اني لا انسى ولكن انسى
السلام
عليكم ورحمة الله وبركاته :إني لا أَنسَىٰ ، بل أُنَسّىٰ
لأَسُنَّ
اس
حدیث کی کوئی اصل ہے ؟
الجواب
:
" إني لا أَنسَىٰ ، بل أُنَسّىٰ لأَسُنَّ "
ترجمہ
: میں بھولتا نہیں ہوں ،بلکہ بھلایا جاتاہوں، تاکہ جوخطا واقع ہوئی اس کی
تلافی کا مسنون طریقہ تم کو سکھاؤں۔
اصل مصدر:
یہ
حدیث ان چار احادیث میں سے ہے ، جن کو امام مالک نے " موطأ " میں
بلاغاً ذکر کیا ہے ، یعنی امام مالک نے "بلغنى
عن رسول الله " کہہ کر بیان کی ہے ، موطأ میں
تقریباً (42) بلاغات ہیں ، اور بلاغاتِ مالک کا شمار در اصل (معلّق) احادیث میں
ہوتا ہے جومنقطع احادیث کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، کیونکہ امام مالک کا شمار تبع
تابعین میں ہے ، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک روایت کرنے کے اعتبار سے دو واسطوں
سے پہنچتے ہیں،ایک واسطہ تابعی کا ،اوردوسرا واسطہ صحابی کا۔لیکن بلاغ میں یہ دو
واسطے مذکور نہیں ہوتے ہیں، امام مالک کہتے ہیں :بلغنی عن رسول اللہ انہ قال کذا۔
معلق کی تعریف :
مُعَلَّق
اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں مصنفِ کتاب کی جانب سے سند متصل نہ ہو، بلکہ
متعددواسطوں کے سقوط کے ساتھ وہ روایت قائل (رسول اللہ ، یا صحابی )کی طرف منسوب
ہو ۔
موطا مالک میں منقطع السند احادیث کی تعداد:
موطأ
مالک میں تقریباً اکسٹھ (61) حدیثیں منقطع السند ہیں ، اور انقطاع کی مختلف صورتوں
کے اعتبار سے ان کو مختلف ناموں سےموسوم کیا جاتا ہے : مرسل ، موقوف ، معضل ،
مقطوع ، بلاغ ... الخ
وصل بلاغات میں علماءکی مساعی :
ابن عبد البر:
امام
ابن عبد البر نے " التمہیدشرح موطا مالک " میں موطا میں واقع اکسٹھ
منقطع السند احادیث کی اسانیدجوڑنے (وصل کرنے)کے لئے ایک مستقل باب (وصل بلاغات
مالک ومرسلاتہ) کے عنوان سے قائم کیا ہے ، یعنی اس باب میں امام مالک کی سند میں
ساقط واسطوں کو ذکر کرکے،حدیث کی سند موصول بتانے کی کوشش کی ہے ،ابن عبد البرکی
مساعی حمیدہ کے باوجود وہ چار روایات کی موصول سند ، اور وہ بھی
(موطا)کے متن الفاظ کے مطابق دریافت نہ کرسکے۔
وہ
چاراحادیث یہ ہیں :
١-
قال الإمام مالك : إنه بلغه أن رسول الله عليه الصلاة والسلام قال : ( إني لأَنسى
أو أُنسي لأَسُن)
٢-
قال الإمام مالك : إنه بلغه أن رسول الله عليه الصلاة والسلام كان يقول : ( إذا
أنشأت بحرية ثم تشاءَمت فتلك عَين غُدَيقة )
٣-
قال الإمام مالك : إنه سمع من يثق به من أهل العلم يقول : إن رسول الله عليه
الصلاة والسلام أُري أعمارَ الناس قبله أو ما شاء الله من ذلك فكأنه تقاصَرَ أعمار
أمته أن لا يبلُغوا من العَمَل مثل الذي بلغ غيرهم في طول العمر ) .
٤-
قال الإمام مالك : إن معاذ بن جبل قال : آخر ما وَصّى به رسول الله عليه الصلاة
والسلام حين وضعتُ رجلي في الغَرز : ( أحسِن خلقكَ للناس يا معاذ ) .
ابن الصلاح :
حافظ
ابن عبد البر کے اعتناء کے بعد ،مذکورہ چار روایات کے وصل کی کوشش حافظ ابن الصلاح
نے کی ، اور ایک رسالہ وصل بلاغات مالک پر مرتب کیا ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
ان
چار روایات کے شواھد تو ملتے ہیں ، لیکن وہ شواھد یا تو نہایت ضعیف اسانید سے مروی
ہیں ، یا الفاظ بعینہ وہی نہیں ہیں ، بلکہ واضح فرق ہے ۔چنانچہ زیر بحث روایت کا
شاھد جو ابن الصلاح نے ذکر کیا ہے ، وہ سنن ابو داود 1022 کی روایت ہے : عن
ابن مسعود مرفوعاً : ( إنما أنا بشرٌ أنسىٰ كما تَنسَون ) قال ابن الصلاح : إنما
يتقوَّى به من حديث مالك طرفٌ منه .اهـ
یعنی
الفاظ اگرچہ بلاغ کے الفاظ کےقریب ہیں ، مگر روایت الگ ہے ، اورمذکورہ شاھد سے زیر
بحث روایت کے صرف شروع کے حصہ کی تایید ہوتی ہے ۔
ابن رجب :
لیکن
حافظ ابن رجب اس کی اصل دریافت کر پائے، چنانچہ ابن رجب شرح بخاری میں تحریر
فرماتے ہیں :
وقد
قيل: إن هذا لم يعرف له إسناد بالكلية.ولكن في "تاريخ المفَضَّل بن غَسان
الغَلَّابي" : حدثنا سعيد بن عامر، قال: سمعت عبد الله بن المبارك قال: قالت
عائشة : قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (إنما أنسى -
أو أسهو - لأسُنَّ) .
اس
میں بھی اگرچہ حضرت ابن مبارک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین انقطاع ہے ،
لیکن اس سند سے راوی کا نام معلوم ہوگیا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں ، اور
یہ پتہ چلا کہ اس کی اصل روایات میں ضرور موجود ہے۔
فوائد:
ذكر
أبو العبّاس الداني في "أطراف الموطّأ" للحديث شاهدًا، فقال:
"وقوله - صلى الله عليه وسلم -: "إنّي أنسى أو أُنَسَّى لأسنّ" جاء
معناه في حديث النوم عن الصلاة لابن مسعود، قال فيه: "إنّ الله تعالى لو أراد
أن لا تناموا عنها لم تناموا، ولكن أراد أن تكون سنّةً لمن بعدكم"، خرّجه أبو
داود سليمان الطيالسي".اهـ
أخرجه
الإمام أحمد في "المسند" (1/ 391) والطيالسي في "مسنده" (ص 49
- 50/ 377) عن عبد الله بن مسعود قال: "كنّا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم
مرجِعَه من الحُديبية، فعرَّسنا. . ." فذكره، وهذا إسناد حسن.
قال
الإمام العراقي في "طرح التثريب في شرح التقريب" (3/ 9) :
إنَّ
الرِّوَايَةَ الصَّحِيحَةَ فِيهِ عَلَى الْإِثْبَاتِ لَا عَلَى النَّفْيِ «إنِّي
لَأَنْسَى أَوْ أُنَسَّى لِأَسُنَّ «. أَيْ
إنَّ الرَّاوِيَ شَكَّ هَلْ قَالَ : أَنْسَى أَوْ أُنَسَّى ، وَلَوْ كَانَتْ
الرِّوَايَةُ عَلَى النَّفْيِ لَكَانَ مُخَالِفًا لِلْحَدِيثِ الصَّحِيحِ
الْمُتَّفَقِ عَلَيْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ مَسْعُودٍ «إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ
أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ» فَأَثْبَتَ لَهُ وَصْفَ النِّسْيَانِ وَلَمْ يَكْتَفِ بِذَلِكَ
لِئَلَّا يَقُولَ قَائِلٌ إنَّ نِسْيَانَهُ لَيْسَ كَنِسْيَانِنَا فَقَالَ «كَمَا
تَنْسَوْنَ» . وَأَثْبَتَ أَوَّلًا الْعِلَّةَ قَبْلَ الْحُكْمِ بِقَوْلِهِ
«إنَّمَا أَنَا بَشَرٌ» وَكَمَا قَالَ فِي الْحَدِيثِ الْآخَرِ «فَنُسِّيَ آدَم
فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُهُ» أَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ وَصَحَّحَهُ مِنْ حَدِيثِ
أَبِي هُرَيْرَةَ.
موطأ
مالك بتحقیق الأعظمی (1/ 122) میں ہے :
قال
الشنقيطي في "إضاءة الحالك" : قال الخطيب الحافظ في كتابه "جني
الجنتين" بعد أن تكلم على أحاديث مالك الأربعة التي لم يسندها ابن عبد البر
وهي في "الموطأ" بما نصه : توهم بعض العلماء أن قول الحافظ أبي عمر بن
عبد البر يدل على عدم صحتها، وليس كذلك إذ الانفراد لا يقتضي عدم الصحة، لا سيما
من مثل مالك. وقد أفردتُ قديماً جزءاً في إسناد هذه الأربعة الأحاديث. ثم بيّن أن
الحافظ أبو الدنيا أسند اثنتين منها في "إقليد التقليد" له».
جمعہ ورتبہ العبد الضعیف : محمد طلحہ بلال احمد منیار
مستفیدا من عدۃ مواقع وکتب
15/4/2019
Comments
Post a Comment