تحقیق حدیث "عالم کا سونا عبادت ہے"


سوالکیا  یہ حدیث‏ (  نوم العالم ﺧﻴﺮ ﻣﻦ عبادة الجاهل ‏) صحیح ہے؟

            الجواب بعون الله :

یہ بات نہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ، نہ کسی صحابی یا تابعی کا قول ہے ۔ کتب احادیث میں بھی یہ معروف نہیں ، اور معتبر کتب حدیث میں تلاش بسیار کے بعد بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملا ۔
ہاں شیعہ روافض کی کتابوں میں - جو مجمع الاکاذیب ھوتی  ہیں - یہ بات ملتی ہے ، جیسے شیخ صدوق ( رافضی وفات 381 ﻫـ ) کی کتاب ( من لا یحضرہ الفقیہ ) 4/352 میں یہ روایت اس طرح مذکور ہے :
روي ﺣﻤاد ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ، ﻭﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ، ﺟﻤﻴﻌﺎ – ﻳﻌﻨﻲ ﺣﻤﺎدا وﻣﺤﻤﺪا والد أنس - ﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ، ﻋﻦ ﺟﺪﻩ ، ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻃﺎﻟﺐ ، ﻋﻦ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ وﺳﻠﻢ أنه ﻗاﻟﻪ : - وذكر ﺣﺪﻳﺜﺎ ﻃﻮﻳﻼ ﺟﺪا، وﻓﻴﻪ : ‏( ﻳﺎ ﻋﻠﻲ ! ﻧﻮم العاﻟﻢ ﺧﻴﺮ ﻣﻦ ﻋﺒادة العابد‏) ۔
مذکورہ  کتاب کے حوالے سے یہ روایت  پھر دیگر کتب روافض میں  پھیل گئی ، جیسے : " ﻣﻜﺎﺭﻡ ﺍﻷﺧﻼﻕ " ﻟﻠﻄﺒﺮﺳﻲ ‏( 548 ﻫـ ‏) ‏( 441/ ‏) ، " ﺑﺤﺎﺭ ﺍﻷﻧﻮﺍﺭ " ﻟﻠﻤﺠﻠﺴﻲ ‏( 2/25 ‏) ۔
حدیث کے جعلی ہونے کی علامات بالکل ظاھر ہیں ، اس لئے کہ حماد بن عمرو اور محمد والد انس ، دونوں مجہول غیر معروف راوی  ہیں ، جعفر صادق سے روایت کرنے والوں میں ان کا ذکر نہیں ہے ، مزید یہ کہ ان دونوں کا ترجمہ اھل سنت کی رجال الحدیث کی کتابوں میں نہ اھل تشیع کی کتابوں میں ہے ، یہاں تک کہ ( من لا یحضرہ الفقیہ ) کے محقق نے اس روایت پر نوٹ لکھا ہے : ( ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ - ﻟﻌﻠﻪ ﺍﻟﻨﺼﻴﺒﻲ - ﻏﻴﺮ ﻣﺬﻛﻮﺭ ، ﻭﻛﺬﺍ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ، ﻭﻓﻲ ﺍﻟﻄﺮﻳﻖ ﺇﻟﻴﻬﻤﺎ ﻣﺠﺎﻫﻴﻞ ، ﻭﻛﺄﻧﻬﻢ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺎﻣﺔﻳﻌﻨﻲ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺴﻨﺔ - ! "- ﺍﻧﺘﻬﻰ .
اس سے واضح ہوگیا کہ خود روافض بھی اس طرح کی روایتوں کو صحیح ثابت قرار نہیں دیتے ۔
ابو القاسم خوئی رافضی کی رجالِ روافض پر مرتب کی ہوئی کتاب ( معجم رجال الحدیث ) ‏( 7/235 ‏) میں حماد بن عمرو کے ترجمہ میں لکھا ہے : ( ﻟﻢ ﻳﻨﻘﻞ ﻋﻦ ﺃﺣﺪ ﺗﻮﺛﻴﻘﻪ ) ۔  بلکہ یہ طویل وصیت جس کے ضمن میں یہ الفاظ وارد  ہیں ، اس وصیت کے بارے میں خود خوئی کہتے ہیں  : " ﻃﺮﻳﻖ ﺍﻟﺼﺪﻭﻕ ﺇﻟﻴﻪ ﻓﻲ ﻭﺻﻴﺔ ﺍﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻷﻣﻴﺮ ﺍﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﻟﺴﻼﻡ ... ﺿﻌﻴﻒ ﺑﻌﺪﺓ ﻣﻦ ﺍﻟﻤﺠﺎﻫﻴﻞ " ﺍﻧﺘﻬﻰ ۔
تعجب کی بات ہے کہ روافض کے یہاں جعفر صادق سے منقول سینکڑوں روایتیں اسی مجہول سند سے مروی ہیں ، جس سند کا خود روافض اعتبار نہیں کرتے ، اور مجہول راویوں ہی کی وجہ سے غیر ثابت روایتیں کتب حدیث کی راہ لیتی  ہیں ۔
مذکورہ بالا روایت کے مفہوم میں بعض لوگ ایک دوسری حدیث اس طرح بیان کرتے ہیں : ( نوم العالم عبادة ) یعنی "عالم کا سونا عبادت ہے"  یہ بھی ثابت نہیں ہے ۔
ملا علی قاریؒ نے  الاسرار المرفوعة  میں لکھا ہے کہ ( نوم العالم عبادة  ) یہ بے اصل روایت ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ :
عالم کا سونا عبادت ہے،  یا عالم کا سونا جاہل کی عبادت سے بہتر ہے.  دونوں حدیثیں بے اصل ہیں۔

واللہ اعلم

Comments

  1. سوال یہ ہے حضرت کیا یہ بات مفھوم کے اعتبار سے صحیح ہو سکتی ہے؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  2. جزاك الله خير الجزاء

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

جنت میں جانے والے جانور

تخریج حدیث : النکاح من سنتی