ختم قرآن کی دعا



ختم قرآن کی دعا

ختم قرآن مجید کے وقت دعاؤں کا قبول ہونا متعدد روایات سے منقول ہے ، البتہ اس سلسلہ میں کوئی متعین دعا کے الفاظ حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہیں ، لیکن بعض دعاؤں کی کتابوں میں دو دعائیں حضور ﷺ کی طرف منسوب ہیں ، اور یہ دونوں دعائیں ہمارے یہاں کے مطبوعہ قرآن شریف کے اخیر میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں ،اور دعاؤں میں ان کے پڑھنے کا اہتمام اسی وجہ سے کیا جاتا ہے ۔

 ان دونوں  کی تخریج وتحقیق ملاحظہ فرمائیں :

پہلی دعا : (اللهمَّ آنِسْ وَحْشَتِي فِي قَبْرِي).

تخریج :
136 قال الحاكم النیسابوري في "تأريخه" : أخبرنا يحيى العنبري ،أخبرنا أحمد بن الخليل البستي ،حدثنا الليث بن محمد ،حدثنا أحمد بن عبد الله بن خالد ،حدثنا الوليد بن مسلم ،عن سالم الخياط ،عن الحسن ،عن أبي أمامة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (إذا ختم أحدكم فليقل: اللهم آنس وحشتي في قبري) .
 أورده السيوطي في"الزيادات على الموضوعات" (1/ 124) وقال: أحمد بن عبد الله بن خالد هو الجويبارى أحد المشهورين بوضع الحديث.
ورواه الديلمي في مسند الفردوس [كما في زهر الفردوس (ج 1/ 2 ص 116)] من طريق الحاكم به.

حال الروایہ :موضوع
سند میں احمد بن خالد جویباری پر وضع حدیث کی تہمت لگائی گئی ہے ، اسی طرح سند میں لیث بن محمد اورسالم الخیاط ہیں ، یہ دونوں بھی متروک الروایہ ہیں ۔
سیوطی نے روایت کو (ذیل الموضوعات) میں ذکر کیا ہے ، اسی طرح بقیہ موضوع احادیث کی کتابوں میں بھی اس کو ذکرکیا گیا ، جیسے تنزيہ الشريعہ (1/ 299) ،الفوائد المجموعہ(ص: 310)۔

دوسری دعا : ( اللهمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَامًا وَنُورًا وَهُدًى وَرَحْمَةً، اللهمَّ ذَكِّرْنِي مِنْهُ مَا نُسِّيتُ وَعَلِّمْنِي مِنْهُ مَا جَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِي حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ ) .

تخریجہ :
قال الإمام ابن الجزري في "النشر في القراءات العشر" (2/ 463) :
فَقَدْ رَوَى أَبُو مَنْصُورٍ الْمُظَفَّرُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَرْجَانِيُّ فِي كِتَابِهِ "فَضَائِلِ الْقُرْآنِ" ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ الضَّحَّاكِ فِي "الشَّمَائِلِ" كِلَاهُمَا مِنْ طَرِيقِ أَبِي ذَرٍّ الْهَرَوِيِّ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي سُلَيْمَانَ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ الله - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: يَقُولُ عِنْدَ خَتْمِ الْقُرْآنِ " اللهمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَامًا وَنُورًا وَهُدًى وَرَحْمَةً، اللهمَّ ذَكِّرْنِي مِنْهُ مَا نُسِّيتُ وَعَلِّمْنِي مِنْهُ مَا جَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِي حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ " .

حکمہ :منقطع
قال ابن الجزري أيضا :
حَدِيثٌ مُعْضَلٌ ، لِأَنَّ دَاوُدَ بْنَ قَيْسٍ هَذَا هُوَ الْفَرَّاءُ الدَّبَّاغُ الْمَدَنِيُّ مِنْ تَابِعِي التَّابِعِينَ ، يَرْوِي عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الله بْنِ حُنَيْنٍ. رَوَى عَنْهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ وَعَبْدُ الله بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ ، وَكَانَ ثِقَةً صَالِحًا عَابِدًا مِنْ أَقْرَانِ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، خَرَّجَ لَهُ مُسْلِمٌ فِي صَحِيحِهِ، وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا أَعْلَمُ وَرَدَ عَنِ النَّبِيِّ - صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي خَتْمِ الْقُرْآنِ حَدِيثٌ غَيْرُهُ.
حدیث معضل ہے ، یعنی داود بن قیس کے بعد دو واسطے ساقط ہیں کیونکہ وہ تبع التابعین میں سے ہیں، تو حدیث متصل نہیں ، اور حضور ﷺ سے بھی اس طرح ثابت نہیں ہے ، نیز اس دعا کی صرف یہی ایک سند ہے ۔
قال الشيخ بكر أبو زيد في رسالته " مرويات ختم القرآن " ص256- 257 :
ذكره الغزالي في " الإحياء "(1/278) ، وأورده السبكي في " الطبقات " (6/286) ضمن الأحاديث التي لم يجد لها إسنادا ، وعزاه الزركشي في " البرهان " (1/475) إلى البيهقي في " دلائل النبوة " ولم أره في المطبوع ، وذكره الغافقي في "فضائل القرآن" ولم يذكر مخرّجه كعادته .

تنبيه :
اس روایت کے عدم اعتبار کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کو متاخرمصنفین نے ذکر کیا ہے ، مظفر بن حسین ارجانی اور ابن الضحاک یہ دونوں پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں تھے ، متقدمین کی کتابوں میں یہ دعا وارد نہیں ہے ۔

تنبیہ آخر :
ابن الضحاک صاحب کتاب ( الشمائل ) کی کنیت : ابو الحسن ہے ، ابوبکر نہیں ، ان کا نام ہے : علی بن ابراهيم بن عبد الرحمن بن الضحاك الفزاری ، ابو الحسن النفزی الغرناطی الاندلسی ، محدث فقیہ متکلم ہیں ،متوفی سنہ 755 ھ ۔ اور ان کی شمائل کی کتاب کا نام ہے «زواهر الأنوار، وبواهر ذوي البصائر والاستبصار، في شمائل النبيّ المختار» دو جلدوں میں ہے،صاحب (سبل الہدی) نے کثرت سے ان کی کتاب کی طرف رجوع کیا ہے ، اور عموما ان کی روایات میں غرابت تفرد اور نکارت پائی جاتی ہے ۔
مصادر الترجمة :
الإحاطة بأخبار غرناطة [4/149] ، تاريخ الذهبي [12/15] ، التكملة لابن الابار [3/195] ، الذيل والتكملة (السفر الخامس) [1/282] ، الديباج المذهب لابن فرحون 2/115] .

خلاصہ :
ختم قرآن مجید کے وقت ان دعاؤں کو بحیثیت دعا کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بزرگان دین کا تعامل بھی رہا ہے ، لیکن حدیث کی حیثیت سے ان کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے ، کیونکہ اسانید غیر معتبر ہیں ۔

لخصہ العاجز : محمد طلحہ بلال أحمد منيار 

Comments

  1. Thanks alot. I was searching for such a detailed reference about these supplications. May Allah Amighty reward you the best everywhere.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت