اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان دعا کی تحقیق





تخريج حديث ( اللهم بارك لنا في رجب وشعبان ، وبلغنا رمضان )
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ:
 اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ .

اولا : اسانید الروایہ
یہ حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، اور اس حدیث کی اسانیدکا مدار زائدہ بن ابی الرقاد پر ہے ، اس سے متعدد راویوں نے روایت کی ہے ، ان میں سے :قَواریری ،مُقَدّمي، عبد السلام الجِنّي ، أحمد بن مالك القُشیري ہیں۔

الطریق الأولی : عُبَید الله بن عُمر القَوَاریري عن زائدة
تخریجها : أخرجها من هذه الطريق :
عبد الله بن أحمد في "زوائد المسند" برقم (2346)
وابن أبي الدنيا في جزء "فضائل رمضان" (ص: 23)
وابن السُّني في "عمل اليوم والليلة" برقم (659)
والخلال في "فضائل رجب"  (ص: 45)
والبيهقي في كتبه الثلاثة "شعب الإيمان"(5/ 348) و"الدعوات الكبير"(2/ 142) و"فضائل الأوقات" (ص: 104) وغيرهم .
الطریق الثانية: محمد بن أبي بکر المُقَدَّمي عن زائدة
تخریجها :أخرجهامن هذه الطريق :
الطبراني في "الدعاء" (ص: 284)
وأبو نعيم في "حليةالأولياء" (6/ 269) .
الطریق الثالثة : عبد السلام بن عُمر الجِنّي عن زائدة
تخریجها :أخرجهامن هذه الطريق :
الطبراني في "المعجم الأوسط" (4/ 189) برقم 3939 .
فائدة : الجِنِّي بكسر الجيم والنون المشددة ، ضبط هذه النسبة ابن ماكولا في "الإكمال" 2/231 والسمعاني في "الأنساب" 3/360. وتحرفت في بعض الكتب إلى : الجنبي ، الخشني ، الحسني ...الخ
الطریق الرابعة : أحمد بن مالك القُشَيري عن زائدة
تخریجها :أخرجهامن هذه الطريق :
البزارفي "البحر الزخار" (13/ 117) .

ثانیا : الفاظ الروایہ
مذکورہ تمام راویوں نے اس حدیث کو: « اللهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ »کے الفاظ سےنقل کرنے میں اتفاق کیا ہے۔
سوائے عبد اللہ بن احمد کے ، انہوں نے زوائد المسند میں دوسرے جملے کو بلفظ« وبارك لنا في رمضان »نقل کیا ہے ۔
اسی طرح بعض روایتوں میں اس دعا کے اخیر میں  جمعہ کے دن کی فضیلت بھی وارد ہے ، بلفظ« وَكَانَ يَقُولُ: إِنَّ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ لَيْلَةٌ غَرَّاءُ، وَيَوْمَهَا يَوْمٌ أَزْهَرُ»کما فی زوائد المسند وعمل الیوم واللیلہ والدعوات الکبیر ومسند البزار ۔


ثالثا: حکم الروایہ
یہ روایت بہت زیادہ ضعیف ہے ، اور اس کا ثبوت بھی مرفوعا مجروح ہے ، کیونکہ سند میں دو راوی ضعیف ہیں ، اوردونوں کا تفرد بھی ہے ، نیز اس سند کو خصوصی طور پر غیر معتبر قرار دیا گیا ہے ۔
 اس سلسلہ میں دو اصول بھی ذکر کرنے ہیں ، لہذا اس اجمال کی تفصیل یہ ہے :
الکلام علی زائدہ بن ابی الرقاد:
زائدہ بن ابی الرقاد ،کنیت ابومعاذ،قبیلہ باہلہ کے، اور عراق میں بصرہ کے باشندہ تھے۔
ان کا طبقہ تبع تابعین کا ہے ، ان کی اکثر روایات حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ہے ، خصوصا  ثابت بنانی ، زیاد بن عبد اللہ نمیری بصری ، اور عاصم احول سے۔زائدہ سے روایت کرنے والے بھی متعدد راوی ہیں ، جیسے : عبید اللہ قواریری ، محمد مقدمی،خالد بن خداش ، اور یحیی بن کثیر عنبری وغیرہم ۔اورزائدہ قلیل الروایہ ہیں ، اس لئے ان کے شاگرد عبید اللہ قواریری کہتے ہیں کہ : میں نے ان کی تمام روایات لکھ لی تھیں ،اور مجھے ان میں کوئی قابل گرفت بات نظر نہیں آئی ۔
مگر ان کی روایات میں مشاہیر سےروایت کرنے میں سنداًٍ ومتنا دونوں طرح کاتفرد پایا جاتا ہے ، جو سببِ ضعف قرار دیا جاتا ہے اس وقت جبکہ اس راوی کے حفظ وضبط کی ائمہ حدیث کی طرف سے توثیق بھی نہ ہو ،کما ہو الحال ھنا ، پھر راوی کی جانب سےتفرد کی کثرت اگرہوتی ہو تو راوی منکر الحدیث ٹھیرایا جاتا ہے ۔

تفرد الراوی کا اصول:
زائدہ کی روایات میں اگر غور کریں وہ دو طرح کی ہیں :
۱۔ بعض روایات میں ان کے نقل کردہ مضمون کی روایت  میں دوسرے راوی ان کی متابعت کرتے ہیں ، تو یہ متابعت کی وجہ سے ان کی روایت کو تقویت مل کر ، تفرد کا اندیشہ دور  ہوجاتا ہے ۔اس لئےبعض محدثین متابعت کی وجہ سے روایت کو حسن قرار دیتے ہیں ۔
۲۔ مگر بعض روایات میں وہ سنداور متن دونوں کے اعتبار سے منفرد ہوتے ہیں ، یعنی ان کا نقل کردہ مضمون کوئی دوسرا راوی مطلقا نقل نہیں کرتا ہے ، اس طرح کی روایات جو سند اور متن دونوں کے اعتبار سے منفرد ہوں ،محدثین کے نزدیک مقدوح ہوتی ہیں اور شدتِ ضعف سے ان کو موسوم کیا جاتا ہے ۔
انہی دو باتوں کو ابن عدی نے اس طرح سے بیان کیا :(وَزَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ لَهُ أَحَادِيثُ حِسانٌ ، يَرْوِي عَنْهُ الْمُقَدَّمِيُّ وَالْقَوَارِيرِيُّ وَمُحمد بْنُ سَلامٍ وَغَيْرُهُمْ ،وَهِيَ أَحَادِيثُ إِفْرَادَاتٌ وفي بعض أحاديثه ما يُنكر)
قلت ِمتابعت اور کثرت تفرد یہی وجہ ہے زائدہ کے بارےمیں ائمہ نقاد کے اختلاف رائے کا، کہ جنہوں نے بعض روایات میں دوسروں کی متابعت وموافقت دیکھی تو ہلکا سا اطمینان ظاہر کیا کا لقواریری وابن عدی، اور جنہوں نے کثرتِ تفرد ملحوظ رکھا، خصوصا جب سند اور متن دونوں کا تفرد ہو ، تو انہوں نے زائدہ پرجرح کیا ، کبقیۃ النقاد :ابن المدینی وابن معین والبخاری وابی حاتم وابی داود والنسائی وابن حبان۔
سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ: زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ رَوَى مَنَاكِير . الضعفاء الكبير للعقيلي (2/ 81)
زَائِدَة بن أبي الرقاد لَيْسَ بِشَيْء .من كلام أبي زكريا يحيى بن معين في الرجال (ص: 64)
زائدة بْن أَبِي الرقاد، عَنْ زياد النميري وثابت، منكر الحديث.التاريخ الكبير للبخاري (3/ 433)
سَأَلْتُ أَبَا داود عَن زائدة بْن أَبِي الرُّقَاد فَقَالَ: "لا أعرف خبره" .سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل (ص: 234)
سألت أبي عن زائدة بن أبي الرقاد فقال: يحدث عن زياد النميري عن أنس أحاديث مرفوعة منكرة فلا ندري منه أو من زياد؟ ولا أعلم روى عن غير زياد فكنا نعتبر بحديثه.الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (3/ 613)
قَالَ النَّسَائِيّ مُنكر الحَدِيث .الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي (1/ 291)
يَرْوِي الْمَنَاكِير عَن الْمَشَاهِير لَا يُحْتَج بِهِ وَلَا يُكْتب إِلَّا للاعتبار.المجروحين لابن حبان (1/ 308)

جرح مخصوص کا اصول:
تفرد الراوی کے ساتھ ایک اور اہم اصول کو بھی دھیان میں رکھنا چاہئے ، وہ ہے (جرح مخصوص )یعنی : جب ائمہ نقاد میں سے کوئی ناقد کسی راوی کی کسی مخصوص سند یا متن پر جرح کر کے عدم اعتماد ظاہر کرے ، تو وہ جرح مندمل نہیں ہوتا ، اور اس مخصوص روایت پر قواعد عامہ (کجواز العمل بالضعیف فی فضائل الاعمال)لاگو کر کے ، اس کی تحسین یا تصحیح کرنے کوشش کرنا خلاف اصول ہے ، اور صریح غلطی ہے ۔
یہاں پر بھی زیر بحث روایت میں جرح مخصوص پایا گیا ہے :
فقد قال البخاري : زائدة بْن أَبِي الرُّقاد، عَنْ زياد النميري وثابت، منكر الحديث۔ [التاریخ الکبیر]
وقال أبو حاتم الرازي :يحدث عن زياد النميري عن أنس أحاديث مرفوعة منكرة ، فلا ندري منه أو من زياد؟ ولا أعلم روى عن غير زياد ، فكنا نعتبر بحديثه۔[الجرح والتعدیل]
امام بخاری اور ابو حاتم دونوں نے زائدہ کی وہ روایات جو بواسطہ زیاد النمیری کے حضرت انس سے مرفوعا مروی ہیں ، ان کو منکرغیر معتبر قرار دیا ہے ، تو یہ جرح مخصوص ہے ، اور زیر بحث روایت بھی اسی سند سے منقول ہے ، بالفرض زائدہ کے بارے میں کہے گئے دیگر جروحات کا اعتبار نہ بھی کریں ، تب بھی یہ روایت جرح مخصوص کی بناء پر غیر معتد بہ ہوگی ۔

الکلام علی زیاد النمیری :
نیز سند میں زیاد النمیری بھی ہے ، جس پر ضعف وعدم اعتمادکا عام حکم لگایا گیا ہے ، اور ابن حبان نے (مجروحین1/306 ) میں جرح خاص سے بھی مقدوح کیا ہے ، حیث قال :(منكر الحديث يروي عن أنسٍ أشياءَ لا تشبه حديث الثقات) تو زیاد کی حضرت انس سے نقل کی گئی روایات پر جرح کیا ہے ۔اگرچہ ابن عدی اوربزار کی رائے زیادکے بارے میں معتدل ہے ، قال ابن عدی : (ولزياد النميري غيرُ ما ذكرت من الحديث عن أنس، والذي ذكرت له من الحديث مَن يرويه عنه فيه طعنٌ، والبلاء منهم لا منه، وعندي: إذا رَوَى عن زياد النميري ثقةٌ فلا بأس بحديثه) ، مگریہاں بھی (اذا روی عنہ ثقۃ ) کی قید مفقود ہے ، کیونکہ زائدہ بن ابی الرقاد موثوق نہیں ہے ۔

روایت کے بارے میں علماء حدیث کی رائے
علماء حدیث عموما اس روایت کے ضعف کے قائل ہیں ، پھر ان میں سےبعض ضعف کی تعبیرسند میں کسی راوی کےتفرد یامتن کی غرابت یا راوی کوضعیف بتاکربیان فرماتے ہیں ،اور دیگر حضرات اجمالا حدیث یا سند کوضعیف قرار دیتے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں :

راوی کےتفرد یا متن کی غرابت کے قائلین :
امام بزار (مسند13/119)طبرانی(المعجم الاوسط4/189)اور بیہقی (فضائل الاوقات۱۰۵) نے زائدہ کے تفرد کی تصریح کی ہے۔
حافظ ابنحجرنے(تخریج الاذکار)میں کہا: ھذاحدیث غریب.
راوی کے ضعف کی تصریح :
ذہبی نے اس روایت کو (میزان الاعتدال2/65)میں زائدہ کی منکر روایات میں شمار کیا ہے۔
ہیثمی نے (مجمع الزوائد2/165) میں زائدہ کو منکر الحدیث بتایا۔
اجمالا ضعف حدیث کے قائلین :
نووی نے(الاذکارص189)میں کہا:حلیۃالاولیاءمیں ضعیف سندکےساتھ مروی ہے.
ابو شامہ نے (الباعث ص73) میں منکر قرار دیا ہے۔
صاحب مشکوہ (1/432)نے حدیث کو فصل ثالث میں ذکر کیا ہے۔
ابن رجب نے (لطائف المعارف ص121) میں سند کو ضعیف بتایا۔
سیوطی نے (الجامع الصغیر)میں حدیث پر ضعف کی نشانی لگائی ہے۔
شیخ طاہر پٹنی نے (تذکرہ الموضوعات ص117)میں کہا : یہ سندِ ضعیف سے مروی ہے۔
امام لکھنوی نے(الآثار المرفوعہ ص59)میں ضعیف قرار دیا۔
متاخرین میں سے احمدمحمدشاکر(تحقیق مسنداحمد)البانی(ضعیف الجامع4395)شعیب الارنؤوط(تحقیق مسنداحمد)نے بھی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔

خلاصہ :
یہ ہے کہ اس روایت میں چار علل قادحہ ہیں :
۱۔ ضعف زائدہ بن ابی الرقاد۔
۲۔ ضعف زیاد النمیری۔
۳۔ تفرد ہما بالسند والمتن ۔
۴۔ جرح مخصوص کا اس روایت میں پایا جانا ۔
ان امور کی بناء پر اس حدیث کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے ، اگر کوئی مذکورہ دعا کو ویسے ہی پڑھنا چاہے تو گنجائش ہے ، اس لئے کے دعا کے الفاظ میں کوئی بات خلاف شرع نہیں ہے ۔ہذا ما اراہ ، والعلم عند اللہ۔


وحررہ العبد الضعیف محمد طلحہ بلال احمد منیار

Comments

  1. ماشاءاللہ اللھم زد فزد
    جزاک اللہ خیرا

    ReplyDelete

  2. علمائے راسخین میں سے کئی حضرات نے فضائل رجب پر خامہ فرسائی کی ہے۔ ان میں سے اکثر نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔ اور بس ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے۔ بالخصوص علامہ ابن رجب، جنھوں نے علل حدیث میں اپنا ثانی نہیں چھوڑا، اپنی مایہ ناز تصنیف لطائف المعارف میں فضائل رجب میں اس حدیث کو ذکر کر کے اور اس کے ضعف کو واضح کر کے اس سے ازمنہ مخصوصہ کے لیے دعا پر استدلال کیا ہے۔
    اب علامہ موصوف کے استدلال سے یہ صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ اس پائے کا ضعیف ہے، جو فضائل اعمال میں قابل تحمل ہے۔ امام نووی نے بھی الأذكار میں بھی حدیث ہذا اس کے ضعف کے ساتھ کو ذکر کیا ہے۔
    کل گذشتہ معروف محقق طلحہ منیار صاحب کا ایک مضمون دیکھا، جس میں عجیب وغریب نہج سے اس حدیث کو موضوع تک لے گئے۔
    دوسری بات واضح کر دوں کہ علامہ ابن رجب نے حدیث ہذا کو ذکر کے سے پہلے صلاۃ الرغائب یعنی ماہ رجب کے پہلے جمعے کی شب کی نماز کے سلسلے مین جو روایت ہے اس کے غلط اور باطل ہونے کو بھی واضح کیا ہے؛ لہذا علامہ موصوف متساہل کہہ کر اپنی تحقیقِ غریب کو استحکام نہیں دے سکتے ہیں۔
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ حدیث کا ضعیف ہونا مسلم ہے، لیکن اس کو موضوع کی حد تک لے جانا یہ بالکل بے جا اور صریح البطلان ہے۔ یہ حدیث اس قابل ہے کہ فضائل میں اس کا تحمل کیا جائے۔ جمہور محققین نے اس حدیث کو اسی پایے میں رکھا ہے۔ لہذا تحقیقِ نو غریب، شاذ بلکہ منکر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت