احادیث میں قریبی رشتہ داروں میں شادى کرنے کی ممانعت
کیا قریبی رشتہ داروں میں شادی کرنے کی ممانعت احادیث میں
وارد ہے ؟
چونکہ یہ ایک مضمون مختلف گروپوں میں پوسٹ کیا جارہا ہے ، جس کا عنوان
ہے
(
اپنى اولاد کو بے وقوفى سے بچائیے )
اس
میں یہ لکھا ہے :
فرمان
مصطفى صلی اللہ علیہ وسلم : "قریبی رشتہ داروں میں شادى نہ کرو کیونکہ اس سے اولاد کمزور پیدا ہوتى ہے".(النهاية
لابن الاثير، ج:3، ص:306)
امام
شافعى علیہ رحمۃ اللہ القوى سے مروى ہے: "جو شخص اپنے خاندان میں شادى
کرتا ہے اس کى اولادعموماً بےوقوف پیدا ہوجاتى ہے". ("البدر المنير
لابن الملقن" 499-500/7) ۔
علامہ ابن ملقن علیہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں : "حقیقتِ حال اور مشاہدے سے بھى یہ بات ثابت ہے". ("البدر المنير
لابن الملقن" 499-500/7) ۔
فرمان
امام شافعى علیہ رحمۃ اللہ : "جس خاندان کى عورتیں غیروں میں نہیں بیاہی جاتیں ان کى اولاد میں بےوقوفى پیدا ہوجاتى ہے". ("التلخيص
الحبير للعسقلاني" 309/1) ۔
•
علامہ حافظ ابن حجر عسقلانى قدس سرہ فرماتے ہیں : "تجربے سے یہ بات ثابت ہے کہ
میاں بیوی قریبی رشتہ دار ہوں تو ان کى اولاد میں بے وقوفى ہوتى ہے". (فتح
الباري : 135/9 ) ۔
الجواب
باسمہتعالى :
قریبی رشتہ داروں کے درمیان آپس میں شادى کى ممانعت محض تجربہ اور کچھ مخصوص حالات کے پیشِ نظر ہى ہے ۔ قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کوئى ممانعت یا پابندی ثابت نہیں، قرآن مجید میں اللہ تعالى نے اپنے نبى صلی اللہ علیہوسلم کو قریبی رشتہ
دار خواتین سے نکاح کى اجازت دى ہے
۔
قال
تعالى : {يا أَيهَا النَّبِى إِنَّا أَحْلَلْنَا
لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِى آَتَيتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ
اللَّهُ عَلَيكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ
خَالَاتِكَ اللَّاتِى هَاجَرْنَ مَعَكَ }(الأحزاب:
50) ۔
یہ صریح نص قرآنی ہے اجازت کے بارے میں ،اگر
اس میں ذرا بھى نقصان ہوتا تو اللہ تعالى کبھى اس عمل کى اجازت نہ دیتے۔
نبى
صلى اللہ علیہ وسلم کا عمل
آپ
علیہ السلام کى زیادہ تر ازواج مطہرات قریبی رشتے دار ہى تھیں ، جیسے حضرت عائشہ ، ام سلمہ ، حفصہ ، زینب بنت جحش ،
میمونہ، وغیرھن ۔
آپ
علیہ السلام نے اپنى چاروں بیٹیاں قریبی رشتہ داروں میں ہی بیاہ دى تھیں ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے
بعد صحابہ کا عمل بھی اس
پر رہا ہے ، حضرت
على نے حضرت فاطمہ کے انتقال کے بعد ان کى سگى بھانجى امامہ بنت زینب سے نکاح کیا،
اسى طرح حضرت على کى اکثر بچیوں کا نکاح ان کے چچا جعفر رضى اللہ عنہ کے بیٹوں سے ہوا۔ اسی طرح اسلاف صالحین کا عمل بھی اس پر رہا ہے ۔
طبى
نقطہ نظر سے
بعض ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ اگر
خاندان میں کوئى موروثى بیمارى ہو تو آپس میں شادى کى صورت میں وہ بیمارى آگے اولاد میں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے جبکہ غیروں میں رشتہ کرنے کى صورت میں اس کا خطرہ کم ہوتا
ہے ۔
لیکن یہ باتیں محض تجربہ پر مبنی ہے،
کوئى یقینی یا قطعى بات نہیں۔
روایات
کى تحقیق
اس
موضوع پر تیں روایات ملتی ہیں :
1.
"اغتَرِبوا ،لا
تَضوَوا". یا : " اُغْرُبوا لا تَضووا " ۔
یعنی خاندان سے باہر شادی کرو ، تاکہ نسل کمزور نہ ہو ۔
2.
" لا تَنكحُوا القَرَابةَ القَريبةَ فإن الولدَ يُخلَق ضَاوِياً
".
یعنی قریبی رشتہ داروں میں شادى نہ کرو کیونکہ بچہ کمزور پیدا ہوتا ہے.
3.
" لا تتزَوَّجُوا النساءَ على قَرَاباتهنَّ، فإنه يكون من ذلك القَطِيعةُ
".
یعنی قریبی رشتہ دارعورتوں سے شادی نہ کرو ، تاکہ نباہ نہ
ہونے کی بنا پر قطع رحم کی نوبت نہ آئے ۔
مذکورہ روایات کی حیثیت :
مذکورہ تمام روایات من گھڑت ہیں ، حضور صلى الله علیہ وسلم
سے ثابت نہیں ہیں ، بلکہ اس باب میں حضور سے کوئی روایت منقول نہیں ہے ، اور کیسے
ثابت ہوسکتی ہیں جبکہ خود حضور کا طرز عمل اس کے خلاف ہے ، اس لئے تینوں
روایات ثابت نہیں اور نہ ہى قابل استدلال ہیں.
علماء حدیث کے اقوال :
" لا تَنكحُوا القَرَابةَ القَريبةَ فإن الولدَ يُخلَق ضَاوِياً ". قال السبكي في (طبقات
الشافعية الكبرى6/310) : لم أجد له إسنادا.
وقال
العراقي في (تخريج أحاديث الإحياء : 2/41) قال صلى الله عليه وسلم: " لا تَنكحُوا القَرَابةَ القَريبةَ فإن الولدَ يُخلَق ضَاوِياً "- قال ابن الصلاح : لم أجد له أصلا معتمدا.
قلت:
إنما يُعرف من قول عمر أنه قال لآل السائب : قد أضوَيتم فانكحوا فى النَّزائع. رواه
إبراهيم الحربي في (غريب الحديث) وقال: معناه تزوَّجوا الغرائب؛ قال ويقال: اغرُبوا
لا تضووا ۔
یعنی یہ حدیث نہیں ، البتہ بعض علماء
نے اسکو حضرت عمر رضى اللہ عنہ کا قول بتایا ہے.
تنبیہ : ( النزائع ) کا لفظ بعض کتابوں میں (النوابغ ) لکھا ہے ، جو تحریف ہے ، نون ، زا ، ھمزہ ، سے ہے ، جس کا معنی ہے غیر قرابت دار اجنبی عورتیں ۔
اسی طرح امام شافعى رحمہ اللہ کا جوقول ہےکہ: اگر
رشتہ داروں میں نکاح ہوگا تو بچوں میں حماقت آئیگی۔ اس بات کى بنیاد کسى شرعى حکم کابیان کرنا نہیں ہے بلکہ عرب کے دستور اور رواج کا بیان کرنا مقصود تھا کہ اہل عرب یوں
کہتے ہیں.
علامہ
ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی بعض
شوافع حضرات کا قول ممانعت میں نقل
کیاہے اور فرمایا کہ : اس قول کى کوئى شرعى دلیل نہیں البتہ تجربے کى بنیاد پر ایساکہا جاتا ہے کہ اکثر بچے بےوقوف ہوتے ہیں.
خلاصہ
کلام
قریبی رشتہ داروں میں شادى کے نقصانات محض تجربے کى بنیاد پر ہیں ، کوئى شرعى دلیل اسکى ممانعت
کى موجود نہیں ہے، لہذا اس کو شرعى یا عمومى ممانعت کے طور پر بیان نہ کیاجائے.فقط
انتهى ملخصا مما كتبه المفتی عبدالباقی اخونزاده ۔ جزاه الله خیرا
طلحہ منیار صاحب کہیں تشریف لے گئے ہیں؟
ReplyDelete