حديث ( لَعَنَ الله الناظِرَ والمَنظُورَ إليه ) کا حال




حديث  (  لَعَنَ الله الناظِرَ والمَنظُورَ إليه )  
کا حال معلوم کرنا ہے کہ یہ حدیث ثابت ہے ؟ اور اس کو بیان کرسکتے ہیں ؟

الجواب :یہ حدیث مرسلا ومتصلا مروی ہے ۔ مرسل روایت حضرت حسن بصری اور امام زہری ـ رحمہما اللہ ـ سے مروی ہے ، اور متصل روایت حضرت عمران بن حصین اور ابن عمر ـ رضی اللہ عنہما ـ سے منقول ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے :

مرسل حسن بصری :
یہ اس حدیث کی سب سے مشہور روایت ہے ، جس کی تخریج بیہقی نے شعب الإيمان (۱۰/ ۲۱۴) اور السنن الكبرى (۷/ ۱۵۹) میں ، اسی طرح ابوداود نے کتاب المراسيل (ص: ۳۲۹) میں کی ہے ۔

اس کی سند اس طرح ہے :

حدثنا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمَانَ، عَنْ عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ، عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَعَنَ اللهُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُورَ إِلَيْهِ ".

حدیث میں  انقطاع ہے مرسل ہونے کی وجہ سے ، اور مراسیلِ حسن بصری بھی محدثین کے یہاں غیر معتبر ہیں ، مزید یہ ہے کہ عبد الرحمن اورعمرو مولی المطلب دونوں راویوں  پر بھی جرح کی گئی ہے ۔ تو حدیث ضعیف ہے ۔

تنبیہ :مراسیل کے مطبوعہ نسخہ میں حسن بصری کا نام شاید سہوا ساقط ہے ۔

مرسل امام زہری :
اس کی روایت حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں جبرون بن عبد الجبار بن واقد لیثی کے ترجمہ میں کی ہے ، جبرون نے روایت کی سفیان بن عیینہ سے ،انہوں نے زہری سے  کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : « إذا كان آخرُ الزمان حَرُم فيه دخولُ الحَمَّام على ذكُور أمتي بمَيَازِرها » قالوا : يا رسول الله لم ذاك؟ قال: «لأنهم يَدخُلون على قومٍ عُراة ، ألا وقد لَعَن الله الناظرَ والمنظورَ إليه » ۔

یہ حدیث بھی منقطع ہے ، اور جبرون بن واقد متہم بالکذب ہے ، ابن طاہر مقدسی نے ذخيرة الحفاظ (۴/ ۱۹۲۱) میں ،اور ذھبی نے میزان (۱/ ۳۸۷ ـ ۳۸۸)  میں اس حدیث کے گھڑنے کی تہمت جبرون پر لگائی ہے۔

 ابن عدی نے الکامل  في ضعفاء الرجال (۲/ ۴۴۳) میں جبرون کےواسطے سے دو حدیثیں ذکر کیں ، پھر کہا ہے : وجبرون بْن واقد هَذَا لا أعرف لَهُ غير هذين الحديثين وجميعا منكران، ولاَ أعلم يرويهما عَنْهُ غير مُحَمد بْن داود.

خلاصہ یہ ہے کہ زہری سے یہ مرسل روایت ثابت نہیں ہے ۔

متصل روایتیں :

حضرت عمران بن حصین کی روایت :
ابن عدی نے الکامل (۲۱۵) میں اس کی روایت اسحاق بن نجیح ملطی کے ترجمہ میں کی ہے ، سند اس طرح ہے : اسحاق بن نجيح ،عن عباد بن راشد المنقري ،عن الحسن ،عن عمران بن حصين مرفوعا قال :" لَعَن الله الناظر إلى عَورة المؤمن والمنظورَ إليه "۔
 قال ابن عدی : وإسحاق بن نجيح بيّنُ الأمرِ في الضعفاء، وهو ممَّن يَضع الحديث، قال ابن معين : هو من المَعروفين بالكذب ووَضع الحديث، قال ابن عدي : وهذا الحديث عن عبّاد بن راشد عن الحسن موضوع.

اسی طرح موضوع احادیث پر لکھی گئی کتابوں میں بھی اس حدیث کے موضوع ہونے کی تصریح کی گئی ہے ، تو اس سند سے  تو باطل ہے ، اورعمران بن حصین سے ثابت بھی نہیں ہے ۔

حضرت ابن عمر کی روایت :
دیلمی نے الفردوس  بمأثور الخطاب (۳/ ۴۶۵) میں اس حدیث کی نسبت بلا اسناد ان کی طرف کی ہے ، سند کا علم نہیں ہے ، اس لئے حدیث کا درجہ بھی متعین نہیں کرسکتے ہیں ، بظاہر تو ضعیف ہی ہے ۔

الحاصل :اسناد کا حال یہ ہے کہ  یہ حدیث صرف حضرت حسن بصری کی مرسل روایت سے کسی درجہ میں ثابت ہے ، مع الضعف ،ضعف کے ساتھ بیان کرسکتے ہیں ۔

حدیث کا مفہوم :
حدیث کے مفہوم میں بعض حضرات نے افراط سے کام لیتے ہوئے کہا کہ : ستر کے حصہ کو اور خصوصا (فرجین) کو دیکھنامطلقا موجب لعنت ہے ،چاہے میاں بیوی کے درمیان ہی کیوں نہ ہو ، یہ افراط ہے ۔

بعض حضرات نے اس حدیث کو عموم پر محمول کرتے ہوئے  ہر قسم کی بدنگاہی کو اس میں شامل کردیا ، جیساکہ ملا علی قاری اور طیبی نے شرح مشکوہ میں اسے اختیار کیا ہے ۔ملا علی قاری کی عبارت ہے : (لَعَنَ اللَّهُ النَّاظِرَ) أَيْ بِالْقَصْدِ وَالِاخْتِيَارِ (وَالْمَنْظُورَ إِلَيْهِ) أَيْ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ وَاضْطِرَارٍ، وَحُذِفَ الْمَفْعُولُ لِيَعُمَّ جَمِيعَ مَا لَا يَجُوزُ النَّظَرُ إِلَيْهِ تَفْخِيمًا لِشَأْنِهِ۔ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (۵/ ۲۰۵۹)۔

بظاہر اقرب الی الصواب یہ ہے کہ : یہ روایت زوجین کے علاوہ کشف عورات کے باب میں بے احتیاطی کے بارے میں ہے ، خصوصا قضائے حاجت اور غسل کے موقعہ پر ،جیساکہ بیہقی نے شعب میں  (فصل فی الحمام ) کےعنوان کے ماتحت ذکر کیا ، اسی طرح سنن کبری میں اس پر باب باندھا : بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ تَنْظُرُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ وَيُفْضِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَى صَاحِبِهِ۔مشکوہ اور کنز العمال کی تبویب  سے بھی یہ بات مترشح ہوتی ہے۔دیلمی نےالفردوس میں  روایت ذکر کرکے کہا : یعنی یکشف عورتہ ۔
عینی نے شرح ابی داود (۱۷۱) میں (باب فی الرجل یرد السلام وھو یبول ) میں لکھا ہے : هذا تعليمٌ للأمة أن لا يُسلّموا على الرجُل وهو يَبول أو يتغَوَّط، ولِما فيه مِن إشغال الرجل عن جَمع حَاله مِن وُصول النجاسة إليه، أو ربَّما يقع نظرُ المسلم على عَورته، فيأثَم بذلك الناظرُ والمنظورُ إليه.
ابن حجر مکی نے زواجر میں [ الْكَبِيرَةُ الرَّابِعَةُ وَالسَّبْعُونَ: كَشْفُ الْعَوْرَةِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ ] کے ضمن میں یہ روایت ذکر کی ہے (۱۲۴۱) ۔

واللہ اعلم بالصواب ۔





Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت