کھڑے ہوکر پانی پینے کی قباحت
لوگوں
ميں اس طرح کی ايک حديث مشہور ہے:
نبی
کريم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا : اگر تمہيں پتہ چل جائے کہ کھڑے ہو کر پانی
پينے پرکتنا بڑا عذاب ہے، تو تم اپنے حلق ميں ہاتھ ڈال کر اس پانی کو نکال دو۔اور
اگر اس وقت تم ديکھ لو کہ تمہارے ساتھ کتنی خوفناک شکل والا شيطان کھڑا ہے تو تم
پانی پينا چھوڑ دو۔
الجواب
: سوال میں مذکورہ الفاظ کے مطابق
تو کوئی حدیث میرے علم میں نہیں ہے ، جس میں کھڑے ہوکر پینے پرعذاب کی وعید سنائی
گئی ہو، یا شیطان کی خوفناکی کا تذکرہ ہو۔ہاں حدیث کے مفہوم کی تعبیرکسی نے اس طرح
سے بیان کی ہو ، تو ممکن ہے۔
ویسے سوال میں دو حدیثوں کا ملا جلا مفہوم بیان کیا گیا ہے
:
پہلی حدیث یہ ہے :
( لَوْ يَعْلَمُ الَّذِي يَشْرَبُ وَهُوَ
قَائِمٌ مَا فِي بَطْنِهِ لاَسْتَقَاءَهُ
) کھڑے ہوکر پینے والا اگر یہ جان لے کہ اس کے پیٹ میں کیا نقصان ہورہا ہے، تو
وہ اس کوقے کرکے نکال دے ۔ [مسند احمد7808]من حدیث ابی ھریرہ ۔
جی ہاں مسند بزارمیں اس حدیث کے
الفاظ اس طرح ہیں : ( لو يعلم الذي يشرب قائما ماذا عليه لاستقاء ) [بزار 8050 ] ہوسکتاہے کہ
(ماذا علیہ) کے الفاظ سے عذاب ہونے کا مفہوم لیا گیا ہو، جو صحیح نہیں ہے ، ہاں
گناہ کا معنی مراد ہوسکتاہےیعنی( ماذا علیہ من الاثم) ۔لیکن اس حدیث کے مشہور
الفاظ مختلف کتابوں میں وہی ہیں جو مسند احمد کے ہیں ۔
دوسری حدیث یہ ہے : ( عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَشْرَبُ قَائِمًا،
فَقَالَ لَهُ: «قِهِ» قَالَ: لِمَهْ؟ قَالَ: «أَيَسُرُّكَ أَنْ يَشْرَبَ مَعَكَ الْهِرُّ؟»
قَالَ: لَا. قَالَ: «فَإِنَّهُ قَدْ شَرِبَ مَعَكَ مَنْ هُوَ شَرٌّ مِنْهُ، الشَّيْطَانُ»)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کھڑے ہوئے
پانی پیتے دیکھا تو فرمایا:قے کرلو، اس نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : کیا تم کو
پسند ہے کہ بلی تمہارے ساتھ پانی پئے؟اس نے کہا : نہیں ، تو فرمایا : بلی سے بھی
بدتر چیز نے تمہارے ساتھ پیا اور وہ شیطان ہے۔[مسند احمد8003]۔
اس حدیث میں شیطان کی مشارکت کو بلی کی مشارکت سے زیادہ برا بتایا گیا ، ظاھر ہے کہ بلی کے شریک ہونے میں پینے والے کوطبعی کراہت ہوگی ، نہ کہ
کراہت کی وجہ اس کی شکل ہے، اسی طرح شیطان کا بھی حال ہے کہ وہ خبیث بھی ہے،
اور اس کی شرکت بے برکتی کا باعث بھی ہے، جیساکہ بغیر (بسم اللہ) پڑھے کھانے کے
بارے میں یہ بات احادیث میں وارد ہے۔
حاصل یہ ہے کہ شیطان کی شکل خوفناک ضرور ہوگی ، لیکن حدیث
میں یہ بات صراحتا مذکور نہیں ہے ، ممکن ہے یہ بات کھڑے ہوکر پانی پینے کی
قباحت زیادہ واضح کرنے کے لئے بڑھائی گئی ہو ۔
رہا کھڑے ہوکر پانی پینے کا حکم ؟ تو احادیث اس سلسلہ میں
دونوں طرح کی ہے : ممانعت والی ، اور جواز بیان کرنے والی ، اور دونوں صحیح ہیں ،
اس لئے علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ :
۱۔ کھڑے ہوکر پینا بلا کسی عذر کے مکروہ ہے تنزیھا، کوئی
عذر ہو جیسے بیماری یا بیٹھنے کی مناسب جگہ نہ ہو ، رش ہو، میدان جنگ ہو،وغیرہ
اعذار کی بناء پر کھڑے ہوکر پینا بلا کراہت جائز ہے۔
۲۔ امام طحاوی کی رائے یہ ہے کہ: ممانعت طبی نقطہء نظر سے
ہے مضر صحت ہونے کی وجہ سے، شرعی ممانعت نہیں ہے۔
۳۔مسنون تو بیٹھ کر پینا ہی ہے، اورحضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ بھی بیٹھ کر
پینے کی تھی ، سوائے آب زمزم اور وضوء کا بچا ہوا پانی ، ان دونوں کو کھڑے ہوکر
پینا مستحب ہے ، یعنی یہ دونوں صورتیں ممانعت سے مستثنی ہیں۔ان کے علاوہ صورتوں
میں مکروہ ہے۔
ماشاءاللہ
ReplyDelete