Posts

Showing posts from January, 2020

لا فرق بين مصطلحي فضائل الأعمال و الترغيب والترهيب

بدعة التفريق بين مُصطَلحَي (فضائل الأعمال) و (الترغيب والترهيب) في مبحث قبول الحديث الضعيف ذهب بعض الكاتبين في علوم الحديث إلى القول : بأن علماء الحديث في مَعرِض حديثهم عن قبول الحديث الضعيف ، يستعملون مصطلحَين هما : (فضائل الأعمال) و(الترغيب والترهيب) وأنهم يفرّقون بينهما على النحو التالي : يستعملون مصطلح ( فضائل الأعمال ) في العَمَل المخصوص الذي لم يَرِد في ثُبوته حديثٌ صحيح أو حسن ، وإنما ورد في فضله حديثٌ ضعيف ، فيحكمون باستحبابه بناءً على هذا الحديث الضعيف ، مثل : حديث صلاة ست ركعات بعد المغرب ، وحديث قراءة الدعاء مع حَثو ثلاث حَثَيات من تراب على الميت ، وحديث استحباب الترسُّل في الأذان والحَدر في الإقامة . فيقبلون الحديث الضعيف في أمثاله بشروطه المعروفة. وأما مصطلح ( الترغيب والترهيب ) فيستعملونه في عمل ثابت في الشرع بحديث صحيح أو حسن ، ثم ورد في حديث ضعيفٍ ثوابٌ مخصوصٌ للترغيب فيه أو عقابٌ مخصوصٌ للترهيب عنه . فيقبلون فيه الحديث الشديد الضعفِ والواهي أيضا من غير مُراعاة لشروط قبول الحديث الضعيف . انتهى كلامه ملخصا . أقول : هذا التفريق الذي نسبه ال

انگلی کے اشارے سے چاند کے ٹکڑے ہونا

شق القمر محترمی مولوی آصف صاحب بمبوی زید مجدہم نے دریافت کیا کہ: معجزۂ شق القمر کے حوالے سے لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوا ، لیکن مفتی شبیراحمد قاسمی صاحب کے فتاوی(فتاوی قاسمیہ)میں ایک سوال کے جواب میں اس کی تردید کرتے ہوئے مفتی موصوف نے لکھا ہے کہ: انگشتِ مبارک کا اشارہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ، یہ سب غیر معتبر باتیں ہیں،ہاں البتہ کفار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی ، جس سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ۔ قَالَ الْمُشْركُونَ للنَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: إِن كنت صَادِقا فاشقق لنا الْقَمَر. فَقَالَ: إن فعلت تؤمنون؟ قَالُوا: نعم، وَكَانَت لَيْلَة الْجُمُعَة، فَسَأَلَ الله تَعَالَى فانشق فرْقَتَيْن: نصف على الصَّفَا وَنصف على قعيقعان... الحَدِيث، [عمدة القاري شرح صحيح البخاري (19/ 207)] وقد شاع » أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أشار إلى القمر بسبابته الشريفة فانشق » ولم أره في خبر صحيح ، والله تعالى أعلم. [تفسير الألوسي = روح المع

حدیث : نوم الصائم عبادۃ کی تحقیق

حدیث : " نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ، وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ "   کا خلاصۂ تخریج وحکم اس حدیث میں پانچ باتیں ہیں : پہلی دو باتیں " نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ، وَصَمْتُهُ تَسْبِيحٌ " حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید الضعف اسانید کی وجہ سے پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچتی ہیں ، ہاں موقوفا بعض تابعین رحمہم اللہ کے اقوال سے وارد ہیں ۔ بقیہ تین باتوں " وَعَمَلُهُ مُضَاعَفٌ، وَدُعَاؤُهُ مُسْتَجَابٌ، وَذَنْبُهُ مَغْفُورٌ " کا مفہوم صحیح روایات میں وارد ہے ، اس لئے ان کی نسبت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتے ہوئے بیان کرنا درست ہے ۔ ذیل میں ہر بات کا خلاصۂ تخریج وحال عرض کرتاہوں : 1۔-   نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ : یہ دو الفاظ سے مروی ہے : پہلا : یہی لفظ (نَوْمُ الصَّائِمِ عِبَادَةٌ) یہ متعدد صحابۂ کرام سے مرفوعا نقل کیا گیا ہے ، جن میں حضرات : عبد الله ابن ابی اوفی ، عبد الله بن مسعود ، علی بن ابی طالب ، اورعبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہم ہی

وضو میں زیادہ پانی بہانے کی مذمت

سوال : ( شرار امتى الذين يسرفون في صب الماء )  اس حدیث کا حوالہ مطلوب ہے . جواب : مذکورہ روایت ہماری بعض فقہی کتابوں میں بلا سند ذکر کی جاتی ہے ، اس سے سب سے زیادہ قریب الفاظ کی روایت امام مناوی نے (کنوز الحقائق) میں بحوالہ (دیلمی) کے بلا سند ذکر کی ہے ، وہ یہ ہے:   ۴۲۰۶۔ شرار أمتي الذين يسرفون في الوضوء ( فر ) . ◊ مگر سند کے بغیر حدیث کا مرتبہ جاننا مشکل ہے ، اگرچہ دیلمی کی روایات عموما ضعیف ہوتی ہیں ۔ البتہ روایات میں وضوء کے دوران ضرورت سے زیادہ پانی صرف کرنے کی قباحت وکراہت مختلف الفاظ سے مذکور ہے ،مثلا : ۱۔بلا ضرورت زیادہ پانی بہاناشیطان کے وسوسہ کا اثر ہے[ دو نہایت ضعیف روایات ]: (1) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَنْصُورٍ أَبُو مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، ثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْبَكْرِيُّ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا خَيْرَ فِي صَبِّ الْمَاءِ» ، وَقَالَ : « إِنّ