انگلی کے اشارے سے چاند کے ٹکڑے ہونا
شق القمر
محترمی
مولوی آصف صاحب بمبوی زید مجدہم نے دریافت
کیا کہ:
معجزۂ
شق القمر کے حوالے سے لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں
کے اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوا ، لیکن مفتی شبیراحمد قاسمی صاحب کے فتاوی(فتاوی
قاسمیہ)میں ایک سوال کے جواب میں اس کی تردید کرتے ہوئے مفتی موصوف نے لکھا ہے کہ:
انگشتِ
مبارک کا اشارہ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ، یہ سب غیر معتبر باتیں ہیں،ہاں
البتہ کفار نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا ، جس پر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی ، جس سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ۔
قَالَ الْمُشْركُونَ للنَّبِي صلى
الله عَلَيْهِ وَسلم: إِن كنت صَادِقا فاشقق لنا الْقَمَر. فَقَالَ: إن فعلت
تؤمنون؟ قَالُوا: نعم، وَكَانَت لَيْلَة الْجُمُعَة، فَسَأَلَ الله تَعَالَى فانشق
فرْقَتَيْن: نصف على الصَّفَا وَنصف على قعيقعان... الحَدِيث، [عمدة القاري شرح
صحيح البخاري (19/ 207)]
وقد شاع »أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أشار إلى
القمر بسبابته الشريفة فانشق » ولم أره في خبر صحيح ، والله تعالى أعلم. [تفسير
الألوسي = روح المعاني (14/ 75)].انتهى من الفتاوى القاسمية
تو
شق القمر تو ثابت ہے ، لیکن انگلیوں کے اشارہ کی بات کی تردید کی گئی ہے ،تو ظاہر
ہے کہ یہ معتبر بات ہے ۔ لیکن انگلیوں کے اشارہ والی بات بہت مشہور ہے ،یہاں تک کہ
ہمارے اکابر میں حضرت مولانا صدیق صاحب باندوی رحمۃ اللہ علیہ کی نعت شریف میں یہ
شعر ہے:
انگلی سےاشارہ چاند کی جانب سارے
انسان کرتے ہیں
انگلی سے چاند کے ٹکڑے کرنا سب کے بس
کی بات نہیں
اس
طرح کی بات علما ء کے درمیان بھی مشہور ہے،اورمقررین کی تقریروں میں بھی سننے میں
آتی ہے۔تو اگر آپ کےقلم سے اس کی تحقیق آجائے تو قابل استفادہ ہوگی ۔جزاکم اللہ
خیرا
الجواب بعون الملک الوہاب :
آپ
نے صحیح فرمایا ، یہ بات کافی مشہور ہے ، اور میں نے بھی اس کی شہرت کی بناء پر
تحقیق کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی ۔آپ نےابھی توجہ دلائی اور مفتی شبیر صاحب
کے فتوے کا حوالہ بھی دیا ، تو میں نے مراجعت کی ، جس کے نتیجہ میں یہ چند باتیں
معلوم ہوئیں :
پہلی بات (۱) : احادیث میں شق
القمر کے معجزہ کی بات تین طرح سے وارد ہوئی ہے:
نمبرایک (۱) : شق القمر کےمجرد
وقوع وحصول کی بات ، ان روایات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی تصرف کی
نسبت نہیں ہے:
انْشَقَّ
القَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
شِقَّتَيْنِ ... [ البخاري 3636 ]
انْشَقَّ
القَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى [
البخاري 3869 ]
أَنَّ
القَمَرَ انْشَقَّ عَلَى زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
[ البخاري 3870 ]
انْشَقَّ
الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
بِشِقَّتَيْنِ [ مسلم 2800 ]
انْفَلَقَ
القَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [
الترمذي 2182 ]
انْشَقَّ
الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَارَ
فِرْقَتَيْنِ [ مسند احمد 16750 ]
نمبردو (۲) : مشرکین مکہ نے
مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چاند کے دو ٹکڑے ہوجانےکی نشانی
دکھلائی، ان روایات میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کی طرف اجمالا(نشانی دکھلانا)منسوب ہے ، انگلی سے اشارہ کرنا مذکور نہیں
ہے۔
أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ سَأَلُوا
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً
«فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ القَمَرِ» [ البخاري 3637 ومسلم 2802 ومسند احمد 13154 ومسند
أبو يعلى (3113) ]
نمبر تین(۳) : مشرکین مکہ کے
مطالبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے سوال کیا اوردعا کی ، تو چاند
دو ٹکڑے ہوگیا ، جس کو انہوں نے دیکھا ۔اس روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی
طرف دعا کرنا منسوب ہے ، انگلی کے اشارہ کا تذکرہ اس میں بھی نہیں ہے ۔
یہ
وہی روایت ہے جو مذکورہ بالا فتوی میں
وارد ہے ، یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس کی تخریج امام ابو نعیم نے (دلائل النبوہ)میں کی ہے ، اور
کتب تفسیر وسیرت میں بھی مذکور ہے ۔ٖ[دلائل النبوہ برقم ۲۰۹ ، الخصائص الکبری
۱/۲۱۰، البدایہ والنہایہ ۳/۱۴۸، سبل الہدی والرشاد9/۴۳۰]اور[تفسیر وسیط
للواحدی۴/۲۰۶،زاد المسیر۴/۱۹۶، قرطبی۱۷/۱۲۷،در منثور ۷/۶۷۱]۔
حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں تین باتیں ہیں جو دیگر روایات میں نہیں ہیں : (۱) مطالبہ کرنے
والے مشرکین کے نام ۔(۲) حضور کا اللہ تعالی سے دعا کرنا۔ (۳) شق القمر کی رات کی
تعیین کہ وہ چودہویں رات تھی ۔
مگر یہ روایت بہت ضعیف ہے
، اس کی سند میں موسی بن عبد الرحمن ثقفی ہے ، جو وضع حدیث سے متہم ہے ، اور اس کا
شاگرد عبد الغنی بن سعید ثقفی بھی ضعیف ہے
۔دوسری ایک سند میں مقاتل بن سلیمان اور ضحاک ہیں ،یہ دونوں بھی مجروح ہیں ۔
قال الحافظ ابن حجر في
"العُجاب في بيان الأسباب" (1/ 220): " ومن التفاسير الواهية لِوَهَاء
رُواتها : "التفسيرُ" الذي جمعه موسى بن عبد الرحمن الثَّقَفي الصَّنعاني،
وهو قدر مجلَّدين يُسنِده إلى ابن جُرَيج عن عطاءٍ عن ابن عباس ، وقد نَسَب ابنُ
حبان موسى هذا إلى وضع الحديث ، ورواه عن موسى عبد الغني بن سعيد الثَّقَفي وهو
ضعيف ". اهـ.
قال العلامة الآلوسي : وما في خبر
أبي نعيم - الذي أخرجه من طريق الضحاك عن ابن عباس - من أنه "
انشقَّ فصار قمرَين أحدهما على الصفا والآخر على المروة قدرَ ما
بين العصر إلى الليل ينظرون إليه ثم غاب "
: لا يُعوّل عليه، كيف وقد تضمَّن ذلك الخبر أن الانشقاق وقع لطلب أحبار اليهود وأن
القائلَ ( هذا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ ) هُم ، وهو مخالف لما نطقت به الأخبار الصحيحة الكثيرة
، كما لا يخفى على المتتبع . [ تفسير الألوسي 14/ 75] .
دوسری بات (۲) : مذکورہ بالا
تینوں قسم کی روایات میں کہیں انگلی سے اشارہ کرنے کی تصریح نہیں ہے ۔اس کے باوجود
مفسرین مؤرخین واعظین اور شعراء کے کلام
میں انگلی سے چاند کی جانب اشارہ کرنا وارد ہے ، اور یہی اس کا سببِ شہرت ہے ۔
اولا : بعض مفسرین نےانگلی سے اشارہ کرنے کا
تذکرہ کیا ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
% وَفُضِّلَ عَلَى غَيْرِهِ
بِآيَاتٍ مِثْلُ : انْشِقَاقِ الْقَمَرِ بِإِشَارَتِهِ . [تفسير البغوي 1/ 342 ]
% وبُرهانُ أصبعه أشارَ بها
إلى القمر فانشقَّ فِلْقتَين . [تفسير النيسابوري 2/ 538]
% هَذَا مَعَ أَنَّهُمْ
قَدْ شَاهَدُوا مِنْ مُعْجِزَاتِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ أَعْظَمَ مِمَّا سَأَلُوا
حِينَ أَشَارَ بِحَضْرَتِهِمْ إِلَى الْقَمَرِ لَيْلَةَ إِبْدَارِهِ ، فَانْشَقَّ
بِاثْنَتَيْنِ فِرْقَةٍ مِنْ وَرَاءِ الْجَبَلِ ، وَفِرْقَةٍ مِنْ دُونِهِ.
وَهَذَا أَعْظَمُ مِنْ سَائِرِ الْآيَاتِ الْأَرْضِيَّةِ مِمَّا سَأَلُوا وَمَا
لَمْ يَسْأَلُوا . [تفسير ابن كثير 4/ 257]
% أشارَ صلى الله عليه وسلم
إلى القَمر بإذن الله تعالى، فانشَقَّ فلقتَين [ تفسير السعدي ص: 824]
% انشق القمر بلحظة بأمر
الله - عز وجل - وتباعدت أجزاؤه بلحظة، لأن قريشاً كانوا يتحدًون الرسول عليه
الصلاة والسلام ويطلبون منه الآيات، وقد قال الله ردًّا عليهم: {قل إنما الآيات
عند الله وإنما أنا نذير مبين أولم يكفهم أنا أنزلنا عليك الكتاب يتلى عليهم} لكن
لم يكفهم، لأنهم معاندون لا يريدون الحق، أتوا إلى الرسول عليه الصلاة والسلام
قالوا: يا محمد أنت تقول إنك رسول، وإنك يأتيك الخبر من السماء وكذا وكذا فأرنا
آية، فأشار النبي صلى الله عليه وسلم إلى القمر ودعا ربه فانفلق فرقتين بلحظة [ تفسير ابن عثيمين: الحجرات - الحديد ، ص:
262]
ثانیا
: بعض مؤرخین اور کتابِ سیرت نے انگلی سے اشارہ کرنا ذکر کیا ہے:
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی جانب اشارہ فرمایا وہ دو ٹکڑے ہوگیا ۔(مدارج النبوت
۱/۲۳۹)
حضور
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حق جل شانہ سے دعا کی اور انگشتِ مبارک سے چاند کی طرف
اشارہ فرمایا، اسی وقت چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔(سیرت المصطفی ۱/۲۳۷)۔
ثالثا
: شعراء میں امام بوصیری کا یہ شعر بہت مشہور ہے :
سَعَتِ الشَّجَرُ نَطَقَ
الحَجَرُ @ شُـــقَّ القَمَــــرُ
بإشَــارَتِــهِ
تیسری بات (۳) : بعض اہل علم نے
انگلی سے اشارہ کی بات کی تردید،روایات سے ثابت نہ ہونے کی بناء پرکی ہے ، ان میں
سے صاحب روح المعانی علامہ آلوسی کی تردید گذرچکی :
وقد شاع : »أن النبي صلى الله تعالى عليه وسلم أشار إلى
القمر بسَبَّابته الشريفة فانشقَّ » ولم أره في خبر صحيح ...[روح المعاني]
امام
تور بشتی شرح المصابیح میں فرماتے ہیں :
فإن قيل: ففي بعض طُرق هذا الحديث
: (فأشار إلى القمر) ؟ قلنا : لم نجد ذلك في رواية يُعتَدّ بها، وإنما هو شيءٌ
ذكره أصحابُ التفاسير من غير تثبُّت. [ الميسَّر في شرح مصابيح السنة للتُّوربِشتي
2/ 581] .
چوتھی بات : بعض کتب مواعظ میں ایک نہایت بیہودہ اور واہیات
پر مشتمل واقعہ ایک مجہول شخصیت ( حبیب بن مالک شامی ) کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان
کیا جاتا ہے ، اس میں انگلی سے اشارہ کرنے کی بات کے علاوہ اور ایک غیر معتبر من
گھڑت بات بھی مزید مذکور ہے ، وہ یہ ہے کہ : چاند دو ٹکڑے ہونے کے بعد زمین پر اترا،
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین مبارک میں ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری جانب
سے نکلا ...
اس
بات کی بڑی شدت سے علماء نے تردید کی ہے ، اور بتایا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے،
اگر کوئی اصل ہے تو بس یہیحبیب بن مالک
والامہمل اوربے تکا واقعہ ہے ۔
@ وأما ما يُروى في أنه دخل في كُمّه عليه السلام وخَرَج في الأخرى :
فباطل لا أصل له . [ التوضيح لشرح الجامع الصحيح 23/ 323 ]
@ تنبيه: ما يذكره بعضُ القُصاص : أن القمر دخل فى
جَيب النبي- صلى الله عليه وسلم- وخرج من كُمّه، فليس له أصل، كما حكاه الشيخ بدر
الدين الزَّركشي عن شيخه العماد بن كثير.[ المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 2/ 258
]
@ وقولهم: إن القمر حين انشق نَزَل إليه صلى الله
عليه وسلم ودخل من كُمه وخرج من الكم الآخر، فطافَ بالكعبة. هل لهذه أصل أم لا ؟
الجواب : ما وقفتُ له على أصل . [
الأجوبة المرضية فيما سئل السخاوي عنه من الأحاديث النبوية 1/ 294 ]
@ 1604 –
خبر : " نزُول الْقَمَر فِي كُمّ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حِين
انْشَقَّ ". كذبٌ بَاطِلٌ بَارِدٌ من غير ذَوق. [ أسنى المطالب في أحاديث
مختلفة المراتب ، ص: 306 ]
الخلاصہ :
معجزہ شق القمر کے سلسلہ میں یہ بات کہ : حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انگشت کے
اشارہ سے چاند دو ٹکڑے ہوگیا ، اس کا ثبوت ابھی تک کسی معتبر بلکہ ضعیف روایت سے
بھی دستیاب نہیں ہوا ، اور اس کا مصنفین ومقررین کے یہاں مشہور ہونا دلیلِ ثبوت
نہیں ہے ،کیونکہ اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کی جا رہی ہے ، تو اس
کے لئے سند درکار ہے اگرچہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو ،نیزبعض محتاط اہل علم سے بھی مشہور
باتوں کو بلا تحقیق بیان کرنے میں چوک ہوجاتی ہے۔لہذا احتیاط کا پہلو یہ ہے کہ شق
القمر میں یہ جزئیہ بیان نہ کیا جائے ، یا غیر مستند ہونے کی طرف مناسب اشارہ
کردیا جائے ۔ واللہ اعلم ۔
جمعہ ورتبہ العاجز : محمد طلحہ بلال احمد منیار
ماشاءاللہ تبارک الله
ReplyDeleteJazakIllah Khair wa Ahsanal Jaza Fid-Darain 🌸
ReplyDelete