بے موسم بارش برسنا

ایک سوال تھا کہ : اس حدیث کی کیا حیثیت ہے ؟

عنقریب میری امت پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں سے صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا ، اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہ جائیں گے ، ان کی زندگی کا مقصد پیٹ بھرنا ہوگا ، اورعورت ان کا قبلہ ہوگا ، اور روپیہ پیسہ ان کا دین ہوگا ، سنت کا مرتبہ ان کے یہاں بدعت کا ہوگا ، اور بدعت سنت کے درجہ میں ہوگی ، صرف رمضان میں اللہ کی عبادت کریں گے ،
جب ایسا کرنے لگیں گے ،تو اللہ تعالی ان پر زمانہ کے شدائد مسلط فرمادیں گے ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا کہ : وہ شدائد کیا ہیں ؟ فرمایا :
ظالم حاکموں کا تسلط ، معیشت کی منہگائی ، موسم کی بارش روک دی جائے گی ، اور بے موسم بارش برسے  گی ۔

الجواب :
عربی میں اس روایت کے الفاظ اس طرح پیش کئے جاتے ہیں :

1-   يأتي زمانٌ على أمتي لا يبقى من الإسلام إلا اسمُه، ولا من القرآن إلا رسمُه،
2-   هَمُّهُم بُطونُهم، وقِبلتُهم نساؤهم، ودِينهم دَرَاهِمُهم،
3-   السُّنَّة فيهم بدعةٌ، والبدعةُ فيهم سنةٌ،
4-   لا يَعبدون الله إلا في رَمَضانَ

فإن فَعَلوا ذلك ابتلاهُمُ الله بالسِّنِينَ. قالوا: وما السِّنُونُ يا رسول الله؟ قال:
5-   جَورُ الحكام،
6-   وغُلوّ المَؤُونة،
7-   يَحبِسُ الله عنهم المَطَرَ في أَوَانِه، ويَنزِل في غَير أَوَانِه .

بعض حضرات اس روایت کو امام طبرانی کی طرف منسوب کرتے ہیں ، لیکن نہ طبرانی کی موجودہ کتابوں میں ، اور نہ ذخیرہ احادیث میں مذکورہ الفاظ کی کوئی حدیث مل سکی ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ چند متفرق روایات کے ٹکڑوں کا مجموعہ ہے ، جیساکہ نمبرات لگاکر واضح کیا گیا ہے ۔

1-   يأتي زمانٌ على أمتي لا يبقى من الإسلام إلا اسمُه، ولا من القرآن إلا رسمُه،
روایت کا یہ پہلا ٹکڑاحضرت علی رضی اللہ عنہ ، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت :
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ ، مِنْ عِنْدِهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ ".
تخريجه :
رواه البيهقي في "شعب الإيمان" باب في نشر العلم (2 / 311) (رقم : 1908، 1909) ، وابن عدي في "الكامل" (4 / 1543) من طريق عبد اللَّه بن دكين عن جعفر بن محمد عن أبيه عن جده عن علي.
حاله : ضعيف ، ففيه علتان :
1- عبد الله بن دكين الكوفي قال ابن معين : " ليس بشيء ". وقال أبو زرعة : " ضعيف ". وقال أبو حاتم : " منكر الحديث ، ضعيف الحديث ، روى عن جعفر بن محمد غير حديث منكر ".
2- وعلي بن الحسين لم يدرك علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، بل حديثه عنه مرسل.

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت :
... وَيذْهب الإِسلام فَلَا يبْقى إِلَّا اسمُه ، وَيذْهب الْقُرْآن فَلَا يبْقى إِلَّا رَسمُه ...
تخريجه وحاله :
أورده السيوطي في "الدر المنثور في التفسير بالمأثور" (7/474) ضمن حديث طويل ، وعزاه إلى ابن مردوية من حديث ابن عباس ، ولم يذكر الإسناد .والظاهر أنه ضعيف .

2-   هَمُّهُم بُطونُهم، وقِبلتُهم نساؤهم، ودِينهم دَرَاهِمُهم،
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
" يأتي على الناس زمان هِمَّتُهم بطونُهم ، وشَرَفهم مَتَاعُهم ، وقِبلتهم نساؤهم ، ودينُهم دَرَاهِمُهم ودنانيرهم ، أولئك شِرَارُ الخلق لا خَلَاقَ لهم عند الله " .
تخريجه وحاله :
أورده العجلوني في "كشف الخفاء" (2/ 494) بدون سند وقال : رواه السلمي عن علي .
وذكره أيضًا الديلمي في "الفردوس" (5/444، رقم 8688) بدون سند .

3-   السُّنَّة فيهم بدعةٌ، والبدعةُ فيهم سنةٌ،
یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَيَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ، تَكُونُ وُجُوهُهُمْ وُجُوهَ الْآدَمِيِّينَ، وَقُلُوبُهُمْ قُلُوبَ الشَّيَاطِينِ ... (إلى أن قال) والسُّنةُ فيهم بدعةٌ، والبدعةُ فيهم سُنةٌ "...
تخريجه وحاله :
أخرجه الطبراني في معاجمه الثلاثة ، منها في "المعجم الأوسط" (6/227) وابن الجوزي في "الموضوعات"(3/190) وذكره في "اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة" (2/ 320) .
وفيه محمد بن معاوية النيسابوري وهو متروك.
قال ابن الجوزي : "هَذَا حَدِيث مَوْضُوعٌ عَلَى النبي صلى الله عليه وسلم ، وَهُوَ مَعْرُوف بِمُحَمد بْن مُعَاوِيَة. قَالَ أَحْمَد وَالدَّارقطني: هُوَ كَذَّابٌ.وَقَالَ النَّسَائِيُّ : مَتْرُوكُ الحَدِيث.

4-   لا يَعبدون الله إلا في رَمَضانَ
یہ ٹکڑا حدیث میں وارد نہیں ہے ، بلکہ یہ تو حضرت بشر حافی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ ان سے دریافت کیا گیا کہ : بعض لوگ رمضان شریف میں توعبادت کرتے ہیں ، لیکن رمضان کے رخصت ہوجانے کے بعد عمل ترک کردیتے ہیں ؟ تو فرمایا : یہ بہت برے لوگ ہیں کہ اللہ تعالی کو صرف رمضان میں ہی جانتے ہیں ...
تخريجه : عزاه إلى بشر الحافي الإمام ابن رجب في "لطائف المعارف" ص 222 ولم يذكر المصدر .

5-   جَورُ الحُكام ،   6-   وغُلوّ المَؤُونة ،
ان دو باتوں کا تذکرہ آخری زمانے کے فتنوں میں وارد ہے ، مثلا :
... وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ وَشِدَّةِ الْمَؤونَةِ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ ...  "سنن ابن ماجه ، حدیث 4019 .

7-   يَحبِسُ الله عنهم المَطَرَ في أَوَانِه، ويَنزِل في غَير أَوَانِه".
روایت کے اس ٹکڑے میں دو باتیں ہیں :
۱۔ بارش کا  رکنا ۔ ( قحط سالی )
۲۔ بے موسم بارش ہونا ۔
پہلی بات کا ذکر اوپر روایت میں ناپ تول میں کمی کرنے کے سلسلہ میں گذر چکا ۔ نیز احادیث میں عموما منع زکاۃ کی سزا میں بھی آتا ہے ، مثلا :
... وَلَم يَمْنَعُوا زَكَاةَ أَمْوَالِهِمْ، إِلَّا مُنِعُوا الْقَطْرَ مِنْ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَهَائِمُ لَمْ يُمْطَرُوا..."سنن ابن ماجه" قطعة من الحديث المار .
ایک دوسری روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس سلسلہ میں اس طرح ہے :
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا غَضِبَ عَلَى أُمَّةٍ لَمْ يُنْزِلْ بِهَا الْعَذَابَ، غَلَتْ أسعارُها ، وقَصُرت أعمارُها، ولم تَربَح تُجَّارُها، وَحُبِسَ عَنْهَا أَمْطَارُهَا، وَلَمْ تَغْزُرْ أَنْهَارُهَا، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا شِرَارَهَا» .
رواه الديلمي في " مسنده " (1/224) والخطيب في "تاريخه" (18/96) عَنْ مِسْمَعِ بْنِ الأَسْوَدِ عَنِ الأَصْبَغُ بْنُ نُبَاتَةَ عَنْ عَلِيّ بْن أَبِي طالب رضي الله عنه مرفوعا .
قال الألباني ( الضعيفة 4/317) : هذا سند ضعيف جدا، الأصبغ هذا متروك كما قال الحافظ. ومسمع لم أعرفه.
دوسری بات کا ذکر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی روایت سے مجھے صرف روافض کی بعض کتابوں میں ملا ، اس کے الفاظ اس طرح ہیں  : ویُمطرون في غیر أوانِ المطر ۔

خلاصہ یہ ہے کہ :
احادیث کی کتابوں میں ( کتاب الفتن ) کے عنوان سے مستقل ایک باب ہوتا ہے ، جس میں آخری زمانہ میں پیش آنے والے حوادثات وفتن کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معتد بہ پیشین گوئیاں مذکور ہوتی ہیں ، اسی طرح محدثین کرام نے اس موضوع پرمستقل کتابیں بھی مرتب کی ہیں ، لیکن اس باب میں بہت ساری احادیث وروایات ضعیف غیر معتبر اسانید سے مروی ہوتی ہیں ۔
سوال میں وارد روایت مذکورہ عبارت سے یکجا طور پر حدیث کی کسی کتاب میں دستیاب نہیں ہوئی ، شاید کسی نے احادیثِ فتن کی مختلف روایات سے متفرق عبارتوں کا ایک مجموعہ اس طرح جمع کرکے پیش کیا ہے ، اسی لئے جواب میں اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، روایت کے اجزاء کی تخریج الگ الگ کی ہے ، اور تخریج سے بات صاف ہوگئی کہ روایت کے بعض ٹکڑے وارد ہیں ، اور بعض غیر مستند ہیں ۔

اس طرح کی روایات کو موجودہ زمانے کے احوال پر منطبق ہونے کی وجہ سے ، شاید کسی کا یہ خیال ہو کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے ، مگر انطباق سے صحت  لازم نہیں آتی ، کیونکہ صحت مضمون کے ساتھ معتبر سند کا ہونا ضروری ہے ، لہذا روایت کے جتنے حصے مستند نہیں ہیں ، ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے میں احتیاط لازم ہے ۔ 

هذا ما تيسر جمعه ، والعلم عند الله

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت