بچوں کو بھوکا رکھنا
باسمہ سبحانہ
عزیز
مولوی ارشد دہلوی صاحب نے یہ ایک اچھاسوال کیا ہے کہ :
حدیثِ غار میں جن ۳ شخصوں نے اپنی نیکی کے وسیلہ سے دعا کی
، پھر غار کا پتھر ہٹا ، تو اسمیں اىک شخص کی نیکی
کا ذکر ہے کہ : وہ اپنے والدین کو اہل و عیال پر مقدم کرتا تھا ، اسی کے ضمن میں یہ بھی ہے
کہ : اس کے
بچے پوری رات بھوک سے بلک کر روتے رہے ، لیکن اس نے والدین سے پہلے بچوں کو دودھ
پلانا گوارا نہیں کیا... الخ
...
واقعہ تو درست ہے ، لیکن
بظاہر اس پر اشکال ہوتا ہے کہ : بچوں کو اتنی دیر تک بھوکا رکھا جائے ؟!
...
عاجز نے ایک مولانا سے بھی اسکے متعلق پوچھا ، تو انہوں نے کہا کہ:
۱۔ ممکن ہے
یہ پچھلی امت میں جائز ہو ، البتہ اس امت میں اسطرح بچوں کو
بھوکا رکھنا مناسب نہیں....
...اس
جواب سے بھی تشفی نہیں ہوئی...توجہ فرمائیں ،اھ
نیز مکرم مولوی فرید صاحب مجادری زید مجدہم نے اس کا جواب(ترغیب گروپ) پریہ دیا ہے کہ :
۲۔ بچوں کو بھوکا رکھنا یہ صحیح نہیں... اس لئے ممکن ہے اور
عقل میں آنے والی بات ہے کہ : بچوں کی بھوک دودھ کےعلاوہ کسی اور کھانے پینے کی
چیز سے دور کی گئی ہو .... بچوں کی ضد اور رونا دھونا صرف دودھ ہی کے لئے ہو ، اور اسی
لئے وہ روتے روتے سوگئے ہوں ... جیسا کہ عام طور پر بچوں کی
عادت ہے ...واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم۔
یقول العاجز :
مجیب اول وثانی دونوں کا جواب درست ہے ، اہل علم وشراح حدیث
کے اقوال میں دونوں طرح کی توجیہات وارد ہیں، تفصیل سے پہلے چند باتیں عرض کرتاہوں
:
۱۔اصحاب
غار کا واقعہ معروف ومشہور ہے ، صحىحىن میں وارد ہے۔دیکھئے : بخاری ،حدیث نمبر :2215،2152،
2208، 3278، 5629۔مسلم حدیث نمبر :2743۔
۲۔بچوں
کا رونا بھوک کی شدت کی وجہ سے تھا ، بخاری وغیرہ کی روایت میں اس بات کی تصریح ہے
، اس لئے حافظ ابن حجر نے (فتح6/ 509) میں لکھا ہے :
قَوْلُهُ (يَتَضَاغَوْنَ) بِالْمُعْجَمَتَيْنِ ،
وَالضُّغَاءُ بِالْمَدِّ الصِّيَاحُ بِبُكَاءٍ. وَقَوْلُهُ (مِنَ الْجُوعِ) أَيْ
بِسَبَبِ الْجُوعِ ، وَفِيهِ رَدٌّ عَلَى مَنْ قَالَ : لَعَلَّ الصِّيَاحَ كَانَ
بِسَبَبٍ غَيْرِ الْجُوعِ.
اسی طرح ( الكوثر الجاری الى رياض احاديث البخاری 4/ 464)
میں ہے :
وقال بعض الشارحين: يجوز أن يكون صياح الصبي لم يكن من
الجوع؛ بل من شيء آخر، وهذا الذي قاله خلافُ مراد الرَّجل، وخلافُ ما دل عليه
السياق.
۳۔اس
طرح کا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی پیش آیا ہے ، اس کے دو
واقعہ ہیں ، جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
مجیب اول کی توجیہ(شرع من قبلنا)(وعدم الاستحسان)
کی تائید :
1- جواب الكرماني شارح البخاري في" الكواكب الدراري " (10/66) :
فإن
قلتَ: الفروع مقدَّمة على الأصول فلِمَ تركهم جائعين؟ قلت: لعل في دينهم نفقةَ
الأصل مقدَّمة
...
2- جواب الحافظ في"فتح الباري"
(6/510) :
وَقَدِ اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ
يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ
جُوعِهِمْ ؟ فَقِيلَ : كَانَ فِي شَرْعِهِمْ تَقْدِيمُ نَفَقَةِ
الْأَصْلِ عَلَى غَيْرِهِمْ...
3-
جواب الشيخ
انور شاه الكشميري في "فيض الباري " (3/485) :
قوله:
(والصِّبْيَةُ يَتَضَاغَوْنَ عند رِجْلَيَّ) ... إلخ. وهذا عملٌ غيرُ صالح في
الظاهر، كيف وأنه ظُلْمٌ على الصبيان الصغار المَعْصُومِين، فلم يَسْقِهِمْ لبنًا،
وهو ساغبون. نعم! نيتُه كانت صالحةً، فأُجِرَ عليها، ولا بُعْدَ أنه لو كان من أهل
العلم لأُخِذَ عليه، وعُوقِبَ به، فإن صلاحَ النية مع فساد العمل إنما يُعتَدُّ من
جاهلٍ، وقد نبَّهناك غير مرةٍ على أن هذا أيضًا بابٌ في الشرع غَفَلَ عنه الناسُ،
أي القَبُولِيَّةُ بحُسْنِ النيةمع الخطأ في العمل. وأسمِّيه "صالحًا سفيهًا"
(نيك بخت بيوقوف)، فإن السفاهةَ قد تَدْعُو إلى مثل هذا الغلوِّ والمبالغة التي لم
تُكْتَبْ عليه.
قلت
:وفي عبارة الشيخ حِدَّةٌ زائدة عن الحَدّ - فيما أرى - وذلك لأن الرجلَ سِيقَ
عملُه هذا مَساق المَدح ، وفُرِج عنه بسببه كما في كلام شيخنا الخضيرالآتي.
مجیب ثانی کی توجیہ(بكاؤهم لغیرالجوع) کی مؤیدات :
1- جواب الكرماني في "الكواكب الدراري"
(10/66) :
فإن
قلتَ : الفروع مقدَّمة على الأصول فلِمَ تركهم جائعين؟ قلت ...، أو كانوا يطلبون
الزائد على سَدِّ الرَّمَق ، أو الصياحُ لم يكن من الجوع .
2- جواب الحافظ في "فتح الباري" (6/510)
:
وَقَدِ
اسْتُشْكِلَ تَرْكُهُ أَوْلَادَهُ الصِّغَارَ يَبْكُونَ مِنَ الْجُوعِ طُولَ
لَيْلَتِهِمَا مَعَ قُدْرَتِهِ عَلَى تَسْكِينِ جُوعِهِمْ ؟... وَقِيلَ : يَحْتَمِلُ
أَنَّ بُكَاءَهُمْ لَيْسَ عَنِ الْجُوعِ وَقَدْ تَقَدَّمَ مَا يَرُدُّهُ . وَقِيلَ
: لَعَلَّهُمْ كَانُوا يَطْلُبُونَ زِيَادَةً عَلَى سَدِّ الرَّمَقِ ، وَهَذَا
أَوْلَى .
3- قال الشيخ حسن أبوالأشبال في "شرح صحيح مسلم"(53/
13) :
(والصبية يتضاغون عند قدمي) يتضاغون أي:
يبكون ويصيحون عند قدميه. ربما يكون هذا من شدة الجوع، وربما يكون من غير جوع،
وأنتم تعلمون أن الصبية إنما يبكون أحياناً بغير سبب، وأحياناً يبكون بسبب، وربما
يكون هذا الوالد قد سقاهم ما يكفيهم من جهة سد الرمق ولكن أراد الأولاد أن يشربوا
مزيداً عن الحاجة ومزيداً عن سد الرمق.
جواب ثالث ( تقديم مَن هو الأحق بالبر والصلة ) :
قال في "الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري" (4/
464) :
فإن
قلتَ: الأولاد والزوجة مقدم على الأبوين، وأيضًا هما كانا نائمَين ليس لهما ضَير
ولا ضرورة؛ بخلاف الأطفال فإنهم كانوا يصيحون من ألم الجوع.
قلتُ:
غرضُ الرَّجل أنَّه فعل ذلك لوجه الله؛ لكونه أُوِصيَ بالوالدين إحسانًا؛ سواء كان
مُصيبًا في ذلك أو مُخطئًا.
وقال
بعض الشارحين: يجوز أن يكون صِياح الصبي لم يكن من الجوع؛ بل من شيء آخر، وهذا
الذي قاله خلاف مُراد الرَّجل، وخلاف ما دَلَّ عليه السياق.
وفي
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" (7/ 3094) :
وَالْمَعْنَى:سَقَيْتُهُمَا أَوَّلًا، ثُمَّ
سَقَيْتُهُمْ ثَانِيًا تَقْدِيمًا لِإِحْسَانِ الْوَالِدَيْنِ عَلَى
الْمَوْلُودِينَ لِتَعَارُضِ صِغَرِهِمْ بِكِبَرِهِمَا، فَإِنَّ الرَّجُلَ
الْكَبِيرَ يَبْقَى كَالطِّفْلِ
الصَّغِيرِ، وَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ بِذَلِكَ أَبْلَاهُ اللَّهُ بِمَا هُنَالِكَ .
وقال الشيخ عبد الكريم الخضير في "شرح منسك ابن تيمية"
(6/2) :
في
حديث الثلاثة الذين انطبق عليهم الغار، واحد منهم يأتي باللبن ويجد أباه نائمًا
فينتظر حتى يصبح والصبية يتضاغون جوعاً، يعني لايَسقِيهم قبلَ والده، مع أنه كان بالإمكان
أن يُفرِغ في إناءٍ لوالده ويَسقي الصِّبية ولا يتضرَّرُ أحد، وعملُه سِيق مَسَاق
المدح، وأُفرج عنهم بسبب ذلك، فلا شك أن تقديم الوالدين على غيرهما هو الأصل، وإن
كان في بعض أبواب الفقه تقديمُ الزوجة علَى الوالدين في بعض النفقات؛ لكن يبقى أنه
إذا قدَّم والديه فقد قَدَّم دينَه على هواه، فيُحمَد من هذه الحيثية .
حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے دو واقعات :
۱۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی
روایت ہے کہ :
ایک
صاحب(خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا (تاکہ ان کو
کھانا کھلا دیں)ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں
ہے۔
اس
پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی
بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ: رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں
کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز بھی نہیں ہے، انہوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال
دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔
بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور
اپنے بچوں کو(بھوکا) سلا دیا، پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں
جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی
مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے (اپنے
بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی۔
صبح
کے وقت جب وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا یا (یہ
فرمایا کہ اسے) پسند کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ
آیت نازل فرمائی ﴿ويؤثرون على أنفسهم
ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون﴾
”اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے
غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں،
اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
اس واقعہ کی توجیہ :
قال النووي في "المجموع شرح المهذب" (6/ 235) :
(فَإِنْ
قِيلَ) يَرِدُ عَلَى الْمُصَنِّفِ وَمُوَافِقِيهِ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ
اللَّهُ عَنْهُ " أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ بَاتَ بِهِ ضَيْفٌ فَلَمْ
يَكُنْ عِنْدَهُ إلَّا قُوتُهُ وَقُوتُ صِبْيَانِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ:
نَوِّمِي الصِّبْيَانَ وَأَطْفِئْ السِّرَاجَ وَقَدِّمِي لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَكِ
" فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ (وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ
كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ) هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ بِهَذَا
اللَّفْظِ وَهُوَ فِي صَحِيحَيْ الْبُخَارِيِّ وَمُسْلِمٍ أَبْسَطُ مِنْ هَذَا .
(فَالْجَوَابُ)
مِنْ وَجْهَيْنِ :
أَحَدُهُمَا
: أَنَّ هَذَا لَيْسَ مِنْ بَابِ صَدَقَةِ التَّطَوُّعِ إنَّمَا هُوَ ضِيَافَةٌ ، وَالضِّيَافَةُ
لَا يُشْتَرَطُ فِيهَا الْفَضْلُ عَنْ عِيَالِهِ وَنَفْسِهِ
لِتَأَكُّدِهَا وَكَثْرَةِ الْحَثِّ عَلَيْهَا ، حَتَّى إن جماعة من العلماء
أوجبوها .
الثاني
: أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّ الصِّبْيَانَ لَمْ يَكُونُوا مُحْتَاجِينَ
حِينَئِذٍ ، بَلْ كَانُوا قَدْ أَكَلُوا حَاجَتَهُمْ ، وَأَمَّا الرَّجُلُ
وَامْرَأَتُهُ فَـتَـبَـرَّعَا بِحَقِّهِمَا وَكَانَا صَابِرَيْنِ فَرِحَيْنِ
بِذَلِكَ ، وَلِهَذَا جَاءَ فِي الْآيَةِ وَالْحَدِيثِ الثَّنَاءُ عَلَيْهِمَا .
فَإِنْ
قِيلَ : قَوْلُهُ "نَوِّمِي صِبْيَانَكِ" وَغَيْرُ هَذَا اللَّفْظِ
مِمَّا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ يَدُلُّ عَلَى أَنَّ الصِّبْيَانَ كَانُوا جِيَاعًا؟
فَالْجَوَابُ
: أَنَّ الصِّبْيَانَ لَا يَتْرُكُونَ الْأَكْلَ عِنْدَ حُضُورِ الطَّعَامِ وَلَوْ
كَانُوا شِبَاعًا ، فَخَافَ إنْ بَقُوا مُسْتَيْقِظِينَ أَنْ يَطْلُبُوا الْأَكْلَ
عِنْدَ حُضُورِ الطَّعَامِ عَلَى الْعَادَةِ ، فَيُنَكِّدُوا عَلَيْهِمَا وَعَلَى
الضَّيْفِ لِقِلَّةِ الطَّعَامِ ، وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ .
وقال
النووي في "شرح مسلم" (14/ 12) :
فَقَالَ
لِامْرَأَتِهِ : هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ : لَا إِلَّا قُوتُ صِبْيَانِي .
قَالَ : فَعَلِّلِيهِمْ بِشَيْءٍ . هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّ الصِّبْيَانَ لَمْ
يَكُونُوا مُحْتَاجِينَ إِلَى الْأَكْلِ ، وَإِنَّمَا تَطْلُبُهُ أَنْفُسُهُمْ
عَلَى عَادَةِ الصِّبْيَانِ مِنْ غَيْرِ جُوعٍ يَضُرُّهُمْ ، فَإِنَّهُمْ لَوْ
كَانُوا عَلَى حَاجَةٍ بِحَيْثُ يَضُرُّهُمْ تَرْكُ الْأَكْلِ لَكَانَ
إِطْعَامُهُمْ وَاجِبًا وَيَجِبُ تَقْدِيمُهُ عَلَى الضِّيَافَةِ .
وفي
"دليل الفالحين لطرق رياض الصالحين" (4/ 553) :
قال
بعد أن نقل كلام النووي السابق : قلت: وحينئذ فيراد بقولها: «قوت صبياني» أي ما
يعتادون الاقتيات به على عادتهم من الوَلَع بالطعام من غير حاجة حافَّة إليه ، فيكون
فيه مجاز .
۱۔ صحیحین بخاری ومسلم میں حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
یومِ عاشورا
کی صبح کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کی بستیوں میں یہ اعلان کروایا
"جس نے روزہ کی حالت میں صبح کی وہ اپنا روزہ پورا کر لے اور جس نے افطاری کی
حالت میں صبح کی اسے چاہیئے کہ دن کے بقیہ حصہ کا گویا روزہ رکھ لے" ۔
حضرت
ربیع رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں " اس کے بعد سے ہم لوگ یوم عاشورا کا روزہ
رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے۔ ہم مسجد میں جاتے تو بچوں
کو کھیلنے کے لئے روئی کا کھلونا بنا دیتے تھے۔ جب کوئی بچہ کھانے کی ضد کرتا اور
روتا تو اسے کھلونا دے کر بہلا لیتے حتٰی کہ افطار کا وقت ہوجاتا"۔
روایت کی توجیہ :
قال القسطلاني في"إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري"
(3/ 395) :
(قالت): أي الربيع (فكنانصومه) أي عاشوراء (بعدُ ونصوّم
صبياننا الصغار ونذهب بهم إلى المسجد) وهذا تمرين للصبيان على الطاعات وتعويدهم
العبادات، وفي حديث رَزِينة بفتح الراء وكسر الزاي عند ابن خزيمة بإسناد لا بأس به
: (أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- كان يأمر برضعائه في عاشوراء
ورضعاء فاطمة فيتفل في أفواههم ، ويأمر أمهاتهم أن لا يرضعن إلى الليل)۔
قال
: وهو يردّ على القرطبي حيث قال في حديث الربيع:
هذا أمر فعله النساء بأولادهن ولم يثبت علمه عليه الصلاة والسلام بذلك ، وبعيدٌ أن
يأمر بتعذيب صغير بعبادة شاقة اهـ.
خلاصہ :
اصحاب غار کے واقعہ میں بچوں کو بھوکا رکھ کر والدین کو ان
پر ترجیح دینے کی تاویل میں علماء نے چند وجوہات بیان فرمائیں ہیں :
۱۔ یہ سابقہ شرائع
میں جائز ہوگا ۔
۲۔ بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ زائد کھانے کی ضد کی بناء پررو
رہے تھے ۔
۳۔ والدین کا حق سب پر مقدم ہے ۔
اور دوسرے واقعات سے مزید یہ توجیہات بھی سامنے آئیں :
۵۔ بچوں کو روزہ کی عادت ڈالنا مقصود تھا ۔
جمعہ ورتبہ العبد
الاضعف محمد طلحہ بلال احمد منیار ، عفی عنہ
Comments
Post a Comment