عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم کی ممانعت
سوال : سورہ یوسف کو اللہ پاک نے احسن القصص قرار دیا
ہے ،مگرشیعہ
و سنی دونوں حلقوں میں ایک رائے یہ موجود ہے
کہ :مسلمانوں کی نصف آبادی یعنی خواتین کو اس سورتسے
دور رکھا جائے۔ کچھ حوالجات پیش خدمت ہیں :
۱۔ امام
جعفر صادق (علیہ السلام) سے منقول
ہےکہ: فرمایا جناب رسول خدا(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ : اپنی عورتوں کو تم چوباروں اورکوٹھوں
پرمت بٹھاؤ۔ اور ان کو لکھنا مت سکھاؤ اور ان کو سورة یوسف یعنی اس کی تفسیر اور مضمون
اس کا تعلیم نہ کرو۔(تفسیر عمدۃ البیان اہل تشیع از سید عمار علی)
۲۔ وَقَدْ صَحَّحَ الْحَاكِمُ
فِي مُسْتَدْرَكِهِ حَدِيثَ النَّهْيِ عَنْ تَعْلِيمِ النِّسَاءِ سُورَةَ يُوسُفَ. (اتقان فی علوم القرآن،سیوطی)
(ترجمہ) امام حاکم نے اپنی مستدرک میں عورتوں کو سورہ یوسف کی تعلیم
نہ دینے کے متعلق حدیث کو صحیح قرار دیا ہے.
۳۔ بریلوی
امام احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورہ یوسف کا
ترجمہ نہ پڑھایا جائے کہ اس میں مکر زنان کا ذکر فرمایا ہے.(فتاوی رضویہ، جلد 24 صفحہ
95) .
سوال یہ ہے کہ : یہ رائے اور روایت درست ہے ؟
سوال یہ ہے کہ : یہ رائے اور روایت درست ہے ؟
الجواب باسم ملہم الصواب :
اس
سلسلہ میں تین باتیں معلوم ہوں :
۞ پہلی بات : امام سیوطی نے ( الاتقان
/ النوع 56 / الایجاز والاطناب ) میں لکھا ہے :
وقد سئل : ما الحكمة
في عدم تكرير قصة يوسف وسوقها مساقا واحدا في موضع واحد دون غيرها من القصص ؟
وأجيب بوجوه . أحدها : أن فيها تشبيب النسوة به ، وحال امرأةٍ ونسوةٍ افتُتنوا
بأبدع الناس جمالا ، فناسب عدم تكرارها لما فيه من الإغضاء والستر ، وقد صحح الحاكم في
"مستدركه" حديث النهي عن تعليم النساء سورة يوسف . انتهى كلامه
امام سیوطی سے مستدرک حاکم کی طرف
( تعلیم سورہ یوسف کی ممانعت ) کی نسبت میں سہو ہوا ہے ، مستدرک حاکم میں کوئی ایسی
روایت نہیں ہے ۔
ہاں
ایک دوسری روایت مستدرک میں (2/ 430) تفسیر
سورہ نور میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی
موجود ہے ، جس کے الفاظ یہ ہیں :
3494 - حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَافِظُ، أَنْبَأَ
مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ،
ثنا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ
رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَا تُنْزِلُوهُنَّ الْغُرَفَ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ الْكِتَابَةَ» يَعْنِي النِّسَاءَ
«وَعَلِّمُوهُنَّ الْمِغْزَلَ وَسُورَةَ النُّورِ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ
وَلَمْ يُخْرِجَاهُ " ۔
اس
میں سورہ نور کی تعلیم کا ذکر ہے ۔ مگر سند شدید الضعف بلکہ موضوع ہے ، قال
الحاكم : " صحيح الإسناد " . وردّه الذهبي بقوله : " بل موضوع ، وآفته
عبد الوهاب بن الضحاك ، قال أبو حاتم : كذاب "
.
بيهقی نے " شعب الإيمان " حدیث (2227) میں اسی روایت کو دوسری
سند سے نقل کیا ہے ، مگر اس میں بھی محمد بن ابراهيم ابو عبد الله الشامی ہے ، قال
الدارقطني : " كذاب " . وقال ابن عدي : " عامة أحاديثه غير محفوظة
" . و قال ابن حبان : " لا تحل الرواية عنه إلا عند الاعتبار ، كان يضع الحديث
" . لہذا اس روایت کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
۞ دوسری بات : سورہ یوسف کی تعلیم کی
ممانعت عورتوں کے لئے ، روافض کی
کتابوں میں ملتی ہے ، لیکن وہ اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ یا جعفر صادق رحمہ اللہکی
طرف منسوب کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
جاء فی کتاب الكافی للكلينی / الجزء5 صفحة516
باب في تأديب النساء وکذا فی کتاب وسائل الشيعة للحر العاملی / الجزء20 صفحة177 :
عدة من أصحابنا عن سهل بن زياد عن علي بن أسباط
عن عمه يعقوب بن سالم رفعه قال : قال أمير المؤمنين (ع) : « لا تعلّموا نساءكم
سورة يوسف ، ولا تقرؤهنّ أيّاها ؛ فإنّ فيها الفتن ، وعلموهنّ سورة النور ؛ فإنّ فيها
المواعظ ».
تو
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ان کی کتابوں میں بھی نہیں ہے ۔
شیعہ
کے ایک عالم السيّد جعفر علم الهدی سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں
نے جواب دیا :
ليس المراد من الرواية على تقدير صحّتها أنّ المرأة لا تقرأ سورة يوسف
؛ فإنّ قراءة القرآن مستحبّة ، وقد ورد التأكيد على ذلك بلا فرق بين سورة وأُخرى ،
بل المراد ترك التفسير ، وبيان ما صدر من زليخا وصواحبها من الإنحراف الأخلاقي ، والفساد
العملي ، وما ارتكبنه في حقّ يوسف الصدّيق من الإغواء .
۞ تیسری بات : اہل سنت کی بعض کتابوں
میں بھی تعلیم سورہ یوسف کی ممانعت منقول ہے ، مگر ممانعت کو خوف الافتتان وضعف عقولہن
کے ساتھ مقید کرکے بتایا گیا ہے :
ففی الشفا للقاضی عياض (2 / 248) ونقلہ عنہ
السیوطی فی الحاوي للفتاوي [رسالة تنزيه
الأنبياء عن تسفيه الأغبياء] :( كره بعضُ السلف تعليمَ النساء سورة يوسف لما انطَوَت
(أي اشتملت )عليه من تلكَ القَصَص لضَعف معرفتهن ونقصِ عُقولهن و إدراكهن ) .
یعنی
تفسیر کی تعلیم کی ممانعت
عام نہیں ہے ، کسی خاص مصلحت کی بناء پر ایسا کیا جائے تو گنجائش ہے ، چونکہ اس سورت
میں عورتوں کی مکاری ، ناجائز تعلقات ، عورتوں کا اس طرح کی باتوں کا چرچہ کرنا ، وغیرہ
اخلاقی کمزوریوں کی باتیں مذکور ہیں ۔
ھذا ما تیسر جمعہ ۔ واللہ
اعلم وعلمہ اتم واحکم ۔ وکتبہ أضعف العباد محمد طلحہ بلال احمد منيار
Comments
Post a Comment