Posts

Showing posts from November, 2017

عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم کی ممانعت

سوال : سورہ یوسف کو اللہ پاک نے احسن القصص قرار دیا ہے ، مگرشیعہ و سنی دونوں حلقوں میں  ایک رائے یہ موجود ہے کہ :مسلمانوں کی نصف آبادی یعنی خواتین کو اس سور ت سے دور رکھا جائے۔ کچھ حوالجات پیش خدمت ہیں  : ۱۔  امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول ہےکہ: فرمایا جناب رسول خدا(صلی اللہ علیہ  وسلم) نے کہ : اپنی عورتوں کو تم چوباروں اورکوٹھوں پرمت بٹھاؤ۔ اور ان کو لکھنا مت سکھاؤ اور ان کو سورة یوسف یعنی اس کی تفسیر اور مضمون اس کا تعلیم نہ کرو۔(تفسیر عمدۃ البیان اہل تشیع از سید عمار علی) ۲۔   وَقَدْ صَحَّحَ الْحَاكِمُ فِي مُسْتَدْرَكِهِ حَدِيثَ النَّهْيِ عَنْ تَعْلِيمِ النِّسَاءِ سُورَةَ يُوسُفَ.    (اتقان فی علوم القرآن،سیوطی) ( ترجمہ ) امام حاکم نے اپنی مستدرک میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم نہ دینے کے متعلق حدیث کو صحیح قرار دیا ہے.  ۳۔  بریلوی امام احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورہ یوسف کا ترجمہ نہ پڑھایا جائے کہ اس میں مکر زنان کا ذکر فرمایا ہے.(فتاوی رضویہ، جلد 24 صفحہ 95) . سوال یہ ہے کہ : یہ رائے اور روایت درست ہے ؟ الجواب ب

مسواک کی برکت سے دشمن پر غلبہ

سوال : ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک بار مسلمانوں نے کافروں کے ایک قلعے کا کئی دن سے محاصرہ کر رکھا تھا ،  مگرقلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا ، چونکہ ان سے کوئی سنت چھوٹ رہی تھی ۔ اس لئے جب غور کیا گیا تھا تو معلوم ہوا کہ مسواک میں سستی کی جارہی ہے ۔ پس سارے لشکر نے اس سنت کو زندہ کیا تو قلعہ فورا فتح ہو گیا۔ کیا اس واقعہ کی کوئی اصل ہے ؟ الجواب باسم ملہم الصواب :اس واقعہ کی مختلف روایات اردو عربی کتب ورسائل میں ملتی ہیں ، ان میں بعض قدیم مراجع ہیں ، اور بعض معاصر،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے ،بے اصل اور باطل نہیں ہے ۔   تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں  : واقعہ کی عربی قدیم روایات : ۱۔ ابو جعفر طبری (۳۱۰ ھ) کی روایت( حضرت عمر فاروق ؓکے عہد میں ، جنگ قادسیہ کے موقع پر ) : لما نزل رُستم النَّجَفَ بعث عَينا إلى عسكر المسلمين، فانغَمس فيهم بالقادسية، فرآهم يستاكون عند كل صلاة ثم يصلُّون فيفترقون إلى موقِفهم، فرجع إليه فأخبره بخبرهم وسيرتهم حتى سأله: ما طعامُهم؟ فقال: مكثتُ فيهم ليلة، لا والله ما رأيتُ أحداً منهم يأكل شيئا إلا أن يمُصُّوا عِيداناً لهم حين يُمسون

حضرت ابو الدرداءؓ کی حادثات سے بچنے کی دعاء

واقعہ مشہور ہے کہ : حضرت ابو الدرداءؓ مسجد میں تشریف فرما تھے ، اچانک آپ کے محلہ میں آگ لگ گئی ، مکانات جلنے لگے ، کسی نے آکر حضرت کو اطلاع دی کہ : آپ کا گھر بھی نذرِ آتش ہوچکا ہے اور شعلے بلند ہو رہے ہیں ، آپ نے بہت اطمینان سے جواب دیا : میرا گھر محفوظ ہے ، پھر لگاتار کئی لوگوں نے آکر یہی اطلاع دی ، لیکن آپ نے یہی جواب دیا : میرا گھر نہیں جلا ۔ چنانچہ آگ کے بجھنے کے بعد معلوم ہوا کے واقعی حضرت ابو الدرداء کا مکان محفوظ رہا ۔ کسی نے وجہ دریافت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کا ارشاد سنایا کہ : جو شخص صبح ان کلمات کو پڑھ لے ، شام تک اس کو کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوگی ، اور میں نے صبح یہ کلمات پڑھ لئے تھے ، وہ یہ ہیں : اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ عَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، مَا شَاءَ اللَّهُ كَانَ وَمَا لَمْ يَشَأْ لَمْ يَكُنْ ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ ، أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ

ماں کی پکار پر نماز توڑ دینا

کیا یہ حدیث صحیح ہے : کاش میری ماں زندہ ہوتی ، اور میں عشاء کی نماز کے لئے مصلی پر کھڑا ہوتا ، اور سورہ فاتحہ شروع کرچکا ہوتا ، ادھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری ماں پکارتی : محمد،  تو میں ان کے لئے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا : لبیک اے ماں ۔ الجواب : یہ حدیث دو طرح کے الفاظ سے وارد ہے : 1-عن طلق بن علي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85) . 2-عن طَلْقَ بْن عَلِيٍّ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا ، وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ، فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ، لَقُلْتُ لَبَّيْكِ . البر والصلة لابن الجوزي (ص: 57) ، كنز العمال (16/ 470

دعاء انس رضی اللہ عنہ کی تحقیق

یہ دعا مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں ، آپ نے دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے ۔ دعا کا واقعہ یہ ہے کہ: ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، حجاج نے اپنے اصطبل خانہ کے گھوڑوں کا معاینہ کرواکر تفاخرا ً حضرت انس سے دریافت کیا کہ : کیا حضور ﷺ کےیہاں بھی ایسے گھوڑے تھے ؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : حضور ﷺ کے گھوڑے تو جہاد کے لئے تھے ، فخر وغرور ونمائش کے لئے نہیں تھے۔  اس جواب   پر حجاج آپ پر غضب ناک ہوگیا ۔ اور اس نے کہاکہ: اے انس اگر تو نے پیغمبر خدا ﷺ کی خدمت نہ کی ہوتی اور امیر المومنین عبدالملک بن مروان کا خط تمہاری سفارش میں نہ آیا ہوتا کہ اس نے تمہارے ساتھ رعایت کرنے کے بارے میں لکھا ہے ، تو میں تمہارے ساتھ وہ کچھ کرتا جو میرا دل چاہتا ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! نہیں اللہ کی قسم تو ہرگز میرے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا ، اور میری جانب بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔بلاشبہ میں نے رسول ﷺ سے چند کلمات کو سن رکھا ہے ، میں ہمیشہ ان کلمات کی پناہ میں رہ