Posts

Showing posts from 2017

حضور پر اعمال کی پیشی

سوال:- پیر اور جمعرات کو امت کے اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں پیش ہوتے ہیں  اس کی کو ئی اصل ہے کیا؟ جواب : جی ہاں ، یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے منقول ہے، اس کی تین اسانید ہیں: پہلی سند : عن : أبي سعيد الحسن بن علي بن صالح بن زكريا بن يحيى بن صالح بن زفر العدوي، عن خراش، عن أنس بن مالك،قال : قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- : " حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ وَمَوْتِي خَيْرٌ لَكَمُ ، أَمَّا حَيَاتِي فَأُحَدِّثُ لَكُمْ ، وَأَمَّا مَوْتِي فَتُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ عَشِيَّةَ الاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ، فَمَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ صَالِحٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ ، وَمَا كَانَ مِنْ عَمَلٍ سَيِّءٍ اسْتَغْفَرْتُ لكم" . تخریجہ : أخرجه ابن عدي في " الكامل " ( 3 /76 ترجمة خراش ) وأبو منصور الجرباذقاني في " الثالث من عروس الأجزاء "(ص78برقم82) ، وذكره السيوطي في "العُشاريات" ( ص30). حالہ: غیرمعتبر موضوع  ہے۔ سند میں حسن بن صالح عدوی متہم بالکذب ہے ، اور خراش مجہول ہے ۔ قال ابن عدي : " خِراش هذا مجهول

حضرت حواء علیہا السلام کی مہر

جب حضرت حواء علیہا السلام پیدا ہوئیں ، تو حضرت آدم علیہ السلام نے ان کی طرف اپناہاتھ بڑہانا چاہا ، تو فرشتوں نے کہا :صبر کرو ، یہاں تک کہ نکاح نہ ہوجائے ، اور مہر ادا نہ کردو۔ حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا کہ :مہر کیا ہے ؟ جواب دیا گیا کہ : حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تین بار درود شریف بھیجو۔ کیا یہ روایت ثابت ہے ؟ الجواب : یہ روایت سیرت ، قصص ومواعظ، اور بعض فقہ کی کتابوں میں بلا سند مذکور ہوتی ہے ، بعض مصنفین اس کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، یا وہب بن منبہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں ۔ اس روایت کے الفاظ اور مقدار مہر میں کافی اضطراب واختلاف نقل کیا جاتا ہے ، مہر کی مقادیر یہ ہیں : ( تین مرتبہ ، دس ، بیس ، سو ، ہزار ) پھر سو اور ہزار کی روایتوں میں ایک سانس میں پڑھنے کی زائد قید بھی ہے ، اور بتایا گیا کہ حضرت آدم علیہ السلام ستر مرتبہ یا پانچسو مرتبہ تک پڑھ پائے ، پھر ان کی سانس ٹوٹ گئی ، تو اللہ تعالی نے فرمایا : یہ مہر معجل ہے ، مؤجل آپ کے ذمہ باقی رہے گی ۔ بظاہر یہ روایت از قبیل اسرائیلیات ہے ، اس کی کوئی معتبر سند نہیں ، جو مصنف

لا صدقةَ وذو رَحِمٍ مُحتاجٌ

ایک شیعہ عالم کی ویڈیوگروپوں میں گردش کرتی رہتی ہے ، اس میں ان سے سوال کیا گیا کہ:  بعض متمول لوگوں کےقریبی رشتہ دار فقیر نادار ومحتاج ہوتے ہیں ، اور وہ مالدار ان کی معاونت کرنے کے بجائےاپنا روپیہ پیسہ مسجدکی تعمیر وغیرہ صدقات خیرات کے کاموں میں لگاتے ہیں ۔ تو آیا ان کا یہ طرز عمل  درست ہے ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے شیعہ عالم نے اس طرز عمل پرنکیر کرتے ہوئے دو حدیثیں بطور دلیل ذکر کیں ، وہ دو حدیثیں یہ ہیں : ۱۔ اگر کسی کےپاس پانچ کھجوریں یا درہم ہوں ، اور وہ ان کو خرچ کرنا چاہتا ہو ، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  : ﴿ أفضلُها على والديه ، ثم الثانية على نفسه وعِياله ، ثم الثالثة على قَرابته الفقراء ، ثم الرابعة على جِيرانه الفقراء ، ثم الخامسةُ في سبيل الله ﴾. پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچویں نمبر کے متعلق فرمایا : ﴿ وهي أخَسُّها أجراً ﴾ . ۲۔ ﴿ لا صدقةَ وذو رَحِمٍ محتاجٌ ﴾ . معلوم کرنا تھا کہ یہ جواب اور اس میں وارد دونوں روایتیں درست ہیں ؟ الجواب بعون الملك الوهاب : ایک محترم مفتی صاحب کا جواب تھا کہ : یہ روایت اہل تشیع کی کتب میں بلا سند