رمضان کے آخری جمعہ کی ایک دعا کی تحقیق



رمضان کے آخری جمعہ کی  ایک دعا کی تحقیق

رمضان شریف کے آخری جمعہ کے متعلق عوام الناس میں پھیلی ہوئی چند غیر مستند باتوں میں سے ، ایک دعا بھی ہے جو حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری  رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی جاتی ہے ، وہ یہ ہے :

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں ماہ رمضان میں جمعتہ الوداع کے دن پیغمبر اسلا مﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ،تو  آپؐ نے مجھ سے فرمایا:  اے جابر ،یہ رمضان کا آخر ی جمعہ ہے، اسے وداع کرو۔ اور یہ کہو ( اے اللہ! اسے ہمارے روزوں کا آخری زمانہ نہ قرار دے، اگر اسے آخری قرار دیا تو ہمیں اپنی رحمت سے سر فرازکر اور محروم نہ کر)۔
مذکورہ روایت اہل سنت کی حدیث کی معتبر کتابوں میں تو کہیں وارد نہیں ہے ، البتہ اہل تشیع کی بعض کتابوں میں مذکور  ہے ، وہیں سے منتقل ہوکر کتب مواعظ میں اس نے جگہ لی ، اور عموما رمضان کے آخری جمعہ کے بارے میں دیگر جو غیر مستند باتیں ہیں ، ان کامستند بھی روافض ہی کتابیں ہیں ۔

یہ روایت شیعہ عالم ملقب ب)الشیخ الصدوق (ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ قمی نے اپنی کتاب (فضائل الاشہر الثلاثہ) میں اپنی سند سے نقل کی ہے ، سند یہ ہے :
حدثنا أحمد بن الحسن القطان قال : حدثنا أحمد بن محمد بن السعيد الهمذاني مولى بني هاشم ، عن جابر بن يزيد ، عن أبي الزبير المكي ، عن جابر بن عبد الله الأنصاري قال : دخلتُ على رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في آخر جمعة من شهر رمضان ، فلما بصُر بي قال لي : يا جابر هذا آخر جمعةٍ من شهر رمضان ، فودّعه وقل : « اللهم لا تجعله آخِر العَهد من صيامنا إياه ، فإن جعلتَه فاجعلني مَرحُوما ولا تجعلني محروما » فإنه من قال ذلك ظَفِر بإحدى الحُسنَيَين إما ببلوغ شهر رمضان وإما بغُفران الله ورحمته ... ( فضائل الأشهر الثلاثة في الحديث 16 من الباب الأول من أبواب أحكام شهر رمضان).

سند کا درجہ:
سند میں (جابر بن یزید جعفی) ہے ، جس کے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا:( مَا لَقِيتُ أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعفِيِّ ، مَا أَتَيْتُهُ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيٍ إِلا جَاءَنِي فِيهِ بِأَثَرٍ ، وَزَعَمَ أَنَّ عِنْدَهُ ثَلاثِينَ أَلْفَ حَدِيثٍ لَمْ يُظْهِرْهَا).
دیگر ائمہ حدیث نے بھی اس پر سخت جرح کی ہے اور جھوٹی روایات بیان کرنے کی تہمت لگائی ہے، اور اکثروں نے اس کو متروک الروایت قرار دیا ہے ،اگرچہ بعض نقاد کی رائے معتدل ہے ، لیکن عموما وہ غیر معتبر ہے، اور تشیع میں غلو کرنے والوں میں اس کا شمار ہوتاہے۔(میزان الاعتدال  1 / 379) ۔
مذکورہ روایت  کے غیر معتبر ہونے کے لئے یہ ایک سبب کافی تھا ، چہ جائیکہ اس کی سند میں دیگر کئی شیعہ راوی ہیں ، جن کی روایت اہل سنت کے نزدیک غیر قابل قبول ہے ۔

دوسری سند :
(جامع احادیث الشیعہ 9 / 77) نامی کتاب میں یہ روایت ایک دوسری سند سے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے ، عبارت یہ ہے :
السيد علي بن طاووس في كتاب (المضمار) باسناده إلى أبي محمد هارون بن موسى التَّلعُكبري رضي الله عنه ، بإسناده إلى أبي عبد الله عليه السلام قال : من ودَّع شهر رمضان في آخر ليلة منه وقال : « اللهم لا تجعله آخر العهد من صيامي لشهر رمضان  ، وأعوذ بك أن يطلُع فجر هذه الليلة إلا وقد غفرتَ لي» غفر الله له قبل أن يُصبح ورزقه الإنابةَ إليه.
یہ روایت بھی غیر معتبر ہے ، ھارون بن موسی بھی رافضی ہے ، ابن النجار بغدادی اس کے بارے میں فرماتے ہیں : راويةٌ للمناكير رافضيّ (لسان الميزان 8 /312) .

خلاصہ : اس دعا کی کوئی معتبر سند نہیں ہے ، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرکے بیان کرنادرست نہیں ہے ، اور اس کے پڑھنے کی جو فضیلت وارد ہے اس کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ: اجی ثواب کی امید پر پڑھنے میں کیا حرج ہے؟ ان سے کہا جائے گا کہ پڑھنے میں توحرج نہیں ہے ، لیکن اس طرح کی روایات پر عمل کرنے سے لوگوں میں غلط فہمیاں پھیلتی ہے ، کہ یہ ثابت ہے اور لازمی عمل ہے ، اس لئے اجتناب میں خیر ہے ، جو دعائیں ثابت ہیں ان کا پڑھنا حقیقتا باعث اجر وثواب ہے ، جبکہ موہوم امور پر امیدیں باندھنا عقلمندی نہیں ہے ۔واللہ اعلم

کتبہ العاجزالصائم  محمد طلحہ بلال احمد منیار  ۳۱/۵/۲۰۱۹

Comments

Popular posts from this blog

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جنت میں جانے والے جانور

تخریج حدیث : النکاح من سنتی