حضرت عمر فاروق کا بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کی حقیقت
میرا سوال ہے کہ
: کیا یہ بات ثابت ہے کہ : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے
جاہلیت کے زمانہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور (دفن ) کیا تھا ؟
جاہلیت کے زمانہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور (دفن ) کیا تھا ؟
جواب : قرآن کریم
سے یہ تو ثابت ہے کہ جاہلیت میں بعض عرب ایسا کرتے تھے ، جیساکہ اللہ تعالی کا
ارشاد ہے : ( وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا
وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ
عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (59) [ النحل
]
وقال : ( وَإِذَا المَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ (9) بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (10)[التكوير] .
لیکن حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کی طرف اس طرح کے فعل کی نسبت باطل اور سراسر جھوٹ ہے ، اس میں روافض
کا دخل بھی ہوسکتاہے ۔
اس لئے کہ یہ بات
تاریخ سےثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پہلی بیوی تھیں : حضرت زینب بنت
مظعون رضی اللہ عنہا ، ان سے حضرت عمر کی اولاد میں سے : ام المؤمنین حضرت
حفصہ ،عبد اللہ بن عمر، عبدالرحمن بن عمر
رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے ۔
حضرت حفصہ رضی
اللہ عنہا کی پیدائش جاہلیت کے زمانہ میں بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی ،
جیساکہ مستدرکِ حاکم کی روایت ہے کہ : حضرت حفصہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جس وقت
قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے ۔ اور وہ حضرت عمر کی سب سے بڑی اولاد ہیں ،
تو جب ان کو درگور نہیں کیا ، تو ان سے کوئی چھوٹی بیٹی کو کیوں کرتے ؟ اور اگر
کرتے تو ان کا ذکر تاریخ میں ضرور ہوتا ، چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمام
اولاد کی پیدائش شادی وغیرہ کی تفصیل
تاریخ کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف وأد
البنات کی نسبت غلط ہونی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید بن عمرو بن نفیل
رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر کے چچا زاد بھائی بھی ہوتے ہیں وہ اس طرح لڑکیوں کو زندہ
درگور کرنے سے منع کرتے تھے ، اور اس کے والد کو معاوضہ دے کر اس کی زندگی بچاتے تھے،
کما فی "مستدرک الحاکم" (وكان يُحيي الموؤودةَ، يقول
للرجل إذا أراد أن يقتل ابنتَه: مَهلا، لا تقتُلها، أنا أكفيكَ مُؤونتها، فيأخذُها.
فإذا تَرَعرعَت، قال لأبيها: إن شئتَ دفعتُها إليك، وإن شئتَ كفيتُك مُؤونتها) قال الحاكم : صحيح على شرط الشيخين، ولم
يخرجاه .
تو کوئی واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا
ایسا ہوتا تو یہ قریبی رشتہ دار کی وجہ سے سامنے آجاتا ۔
واللہ اعلم
Comments
Post a Comment