شب جمعہ میں پڑھے جانے والے درود شریف کی تحقیق



صلاة العالي القدر

اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ
الْحَبِيبِ الْعَالِي الْقَدْرِ الْعَظِيمِ الْجَاهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلِّمْ.

سوال : اس درود شریف کے بارے میں یہ فضیلت ذکر کی جاتی ہے کہ : جو شخص جمعہ کی شب میں اس کے پڑھنے کا اہتمام کرے گا چاہے ایک مرتبہ ہی  پڑھے ، تو اس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود قبر میں اتاریں گے، اور تدفین فرمائیں گے ۔
تو کیا یہ فضیلت ثابت ہے ؟

الجواب باسم ملہم الصواب :

کتابوں میں یہ درود شریف امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ (متوفی 911 ھ)  کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، جس سے غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ اس صیغہ کے موجِدخود امام سیوطی ہیں ۔احادیث کے ذخیرہ میں تو یہ درود وارد نہیں ہے ۔

امام سیوطی کی طرف نسبت کرنے والوں میں سر ِفہرست دو بزرگوں کا نام آتا ہے:

۱۔ علامہ احمد صاوی مالکی مصری (متوفی 1241ھ) اپنی کتاب’’الأسرار الربانیہ والفيوضات الرحمانیہ على الصلوات الدرديریہ‘‘میں ۔اگرچہ یہ صیغہ اصل کتاب یعنی ’’الصلوات الدردیریہ‘‘ میں بھی ہے ، لیکن شیخ احمددردیر(متوفی 1201ھ)نے سیوطی کی طرف اس کی نسبت نہیں کی ہے۔

۲۔شیخ عبد الرحمن بن محمد الکزبری الصغیر(متوفی1262 ھ) ’’ثبت الکزبری ‘‘ میں ،اور فرمایا کہ اس کے پڑھنے کی اجازت مجھے میرے شیخ شريف احمد جمل اللیل مدنی (متوفی 1216ھ)نے دی ہے ۔

تنبیہ : الکزبری الصغیر کے نام میں شیخ یوسف نبہانی(متوفی 1350ھ) اور احمد زینی دحلان (متوفی1304ھ) کو سہو ہوا، ان دونوں حضرات نے اس کے بدلہ (الامیر الصغیر) کہہ دیا ، تو یہ جان لینا چاہئے کہ : محمد بن محمد المالکی الشہیر بالامیر الصغیر(متوفی بعد1253ھ) کا کوئی ثَبَت نہیں ہے ، ہاں ان کے والد جو الامیر الکبیر (متوفی 1232ھ) سے مشہور ہیں ، ان کا ثَبت ’’سد الارب من علوم الاسناد والادب ‘‘معروف ہے ، لیکن اس میں یہ درود مذکورنہیں ہے۔اور احمد جمل اللیل شیخ احمد دردیر کے تلامذہ میں سے ہیں ۔

 شیخ احمد زینی دحلان نے ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ : بہت سے اہل معرفت نے یہ بیان کیا ہے کہ : اس درود شریف کو شبِ جمعہ میں پڑھنے کی جو پابندی کریگا ، تو اس کو موت کے وقت اور تدفین کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک کی مثال کی زیارت ہوگی ، اور اس کو ایسا محسوس ہوگا خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دفن کررہے ہیں ۔ اور بعض دیگر عارفین سے نقل کیا کہ : اس درود کی مذکورہ  فضیلت حاصل کرنے کے لئے ، اس کو ہرشب میں دس مرتبہ اور شبِ جمعہ میں سو مرتبہ پڑھنا چاہئے ۔

بہر حال : اصل جو بحث ہے وہ یہ ہے کہ شیخ احمد صاوی (متوفی 1241ھ)وغیرہ نے سیوطی کی طرف نسبت کرنے کا مصدر ذکر نہیں کیا ہے ، اس لئےکہ براہ راست سیوطی (متوفی 911ھ)سے نقل کرنا تو بعید ہے ، چونکہ انہوں نے ان کا زمانہ نہیں پایا ۔

تو پھر مصدرِ نقل میں چند احتمال ہیں :

۱۔ امام سیوطی نے اپنی کوئی کتاب یا رسالہ میں کہیں ذکر کیا ہو ، وہاں سے صاوی وغیرہ نے نقل کیا ہو ، یہ احتمال ہے ، لیکن مؤکد نہیں ،  چونکہ ہمیں ابھی تک وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ۔اگرچہ یہ بات بھی ہے کہ سیوطی کثیر التصانیف ہیں، اور ان کے بہت سارے رسائل ابھی تک غیر مطبوعہ ہیں ۔

۲۔ نسبت کرنے والوں نے اپنے مشایخ کی اسانید کے واسطے سے امام سیوطی سے نقل کیا ہو ، لیکن صاوی وغیرہ اور امام سیوطی کے درمیان پانچ یا اس سے زائد  وسائط ہوں گے ، جن کا ہمیں علم نہیں ہے ،اورنسبت کرنے والے حضرات نے بھی ان کی تصریح نہیں ہےکہ وہ کون ہیں ، تو سند منقطع ہے، اور رجال مجہول ہیں ۔

۳۔ امام سیوطی کی کسی شخص نے خواب میں زیارت کی ہوگی ، اور خواب میں انہوں نے اس درود شریف کی تلقین کی ہوگی ، مگر یہ پتہ نہیں کہ کس کوزیارت ہوئی ، تو بات پھر بھی غیر مستند ہوگی ۔

حاصل یہ ہے کہ مذکورہ احتمالات میں سے کوئی بھی احتمال مستند ومؤکد نہیں ہے ، وظائف کی کتابوں میں سیوطی کی طرف صرف عزو ِمجرد ہوتا ہے ، اور محدثین اس طرح کی باتیں معتبر نہیں مانتے ۔

رہ گیا مسئلہ : اس درود شریف پر وارد فضیلت کا ، کہ’’  خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تدفین فرمائیں گے ‘‘ اور بقول دحلان کہ ’’حضور کی روح کی مثال نظر آئے گی ‘‘،تو اس فضیلت کا طریقِ ثبوت بھی مجہول ہے ، معلوم نہیں کہ یہ بات امام سیوطی نے (ان صح عنہ) اپنی طرف سے ارشاد فرمائی ہے؟بمعنی یہ کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا، تو یہ از قبیلِ مجربات ہوگی ، یا یہ کہ یہ فضیلت انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور ِکشف یا خواب نقل کی ، تو اس کے مستند ہونے  کے لئے بھی بات کا مصدر معلوم ہونا ضروری ہے ، کیونکہ یہ از قبیلِ غیبیات ہے ۔

ان تمام غیر محقق امور کے باوجود لوگوں کا اس قدر اہتمام قابلِ تعجب ہے ، جبکہ بہت سے وظائف کے متعلق روایاتِ صحیحہ میں اس سے بڑھ کر فضائل وارد ہیں ، لیکن ان کا اس قدر اہتمام نہیں ہوتا ہے ، ہر چیز میں اعتدال ہونا چاہئے ، اور ہر عمل کو اس کے مناسب مرتبہ میں افراط وتفریط سے احتراز کرتے ہوئے رکھنا چاہئے ۔

تاہم اگرکوئی فضیلت کی امید پر پڑھتا ہے ، اور اہتمام کرتاہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے ، کیونکہ آخر درود شریف ہی ہے ، اورکشوف ومنامات کا انکار بھی نہیں ہے ، لیکن ان کے سلسلہ میں غلو بھی محمود نہیں ہے ۔ہذا ما اراہ ، والعلم عند اللہ۔

وکتبہ العبدالمذنب : محمد طلحہ بلال احمد منیار

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت