ماں کی پکار پر نماز توڑ دینا
کیا یہ حدیث صحیح ہے :
کاش
میری ماں زندہ ہوتی ، اور میں عشاء کی نماز کے لئے مصلی پر کھڑا ہوتا ، اور سورہ
فاتحہ شروع کرچکا ہوتا ، ادھر سے میرے گھر کا دروازہ کھلتا اور میری ماں پکارتی :
محمد،
تو میں ان کے لئے نماز توڑ دیتا اور میں کہتا : لبیک اے ماں ۔
الجواب
: یہ حدیث دو طرح کے الفاظ سے وارد ہے :
1-عن
طلق بن علي، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
يَقُولُ: لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلاةِ
الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ يُنَادِينِي: يَا
مُحَمَّدُ؛ لأَجْبُتُه لَبَّيْكَ . شعب الإيمان (10/ 284) ، مصنفات أبي جعفر
ابن البختري (ص: 210) ، الموضوعات لابن الجوزي (3/ 85) .
2-عن
طَلْقَ بْن عَلِيٍّ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَوْ
أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا ، وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ ،
فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَدَعَتْنِي أُمِّي
تَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ ، لَقُلْتُ لَبَّيْكِ . البر والصلة لابن الجوزي (ص:
57) ، كنز العمال (16/ 470) .
حدیث کا ترجمہ : اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے
کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ
مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ، تو میں جوابا : لبیک کہتا ۔
اوپر سوال میں بعض الفاظ اصل حدیث پر زائد ہیں ، جو روایت میں وارد نہیں ہیں ۔
اس حدیث کی اسانید کا مدار : یاسین بن معاذ الزیات ہے ، وہ
عبد اللہ بن قُرَیر سے ، اور وہ طلق بن علی سے روایت کرتے ہیں ۔
عبد اللہ بن قریر کے والد کا نام کتابوں میں محرف آتاہے (
مرثد ، قرین ، قوید ) یہ سب تحریف ہے ، صحیح ( قُرَیر ) ہے ، دیکھو ( الاکمال لابن
ماکولا (7/ 84) ۔
ابن الجوزی اور ابو الشیخ کی روایت میں ( فدعَتنی اُمی ) ہے ، اسی سے ہمارے یہاں : اور میری ماں پکارتی ، کے الفاظ مشہور ہیں ۔
حدیث کا حال : یہ حدیث سند کے لحاظ سے نا قابل اعتبار ہے ،
چونکہ اس میں مدار سند : یاسین الزیات ہے ، جو ناقدین کے نزدیک بہت سخت مجروح ہے ،
اس کی روایات نکارت سے خالی نہیں ہے ، اس لئے اس روایت کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنا
درست نہیں ہے ۔
البتہ اس مضمون کی دوسری احادیث منقول ہیں ، لیکن وہ بھی ضعف
وانقطاع سے خالی نہیں ہیں ، مثلا :
1- ... عَنْ
مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا
دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» . مصنف ابن أبي شيبة (2/ 191
حديث 8013 ) مرسل .
2- ... الْأَوْزَاعِيُّ
قَالَ: قَالَ مَكْحُولٌ: " إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي
الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ
مِنْ صَلَاتِكَ " . شعب الإيمان (10/ 285) .
قال
ابن الملقن في التوضيح لشرح الجامع الصحيح (9/ 286) : فأما مرسل ابن المنكدر
فالفقهاء على خلافه ولا أعلم به قائلًا غير مكحول .
وفي
فتح الباري لابن حجر (6/ 483) : وَحَكَى
الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ أَنَّ ذَلِكَ يَخْتَصُّ بِالْأُمِّ دون الْأَب ، وَعند
ابن أَبِي شَيْبَةَ مِنْ مُرْسَلِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ مَا يَشْهَدُ لَهُ
، وَقَالَ بِهِ مَكْحُولٌ ، وَقِيلَ : إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بِهِ مِنَ السَّلَفِ
غَيْرُهُ .
3- ... الْحَكَمُ بْنُ الرَّيَّانِ،
ثنا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَوْشَبٍ الْفِهْرِيُّ، عَنِ
أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«لَوْ كَانَ جُرَيْجٌ الرَّاهِبُ فَقِيهًا عَالِمًا لَعَلِمَ أَنَّ إِجَابَتَهُ
أُمَّهُ أَوْلَى مِنْ عِبَادَةِ رَبِّهِ
عَزَّ وَجَلَّ». رواه الحسن بن سفيان في مسنده، والترمذي في النوادر،
وأبو نُعيم في المعرفة، والبيهقي في الشعب . كما في المقاصد الحسنة (ص: 551) .
ومن
هذا الطريق أخرجه أبو نعيم في "الصحابة" (2283) وقال : "حوشب
أبو يزيد الفهري مجهول" . وكذا يزيد ولده مجهول .
وَفِي
سنده أيضا : مُحَمَّد بن مُوسَى السامي الْقرشِي مُتَّهم بالوضع .
متن کےمذکورہ شواہد
بھی اتنے مضبوط نہیں ہیں جو اصل روایت کی
تقویت کے قابل ہوں ، اس لئے اس حدیث کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کرنے میں احتیاط کرنا
چاہئے ۔
Comments
Post a Comment