خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت دعا کی قبولیت




سوال : ہمارے ہاں يہ بات مشھور ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے،
 اس پہلی نظر سے کیا مراد ہے اور کیا  يہ روايت صحيح ہے؟


الجواب باسم ملھم الصواب :

واضح رہے کہ خانہ کعبہ کے قريب دعا مانگنے کے بارے ميں دو طرح کی روايات منقول ہيں:

1. خانہ کعبہ پر نظر پڑتے وقت  دعا مانگنا.
2.خانہ کعبہ سے چمٹ کر دعا مانگنا.

1. پہلی نظر کی دعاسے متعلق صراحتا تو ايسی کوئی روايت منقول نہيں جس ميں پہلی نظر کی دعا کا ذکر ہو، البتہ مطلقا خانہ کعبہ کو ديکھ کر دعا کی قبولیت کی ایک روايات موجود ہے، ليکن روايت سند کے اعتبار سے بہت کمزور ہے، اور وہ یہ ہے :
عن أبي أمامة الباهلي رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " تفتح أبواب السماء ويستجاب الدعاء في أربعة مواطن : عند التقاء الصفوف ، وعند نزول الغيث ، وعند إقامة الصلاة ، وعند رؤية الكعبة ". رواه الطبراني في المعجم الكبير (8/199-201) والبيهقي في السنن الكبرى (3/360) كلاهما من طريق الوليد بن مسلم قال : حدثنا عفير بن معدان ، عن سليم بن عامر ، عن أبي أمامة ...

اسناد میں  : (عفير بن معدان حمصی مؤذن) ہے جو محدثین کے نزدیک مجروح ہے ، ائمہ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
امام احمدنے کہا : ضعيف منكر الحديث ہے.ابن معين : ثقہ نہیں.امام بخاری : منكر الحديث.ابو حاتم رازی : ضعيف الحديث ہے ، سليم بن عامرکے واسطے سے حضرت ابوامامہ سے کثرت سے منکر اور بے اصل روایتیں نقل کرتا ہے ، اس کی روایات سے اشتغال ترک کردینا چاہئے ۔ دیکھئے : (  التاريخ الصغير: 2/161، سؤالات البرذعی لأبی زرعہ 2/372 ، الجرح والتعديل: 7/36 ، تهذيب الكمال: 20/176-179، ميزان الاعتدال 3/83) ۔
اسی طرح مذکورہ روایت کے بارے میں : امام هيثمي نے مجمع الزوائد (10/155)میں کہا : [وفیہ عفير بن معدان، مجمع على ضعفہ].ابن حجر نے نتائج الأفكار(1/393)میں کہا : [هذا حديث غريبوقد تساهل الحاكم فی المستدرك وصححہ ورده الذهبی لأن فیہ عفيراً واه جداً] البانی نے ضعيف الجامع(رقم2465)میں کہا : [ضعيف جداً].


ایک اور روایت ہے جس میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خانہ کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنا منقول ہے ، لیکن روایات اس باب میں بھی کمزور ہیں ، امام شافعی نے اپنے (مسند948) میں یہ روایت پیش کی ہے :
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْبَيْتَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَقَالَ: «اللَّهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَتَكْرِيمًا وَمَهَابَةً، وَزِدْ مِنْ شَرَّفَهُ وَكَرَّمَهُ مِمَّنْ حَجَّهُ وَاعْتَمَرَهُ تَشْرِيفًا وَتَكْرِيمًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا» .

امام بیہقی (سنن کبری ۵/۱۱۸) میں فرماتے ہیں : هَذَا مُنْقَطِعٌ وَلَهُ شَاهِدٌ مُرْسَلٌ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الشَّامِيِّ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ مَكَّةَ فَرَأَى الْبَيْتَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَكَبَّرَ وَقَالَ: " اللهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْكَ السَّلَامُ ، فَحَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلَامِ ، اللهُمَّ زِدْ هَذَا الْبَيْتَ تَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا  وَمَهَابَةً ، وَزِدْ مَنْ حَجَّهُ أَوِ اعْتَمَرَهُ تَكْرِيمًا وَتَشْرِيفًا وَتَعْظِيمًا وَبِرًّا ".
ابن ابی شیبہ نے بھی (مصنف/29624۔۲۹۶۲۵)  میں ایک باب باندھا : مَا يَدْعُو بِهِ الرَّجُلُ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ، اور اس میں بعض آثار تابعین دعا کرنے کے متعلق ذکر کئے ۔

پہلی نظر سے کیا مراد ہے ؟

قال المناوي في "فيض القدير" : قوله : وعند رؤية الكعبة ، يحتمل أن المراد أول ما يقع بصر القادم إليها عليها، ويحتمل أن المراد ما يشمل دوام مشاهدتها، فما دام إنسان ينظر إليها فباب السماء مفتوح والدعاء مستجاب، والأول أقرب . أهـ .

امام مناوی فرماتے ہیں کہ : پہلی نظر سے مراد میں دو احتمال ہیں :ایک یہ کہ زیارت کے لئے آنے والے کی سب سے پہلی نظر ، اور دوسرا احتمال خانہ کعبہ کی طرف مسلسل نظر جمائے ہوئے دعا کرنا  ، تو جب تک اس کی نظر جمی رہے گی آسمان کے دروازے کھلے رہیں گے اور دعا قبول ہوگی ۔ امام مناوی کہتے ہیں : پہلا احتمال مراد ہونازیادہ قریب ہے ۔

2.خانہ کعبہ سے چمٹ کر دعا مانگنے کی روایات مجموعی طور پرصحیح ہیں ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی اس کے مطابق ثابت ہے ، صحابہ تابعین اور سلف صالحین سے بھی یہ منقول ہے ، اور اسی پر امت کا عمل بھی رہا ۔دیکھئے : ابو داود (1899) ابن ماجہ (2962) مسند أحمد (36/147) ، ( 36 / 151،152)  بيهقی (5/93) وغیرہا ۔

خلاصہ کلام

اگرچہ پہلی نظر کے متعلق روايت سند کے اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط نہيں ہے، ليکن اتنی بات ضرور ہے کہ جب انسان پہلی بار خانہ کعبہ کو ديکھتا ہے تو اس کے اندر ايک ہيبت، خوف اور شوق کی کیفيت پيدا ہوتی ہے، اور يہ تمام کیفيات دعا کی قبوليت کیلئے مطلوب ہيں، اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جو دعا امام شافعی رحمہ اللہ نے نقل کی ہے ، اس کے اور دیگر دعاؤں کے پڑھنے کی گنجائش ہے ، جیساکہ اہل علم نے فقہ کی کتابوں میں عمل بالضعیف فی الفضائل کے قاعدہ کی بنا پر استحباب لکھا ہے ۔لہذا  اگرچہ اس وقت دعا کے مانگنے کو احتیاطا سنت ثابتہ نہ کہا جائے ليکن دعا ضرور مانگنی چاہيئے، اور يہ صرف پہلی نظر کے ساتھ مخصوص نہيں بلکہ جب بھی خانہ کعبہ پر نظر پڑے انسان پر کیفيت طاری ہونی چاہيئے ،اور اللہ تعالی سے دعا مانگنی چاہيئے.


انتہی ملخصا مما کتبہ المفتی عبد الباقی اخونزادہ ۔ جوزی خیرا۔مع بعض الاضافہ


Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت