کھانے کے بعد انگلیوں کے چاٹنے کا طریقہ
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ
نبی اکرم ﷺتین انگلیوں (انگوٹھا، شہادت کی انگلی ،اور درمیانی انگلی )کے ذریعے
کھایا کرتے تھے، اور جب تک انہیں چاٹ نہ لیتے تھے اس وقت تک اسے رومال سے صاف نہیں
کرتے تھے۔
مسلم[2033] کی ایک روایت میں ہے :" أَمَرَ
بِلَعْقِ الْأَصَابِعِ وَالصَّحْفَةِ وَقَالَ : إِنَّکُمْ لَا تَدْرُونَ فِي
أَيِّهِ الْبَرَکَةُ " یعنی نبی ﷺنے
انگلیاں چاٹنے اور پیالہ صاف کرنے کا حکم فرمایا، اور آپ ﷺنے فرمایا :تم نہیں
جانتے کہ برکت کس حصے میں ہے۔
انگلیوں کے
چاٹنے کی کیفیت کےسلسلہ میں روایات میں دو طرح کے الفاظ وارد ہوئے ہیں :
۱۔ یَلْعَقُ، اکثر روایات میں ۔[بخاری 5456،مسلم 2032،ابوداود3848، ترمذی1803]
۲۔ یَمُصُّ،[مصنف
ابن ابی شیبہ24447، مسند احمد14390]من حدیث جابررضی
اللہ عنہ ۔
دونوں وارد الفاظ
کی مناسبت سے امام بخاری نےکتاب
الاطعمہ میں باب باندھا :
بَابُ لَعْقِ الأَصَابِعِ وَمَصِّهَا قَبْلَ أَنْ تُمْسَحَ بِالْمِنْدِيلِ.
پہلے لفظ (یَلْعَقُ) کا ترجمہ
ہے: انگلیوں کا چاٹنا۔یعنی زبان باہر نکال کر انگلیوں پر پھیرنا ۔
دوسرے لفظ (یَمُصُّ)کا ترجمہ ہے
:انگلیوں کو چوسنا۔یہی لفظ پانی پینے کے سلسلہ میں ایک روایت میں ہے :"إِذَا شَرِبَ
أَحَدُكُمْ فَلْيَمُصَّ مَصًّا، وَلَا يَعُبُّ عَبًّا"۔[سنن
البیہقی ۷/۴۶۴]یعنی لبوں سےچوس کر یا چسکی لیکر پئے ، غٹ غٹ بڑے گھونٹ بھر کر نہ
پئے۔
چوسنا دو طرح
سے ہوسکتا ہے : ایک تو ہونٹوں کے ظاہری
یااندرونی حصہ سے ، جس طرح پانی کی چسکی
لی جاتی ہے، اس میں زبان لگانے کی ضرورت نہیں
ہوتی، اور دوسرا منھ میں ڈال کر زبان سے چوسنا ، جس طرح چھوٹے بچوں کو
انگوٹھا چوسنے کی عادت ہوتی ہے۔
عموما شرا ح حدیث نے
انگلیوں کے چاٹنے کا طریقہ واضح نہیں کیا ، مگر بعض شراح کی عبارت سے اس کی کیفیت
معلوم ہوتی ہے :
چنانچہ امام خطابی رحمہ
اللہ فرماتے ہیں : "عَابَ قَوْمٌ أَفْسَدَ عَقْلَهُمُ
التَّرَفُّهُ، أَنَّ لَعْقَ الْأَصَابِعِ مُسْتَقْبَحٌ، كَأَنَّهُمْ لَمْ
يَعْلَمُوا أَنَّ الطَّعَامَ الَّذِي عَلِقَ بِالْأَصَابِعِ أَوِ الصَّحْفَةِ
جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ مَا أَكَلُوهُ، وَإِذَا لَمْ يَكُنْ سَائِرُ أَجْزَائِهِ
مُسْتَقْذَرًا، لَمْ يَكُنِ الْجُزْءُ الْبَاقِي مِنْهُ مُسْتَقْذَرًا، وَلَيْسَ فِي ذَلِكَ أَكْثَرُ مِنْ مَصِّهِ أَصَابِعَهُ
بِبَطْنِ شَفَتَيْهِ، وَلَا يَشُكُّ عَاقِلٌ فِي أَنَّهُ لَا بَأْسَ
بِذَلِكَ، فَقَدْ يَتَمَضْمَضُ الْإِنْسَانُ فَيُدْخِلُ إِصْبَعَهُ فِي فِيهِ
فَيُدَلِّكُ أَسْنَانَهُ وَبَاطِنَ فِيهِ، ثُمَّ لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ أَنَّ ذَلِكَ
قَذَارَةٌ، أَوْ سُوءُ أَدَبٍ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ".[جمع
الوسائل فی شرح الشمائل ۱/۱۹۰]۔وأصل
كلام الخطابي في "معالم السنن".
قولہ
: (مصہ اصابعہ ببطن شفتیہ ) کا مطلب صاف ہے کہ ہونٹوں کے اندرونی حصہ سے انگلیوں
پر لگے ہوئے اجزائےطعام کو چوسے ۔اس کی تشبیہ اما م خطابی نےوضو کے دوران انگلی سے دانتوں کو صاف کرنے اور مسواک کرنے سے
دی ہے۔
امام ابن ملک رحمہ اللہ
نے بھی "مبارق الازھار" میں یہی کیفیت لکھی ہے : اللَّعق : اللَّحس ، أي المَصُّ بالشَّفتين
۔ کما فی "الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم" (21/ 173)۔
چاٹتے وقت
ہاتھ کی کیفیت کو امام عراقی رحمہ اللہ نے
واضح کیا ہے، قال فی الفتح[9/579] : وَقَعَ فِي حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ
فِي "الْأَوْسَطِ" صِفَةُ لَعْقِ الْأَصَابِعِ وَلَفْظُهُ : "رَأَيْتُ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ بِأَصَابِعِهِ
الثَّلَاثِ بِالْإِبْهَامِ وَالَّتِي تَلِيهَا وَالْوُسْطَى ، ثُمَّ رَأَيْتُهُ
يَلْعَقُ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ قَبْلَ أَنْ يَمْسَحَهَا: الْوُسْطَى ثُمَّ
الَّتِي تَلِيهَا ثُمَّ الْإِبْهَامُ "
. قَالَ شَيْخُنَا فِي "شَرْح التِّرْمِذِيِّ" : كَأَنَّ السِّرَّ فِيهِ
أَنَّ الْوُسْطَى أَكْثَرُ تَلْوِيثًا لِأَنَّهَا
أَطْوَلُ ، فَيَبْقَى فِيهَا مِنَ الطَّعَامِ أَكْثَرُ مِنْ غَيْرِهَا،
وَلِأَنَّهَا لِطُولِهَا أَوَّلُ مَا تَنْزِلُ فِي الطَّعَامِ. وَيَحْتَمِلُ أَنَّ الَّذِي يَلْعَقُ يَكُونُ بَطْنُ كَفِّهِ
إِلَى جِهَةِ وَجْهِهِ ، فَإِذَا ابْتَدَأَ
بِالْوُسْطَى انْتَقَلَ إِلَى السَّبَّابَةِ عَلَى جِهَة يَمِينه وَكَذَلِكَ
الْإِبْهَام . وَالله أعلم
یعنی انگلیوں
کو چاٹتے وقت ہتھیلی منھ کی طرف ہوگی ، اور چاٹنے میں ابتدا بیچ والی انگلی سے کی جائے گی ، پھر اس سے دائیں
جانب میں واقع شہادت کی انگلی ، پھر اس سے دائیں جانب انگوٹھا ۔مگر یہ واضح نہیں
ہوا کہ ہتھیلی منھ کی طرف ہوتے ہوئےانگلیوں کے سرے بائیں جانب رہیں گے ، یا اوپر
کی طرف ، یعنی ہتھیلی عرضا رہے گی یا طولا،شاید مؤخر الذکر مراد ہے جس پر تیامن کا
معنی بسہولت منطبق ہوتا ہے ۔
ایک اورشارح
کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں :
(إِذا أكل أحدكُم طَعَاما فليَلعَق أَصَابِعه) أَي فِي آخر
الطَّعَام لَا فِي أَثْنَائِهِ ، لِأَنَّهُ يَمَسُّ بأصابعه بُصاقَه فِي فِيهِ إِذا
لَعِقها ثمَّ يُعِيدُهَا فَيصير كَأَنَّهُ بَصق فِيهِ ، وَذَلِكَ مُستقبَح ۔ ذكره القرطبيّ في "المُفهِم" 5/301 .
اس میں بھی مس الاصابع بالبصاق ہے ، یعنی انگلیوں پر تھوک کا لگنا مذکور ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ :شراح کے کلام میں کہیں لعق کی
تشریح میں(انگلیوں کا
منھ میں پورا پورا داخل کر کے چوسنا ) نظر نہیں آیا ، اور شاید یہ قدر زائد اور تکلف بھی ہے ،
جس کی چنداں ضرورت نہیں ہے ، بلکہ مزید تلویث کا باعث ہے ،کیونکہ عموما کھانے کے
لئے ہم انگلیوں کا باطنی حصہ استعمال کرتے ہیں ،نہ کےانگلیوں کا ظاہری حصہ ، تو
ذرات طعامبھی اندرونی جانب ہی لگے ہوئے ہوتے ہیں جس کے صاف کرنے کی نوبت آتی
ہے ۔
مظاہر حق میں ہے : فانه
لایدری فی ای طعام تکون البركة ،اس سے معلوم ہوا
کہ اصل میں سنت انگلیوں کو چاٹنا ہے اور اس چیز کو صاف کرنا ہے جو انگلیوں کو لگی
ہے ،نہ کہ محض انگلیوں کو بمبالغہ منہ میں داخل کرنا ۔[مکتبہ جبریل] اصل عبارت
مظاہر(۴/۸۹) کی ہے : اور مبالغہ کے طور پر انگلیوں کا منھ میں داخل کرنا مراد نہیں
ہے۔
تو احادیث سے
انگلیاں چاٹنےکا جو مطلب واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے [مقتبس مما کتبہ المولوی شکیل منصور القاسمی جزاہ اللہ خیرا] :
انگلیوں میں لگے
ہوئے ذراتِ طعام کو ہونٹ کے داخلی حصہ یا زبان سے صاف کرلیا جائے ، اس مفہوم
کی ادائی کےلئے صحیحین ودیگر کتب حدیث میں "لعق " کا لفظ استعمال ہوا ہےجس
کے معنی لغت میں: زبان سے چاٹنے کے ہیں ،شہد چاٹنے کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے ۔
لعق کا مطلب داخل
فم سے ذرات صاف کرنا ہے، چاہے چاٹنا پڑے یا چوسنا پڑے ، چوسنا بھی اسی لعق میں داخل ہے، یہی وجہ ہے کہ
بخاری شریف کے ترجمۃ الباب میں لعق کے ساتھ
“مص “(چوسنا ) کا بھی اضافہ ہے ، امام بخاری ترجمہ میں لعق کے ساتھ مص استعمال کرکے یہ بتانا
چاہتے ہیں کہ دونوں کے مفہوم میں کوئی فرق نہیں ہے۔انتہی کلام المولوی شکیل
اور لعق کی مذکورہ کیفیت منھ میں نوالا ڈالنے کے مشابہ ہے ، جبکہ پوری انگلی
ڈالنا مبالغہ ہے ۔
لعق کا حکم :
امام عراقی
نے لکھا ہے : والأمر بلعق الأصابع حمله
الجمهور على الندب والإرشاد ، وحمله الظاهرية على الوجوب ، وبالغ ابن حزم في
"المحلى" فقال : هو فرض . فيض القدير (1/ 297)
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
کھانے سے فراغت پاکر
انگلیاں چاٹنا مستحب ہے، اثناء طعام میں مستحب نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے ، مدارج
النبوۃ میں ہے: ولعق اصابع در اثنائے اکل مکروہ است (ج۱ ص ۴۶۶ باب یا زد ہم در
عبادات طعام وشراب وغیرہ ) فقط واﷲ اعلم بالصواب۔
مفتی اسماعیل صاحب
کچھولوی تحریر فرماتے ہیں :
انگلیوں کے اوپر کھانا یا
سالن وغیرہ لگا ہوا ہو، یا نہ ہو ،تب بھی چاٹ لینا سنت ہے، اس میں دنیوں واخروی
برکت و بھلائی ہے، یعنی جو سنت کی ادائے گی کی نیت سے چاٹتا ہے وہ اچھا کرتا ہے۔
(عالمگیری ج:۵) فقط و اللہ تعالی اعلم(فتاوی دینیہ)
عاجز کا
رجحان القول بالسنیہ کی طرف ہے ، لمواظبتہ وامرہ علیہ الصلوۃ والسلام ۔واللہ اعلم
جمعه ورتبه
العاجز محمد طلحة بلال أحمد منيار
السلام عليكم ورحمه الله وبركاته،
ReplyDeleteأنا أخوكم في الله محمد شهاب الدين الندوى الأزهري...
لقد سمعت عن فضيلتكم المؤقرة بأنكم تلقيتم وتلمذتم عند الشيخ الكبير العالم الرباني المحقق العظيم لكتب التراث لا سيما تراث الإمام اللكنوي *عبدالفتاح أبي غدة-رحمة الله عليه رحمة واسعة-*
من الأستاذ الكريم الشيخ شرف عالم الكريمي القاسمي والد الشيخ محمد حماد الكريمي الندوي-حفظهما الله ورعاهما-.
فتمنيت أن أتعرف عليكم لما لنا من مناسبة وإن كانت بعيدة، لأنني بفضل الله وتوفيقه أيضا لقد تشرفت بتلقي العلم لا سيما الحديث عند الشيخ الكبير المحقق العظيم البارع الدكتور أحمد معبد عبدالكريم-حفظه الله ورعاه-زميل الشيخ الكبير العالم الرباني عبدالفتاح أبي غدة-رحمه الله- وكان يذكر فضله وتحقيقه كثيرا أثناء إلقاء الدروس علينا أيام كنا ندرس التمهيدي والدكتوراه عنده خاصة...فنشأت أنسية شديدة في قلبي تجاه فضيلتكم بهذا الصدد...فلذا أردت أن أراسلكم...فإن أزعجتكم فالرجاء منكم العفو مشكورا.
وشكرا لكم كثيرا... وجزاكم الله خيرالجزاء...
أخوكم في الله /محمد شهاب الدين الندوى الأزهري.