اتقوا مواضع التهم كى تحقيق




(اتَّقُوا مَوَاضِعَ التُّهَمِ) کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے ،کیا یہ حدیث ثابت ہے ؟

جواب : یہ حدیث مذکورہ  الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سےمرفوعا تو ثابت نہیں ہے ، جیساکہ امام عراقی نے "تخریج احیاء "میں ذکر کیا ہے [ کشف الخفا للعجلونی ۱/۴۴]۔

لیکن اس کے مفہوم کی تایید میں بعض روایات وارد ہوئی ہیں ، ان میں سے چند روایات  یہ ہیں :

1- حديث ( ... عَلَى رِسْلِكُمَا ، إِنَّمَا هِيَ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ . فَقَالَا : سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؛ وَكَبُرَ عَلَيْهِمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (إِنَّ الشَّيْطَانَ يَبْلُغُ مِنْ الْإِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَيْئًا) . رواه البخاري 2035ومسلم 2175.
ترجمہ مع اصل الواقعہ :
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام اعتکاف کی حالت میں تھے ، میں رات کے وقت ملاقات کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی ،کچھ دیرباتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی ،نبی علیہ السلام بھی مجھے چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ آئے ، میری رہائش اس وقت داراسامہ بن زید میں تھی، اسی اثناء میں وہاں سے دو انصاری آدمی گزرے اور نبی علیہ السلام کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی ،نبی علیہ السلام نے ان سے فرمایا :
"ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں ، ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول (کیا ہم آپ کے متعلق ذہن میں کوئی برا خیال لاسکتے ہیں ؟) نبی علیہ السلام نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ پیدا نہ کردے"۔

2- ( فَمَن اتَّقىٰ الشُّبُهاتِ فقد اسْتَبرَأ لِدِينِه وعِرضِه ) متفق عليه ، رواه البخاري 52 ومسلم 1599.
یعنی  :  جو شبہ میں ڈالنے والی چیز سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا۔ یہاں "وعرضہ "کو مستقل ذکر کیا ہے ، جس سے مراد لوگوں کی طعن وتشنیع سے محفوظ رہنا ، گویا کہ وہ بھی شریعت کی نگاہ میں مطلوب ہے ۔

3- حديث ( دَع مَا يَرِيبُكَ إلىٰ مَا لَا يَرِيبُكَ ) رواه الترمذي 2518.
ترجمہ : جو چیز تمہیں شک میں مبتلا کرے اور دل میں اس کے بارے میں کھٹک ہو ، تو اسے چھوڑ کر اس چیز کو اپناؤ جو شک میں مبتلا نہ کرے۔

4- ورأى عُمَر رضي الله عنه على طلحة ثوبًا مَصبوغا ، وطلحةُ مُحْرِمٌ ، فقال له عُمر : ما هذا الثوبَ المصبوغَ يا طلحة ؟ فقال طلحة : يا أمير المؤمنين إنما هو مَدَر ، فقال عُمر : إنكم أيها الرَّهط أئمةٌ يَقْتَدِي بكم الناسُ ، فلو أن رجلا جاهلا رأى هذا الثوبَ لقال : إن طلحةَ بن عُبيد الله كان يلبسُ الثيابَ الْمُصَبَّغة في الإحرام ! فلا تَلبسوا أيها الرهطُ شيئاً مِن هذه الثياب الْمُصَبَّغة. رواه الإمام مالك في "الموطأ" 1/326.
ترجمہ : عمر بن خطاب نے دیکھا طلحہ بن عبیداللہ کو رنگین کپڑے پہنے ہوئے احرام میں ،تو پوچھا حضرت عمر نے :کیا یہ کپڑا رنگا ہوا ہے طلحہ، طلحہ نے کہا: اے امیر المومنین یہ مٹی کا رنگ ہے حضرت عمر نے کہا :تم لوگ پیشوا ہو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں، اگر کوئی جاہل جو اس رنگ سے واقف نہ ہو اس کپڑے کو دیکھے تو یہی کہے گا کہ: طلحہ بن عبیداللہ رنگین کپڑے پہنتے تھے احرام میں، تو نہ پہنو تم لوگ ان رنگین کپڑوں میں سے کچھ ۔

5- عن أم سلمة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلىٰ الله عليه وسلم إذا سلَّمَ قامَ النساءُ حين يقضي تسليمَه ، ومكث يسيراً قبل أن يقوم . قال ابن شهاب: فأرى والله أعلم أن مكثه لكي ينفُذ النساءُ قبل أن يدركهُنَّ مَنْ انصرف من القوم . رواه البخاري 837 .
ترجمہ : حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی علیہ السلام جب سلام پھیرتے تو نبی علیہ السلام کا سلام ختم ہوتے ہی خواتین اٹھنے لگتی تھیں اور نبی علیہ السلام کھڑے ہونے سے پہلے کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی رک جاتے تھے۔
ابن شہاب زہری فرماتے ہیں : میں گمان کرتاہوں اور اللہ تعالی بہتر جانتے ہیں کہ : آپ کا ٹھہرنا اس لئے ہوتاتھا کہ عورتیں پہلے نکل جائیں ، اس سے پہلے کہ ان کو پالیں نماز سے رخصت ہونے والے مرد ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :اس حدیث سے مستفاد ہے تہمت کے مواقع سے احتراز کرنا ، اور مردوں کا عورتوں سے  راستوں پر اختلاط کرنے کی کراہت ۔

ان تمام روایتوں سے مجموعی طور پر مواقع اتہام سے اجتناب واحتراز کا مفہوم مترشح ہوتا ہے ۔


خلاصہ یہ ہے کہ : (تہمت کی جگہ سے بچو ) یا  (جو شخص تہمت کے راستوں پر چلے گا ، وہ متہم ہوجائے گا ) اسی طرح (رحم اللہ امرءا جب ّ الغیبۃ عن نفسہ)یعنی اللہ تعالی اس مرد پر رحم فرمائے جو اپنی ذات سے لوگوں کی غیبت کو دور کرے  ۔اس طرح کے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں ، اس لئے ان کو حضور کی طرف نسبت کرکے بیان نہیں کرنے چاہئیں ، ہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مختلف اسانید سے یہ ارشاد منقول ہے اور ان سے ثابت بھی ہے ، جیساکہ عجلونی نے کشف الخفا۱/۴۴میں واضح کیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت