اذان یا اقامت کے وقت ( مرحبا بالقائلین عدلا ) کہنا




اس سلسلہ میں روایات دو طرح کی ہیں :
ایک مرفوع روایت ہے ، جس میں ان الفاظ کے پڑھنے کا ثواب بھی مذکور ہے ۔
دوسری روایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرموقوف ،جو ان کےاپنے  عمل وکلمات ہونے پر دال ہے ۔

اولا : مرفوع روایت :
مرفوع روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے ، جو آل بیت کی سند سے بواسطہ حضرت جعفر صادق مروی ہے، اور وہ روایت کرتے ہیں  ان کے والدسے ، وہ ان کے دادا سے ، کہ حضور ﷺ نے فرمایا :
(من سمع المنادي بالصلاة فقال: مرحبًا بالقائلين عدلًا ، مرحبًا بالصلاة وأهلًا؛ كتب اللهُ له ألفي ألف حسنة ، ومحا عنه ألفي ألف سيئة ، ورفع له ألفي ألف درجة).
ترجمہ : جس نے مؤذن کی ندا کے وقت یہ الفاظ کہے : خوش آمدید انصاف کا بول بولنے والوں کے لئے ، خوش آمدید نماز کی آمد پر ، اس کے لئے اللہ تعالی بیس لاکھ نیکیاں لکھتے ہیں ، اور اس سے بیس لاکھ گناہ مٹاتے ہیں ، اور اس کے لئے بیس لاکھ مرتبے بلند فرماتے ہیں ۔
تخریجہا : الزيادات على الموضوعات (1/ 402) ، تاريخ بغداد (13/ 39)۔
مرفوع روایت کا حال :  روایت موضوع اور بے اصل ہے ، اس کی دو اسانید ہیں ، اور دونوں غیر معتبر ہیں ، ایک میں ہمام بن مسلم ہے ، جس پر متون گھڑنے کا اور ترکیبِ اسانید کا الزام لگایا گیا ہے ، اور دوسری سند میں موسی بن ابراہیم مروزی ہے جو متروک اور متہم بالکذب ہے ۔
حافظ ابن حجر [لسان الميزان 8/344] میں لکھتے ہیں : مُحمد والد جعفر لم يدرك عَلِيًّا ، والمتن باطل ، وإنما يُروى ذلك عن عثمان من فعله ، وليس فيه ذكرُ الثواب المذكور۔ یعنی سند میں انقطاع ہے ، اور متن حدیث من گھڑت ہے ، ہاں یہ الفاظ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے عمل کے طور پر منقول ہیں ، مگر ان میں یہ ثواب مذکور نہیں ہے ۔
اسی لئے اس مرفوع روایت کو سیوطی [الزيادات على الموضوعات 1/ 402] ملا علی قاری [الأسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ ص: 346] محمد بن طاہر پٹنی [ تذکرۃ الموضوعات ص ۳۵] شوکانی [الفوائد المجموعہ ص: 20] وغیرہ نے موضوع اور بے اصل قرار دیا ہے ۔

ثانیا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت :

مُتـــونهــــــا :
كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ : مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا ، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا۔[ابن عکیم/حنيف المؤذن]
وفي رواية عنه : أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا ۔[ابن عکیم]
وفي رواية عنه: كَانَ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ قَالَ: قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا ، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا، ثُمَّ يَنْهَضُ إِلَى الصَّلَاةِ۔[قتادة]
وفي رواية عنه : كَانَ إِذَا جَاءَهُ مَنْ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، قَالَ: «مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا»۔[قتادة/مروان بن الحكم]

أسانيدها :
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل  بتانے والی روایت ، ان سے چار واسطوں سے منقول ہے :
۱۔ عبد اللہ بن عکیم کی روایت :
تخریجہا : الدعاء للطبرانی (ص: 159) ، مسند احمد بن منیع ( المطالب العاليہ بزوائد المسانيد الثمانيہ 3/ 102) ۔
حال الروایہ :ضعیفہ
اس کی سند میں تین علتیں ہیں : (۱) نضر بن اسماعیل اور (۲) عبد الرحمن بن اسحاق واسطی دونوں ضعیف ہیں ، (۳) واسطی کا شیخ عبد اللہ قرشی مجہول ہے ۔ [ انظر المطالب العاليہ محققا (3/ 102) ] ۔
۲۔ قتادہ بن دعامہ کی روایت  :
تخریجہا : مصنف ابن أبی شيبہ (1/ 206) باب : ما یقول الرجل اذا سمع المؤذن ، مصنف ابن أبی شيبہ (6/ 97)باب : ما یدعو  بہ الرجل اذا قامت الصلاۃ ، المعجم الكبير للطبراني (1/ 87) ، الدعاء للطبراني (ص: 159)۔
حال الروایہ : ضعیفہ للانقطاع
قتادہ کی سند ٹھیک ہے خصوصا ابن ابی شیبہ والی ، لیکن قتادہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ، اس لئے سند میں انقطاع ہے ۔
۳۔ حنیف المؤذن کی روایت :
تخریجہا : الدعاء للطبراني (ص: 159)
حال الروایہ : ضعیفہ للجہالہ
سند میں حنیف بن رستم مؤذن کا حال معلوم نہیں ، ابن معین نے ہلکی جرح کی ہے ، اور ذہبی اور ابن حجر نے مجہول قرار دیا ہے ۔[ الجرح والتعدیل (3/ 318) ؛ الميزان (1/ 621) ؛ تقريب التہذیب ]
۴۔ مروان بن الحکم کی روایت  :
تخریجہا :  تاريخ المدينة لابن شبة (3/ 961)
حال الروایہ : سند واقدی کے واسطے سے ہے ، اور واقدی مجروح ہے ۔

الخلاصہ :حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر موقوف روایت کی اسانید ضعف وانقطاع سے خالی نہیں ہیں ، لیکن مجموع الطرق سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ایک طرح کا ثبوت ضرور ملتاہے۔اور دعا کے الفاظ تو تقریبا تمام روایتوں میں یکساں ہیں (مَرْحَبًا بِالْقَائِلِينَ عَدْلًا، وَبِالصَّلَاةِ مَرْحَبًا وَأَهْلًا)البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کلمات کونسے موقع پر ارشاد فرماتے تھے، اس میں نقل کرنے والےمضطرب ہیں، اوپر روایتوں میں چار مواقع مذکور ہیں  :
۱۔ اذان کی آواز سنتے وقت۔
۲۔ مؤذن کے (حی علی الصلوہ) کہتے وقت۔
۳۔ اقامت میں (قد قامت الصلوہ) کے وقت۔
۴۔نماز کے لئے بلانے والے کے آنے کے وقت۔
ممکن ہے کہ متعدد مواقع پر کہتے ہوں ، واللہ اعلم،ابن ابی شیبہ نے (مصنف)میں یہ اثر اذان اور اقامت دونوں کے ابواب میں ذکر کیا ہے۔اور امام طبرانی نے (الدعاء) میں باب الاذان کے تحت ذکر کیا ہے۔

میرا گمان یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کلمات دعا کے طور پر نہیں ، بلکہ نماز کے ساتھ اپنے غیر معمولی تعلق شوق ولگاؤ، اور اطاعت میں بے پناہ رغبت ،اورنماز کی آمد پر اپنی خوشی کو ظاہر کرنے کے لئے ارشاد فرماتے تھے ، گویا یہ از قبیل ارشاد نبوی (ارحنا بہا یا بلال)کے ہے ۔نیز اس طرح کے کلمات جو اطاعت وفرمانبرداری، رضا وتسلیم  کے اظہار کے لئے ہوں ، ان کے کہنے کا جواز بعض دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے ، ملاحظہ فرمائیں :
1- عن أبي أمامة الباهلي، أو عن بعض أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أنَّ بلالاً أخذ في الإقامة، فلما قال: قد قامت الصلاة، قال النبيّ صلى الله عليه وسلم: " أقامَها اللَّهُ وأدَامَها " رواه أبو داود رقم (528) وإسناده ضعيف.
2- عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : كَانَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ : ( أَشْهَدُ بِهَا مَعَ كُلِّ شَاهِدٍ وَأَتَحَمَّلُهَا عَنْ كُلِّ جَاحِدٍ ). المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (3/ 105)وإسناده ضعيف.
3- ونحوه عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا سَمِعَ الْأَذَانَ قَالَ : ( وَأَنَا أَشْهَدُ بِهَا مَعَ كُلِّ شَاهِدٍ وَأَتَحَمَّلُهَا عَنْ كُلِّ جَاحِدٍ ). الدعاء للطبراني (ص: 160)ضعيف الإسناد.
4- وعَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ: حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، قَالَ: «الْمُسْتَعَانُ بِاللَّهِ»، فَإِذَا قَالَ: حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَالَ: «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» . ابن ابي شيبة (29774)
یہ شواہد سندا اگرچہ ضعیف ہیں ، لیکن مدعیٰ کے ثبوت کے لئے شواہد بن سکتے ہیں ، کیونکہ ان سے کوئی خاص دعائیہ کلمات ثابت کرنا مقصود نہیں ہے ، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ اذان واقامت کے وقت اس طرح کے کلمات کہنے کی گنجائش ہے ،ہاں  اس میں غلو کرنا اور ان کو مسنون دعاء سمجھ کر پڑھنااور دوسروں کو سکھانا، یہ درست نہیں ہے،بلکہ نہ پڑھنا زیادہ اولی ہے سدا للباب،ہذا ما اراہ ۔واللہ اعلم

جمعہ وحررہ العبد المقصرالمذنب 
محمد طلحہ بلال احمد منیار

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت