والدین کی طرف سے حج کرنے کی فضیلت والی روایات



ذخیرۂ احادیث میں اس مضمون کی روایات دو طرح کی ہیں:

ایک وہ جن میں والدین کی طرف سےحج کرنے کی صراحت ہے ، 
اور دوسری وہ روایات جن میں مطلقا  میت کی طرف سے حج کرنے کا ذکر ہے ۔

پہلی قسم کی روایات چار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں : حضرت جابر بن عبد اللہ ، حضرت زید بن ارقم ، حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، رضی اللہ عنہم ۔

۱۔ حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت :

﴿ مَنْ حَجَّ عن أبِيهِ أوْ أُمِّه؛ فقَد قَضى عنهُ حَجَّتَه، وكانَ لَهُ فَضلُ عَشرِ حِجَجٍ

تخریج :
سنن الدارقطنی (3/ 300 رقم 2610 ) بروایت عثمان بن عبد الرحمن الطرائفی ، عن محمد بن عمرو ، عن عطاء بن ابی رباح ، عن جابر۔

سند کا حکم :ضعیف جدا
ابن ابی حاتم نے (کتاب العلل3/231) میں اپنے والد ابوحاتم رازی سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا ، تو  ابو  حاتم نے فرمایا : لَيْسَ هَذَا محمَّدَ بنَ عَمْرو؛ إِنَّمَا هذا : محمَّدُ بنُ عُمَرَ الَّذِي يُعْرَفُ بالمُحْرِم ؛ وَكَانَ واهِيَ الْحَدِيثِ؛ وَهَذَا عندي حديثٌ باطِل.
امام غُریانی نے (مختصر سنن الدارقطنی ) میں فرمایا : فيه محمَّد بن عَمرو البصري  الأنصاري كان يحيى بن سعيد يضعّفه جدًّا ، وقال ابن نُمير : لا يساوي شيئا ، كما نقله في " التنوير شرح الجامع الصغير " 10)/ 199)۔
خود عثمان الطرائفی پر بھی محدثین نے ضعفاء اور مجروحین رواۃ حدیث سے روایت کرنے کی وجہ سے کلام کیاہے ، جیساکہ (میزان الاعتدال  3/45 ) میں واضح کیا ہے ۔

۲۔ حضرت زید بن ارقم کی روایت :

﴿ إِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَيْهِ تُقُبِّلَ مِنْهُ وَمِنْهُمَا وَاسْتَبْشَرَتْ أَرْوَاحُهُمَا فِي السَّمَاءِ وَكُتِبَ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى بَرًّا ۔

تخریج :
اس روایت کے ملتقی الاسانید عطاء بن ابی رباح ہیں ، جو زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں ۔

عطاء سے روایت کرنے والے کئی افراد  ہیں :

۱۔ ابو سعدسعید بن مرزبان البقال ( سنن دارقطنی 3/299  حدیث 2607 ) دارقطنی کی مکمل سند اس طرح ہے :  حدثنا الْقَاضِي الْمَحَامِلِيُّ  حدثنا أَبُو أُمَيَّةَ الطَّرَسُوسِيُّ حدثنا أَبُو خَالِدٍ الْأُمَوِيُّ  أخبرنا أَبُو سَعْدٍ الْبَقَّالُ  عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ  عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ .

۲۔عیسی بن عمر الاسدی (جزء الثقفیات حدیث 34 ) سند یہ ہے : حدثنا أبو الفرج عثمان بن أحمد بن إسحاق البرجي حدثنا محمد بن عمر بن حفص حدثنا إسحاق بن إبراهيم شاذان حدثنا سعد بن الصلت حدثنا عيسى بن عمر حدثنا عطاء بن أبي رباح عن زيد هو ابن أرقم .

۳۔ عبد اللہ بن حبیب دمشقی (اخبار مكۃ للفاكهی 1/ 387) سند یہ ہے : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْقَاسِمِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ حَبِيبٍ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ۔

اسانیدمذکورہ کا حال :
پہلےطریق میں ابو سعد بقال ضعیف راوی ہے ، متہم بالتدلیس بھی ہے ۔(میزان الاعتدال2/157
 اور اس سے روایت کرنے والا :ابو خالد اموی بظاہر یہ : عبد العزیز بن ابان ہے جو متروک الروایت بلکہ متہم بالکذب ہے (میزان الاعتدال2/622

دوسرے طریق میں سعد بن الصلت کے بارے میں ابن حبان نے ثقات میں کہا کہ وہ غرائب کی روایت کرتا ہے۔لیکن ذہبی نے (تاریخ الاسلام 13/184) پر کہا : ما رأيت لأحد فيه جرحاً فمحلّه الصّدق۔

باقی راویوں کے بارے میں اطمینان ہے  :
عثمان بن أحمد بن إسحاق بن بندار البُرجي : قال السمعاني في الأنساب(2/140) : کان ثقة۔
محمد بن عمر بن حفص الجورجیري : قال في الأنساب (3/394) : كان أحد الثقات المعدلين ۔
إسحاق بن إبراهيم شاذان :قال أبوحاتم الرازي (الجرح والتعديل " 2/211) :صدوق.
عيسى بن عمر الأسدي المعروف بالهمداني القارئ : ثقة .

تیسرے طریق میں حکم بن قاسم اور اس کا شیخ عبد اللہ بن حبیب دونوں مجہول راوی ہیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ : دوسرا طریق الثقفیات والا قابل قبول ہے ،  کوئی علت بظاہر اس میںنہیں ہے ، اگرچہ سعد بن الصلت کا حال واضح نہیں ہے۔

۳۔ حضرت ابن عباس کی روایت :

۱۔ ﴿ مَنْ حَجَّ عَنْ أَبَوَيْهِ أَوْ قَضَى عَنْهُمَا مَغْرَمًا بُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الْأَبْرَارِ .
۲۔ ﴿ مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ، أَوْ قَضَى عَنْهُمَا دَيناً بعد موتَيهما   بُعِثَ مَعَ الأَبْرَارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  ﴾.

تخریج :
پہلے الفاظ : سنن الدارقطنی (3/299) ،  المعجم الاوسط (8/11 الترغيب فی فضائل الاعمال وثواب ذلك لابن شاهين (ص: 94
دوسرے الفاظ : مسند البزار (11/105

حال روایت : تمام اسانید میں : صلہ بن سلیمان عطار ہے ، جو متروک الروایت اور غیر معتبر راوی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ ابن حبان نے (مجروحین 1/376)میں اور ذہبی نے (میزان 2/320)میں صلہ کے ترجمہ میں یہی روایت کو اس کی منکر روایات کی مثال دیتے ہوئے پیش کی ہے ، تو یہ حدیث  بروایت ابن عباس ناقابل قبول ہے ۔

۴۔ حضرت ابن عمر کی روایت :

﴿ مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا كُتِبَ لَهُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لِلْمَحْجُوجِ عَنْهُمَا أَجْرُ حَجَّةٍ تَامَّةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمَا شَيْئٌ      ۔

تخریج :
شعب الإيمان(10/304) ،الترغيب والترهيب لقوام السنہ (1/279)

سند کا حال :
سند کا مشترک حصہ یہ ہے :  أحمد بن يزيد بن دينار أبو العَوَّام ثنا محمد بن إبراهيم الحارثي عن حنظلة بن أبي سفيان السدوسي عن عبد العزيز بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن جده مرفوعا .
قال البيهقي في الشعب(10/304):أحمد بن يزيد وشيخه مجهولان .


دوسری وہ روایات جن میں مطلقا میت کی طرف سے حج کرنے کا ذکر ہے:

ایک تو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے

﴿ مَنْ حَجَّ عَنْ مَيِّتٍ فَلِلَّذِي حَجَّ عَنْهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، وَمَنْ فَطَّرَ صَائِمًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، وَمَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ

تخریج :  المعجم الأوسط (6/69) سند یہ ہے :  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ بَهْرَامَ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ۔

تاریخ بغداد للخطيب (11/353) سند یہ ہے : أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْحَرْبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ جَعْفَرٍ الْخِرَقِيُّ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الطَّيِّبِ الشُّجَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حُجَيَّةَ عَلِيُّ بْنُ بَهْرَامَ الْعَطَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي كَرِيمَةَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ۔

حال سند :البانی نے (السلسلہ الضعیفہ3/626) میں کہا :

هذا سند ضعيف، وله علتان: الأولى: جهالة أبي حجية هذا فقد ترجمه الخطيب ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا. والأخرى: عنعنة ابن جريج فإنه مدلس.

لیکن خلدون الاحدب نے (زوائد تاریخ بغداد8/174) اس سند کی علت ابو حجیہ کے مادون راوی بتائی ہے ، اور وہ ہے :الحسن بن الطیب الشجاعی ، جس پرسرقۃ الحدیث اور تحدیث بما لم یسمع کی تہمت لگائی گئی ہے ۔لیکن طبرانی کی سند میں مطین حضرمی اس کے متابع ہیں جو موثوق ہیں ۔تو یہ ضعف مؤثر نہیں ہے ۔البتہ البانی کی نشاندہی کی ہوئی علتیں مؤثر ہیں ۔

اس سلسلہ میں دوسری روایت حضرت جابر سے مروی ہے ، جس کی تخریج ابن الجوزی نے (الموضوعات(2/ 219)میں کی ہے ، اور وہ یہ ہے :

بَاب ثَوَاب من يحجّ عَن غَيره
أَنبأَنَا إِسْمَاعِيل بن أَحْمد أَنبأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعَدَةَ أَنْبَأَنَا حَمْزَةُ أَنبأَنَا أَبُو أَحْمد ابْنُ عَدِيٍّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ السِّخْتِيَانِيُّ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَدْخُلُ بِالْحِجَّةِ الْوَاحِدَةِ ثَلاثَةُ نَفَرٍ الْجَنَّةَ: الْمَيِّتُ وَالْحَاجُّ عَنْهُ وَالْمُنْقِدُ لَهُ ".

قال ابن الجوزی : هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالْمُتَّهَم بِهِ إِسْحَاق بْن بِشْر وَهُوَ فِي عِداد مَن يضع الحَدِيث۔

تنبیہ : المنقد لہ کے معنی ہے : نقدا نفقہ دینے والا ۔

خلاصۃ القول :

حج عن الغیر ( والدین ہوں یا اور کوئی )کے جواز پر صحیح احادیث ہیں ، لیکن ان میں مقادیر ثواب یا اور کوئی خاص فضیلت مذکور نہیں ، ہاں جن روایات میں والدین کی طرف سے حج کرنے پر مخصوص فضیلت یا مضاعفۃ الثواب مذکور ہے ، وہ روایات (بجز حضرت زید بن ارقم کی روایت ایک طریق سے) سب شدیدۃ الضعف ناقابل تقویت ہیں ۔اور وہ روایات ایک دوسرے کے لئے شواہد بھی نہیں بن سکتیں ، اس لئے کے ترکیب اسانید کا اندیشہ رہتا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ : کوئی معروف متن حدیث کو لیکر اس پر دوسری من گھڑت اسانید دوسرے صحابہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے چسپاں کرنا، جس سے تعدد طرق کا وہم ہو ، جبکہ وہ روایت فی الحقیقت ایک ہی سند سے معتبر ہو ۔

اس لئے اس روایت کو حضرت زید بن ارقم کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے ، کیونکہ اس کا ایک طریق جو (الثقفیات ) میں ہے اس میں کوئی علتِ مؤثرہ نظر نہیں آرہی ہے ، لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا۔

باحثین محققین کے یہاں اس سلسلہ میں کوئی مزید تحقیق ہو ، تو ان سے التماس ہے کہ مطلع فرمادیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت