عورت کے ننگے سر رہنے کا  توروایات میں ذکر بھی نہیں ، پھر اس کو مطلق رکھنا کیسے درست ہوسکتا ہے ؟بلکہ یہ تو سراسر زیادتی اور تشدد فی الدین  ہے ۔
دوسری بات کا رد :  "رحمت کے فرشتے نہیں آتے" کہنادرست نہیں ہے ، کیونکہ :
۱۔ محافظین اور اعمال لکھنے والے فرشتےمخصوص حالات کے علاوہ دور نہیں ہوتے ہیں ، اور یہ بھی رحمت ہی کے فرشتے شمار کئے جاتے ہیں۔
۲۔رہ گیا حضرت جبریل علیہ السلام کا دور ہونا : تو وہ یا تو امہات المؤمنین کے احترام میں ہوا ، یا پھر وحی کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہوا،جیساکہ حضرت عائشہ کی دونوں روایتوں (وَضَعْتِ ثِيَابَكِ) ، (لِحَافِ امْرَأَةٍ) سے مترشح ہوتا ہے۔ تو بہر حال اس میں تخصیص ہے ۔

خلاصۃ البحث : عورت کا گھر میں ننگے سر ہونا رحمت کے فرشتوں کے داخل ہونے میں مانع نہیں ہے ، مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر :
پہلی وجہ :مستدل بہ روایت میں موضع الشاھد میں اضطراب ہے جیسا کہ اصل عبارت پر سرخی لگا کر واضح کیا ہے ، (فتحسَّرتْ وَأَلْقَتْ خمارَها) اور(أدخلت رسولَ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- بَيْنَهَا وَبَيْنَ دِرْعِهَا)دونوں الگ الگ وجوہات ہیں ۔
دوسری وجہ :اس میں صرف حضرت جبریل علیہ السلام کے دور ہونے کی بات ہے ، تمام فرشتوں کا ذکر نہیں ہے ، اور بہت ممکن ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی غرض سے غائب ہوگئے تاکہ فرق ظاہر ہوجائے ۔یا امہات المؤمنین کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسا کیا ہو، یا وحی کی عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا ہو، تو گویا کہ اس میں بہر حال تخصیص ہے،اس لئے اس سے تعمیم ثابت نہیں ہو سکتی کہ ہر عورت اور ہر فرشتہ کا یہ معاملہ ہے ۔ 
تیسری وجہ :حدیث کی ایک روایت میں علت صراحتا مذکور ہے کہ: فرشتہ استحیاءً داخل نہیں ہوتا  ،اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ عورت سر کھلا رکھنے کی وجہ سے گناہ کی مرتکب ہوئی، جیساکہ استنباط کرنے والا ثابت کرنا چاہتا ہے۔
چوتھی وجہ :یہ روایت حجاب کے  حکم کے نازل ہونے سے  پہلے کی ہے ،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  حضرت خدیجہ کے واقعہ میں کوئی نکیر نہیں فرمائی  ،بلکہ حضرت عائشہ کے واقعہ میں سبب کی تصریح کرتے ہوئے بھی آپ نے  کوئی نکیر نہیں فرمائی ۔
پانچویں وجہ :احادیث کے ذخیرہ میں جہاں اس طرح کی بات یعنی رحمت کے فرشتوں کا گھروں میں داخل نہ ہونا مذکور ہے ، وہاں تصویرکا ہونا ، یا کتے کاگھر میں ہونا تو واردہے ، لیکن عورت کے ننگے سر ہونے کی بات نہیں ہے ، جبکہ اس میں ابتلاءعام ہے، اور اس کے حکم کی ضرورت زیادہ اشد ہے۔
چھٹی وجہ :رحمت کے فرشتوں کی تعمیم صحیح نہیں ہے ، اس لئے کہ محافظین اور اعمال لکھنے والے فرشتےمخصوص حالات کے علاوہ دور نہیں ہوتے ہیں ، اور یہ بھی رحمت ہی کے فرشتے شمار کئے جاتے ہیں۔
ضروری تنبیہ :عورتوں کے لئے محارم کے سامنے زینت کے اعضاء (سر،بال،گردن،سینہ،کان،بازو،کلائی،پنڈلی،چہرہ)وغیرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے ۔مگر اجانب کے ہوتے ہوئے اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو :چہرہ ، ہتھیلی اور قدمین کے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ باقی اعضاء ممنوع ہیں ۔
مگر آج کا دور پرفتن اور فیشن کا دور ہے ،عورتوں میں حجاب وحشمت کے باب میں کافی کوتاہی اور لا پرواہی ہوتی ہے ، تو اگر ان کی اصلاح اور تربیت کی غرض سے یہ بات کہی جائے ، تاکہ ان کے اندر بال وسر وغیرہ کھلا رکھنے کی عادت نہ پڑجائے ، اور پھرمحرم غیر محرم کا امتیاز باقی نہ رہے ، تو یہ کہنا درست ہوگا ، لیکن اس کو زبردستی احادیث سے منسوب کرنا ، یااس کی تایید کے لئے  کسی روایت سے غلط مفہوم مستنبط کرنا صحیح نہیں ہے۔ہذا ما اراہ ، واللہ اعلم ، وعلمہ اتم واحکم۔

جمعہ ورتبہ العاجز محمد طلحہ بلال احمد منیار بمعاونۃ المولوی خبیب بن محمد ایوب منیار



Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت