ربیع بن صبیح اور ان کی مرویات
پرسنل پر ایک صاحب نے ایک پرچہ ارسال کیا جس میں امام ربیع
بن صبیح کی چند مرویات درج ہیں ، اور دریافت کیا کہ : یہ وہی محدث ہیں جو گجرات
میں مدفون ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں وہی ہیں ۔
پھر مجھے خیال آیا کہ انہوں نے یہ مرویات کہاں سے جمع کیں ؟
تفتیش کرنے سے مجھے ربیع بن صبیح کی روایات ترمذی، ابن ماجہ ، مسند احمد ،مسند
بزار، ابن حبان ،معانی الآثار اور متعدد کتابوں میں ملیں ۔
اور کیوں کہ ربیع بن صبیح متکلم فیہ ہیں ، اس لئے کامل ابن
عدی کی طرف رجوع کرنے سے وہاں ان کی متعدد
احادیث یکجا مل گئیں ۔
پھر ذہبی کی سیر اعلام النبلاء (6/ 658) میں ربیع بن صبیح کے ترجمہ میں ایک
عبارت پڑھی : تُوُفِّيَ
غَازِياً بِأَرْضِ الهِنْدِ ، وَلَهُ فِي "الجَعْدِيَّاتِ".
(جعدیات) کے لفظ سے خیال آیا کہ وہی (مسند ابن الجعد) مراد
ہوگا ، وہاں جاکر دیکھا تو ربیع بن صبیح کی مرویات (ص ۴۶۰) پر ملیں ۔لیکن (مسندابن
الجعد)مطبوع کی ورق گردانی سے ایک کھٹک محسوس ہوئی کہ اس کی ترتیب مسانید کے طریقہ
پر نہیں ہے ، بلکہ یہ تو مشایخ پر ہے ، یعنی (معاجم شیوخ) کی طر ح ہے۔ تو اس کو
(مسند ابن الجعد) کیوں کہا گیا ، آیا یہ نام قدیم ہے یا محدث ؟!کیونکہ ذہبی نے
بھی(الجعدیات)سے اس کو موسوم کیا ۔
بحث وتفتیش سے اس نتیجہ پر پہنچا کہ یہ نام محدث ہے ، ناشر
اول نے از خود تجویز کیا ہے ، اور بدقسمتی سے زبان زد عام ہوگیا ، اورکتابوں پر
تخریج وتعلیق کرنے والوں نے مزید اس کو پھیلا کر ایک حقیقت بنادیا ۔
حالانکہ یہ نام یعنی(مسند ابن الجعد)درست نہیں ہے ، مندرجہ
ذیل وجوہات کی بنا پر:
۱۔ قلمی نسخے میں عنوان ہے : الجزء الاول من حدیث ابی الحسن
علی بن الجعد(ص۱۲ طبعۃ عامر حیدر) ۔
۲۔ متقدمین نے اس کو (الجعدیات) یا (الاجزاء الجعدیات) سے موسوم کیا ہے ۔
چنانچہ اس کے جامع امام بغوی کے ترجمہ میں ذہبی نے کہا : وَصَنَّفَ كِتَابَ
مُعْجَمِ الصَّحَابَةِ، وَجَوَّدَه ، وَكِتَابَ "الجَعْديَّاتِ"
وَأَتْقَنَهُ . سير أعلام النبلاء (11/271) .
اسی طرح ابن الجوزی
(المنتظم
18/20)
ابن
الاثیر
(الكامل
في التاريخ 8/366) ابن حجر (الإصابة 5/427) اور
صاحب
(الرسالة
المستطرفة ص 91)
وغیرہ
نے اس کو
(الجعدیات) یا (الأجزاء
الجعديات)
کے نام سے ہی موسوم کیا ہے۔
۳۔
جہاں مسانید کا تذکرہ ہوتا ہے وہاں بھی اس کو (مسند) نہیں کہتے ہیں ، ذہبی نے ایک
جگہ لکھا ہے :
قرأتُ
عليه الكثير مثل «الجعديّات» ، و «مسند» يعقوب بن سفيان الفسويّ، و «مسند» يعقوب
بن شَيْبة ...[ تاريخ الإسلام 36/467] ملاحظہ فرمائیں کہ (الجعدیات) کو الگ سے شمار کیا ۔
فِي مُسْند الْبَزَّار والجعديات بِإِسْنَاد ضَعِيف ... فتح الباري لابن حجر (1/ 338)
خلاصہ یہ ہے کہ : (مسند ابن الجعد) کا نام کسی ناشر کا خود ساختہ ہے،اور غالبا شیخ عامر حیدر
کے مطبوعہ(مسند ابن الجعد)سے پھیلا ہے ، یہ نام کتاب کے مندرجات سے بھی مناسبت
نہیں رکھتا ہے ، اس لئے صحیح یہ ہے کہ اس کو (الجعدیات) کہا جائے ، جیساکہ اس کا
محقق مطبوعہ جو ڈاکٹر رفعت فوزی عبد المطلب کی تحقیق سے چھپا ہے، اس پر اس کا
عنوان (الجعدیات) ہے ، یہی درست ہے ۔
فائدہ : امام ابن معین نے ربیع بن صبیح کےجہاد کے
دوران استشہاد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے
: كَانَتْ وَقْعَةُ بَارنلَ
سَنَةَ سِتِّيْنَ وَمئَةٍ، وَفِيْهَا: مَاتَ الرَّبِيْعُ بنُ صَبِيْحٍ . [سير
الأعلام] . مطبوعہ میں لام سے ہے ، جو محرف ہے ، صحیح نام (باربد) آتا
ہے جیساکہ : الطبري " 8 / 128، "
الكامل " 6 /46، "البداية والنهاية" ط هجر (13/
482) "تاريخ ابن خلدون" (3/ 262) میں ہے ۔
آج کل اس جگہ کا نام (بھاربھوٹ)ہے غالبا، گجرات میں بھروچ
کے قریب ، مشہور ندی (نرمدا) کے کنارے ۔
رتبہ
العاجز: محمد طلحہ بلال احمد منیار ۲۰/۴/۲۰۲۰ ونحن محاصرون فی البیوت
Comments
Post a Comment