رزین کی کہانی خود اس کی زبانی
رزین
کی کہانی خود اس کی زبانی
[ قصة رزين بلفظه وقلمه لأول مرة مع الترجمة ]
جمع وترتیب : محمد طلحہ بلال احمد
منیار / اردوترجمہ : مولوی محمد یاسر
عبداللہ
سبب
الاقتصار على جمع الصحيح فقط
قال رزين في
أثناء مقدمة " تجريد الصحاح" :
فلما
لم نَجِد مَن أفصَحَ في جميع ما جَمَعه بالصِّحة ، إلا هذين الإمامَين المقدَّم
ذكرهما [ يعني الشيخين البخاري مسلما ] مع مالكٍ في كتابه " الموطأ " وشَهِدتْ
لهم بصحةِ ذلك مَعَ الأَلسُنِ الفِطَرُ ، حتى قد شاعَ وذاعَ وانتشرَ ... فجمعتُها
في كتابٍ واحدٍ ، على رُتبةٍ سأذكرُها ...
صرف صحیح
احادیث پر اکتفا کا سبب:
امام رزین
“تجريد الصحاح" کے مقدمے میں رقم طراز ہیں:
چونکہ
احادیث جمع کرنے والوں میں یہ مذکورہ دو ائمہ (امام بخاری ومسلم) اور امام مالک
اپنی "موطأ" میں صحت کی صراحت فرماتے ہیں، اور زبانوں کے ساتھ فطرت بھی
ان (کے احکام) کی صحت کی گواہی دیتی ہے، اور ان کا کام شائع ذائع ہوکر عام ہوچکا
ہے، اس لیے میں نے ان (تینوں کتابوں: صحیحین وموطأ کی احادیث) کو ایک کتاب میں
یکجا کردیا ہے، آئندہ بیان کردہ
ترتیب پر ۔
ميزة الكتب الثلاثة عن
غيرها من كتب الحديث
قال رزين :
وكلُّ
مَن أفصح مِمَّن سِوى هؤلاء [ أي الثلاثة ] بالتصحيح في بعضٍ ، فقد عَلَّلَ في
بعضٍ ، فوجب البِدارُ إلى الاشتغال بالمجموعِ المشهودِ على صحةِ جميعه ...
کتبِ ثلاثہ
کا دیگر کتبِ حدیث سے امتیاز:
موصوف
لکھتے ہیں:
ان (تین)
ائمہ کے علاوہ جن حضرات نے بھی بعض (روایات) کی صحت کی صراحت کی ہے تو دیگر روایات کی علتیں بھی بیان کی
ہیں، اس بنا پر ایسے مجموعے کے اشتغال کی ضرورت تھی جس کی تمام روایات کو صحیح
قرار دیا گیا ہو۔
تتبُّع ما يلتحق بهذه الكتب
في الصحة بشرط النقد والتمييز
قال رزين :
فإن
اتَّسَعَ لباحثٍ مُحسنٍ زمانٌ تَتَبَّعَ ما لم يُخرِجوه من المتون اللاحقةِ
بشرط الصحيح ، ومَيَّزَ ذلك إن وَجَده ،
وكانت له مُنَّةٌ في انتقادِه ...
نقد وتمییز
کے بعد ان کتب کے علاوہ صحیح روایات کا تتبع :
امام موصوف
لکھتے ہیں:
اگر زمانہ
کسی اچھے محقق کو موقع دے تو وہ ایسے صحیح متون کا تتبع کرے جن کو ان ائمہ نے اپنی
کتب میں درج نہیں کیا، اگر ایسی روایات ملیں تو انہیں ممتاز کرے، اور ان کو نقد کی
کسوٹی پر پرکھے۔
تأخُّر رتبة الترمذي وأبي
داود في الصحة
قال رزين :
ومما
يلتحقُ بهذه الكتب في الصحةِ من بعض الوجوه –
وإن كانت في الرتبة بعدَها – كتابُ الترمذي و " السنن " لأبي داود .
وقد ذكر الخَطَّابي في مدح " السنن
" ما أطنَبَ فيه أنه : أُلِينَ لأبي داود الحديثُ كما أُلِينَ لداود عليه
السلام الحديدُ .
صحت کی
میدان میں امام ترمذی وامام ابوداود، ائمہ ثلاثہ سے متاخر ہیں:
امام رزین
رقم طراز ہیں:
بعض پہلؤوں
سے صحت کے اعتبار سے ان (تین) کتابوں کے قریب امام ترمذی کی کتاب اور امام ابوداود
کی “سنن” ہے، اگرچہ (یہ دونوں کتابیں) مرتبے میں ان کے بعد ہیں۔ امام خطابی رحمہ
اللہ نے “سنن ابوداود” کی تعریف میں قدرے مبالغہ کرتے ہوئے لکھا ہے: امام ابوداد
کے لیے علم حدیث ایسے نرم کردیا گیا تھا، جیسے حضرت داود علیہ السلام کے لیے لوہا۔
أنواع ما تتبَّعه رزين في
الترمذي وأبي داود
قال رزين :
فلما
صحَّ ما تقدم ذكره ، أعني التحاقَ الترمذي و " السنن " بالصحاح : تتبَّعتُهما
وجمعتُ منهما :
۱۔۔ ما تفَرَّدا به عن الكتب الثلاثة
المتقدمة .
۲۔۔ وربما
ذكرتُ حديثا هو فيها [ أي الثلاثة ] لكن لم أذكره إلا لزيادةِ فائدةٍ في مَتنه أو
سَنده
۳۔۔ أو
لأنهما قد ذَكرا فيه فائدةً ، فلم يكن لي بُدٌّ مِن ذكر الحديث لأجل تلك الفائدة
۴۔۔ وقد
ظاهرتُ من " السنن " والترمذي مِن أصحِّ ما فيهما ، وهو مما اتفقا عليه
، أو اتفق معهما أو مع أحدهما بعضُ نسخ " الموطأ " ، بأحاديثَ يسيرةً ما
تنتهي أربعين ، مُؤازَرَةً بها على تبيين الحق ، وإزاحةً للشُّبهة المُضمَحِلَّة ،
وحَسْمًا لمن يَرومُ التَّشَبُّثَ بتأويل أوهَنَ من غَزل العنكبوت ، احتيالا
لإيقاد نارِ التعصُّبِ والحَمِيَّة ، وذلك كنحو ماورد في تحريم الخمر في البخاري
ومسلم من : أن الخمرَ ما خامَرَ العقلَ ، وكُلُّ مُسكرِ حرامٌ . وقد بقي فيه بعض
الإشكال ، ففي " السنن " والترمذي وبعض نسخ " الموطأ " : أن
جابرا رَوَى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ما أسكر كثيرُه فقليلُه حرام ،
وعن عائشة : أن ما أسكر منه الفَرَقُ فمِلؤ الكفّ منه حرام .
وكذا
في دلائل التوحيد قد ظاهرنا منهما أعني الكتابين [ الترمذي وأبي داود ] بأدلةٍ
يُوازِنُ بعضُها بعضاً ، كي ينفع الله تعالى بها من عباده من يشاء .
امام رزین
کی جانب سے سنن ترمذی وسنن ابوداود کے تتبع کی اقسام:
موصوف
لکھتے ہیں:
جب مذکورہ
نکتہ درست ہے کہ “سنن ترمذی” اور “سنن ابوداود”، “صحاح” سے ملحق ہیں تو میں نے ان
دونوں کتابوں کا تتبع کیا اور ان سے درج ذیل اقسام کی روایات جمع کردیں:
۱- جن روایات میں یہ دونوں ائمہ، کتبِ ثلاثہ سے متفرد ہیں(یعنی
کتب ثلاثہ میں وہ روایات نہیں، اور “سننین” میں درج ہیں)۔
۲- بسااوقات متن یا سند میں کسی اضافی فائدے کی بنا پر (سننین
کی) ایسی روایت بھی میں نے ذکر کی ہے جو ان (کتبِ ثلاثہ) میں مذکور ہے۔
۳- یا ان ائمہ (سننین) نے ان میں کوئی فائدہ ذکر کیا ہے تو اس
فائدے کی بنا پر حدیث کو ذکر کیے بنا کوئی چارہ نہ تھا۔
۴- میں نے سنن ابوداود
وسنن ترمذی کی اصح روایات میں سے ( جن پر
یہ دونوں ائمہ متفق ہوں یا ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ “موطأ" کا
کوئی نسخہ بھی متفق ہو، ایسی گنی چنی احادیث کی تعداد چالیس تک پہنچتی ہے ) ذکر کی ہیں
، تاکہ ان دیگر کتب کی مدد سے حق واضح ہو،
بودے شبہات کا ازالہ ہو، اور تعصب وحمیت کی آگ بھڑکانے کی خاطر مکڑی کے تار سے
کمزور تر تاویلات کا سہارا لینے والوں کا قلع قمع ہو۔
مثلا: بخاری ومسلم میں حرمتِ خمر کے متعلق روایت وارد ہے: “إن
الخمر ما خامر العقل، وكل مسكر حرام “. (یعنی “خمر” وہ ہے جو عقل کو چھپالے، اور
ہر نشہ آور شے حرام ہے)۔ اس روایت پر کسی قدر اشکال باقی تھا، لیکن “سننین” اور
“موطأ" کے بعض نسخوں میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت درج ہے کہ : "ما أسكر كثيره فقليله حرام".(جس شے کا زیادہ حصہ نشہ آور ہو تو اس کا تھوڑا بھی حرام
ہے)۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے: "إن
ما أسكر منه الفَرَقُ فملؤ الكف منه حرام". (جس شے کا ایک فَرَق -تین صاع پر مشتمل ایک قدیم عربی
پیمانہ- نشہ آور ہو تو اس کی ایک ہتھیلی کی مقدار …
اسی طرح
دلائلِ توحید کے متعلق “سننین” سے ایسی دلیلیں سامنے لائی ہیں جو ایک دوسری کا وزن
بڑھاتی ہیں؛ تاکہ ان سے اللہ تعالی حسبِ منشا اپنے بندوں کو نفع پہنچائے۔
مصدرُ بعض زيادات رزينٍ
وتمييزُه لها بعلامة
قال
رزين : وبالجملة فهي يسيرة ومُعَلَّمة ،
۱۔۔ وهي
في سماعٍ من غير طريقِ الكتُب على أئمةٍ كانوا من أعلام الدين ، وأدخَلَها بعضُهم
، وهو الشيخ أبو عبد الله المعروف بالنحوي في اختصاره " جامع البيان في تفسير
القرآن " لمحمد بن جرير الطبري رضي الله عنه
۲۔۔ وهي
أكثرها في اختلاف نسخ " الموطأ "
۳۔۔ وأكثرها
أو جُلها مرويٌّ من طريق أهل البيت عن علي رضي الله عنه وابن عباس وغيرهما .
امام رزین
کے بعض اضافات اور علامات سے ان کا امتیاز :
امام رزین لکھتے ہیں:
بہر کیف ایسی روایات کی
تعداد کم اور نشان زد ہے:
۱- وہ روایات جن کا سماع (متداول) کتب (حدیث) کی اسانید کے
علاوہ ایسے ائمہ سے ہو جو مقتدائے دین (کی حیثیت رکھتے) ہیں، بعض ائمہ نے ایسی
روایات (اپنی کتب میں) درج کی ہیں، مثلا : شیخ ابوعبداللہ معروف بہ نحوی نے امام
محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کی تفسیر "جامع البيان في تفسير القرآن" کے
اختصار میں۔
۲- ان میں سے بیشتر "موطأ" کےبعض نسخوں میں مذکور
ہیں۔
۳- ان میں سے اکثر یا بڑی تعداد اہلِ بیت کی اسانید سے حضرت
علی وابن عباس -رضی اللہ عنہم- وغیرہ سے مروی ہیں۔
ليس في " التجريد
" ما هو خارج عن هذه الكتب الثلاثة ولا إخلال بما فيها
قال
رزين :
وليس
في جميع الديوان [ يعني كتابه التجريد ] ما هو خارجٌ عن هذه الكتب بشيء ، ولم
أقتصر على ذكر المسنَدَات دون المُرسَلات ، ولا على الأخبار دون الآثار ، إذ فِعالُ
الصحابة والسلف هي تفسيرُ مُحكَمِ الحديث من مُتشابهه ، وتفصيلُ مُفَسَّره من مُفَصَّله
، كما قال ابنُ مَهدي وهو من كبار العلماء بالحديث : إذا أشكل عليك حديثانِ ، في
لفظَيهما بعضُ التضادِّ ، فانظر إلى فعل الصحابة ، فأيهما وافق فعلَهم فذلك
الناسِخُ المُحكَم .
“تجرید”
میں ان کتبِ ثلاثہ سے باہر یا ان کے مندرجات میں سے
کوئی روایت متروک نہیں ۔
امام موصوف
مزید لکھتے ہیں:
پوری کتاب
(تجرید) میں ان مذکورہ کتب سے خارج کوئی شے نہیں، اور میں نے مراسیل وآثار کو ترک
کرکے محض مسند روایات واخبار (احادیثِ مرفوعہ) پر بھی اکتفا نہیں کیا؛ اس لیے کہ
صحابہ وسلف -رضی اللہ عنہم- کے افعال،
متشابہ سے محکم حدیث کی تفسیر، اور مفصّل سے مفسّر کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ
امام (عبدالرحمن) ابن مہدی رحمہ اللہ -جو اکابر علمائے حدیث میں سے ہیں- کا کہنا
ہے: “جب تمہیں دو حدیثیں اشکال میں ڈالیں، ان کے الفاظ میں تضاد ہو، تو ان میں جو
حدیث صحابہ کے فعل کے موافق ہو وہی ناسخ اور محکم ہوگی”۔
خُطّة كتاب " تجريد
الصحاح " بتفصيل :
کتاب “تجريد
الصحاح" کا تفصیلی منہج:
1- تلخيص الكتب الثلاثة
قال
: فاستخرت اللهَ تعالى ، وسألته العون والتأييدَ على تجريد ما في هذه الكتب
الثلاثة من متون الأخبار ونصوص الآُثار ، وتلخيص ذلك في كتاب واحد ، مع جمع مُتفرّقها
، والحرص على تَوفير تراجمها .
۱-کتبِ ثلاثہ (صحیحین وموطأ) کی تلخیص:
امام موصوف
خود رقم طراز ہیں:
میں نے
اللہ تعالی سے استخارہ کیا اور اسی ذات سے ان تین کتب میں درج متونِ اخبار ونصوصِ
آثار کی تجرید، ایک کتاب میں ان کی تلخیص، ان کی متفرق روایات کو جمع کرنے اور ان
کے تراجمِ (ابواب وکتب) کو بھی مہیا کرنے کے حوالے سے تائید ونصرت کا سوال کیا۔
2-
اعتماد تراجم البخاري
قال
: واستقصاءُ جميع تَراجِم البخاري ، لتضمُّنها من الحِكم والفقه ما قد ضَمَّنها ،
إذ لم يُترجِم منها كتابا ولا بَوَّب بابا ولا ضَمَّ حديثاً إلى حديثٍ إلا بحِكمةٍ
على بَصيرةٍ .
۲- صحیح بخاری کے تراجمِ ابواب پر اعتماد:
موصوف لکھتے ہیں:
صحیح بخاری
کے تمام “تراجم” کا احاطہ کیا ہے؛ اس لیے کہ وہ ضمن میں بہت سی حکمتوں اور فقہ پر
مشتمل ہیں؛ کیونکہ امام بخاری نے ہر کتاب یا باب کا ترجمہ قائم کرنے اور کسی حدیث
کو دوسرے حدیث کے ساتھ جوڑنے میں بصیرت پر مبنی حکمت سے کام لیا ہے”۔
3- حذف الإسناد
قال
: ولم أذكر من الإسناد إلا الصاحبَ فقط ، وفي النادر مَن روى عنه لزيادة بيانٍ أو
معنىً يتصل به لا يقع الفهمُ إلا بذكره .
۳-اسانید کو حذف کرنا:
مزید لکھتے
ہیں:
میں نے محض
صحابی (کے نام) کے علاوہ باقی سند ذکر نہیں کی، کبھی کبھار مزید وضاحت یا حدیث سے
جڑے فائدے کی خاطر صحابی سے روایت کرنے والے راوی کا نام بھی ذکر کردیا ہے، جبکہ
اس کا ذکر کیے بغیر وہ نکتہ سمجھ میں نا قابلِ فہم ہو۔
4- تتبع الزيادات المَتنية
قال
: وتَتَبَّعتُ مع ذلك زيادةَ كل راوٍ في كل متنٍ ، ولم أُخِلَّ بكلمة فما فوقها
تقتضي حكما أو تفيد علما ، إلا أن يكون حديثٌ آخَرُ قد تضَمَّن معناها .
٤- متن کے اضافات کا تتبع:
موصوف
فرماتے ہیں:
میں نے ہر
متن میں ہر راوی کے اضافے کا تتبع کیا ہے، اور درمیان میں کسی حکم یا علمی فائدہ
پر مشتمل ایک یا زائد کلمات کو ترک بھی نہیں کیا، البتہ اگر
کوئی اور حدیث، اس روایت کے معنی ومفہوم پر مشتمل ہو (تو اس کی جانب اشارہ کردیا
ہے)۔
5-
ضم النظير إلى نظيره في موضع واحد
قال
: وجمعتُ كلَّ معنى مقصودٍ من ذلك ومن التراجم فيه في مكان واحد .
۵- ایک نظیر کو دوسری نظیر کے ساتھ ایک مقام پر جمع
کرنا:
موصوف رقم طراز ہیں:
میں نے روایت کے مقصودی
معنی اور اس کے تراجم کو یکجا کردیا ہے۔
6- طريقة إيراد المتون من الكتب الثلاثة
قال
: وأوردت المتنَ من ذلك بلفظ أحدهم ، وبأتَمِّه إذا اختلفوا في اللفظ
واتفقوا في المعنى ، وإن كانت عند غيره فيه زيادةٌ – وإن قَلَّت - نبَّهتُ عليها جُهدي.
٦-کتبِ ثلاثہ کے متون لانے کا طریقہ کار:
امام رزین
فرماتے ہیں:
میں نے متن
ان ائمہ میں سے کسی ایک کے الفاظ میں لایا ہے، اگر الفاظ کا اختلاف اور معنی میں
اتفاق ہو تو وہ متن لایا جو زیادہ تام ہو، اور اگر دیگر ائمہ کے ہاں اس متن میں
کوئی اضافہ ہو -اگرچہ معمولی ہی ہو- تو اپنی کوشش صرف کرکے اس پر تنبیہ کی ہے۔
7-
سبب اعتماد تراجم البخاري دون الموطأ
قال
: وجعلتُ الاصلَ الذي يبنَى عليه في التراجم للكتب والأبوابِ : كتابَ البخاري ،
وقد كان " الموطأ " أحقَّ بذلك لتقدمه ، لكن أحاديثه مستغرَقة في متون
الكتابين ، فرددتُ ما كان في " الموطأ " و " مسلم " إلى تراجم
البخاري ، وجعلتُ كلَّ شيء من ذلك في بابه وما يليق به .
٧- “موطأ" کے بجائے امام بخاری کے تراجم پر اعتماد کا سبب:
موصوف
لکھتے ہیں:
کتب وابواب
کے تراجم کے حوالے سے امام بخاری کی کتاب کو بنیاد بنایا ہے، حالانکہ تقدّم کی بنا
پر “موطأ" اس کی زیادہ حق دار تھی۔ لیکن “موطأ" کی احادیث کا ان دونوں
کتابوں (صحیحین) کے متون میں احاطہ ہوگیا ہے، اس لیے میں نے "موطأ" اور
"صحيح مسلم" کے مندرجات کو بخاری کے تراجم کی جانب لوٹا دیا ہے، اور ان
سے ہر ایک شے کو اس کے باب میں اور مناسب مقام میں ذکر کیا ہے۔
8-
رموز
الكتب الثلاثة
قال
: وعَلَّمتُ على ما في " موطأ مالك " بـ (ط) ومسلم بـ (م) والبخاري بـ
(خ) في أول الحديث .
۸- کتبِ ثلاثہ کے رموز :
امام جلیل القدر لکھتے
ہیں:
میں نے
“موطأ مالك" کی روایت کی ابتدا میں (ط)، “صحیح مسلم” کی حدیث سے پہلے (م) اور
“صحیح بخاری” کے شروع میں (خ) کی علامت لگائی ہے۔
9- المرموز له وغير المرموز
قال
:
ثم
المُعَلَّم في جميع الديوان على ضربين :
۱۔۔ إما
لانفراد صاحب العلامة بالمتن والسند - وهو الأكثر –
أو بأحدهما
۲۔۔ وغير
المُعَلَّم إما أن يكون مما اتُّفِقَ عليه لفظا أو معنىً –
وهو الأكثر- أو مما ينفرد به البخاري .
٩-نشان زد وبے
نشان روایات:
موصوف
لکھتے ہیں:
پوری کتاب
میں نشان زدہ روایات دو قسم کی ہیں:
(۱) یا تو
صاحبِ علامت،متن وسند دونوں-اکثر ایسا ہی
ہے- یا دونوں میں سے کسی ایک میں منفرد ہیں۔
(۲) بے نشان
روایت میں یا تو لفظی یا معنوی -بیشتر یہی ہوا ہے- طور پر (سب ائمہ کا) اتفاق ہے
یا پھر اس میں امام بخاری منفرد ہیں۔
قال
: نعم ، وظاهَرتُ بعضَ الأدلةِ بأحاديثَ من " السنن " والترمذي إذ هُما
من جُملة الصِّحاح كما تقدم ذكره ، كي تَنزاحَ الشبهةُ وينحَسِم الشَّغَبُ وتجتمع
الفائدةُ ، ويقلَّ التعَبُ في تَجَشُّم مُؤنة الطلب .
۱۰- سننِ ترمذی وسننِ ابوداود کا اضافہ محض تقویت کے
لیے ہوتا ہے:
امام عالی
مقام لکھتے ہیں:
جی ہاں،
“سنن ابوداود” اور “سنن ترمذی” کی احادیث سے بھی بعض دلائل ذکر کیے ہیں؛ اس لیے کہ
پہلے گزر چکا کہ یہ دونوں بھی منجملہ صحاح میں سے ہیں، (ان کے اضافات اس لیے لائے
ہیں) تاکہ کوئی شبہ زائل ہوجائے، یا شور وشغب دب جائے اور فوائد یکجا ہوں، کھوج
کرید اور تلاش کا بوجھ اٹھانے میں تکان کم ہو۔
11 - إستيعاب مطالعة الكتب الثلاثة
قال
: ولم أفعل ذلك إلا بعدَ مطالعة كل كتاب من كل ديوانٍ منها ، كي تجتمع الفوائد
وتلتئم المقاصدُ ، ويسهُلَ للدرس والتكرار مع حذف الأسانيد وتجريد الأخبار ،
ويَخِفَّ للحمل في الأسفار ، ولم أدَعْ جُهدي في جُملة الكتب المذكورة : فائدةً في
متن خبرٍ أو أثرٍ إلا حصَّلتها واقتصصتُها بصحتها ، ولشهادة الفِطَرِ بعدالة
مؤلفيها .
۱۱- کتبِ ثلاثہ کا بالاستیعاب مطالعہ:
امام موصوف رقم طراز
ہیں:
میں نے یہ
کام ان تینوں میں سے ہر کتاب کے مطالعے کے بعد کیا ہے؛ تاکہ فوائد یکجا ہوں اور
مقاصد حاصل ہوں، اسانید کے حذف اور اخبار کی تجرید کے ساتھ درس وتدریس اور تکرار
آسان ہو، اسفار میں ساتھ لینے کا بوجھ ہلکا ہو، اور حسبِ وسعت میں نے مذکورہ کتب
کی کسی خبر یا اثر کے متن کا ہر فائدہ حاصل کیا اور اس کو صحت کے ساتھ بیان کیا
ہے، اس لیے کہ نیک فطرتیں ان کتب کے مؤلفین کی عدالت کی گواہی دیتی ہیں۔
12 - استيعاب زوائد أبي داود والترمذي
قال
: نعم . ثم أخذتُ " السنن " فتتبَّعتُه فجمعتُ منه ما لم يُذكَر في
الكتب الثلاثة المذكورة قبل هذا . وكذلك الترمذي على الرتبة التي سوف أذكرها في
أول الجزء الذي أجمعها فيه إن شاء الله تعالى ، فاجتمعتْ الخمسةُ الدواوين ، بحمد
الله وعونه ولا حول ولا قوة إلا بالله ، وهو المستعان .
۱۲- سننین” کی “زوائد” کا احاطہ:
امام گرامی
قدر لکھتے ہیں:
جی ہاں،
میں نے “سنن ابوداود” کا تتبع کیا، اس سے ایسی روایات جمع کیں جو اس سے پہلے
مذکورہ کتبِ ثلاثہ میں درج نہیں، اسی طرح “سنن ترمذی” کا بھی اس ترتیب کے مطابق
(تتبع کیا) جو اس جزء کی ابتدا میں ان شاء اللہ تعالی ذکر کروں گا، جس میں روایات
جمع کروں گا۔ یوں بحمد اللہ، اللہ تعالی کی مدد ونصرت سے (حدیث کی) پانچ اہم
کتابیں یکجا ہوگئیں، ولا حول ولا قوة إلا بالله، وهو المستعان ۔
قال
: وما يَشِذُّ من النسائي خبرٌ إلا وقد حَصَل في الديوان لفظُه ومعناه إن شاء الله
تعالى ، وقد تختلف الألفاظ وتتفق المعاني ، وما تَفَرَّد به فقد عَلَّمتُه وهو
قليل ، وعلامته نون سين هكذا ( نس ) وهو سادس الصحاح إن شاء الله تعالى .
۱۳- “سنن نسائی” کی زوائد اور تفردات
موصوف رقم
فرماتے ہیں:
“امام نسائی جن روایات میں جدا ہیں، ان کے الفاظ ومعانی بھی ان شاء
اللہ تعالی اس کتاب میں درج ہیں، کبھی الفاظ مختلف اور معنی متفق ہوگا، جن روایات
میں امام نسائی منفرد ہیں انہیں نشان زد کردیا ہے، لیکن ایسی روایات کم ہیں، ایسی
روایت کی علامت نون سین (نس) ہے، یوں یہ کتبِ صحاح میں ان شاء اللہ چھٹی کتاب
ہوئی”۔
14 - ثلاثة مصادر لبعض زيادات " الموطأ "
قال
: واعلم أني أدخلت من 1- " اختلاف نسخ الموطأ " لابن شاهين 2-
والدارقطني ، ومن 3- رواية مَعْنٍ لـ " الموطأ " أحاديث في المُعَلَّم
بالـ ( ط ) تفرَّدت بها بعض النسخ دون بعض ، وكلها صحيحة ، وعلةُ ذلك مشهورة ، وقد
توخَّيت في جميع ذلك الاجتهادَ ، ولا معصومَ إلا من عَصَم اللهُ تعالى .
۱۴ ۔ "موطأ"کے بعض اضافات کے تین مصادر:
امام عالی شان لکھتے
ہیں:
یہ نکتہ جان لیجیے کہ
میں نے اس کتاب میں :
۱۔ ابن
شاہین کی "اختلاف نسخ الموطأ"
۲۔دارقطنی کی "اختلاف نسخ الموطأ" اور
۳۔ "موطأ" کی روایتِ معن
سے بھی (ط)
کی علامت کے تحت احادیث لی ہیں، جن میں بعض نسخے دیگر سے منفرد ہیں، اور سبھی صحیح
روایات ہیں، اس حوالے سے میں نے اپنی پوری کوشش صرف کی ہے، البتہ خطا سے وہی بچا
ہوا ہے جسے اللہ تعالی بچائے”۔
15 -
تاريخ الفراغ من المُسَوَّدة
قال
: يقول رَزين بن معاوية بن عمار العَبدَري الأندلسي : وعُنِيتُ بجمع هذا الكتاب في
بمكة – حرسها الله
تعالى – في المسجد
الحرام ، وكان الفراغ منه عام أحد وخمس مئة ، بعون الله تعالى .
۱۵- مسودے سے فراغت کی تاریخ:
امام
باوقار رقم طراز ہیں:
رزین بن
معاویہ بن عمار عبدری اندلسی عرض گزار ہے: میں نے اس کتاب کو مکہ مکرمہ -اللہ
تعالی اسے محفوظ رکھے- میں مسجدِ حرام میں جمع کیا ہے، اور اللہ تعالی کی تائید
ونصرت کے ساتھ سنہ ٥٠١ ھ میں اس (کی تالیف) سے فراغت حاصل ہوئی۔
16
- سبب اختلاف نسخ "
تجريد الصحاح " وتاريخ النسخة المبيَّضة
قال
: واعلم أنه بادَرَ أناسٌ فاستعجلوا ، وكتبوا من كراريس المُسَوَّدة قبل الفراغ من
تلخيصها ، ثم تهيأ في هذا الأصل بعدُ في التبييض تقديمٌ وتأخيرٌ ، وفي ترتيب الكتب
أيضا ، فمن أبصرَ في النسخ خلافا فهذا سببه ، والكتاب المُرَتَّبُ هو هذا الذي وقع
الفراغ منه في عام اثنين وخمس مئة ، وهو الذي فيه ذكر النسائي ، وقد استلحقت فيه
أحاديث من سائر الأمهات كثيرة .
١٦- "تجريد الصحاح" کے نسخوں میں اختلاف کا سبب اور نسخہ مبیّضہ کی
تاریخ:
امام موصوف
لکھتے ہیں:
جان لیجیے
کہ کتبِ مذکورہ کی تلخیص سے فارغ ہونے سے پیشتر ہی لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا
اور مسودے کی کاپیوں سے (زیرِ تالیف کتاب کا مواد) لکھ لیا، پھر تبییض کے دوران اس
اصل نسخے میں تقدیم وتاخیر اور کتب کی ترتیب میں بھی (تبدیلی) ہوئی، اگر کسی کو
نسخوں میں اختلاف دکھائی دے تو اس کا سب یہی ہے، مرتّب کتاب یہی ہے جس سے سنہ ۵۰۲ ھ میں فراغت ملی، اسی میں امام نسائی (کی کتاب) کا ذکر ہے، اور
میں نے اس میں تمام امہات (کتبِ حدیث) سے بہت سی احادیث کا اضافہ کیا ہے۔
17 -
سادس الستة هو : السنن الكبرى للنسائي
قال
: والذي ذُكر هنا من النَّسائي هو من النسخة الكبرى ، لأن فيها زياداتٍ ، وأما
الصغرى فداخلة فيما قبلها من الكتب ، وبالله التوفيق والحمد لله رب العالمين .
۱۷- کتبِ ستہ میں چھٹی امام نسائی کی "السنن
الكبرى" ہے:
امام عالی مقام
رقم فرماتے ہیں:
“یہاں امام نسائی کی جو روایات ذکر کی گئی ہیں، وہ “نسخہ کبری” سے
ہیں؛ اس لیے کہ اس میں اضافات ہیں، (امام نسائی کی سننِ) صغری تو سابقہ کتب میں
داخل ہے۔ وبالله التوفيق، والحمدلله رب العالمين “۔
نقله إلى الأردية :
العبد الضعيف محمد ياسر عبد الله
وذلك في الليلة الرابعة من شهر ربيع
الآخر سنة
١٤٤٠هـ
Comments
Post a Comment