قیامت کے دن علماء کی تکریم ومغفرت


تحقیق حال حدیث :

" يبعث الله العباد يوم القيامة، ثم يميز العلماء، ثم يقول: يا معشر العلماء ، إني لم أضع علمي فيكم إلا لعلمي بكم ، ولم أضع علمي فيكم لأعذبكم ، انطلقوا فقد غفرت لكم... الحديث

ذخیرۂ احادیث میں ۸ حضرات صحابہ کی روایات اس سلسلہ میں ملتی ہیں :

1) حضرت ابو موسی اشعری   2) حضرت  ثعلبہ بن الحکم  3) حضرت  ابن عباس  4) حضرت  ابو امامہ یا حضرت واثلہ بن الاسقع (راوی کے شک کے مطابق )   
5) حضرت  ابو ہریرہ     6) حضرت  ابن عمر    7) حضرت  جابر  ابن عبد اللہ  8) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم اجمعین۔ 
اور دو تابعین سے موقوفا : 9) حضرت حسن بصری  سے موقوفا  علیہ   10)  ابو عمر حفص بن میسرہ صنعانی سے موقوفا علیہ ۔


حدیث أبي موسی الأشعري

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِنْدً، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: " يَبْعَثُ اللَّهُ الْعُلَمَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا مَعَاشِرَ الْعُلَمَاء،إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ  وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعَذِّبَكُمْ ،اذْهَبُوا فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ " الحديث . لَا يُرْوَى عَنْ أَبِي مُوسَى إِلَّا بِهَذَا الْإِسْنَادِ ، تَفَرَّدَ بِهِ عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، المعجم الصغير للطبراني (1/354) .
ولم يتفرد به عمرو بن أبي سلمة ، فقد رواه عن صدقة : منبه بن عثمان اللخمي وكذلك سلامة بن بشر العُذري كما في "جامع بيان العلم وفضله" (1/215،217) ومعجم ابن عساكر (2/851). والترغيب والترهيب لقوام السنة (3/ 100) والمعرفة والتاريخ للفسوي (3/ 402(.
وذكر ابن عدي في" الكامل" (2/205) متابعة محمد بن شعيب بن شابور لصدقة السمين.

وفي مسند الروياني (1/ 353) من طريق آخر ، قال :
542 - نا ابْنُ مَعْمَرٍ، نا رَوْحٌ، نا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَبْعَثُ اللَّهُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ثُمَّ يُمَيِّزُ الْعُلَمَاءَ فَيَقُولُ: يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ، إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ لِأُعَذِّبَكُمْ، اذْهَبُوا فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ " .

 سند کی تحقیق: 
طبرانی کی  روایت میں تین متکلم فیہ راوی ہیں :
۱۔ صدقۃ بن عبد اللہ السمین : ضعیف ہے ۔
امام احمد ابن معین ودارقطنی نے ضعیف قرار دیا۔
مسلم نے منکر الحدیث کہا ۔
ابن عدی نے غیر قابل احتجاج قرار دیا ہے۔
۲۔ طلحہ بن زید  : متہم بالوضع ہے۔
امام احمد بن حنبل نے طلحہ کے متعلق متہم بالوضع ہونا نقل کیا ہے۔
علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ:یہ شخص حدیثیں گڑھتا ہے  ۔
امام ابو حاتم نے منکر الحدیث قرار دیا ہے نیز ضعیف الحدیث ہونا بھی قرار دیا ہے، اور فرمایا کہ: مجھے اس کی مرویات پسند نہیں ہیں ۔
امام بخاری وغیرہ نے بھی منکر الحدیث کا حکم لگایا ہے ۔
 ابن حبان فرماتے ہیں کہ: طلحہ بن زید کی مرویات سے احتجاج جائز نہیں ہے ۔
اور البانی نے کہا کہ: طلحہ بن زید متہم بالوضع ہے اور یہ ہی حدیث کی آفت ہے ۔
۳۔  موسی بن عبیدة  ربذی : ضعیف ہے ۔
ابن معین نسائی ابن عدی نے ضعیف کہا ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ :میرے نزدیک موسی بن عبیدہ کی روایات معتبر نہیں ہیں، اس کی احادیث کتابت کے قابل نہیں ہیں ۔

حدیث  ابو موسی کا خلاصہ: ضعیف ہے ۔

طبرانی کی سندمتکلم فیہ راویوں کے پیش نظر ساقط الاعتبار قراردی جاتا ہے ۔ وهوفی الموضوعات لابن الجوزی (1/263) واللآلىء المصنوعہ فی الأحاديث الموضوعہ (1/ 201)۔
قال ابن عدي كما في "ذخيرة الحفاظ"(5/2772)  : " وَهَذَا الحَدِيث بِهَذَا الْإِسْنَاد بَاطِل، وَإِن كَانَ الرَّاوِي عَنهُ صَدَقَة بن عبد الله، وَهُوَ ضَعِيف، فقد رَوَاهُ عَنهُ مُحَمَّد بن شُعَيْب بن شَابُور، وَهُوَ ثِقَة؛ فَلَزِمَ هَذَا الحَدِيث طَلْحَة بن زيد.

ٍٍمگرمسندرویانی کی روایت میں اسامہ بن زید لیثی ہے ، جو مختلف فیہ راوی ہے ، اور سعید بن ابی ھند کی ابو موسی سے روایت میں انقطاع ہے ، ہر دو علتوں کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے ۔

حديث ثعلبة بن الحكم

حدثنا أحمد بن زهير التستري ، قال: حدثنا العلاء بن مسلمة ، قال: حدثنا إبراهيم الطالقاني ، قال: حدثنا ابن المبارك ، عن سفيان ، عن سماك بن حرب ، عن ثعلبة بن الحكم : يقول الله عز وجل للعلماء يوم القيامة إذا قعد على كرسيه لقضاء عباده :" إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ عِلْمِي وَحُكْمِي فِيكُمْ، إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَغْفِرَ لَكُمْ عَلَى مَا كَانَ فِيكُمْ، وَلَا أُبَالِي " . رواه الطبراني في " المعجم الكبير " (1 / 137 / 2) .

ورواه أبو نعيم في "معرفة الصحابة" (1/ 487) من طريق الطبراني فذكر بدل (العلاء بن مسلمة ) : العلاء بن سالم ، وكذا ورد في تفسير ابن كثير . وأظنه محرفا عن : العلاء أبي سالم ، فهي كنية ابن مسلمة الرواس .
1386 - حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ زُهَيْرٍ، ثنا الْعَلَاءُ بْنُ سَالِمٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ الطَّالَقَانِيُّ، ثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ، ...الخ

ورواه البيهقي في "المدخل إلى السنن الكبرى" (ص: 345) من وجه آخر ، قال :
570 - أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، فِي التَّارِيخِ ثنا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَزْهَرِ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُصَيْنِ بْنِ بِشْرٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ الطَّالْقَانِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَكَمِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ حُكْمِي وَعِلْمِي فِيكُمْ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَغْفِرَ لَكُمْ عَلَى مَا كَانَ فِيكُمْ وَلَا أُبَالِي " . قال البيهقي : لا أراه محفوظا .

سند کی تحقیق :
اس سند کا مدار   علاء بن مسلمة بن أبي سالم پر ہے اور اس کے متعلق علماء کے اقوال یہ ہیں :
امام ازدی نے کہا کہ :اس سے روایت معتبر نہیں ہے اس لیےکہ وہ بے  پرواہ  ہے اپنی مرویات کے متعلق  ۔
ابن طاہر نے فرمایا کہ: یہ حدیثیں گڑھتا ہے ۔
اور ابن حبان نے فرمایا کہ: یہ موثوق بہ راویوں سے موضوعات نقل کرتا ہے،اور وضع کا حکم بھی لگایا ہے ، اسی وجہ سے حافظ نے "تقریب "میں متروک الروایہ قرار دیا ہے ۔
بیہقی کی سند میں احمد محمد بن الازہرمتروک ہے ، اور غرائب الاسانید روایت کرتاہے ، اس لئے بیہقی نے : غیر محفوظ کہا ۔

حدیث  ثعلبہ  کا خلاصہ :اشبہ بالموضوع
اس حدیث کو مذکورہ اقوال علماءکے پیش نظر غیر معتبر مانا جاتا ہے  ۔منذری نے (ترغیب ۱/۵۷) میں : رجالہ ثقات کہا ، جو تسامح ہے ، اسی طرح ابن کثیر نےتفسیر(سورہ طہ) میں ثعلبہ بن حکم کی روایت کے بارے میں : سندہ  جیدکہا ، لیکن ابن عراق نے "تنزیہ الشریعہ" میں اس پر رد کرتے ہوئے کہا : قلت : فِيهِ الْعَلَاء بن مسلمة الروّاس فَكيف يكون جيدا۔
اسی طرح بیہقی کی سند بھی معتبر نہیں ہے ۔

حديث ابن عباس

حَدَّثَنَاهُ أَحْمَدُ بْنُ الْخَلِيلِ الْجُوَيْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، مُؤَذِّنُ مَسْجِدِ بَنِي رِفَاعَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ أَرْطَأَةَ بْنِ الْأَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَبْعَثُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى الْعُلَمَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ نُورِي فِي أَفْوَاهِكُمْ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعَذِّبَكُمْ " ( الضعفاء الكبير للعقيلي ، 3/371) وقال : عَدِيٌّ حديثُه غيرُ محفوظ، والرواية في هذا فيها لين وضعف .

سند حدیث کے متعلق اقوال علماء:
اس میں بھی تین راوی مجروح ہیں :
قال الألباني : عدي هذا غير عدي بن أرطاة الفزاري الشامي، فإنه تابعي أكبر من هذا كما صرح بذلك الحافظ. وأبوه أرطاة بن الأشعث لم أعرفه . ومجالد وهو ابن سعيد ضعيف أيضا.

حديث ابن عباس کا خلاصہ :منکر
یہ حدیث منکر ہے ، اور عدی کے والد مجہول ہیں ،اور مجالد ضعیف ہے۔


حديث أبي أمامة أو واثلة بن الأسقع

 حَدَّثَنا الْحُسَيْنُ بْنُ عَبد اللَّهِ القطان، حَدَّثَنا عامر بن سيار، حَدَّثَنا عُثْمَانُ بْنُ عَبد الرَّحْمَنِ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَن أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ أَوْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جَمَعَ اللَّهُ الْعُلَمَاءَ فَقَالَ :إِنِّي لَمْ أَسْتَوْدِعْ حِكْمَتِي قُلُوبَكُمْ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعَذِّبَكُمُ ،ادْخُلُوا الْجَنَّةَ .
(الكامل في ضعفاء الرجال (6/277) وذكره ابن عساكر في تاريخ دمشق (7/43) أيضا .

اس حدیث کی سند کا حال :
سند میں عثمان بن عبد الرحمن وقاصی قرشی ، متروک ہے ۔
وقاصی کے متعلق   علماء کے اقوال یہ  ہیں  :
امام بخاری نسائی دارقطنی نے کہا : متروک ہے۔
ابن معین  فرماتے ہیں کہ :یہ جھوٹ بیان کرتا ہے ،اور بہت ضعیف ہے۔
اور ابن حبان نے کہا کہ :یہ ثقات راویوں سےوہ چیزیں روایت کرتا ہےجوموضوع ہوتی ہیں ۔
اور ابن المدینی نے  ضعفِ شدید کا حکم  لگایا ہے ۔
اور عامر بن سیار میں بھی ضعف ہے۔
ابن عدی نےحدیث ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ: یہ منکر ہے اس لیے کہ اس حدیث کا موثوق راویوں میں سے کوئی بھی متابع موجود نہیں ہے  ۔
خلاصہ حکم: ساقط الاعتبار

حديث أبي هريرة

أَنْبَأنَا القَاضِي أَبُو بَكْر أَحْمَد بْن الْحَسَن أَنْبَأنَا أَبُو عَليّ حَامِد بْن مُحَمَّد الرفا الْهَرَويّ ،أَنْبَأنَا نصر بْن أَحْمَد البوزجاني ،حَدَّثَنَا عَبْد السَّلَام بْن صالِح ،حَدَّثَنَا سُفْيَان بْن عُيَيْنَة ،عَن ابْن جريج ،عَن عَطاء، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُول الله: ... إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيَقُولُ لَهُمْ :إِنِّي لَمْ أُودعْكُمْ عِلْمِي وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعَذِّبَكُمْ .الضعيفة للألباني 2/59.
أَخْرَجَهُ الطبسي فِي "ترغيبه" ، وَأخرجه ابْن النجار بزيادة  " أشهدكم يَا ملائكتي إِنِّي قد غفرتُ لَهُم ".

اس حدیث میں  چند  علتیں موجود ہیں  :
پہلی علت یہ ہے کہ: ابن جریج  بطورعنعنہ عطاء سے روایت کرتے ہیں اور وہ مدلس ہیں ۔
دوسری علت: عبد السلام بن صالح کا ضعف ہے، اور یہ ابو الصلت الہروی ہے ، اکثر علماء اس کی تضعیف کے قائل ہیں ،بلکہ ابن عدی وغیرہ نے تو متہم بالوضع و الکذب قرار دیا ہے۔
تیسری علت یہ ہے کہ:نصر ابن احمد البوزجانی مجہول الحال ہے،اور دوسری حدیث میں اسکا نام نصر بن محمد بن  حارث ذکر کیا گیا ہے ،حالانکہ وہ بھی مجہول الحال ہی ہے ۔
الرابعة: الاختلاف في سنده، قال الألباني : فقد رواه البوزجاني عن أبي الصلت كما رأيت، وخالفه يعقوب بن يوسف المطوعي فقال : حدثنا أبو الصلت الهروي: حدثنا عباد بن العوام، عن عبد الغفار المدني، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة به. أخرجه ابن النجار كما في " اللآلي .
والمطوعي هذا ثقة كما قال الدارقطني، وترجمته في " التاريخ " (14/ 289) ، وحينئذ فروايته أصح من رواية البوزجاني، وفيها عبد الغفار المدني قال العقيلي في " الضعفاء " (ص 263) : مجهول بالنقل حديثه غير محفوظ ولا يعرف إلا به ".وقال الذهبي في " الميزان ": " لا يعرف، وكأنه أبو مريم، فإن خبره موضوع ". واسم أبي مريم عبد الغفار بن القاسم الأنصاري صرح غير واحد من الأئمة بأنه كان يضع الحديث، ولكنه معدود في أهل الكوفة كما في " ضعفاء ابن حبان " (2 / 136) ، وصاحب هذا الحديث مدني.

حدیث کا خلاصہ:ضعیف جدا للعلل المذکورہ۔
روایت غیرمعتبرہے ابو الصلت کی وجہ سے ، اور دوسری وجہ سند میں دومجہول الحال راوی ہیں ۔


حديث ابن عمر

أَنْبَأنَا أَبُو الْقَاسِم عَبْد الْجَبَّار بْن مُحَمَّد بْن أَبِي الْقَاسِم الْقَائِف وَأَبُو الْحَسَن عَلِيّ بن مُحَمَّد بن الْحُسَيْن البوشنجي ،أَنْبَأنَا أَبُو المظفر مُوسَى بْن عمرَان بْن مُحَمَّد الصُّوفِي ،أَنْبَأنَا الْحَسَن بْن مُحَمَّد الْحُسَيْن بْن دَاوُد، أَنْبَأنَا أَبُو الأحرز مُحَمَّد بْن عُمَر بْن جميل الْأزْدِيّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن يُونُس بْن مُوسَى الْقُرَشِيّ، حَدَّثَنَا حَفْص بْن عَمرو بْن دِينَار الْأبلِي، حدَّثَنِي سَعِيد بْن رَاشد السماك ،حدَّثَنِي عَطاء بْن أَبِي رَبَاح، عَن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّهُ سمع رَسُول الله يَقُولُ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِلْعُلَمَاءِ: إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ أَوْ لَمْ أَضَعْ عِلْمِي عِنْدَكُمْ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعَذِّبَكُمُ ،ادْخُلُوا الْجَنَّةَ عَلَى مَا كَانَ فِيكُمْ . (رواه ابن صرصري في " أماليه ") كما في "اللآلئ المصنوعة" 1/201.

سند کی تحقیق :
البانی کہتے ہیںکہ :سیوطی اس کے بطلان کے واضح ہونے کے باوجود خاموش رہے،اس لیے کہ:  
·        سعید بن راشد راوی کو علماء نے متروک الروایہ کہا ہے ۔
·        حفص بن عمرو جھوٹا راوی ہے ۔
·        محمد بن یونس القرشی جو کہ کدیمی ہے حدیثیں گڑھنے میں ماہر ہے۔
حدیث ابن عمر کا حکم: موضوع ۔


حديث جابر

أَنْبَأنَا أَبُو الْهَيْثَم السنجي ،أَنْبَأنَا أَبُو الْحَسَن الترابي، حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن قُرَيْش ،حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيم بْن مُحَمَّد بْن برة الصَّنْعَانِيّ، حَدَّثَنَا عَبْد القدوس ،حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْن عَيَّاش ،عَن أَبِي الزبير، عَن جَابِر قَالَ : قَالَ رَسُول الله: يَقُولُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ إِلا لِمَعْرِفَتِي بِكُمْ ،قُومُوا فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ . ( أخرج الطبسي في ترغيبه بسنده ) كما في "اللآلئ المصنوعة" 1/201.

سند کا  حال :
سند میں چند راویوں میں کلام ہے :
·        عبد القدوس بن حبیب الکلاعی : وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا ہے اور احادیث گھڑتا ہے۔
·        اسماعیل بن عیاش جب اہل شام کے علاوہ سے روایت کرے تو اسکی روایت کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے اور یہاں اسی طرح ہے ۔
·        ابو الزبیرمدلس ہے اور یہاں بطور عنعنہ روایت کر رہا ہے لہذا غیرمعتبر مانا جائے گا ۔
 حدیث جابر کا حکم : موضوع ۔

حديث ابن مسعود

عن عبد الله بن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم :يجمع الله الْعلمَاء يَوْم الْقِيَامَة فَيَقُول : إِنِّي لم أجعَل حكمتي فِي قُلُوبكُمْ إِلَّا وَأَنا أُرِيد بكم الْخَيْر ،اذْهَبُوا إِلَى الْجنَّة فقد غفرت لكم على مَا كَانَ مِنْكُم. رَوَاهُ الإِمَام أَبُو حنيفَة فِي "مُسْنده  برواية الحصكفي" عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ .
حکمہ : اسناد حسن ۔

حديث الحسن البصري

علامہ ابو القاسم السہمی قلم طراز ہوے :
حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَد بْن مُحَمَّد بْن يحيى الْبَكْرَآبَاذِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رَجَاءٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدَكٍ ، عَنْ أبي مُعَاوِيَةَ ، عَنْ جُوَيْبِرٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ سَهْلِ بْنِ الْحَسَنِ قَالَ: يُؤْتَى بِالْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مَا جعلت نوري وحكمتي فيكم إِلا وَأَنَا أُرِيدُ بِكُمْ خَيْرًا ،اذهبوا فقد غفرت لكم ( تاريخ جرجان ص: 202 ).

اس روایت  کی سند کے متعلق اقوال :
اس سند میں بھی بقول البانی تین متکلم فیہ راوی ہیں  :
·        سہل ابو  معاویہ  کو نہیں جانتا ہوں گویا مجہول الحال ہے  ہو سکتا ہے یہ سہل بن معاذ بن انس  الجہنی ہو  اور اسکا حال علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے ۔
·        نیز جویبر کوعلماء نے متروک الروایہ قراردیا ہے ۔
·        حماد بن زیدک ،  امام سہمی نے اسکا  ذکر اپنی سند میں تو کیا البتہ  اس کے متعلق جرح و تعدیل میں کچھ لب کشائی نہیں فرمائی ۔
حسن بصری کی روایت  کاحکم :منکر، اور منقطع بھی ہے۔



حديث حفص بن ميسرة الصنعاني

في الثاني من الفوائد المنتقاة لابن السماك (ص: 52) قال :
حَدَّثَنَا حَنْبَلٌ، ثنا مُسَدَّدٌ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُمرٍ الصَّنْعَانِيَّ، وَهُوَ يَقُولُ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامِةَ عُزِلَتِ الْعُلَمَاءُ.قَالَ: فَإِذَا فُرِغَ مِنَ الْحِسَابِ قَالَ: لَمْ أَجْعَلْ حِكْمَتِي فِيكُمْ إِلا خَيْرًا أُرِيدُهُ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا فِيكُمْ.
حکمہ : صحیح ولکنہ موقوف ۔


خلاصة الحكم على طرق الحديث :

  یہ حدیث حضرت ابو موسی ، ثعلبہ ، ابن عباس ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کی اسانید کے اعتبار سے بہت زیادہ ضعیف ہے ۔ اسی طرح حسن بصری کی موقوف روایت بھی۔
2۔   حضرت ابوموسی کی حدیث مسند رویانی کی اسناد سے جو ہے وہ ضعیف ہے ، اسی طرح حضرت ثعلبہ کی روایت میں اگر ( العلاء بن سالم ) کا راوی ہوناصحیح ہو تو سند مقبول ہوسکتی ہے ۔
حضرت ابو امامہ ، ابن عمر ، جابر رضی اللہ عنہم کی اسانید سے موضوع ہے ۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی اسناد حسن ہے ۔ اور ابوعمر صنعانی کی موقوف روایت بھی صحیح ہے،ولہ حکم الرفع ۔

نمبر2،4 کا اعتبار کرتے ہوئے یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ، حضور کی طرف نسبت درست ہے ، اور بیان کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے ۔واللہ اعلم

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت