حضرت فاطمہ کو بتائی گئی وتر کے بعد والی تسبیحات
سوال : کیا یہ روایت ثابت ہے کہ :
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ، یہ فضیلت سن کر
حضرت فاطمہ کو بھی جہاد کا شوق ہوا اور آپ علیہ السلام سے اس کے متعلق دریافت کیا ، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا
کہ :فاطمہ
، میں تم کو اس سے آسان اور
اعلی اجر والا عمل نہ بتاؤں ؟
اے
فاطمہ ! جب کوئی مومن مرد یا عورت وتر کے بعد دو سجدے کرتے ہیں اور ہر سجدے میں یہ
دعا پانچ مرتبہ پڑھتے
ہیں سبوح قدوس رب الملائكة والروح تو اس کےسراٹھانے سے پہلے اللہ تعالی اس کےسب گناہ معاف فرمادیتے ہیں،اور اس کو سو حج،سو عمرے،اور
سو شہیدوں کا اجرعطا فرماتے ہیں،اور
اللہ تعالی اس کے لئے
ایک ہزار فرشتے مقرر کرتے ہیں جو اس کے لئے نیکیاں لکھتے رہتے ہیں،اوراس کوایک ہزارغلام آزاد
کرنے کا ثواب ملتا ہے،اور اللہ تعالی اس کو مستجاب الدعوات بنادیتے ہیں،اورقیامت کے دن ساٹھ جہنمیوں
کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی ،اور یہ شخص جب مرے گا تو شہادت کی موت نصیب
ہوگی.
الجواب :
مذکورہ روایت کے عربی الفاظ
قالت
فاطمة رضي الله عنها : رَغَّب النبيُّ صلی الله علیه وسلم في الجهاد وذَكر فضله، فسألتُه الجهادَ، فقال: ألا أدلكِ على شیئ يسير وأجره كبير، ما
من مؤمنٍ ولا مؤمنةٍ يسجدُ عقيب الوتر سجدتين ويقول في كل سجدة: سُبوح قُدوس رب الملائكة والروح - خمس مراتٍ - لا يرفع رأسَه حتى يغفر الله ذنوبه كلها ، واستجاب الله دعاءه ، وإن مات في ليلته مات شهيدا ، وأعطاه ثواب مئة حجة و مئة عمرة ، وأعطاه الله ثواب الشهداء، وبعث الله إليه ألف ملك يكتبون
له الحسنات ، وكان
كأنما أعتق مئة رقبة ، ويشفَّع يوم القيامة فى ستين من أهل النار ، وإذا مات مات شهيدا .
تخریج
روایت
۱۔ اس دعاء کا سب سے پرانا مصدر ہے ( فتاوی تاتارخانیہ 2/346 نمبر 2617)
دیگر کتب جن میں یہ دعا منقول ہے :
۲۔ نزہۃ المجالس
للصفوری 1/227 باب
مناقب فاطمہ الزہراء
۳۔ خزينۃ الأسرار للكاتب
محمد حقی النازلی ص 40
۴۔ غنیۃ المتملی
شرح منیۃ المصلی ( حلبی کبیر ) 617
۵۔ حاشیۃ رد المحتار لابن عابدین الشامی (ج: 2، ص: 120) باب سجود التلاوة
۶۔ اسی طرح کتب
روافض میں ( دعاء الزہراء) کے عنوان سے مذکور ہوتی ہے ۔
نوٹ : مذکورہ بالا تمام کتابوں میں اس روایت کی کوئی سند مذکور ہے ، نہ حدیث کی کسی کتاب کا حوالہ۔
تحقیق روایت
۱۔ علامہ ابراہیم حلبی نے ( غنیۃ المتملی 617) میں اس روایت کے پیش کرنے کے بعد تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
واما ما ذكره التاتارخانیة عن المضمرات،
(فنقل النص المذکور بتمامه) فحدیثٌ موضوعٌ باطلٌ لا أصل له ،
ولا یجوز العملُ به ،
ولا یجوز نقلهُ إلا لبیان بطلانه کما هو شأن الأحادیث الموضوعة، ویدلك علی وضعه رکاکتُه والمبالغةُ الغير الموافقة للشرع والعقل،
فإن الأجرعلی قدرالمشقة شرعا وعقلا،وأفضل الأعمال أحمزُها، وإنما قَصَد بعض المُلحِدين بمثل هذا الحدیث إفسادَ الدین وإضلالَ الخلق وإغراءهم بالفسق ،
وتثبيطَهم عن الجد في العبادة، فيغترُّ به بعضُ مَن لیس له خبرةٌ بعلوم الحدیث وطرقِه ولا مَلَكةٌ یميّز بها بین صحیحه وسقیمه.
قال الربیع بن خُثيم: إن للحدیث ضوءا مثل ضوء النهار تعرفه، وظلمةً کظلمة اللیل تنكره
. وقال ابن الجوزي:إن الحدیث المنکر یقشعر منه جلدُ الطالب للعلم ، وینفر منه قلبه في الغالب.
{ ومن لم یجعل الله له نورا فما له من نور }.
والله سبحانه أعلم ، وهو ولی العصمة والتوفیق.(انتهى)
ترجمہ : تاتارخانیہ میں مضمرات کے حوالہ سے جو لکھا ہے کہ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا: جب کوئی مومن مرد یا عورت وتر کے بعد دو سجدے کرتے ہیں الخ
یہ موضوع،باطل اور بے اصل حدیث ہے،نہ اس پر عمل جائز ہے،نہ اسے
نقل کرنا۔الا یہ کہ اس کا بطلان بتانے کے لئے ہو،جیساکہ دیگر احادیث موضوعہ کا حکم
ہے۔اور اس کے موضوع ہونے کا اندازہ اس کے رکیک (بودا) ہونے سے ہی ہو جاتاہے۔نیز اس
میں ایسا مبالغہ ہےجو نقل و عقل سے میل نہیں کھاتا،کیوں کہ اجر بقدر مشقت ہوتاہے شرعاوعقلا۔اور
سب سے افضل عمل وہ ہے جو مضبوط ہو۔بات صرف یہ ہے کہ بعض بد دینوں کا مقصد ان جیسی احادیث
گھڑنے سے دین کی شبیہ کو بگاڑنا،خلق خدا کو گمراہ کرنا،لوگوں کو فسق میں پھنسا رکھنا
اور عبادت میں مجاہدہ سے روکنا ہے۔اس لئے جن کو علوم حدیث اور اس کے طرق سے شناسائی
نہیں،نہ صحیح وسقیم میں تمیز کا ملکہ ہے؛وہ ایسی چیزوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔(مترجم
مفتی ابوزاہر سورتی)
۲۔ علامہ حلبی کے اس
تبصرہ کو علامہ شامی نے (رد
المحتارجلد ثانی باب سجود التلاوة ) میں نقل کرنے کے
بعد اتفاق فرمایا کہ یہ روایت بے اصل ہے ۔
۳۔ مفتی شبیر صاحب قاسمی نے (فتاوی تاتارخانیہ2/346 )میں اس
روایت پر نوٹ لکھا : لم أجد هذا الحديث في كتب الأحاديث التي عندي
.
۴۔ فتاوی دار العلوم زکریا (1/386) پر اس حدیث کے
متعلق ایک فتوی کا خلاصہ لکھا ہے کہ : یہ روایت موضوع ہے، ان کلمات کے پڑھنے سے اتنے
فضائل کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ البتہ’’ سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح‘‘کا پڑھنا حضور
سے ثابت ہے۔واللہ اعلم
خلاصہ
کلام (اخونزادہ) :
یہ
روایت اور یہ فضیلت کسی بھی حدیث کی مستند
کتاب میں موجود نہیں، فقہ کی بعض کتابوں میں لوگوں میں اس کے مشھور ہونے کو بیان کیا
ہے اور ساتھ ساتھ اس کے من گھڑت ہونے کو بھی بیان کیا ہے ،لہذا اس روایت کا بیان کرنا اور پھیلانا جائز نہیں.
واللہ اعلم ، کتبہ ابو معاذ
المکی ، مع الاستفادۃ مما سطرہ المفتی عبد الباقی اخونزادہ الموقر
Comments
Post a Comment