فجر کے بعد سونے کی ممانعت کی روایات
سوال
: فجر کے بعد سونے سے مفلسی آتی ہے ،
کیا یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے ؟
اگر ہے تو کیا پوری رات ذکر تلاوت میں مشغول
رہنےکے بعدتھوڑی دیرسونےوالے
پربھی یہ حکم لا گو ہوگا؟
اورکیا
صبح کے وقت سونا شرعا ناجائز ہے ؟
الجواب :
دن کےاوقات میں سونا کئی طرح کا ہوتا ہے ، اوقات کی بناء پر اس کاحکم بھی مختلف ہوگا:
۱۔ طلوع فجر کے بعد نماز فجر سے پہلے سونا۔
۲۔ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک سونا۔
۳۔ طلوع آفتاب کے بعد سے اشراق وچاشت کے اوقات میں قبیل ظہر
تک سونا۔
۴۔ ظہر کے وقت قیلولہ کرنا۔
۵۔ ظہر وعصر کے درمیان سونا۔
۶۔ عصر سے مغرب کے درمیان سونا۔
سائل کے سوال کا تعلق پہلی تین اقسام سے ہے ،بقیہ
اقسام من باب الاحاطہ بالشیءوتتمۃ القسمہ ذکر کی گئی ہیں ،قصد یہ تھاکہ مذکورہ
بالا تمام اقسام کی تفصیل عرض کروں ، مگرمضمون طویل ہوجائے گا ، اگرچہ فائدہ سے خالی
نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ سوال اور اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پر صرف پہلی تین قسموں
کے بارے میں وارد روایات ، ان کا حدیثی مرتبہ
،اور حکم ذکر کرنے پر اکتفا کرتاہوں،وباللہ العون ۔
۱۔ طلوع فجر کے بعد
نماز فجر سے پہلے سونا :
روایت : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مشہور روایت ہے : فَإِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ
وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ
عَلَی شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّی يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ۔(صحیح البخاری وصحیح مسلم)
ترجمہ : پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا اور فجر طلوع ہو
جاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ ﷺ کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی ( یعنی فجر
کی سنتیں) پڑھتے اور اس کے بعد اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ مؤذن اقامت
کہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ کے پاس آتا تو آپ ﷺ نماز کے لئے (مسجد) تشریف
لے جاتے۔
روایت : حضرت عائشہ کی ایک دوسری روایت میں ہے : كَانَ رَسُولُ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ
اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ(زوائد عبد اللہ علی مسند
احمد)
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓسے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب صبح ہو جاتی تو
دو رکعتیں پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
روایت : حضرت ابوہریرہ سے قولی روایت بھی منقول ہے : إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ رَکْعَتَيْ الْفَجْرِ
فَلْيَضْطَجِعْ عَلَی يَمِينِهِ (جامع ترمذی)
ترجمہ :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی فجر کی دوسنتیں
پڑھ لے تو دائیں کروٹ پر لیٹ جائے ۔
حدیث کا مرتبہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی قولی حدیث
کی ابن تیمیہ نے تضعیف کی ہے ، کیونکہ اس کا مدار عبد الواحد بن زیاد پر ہے ، جس
کے حفظ میں کلام ہے ، ابن تیمیہ نے کہا کہ :فعلی حدیث ثابت ہے ، اور قولی غلط ہے
۔(زاد المعاد لابن القیم )۔
اس وقت میں سونے کا حکم : مباح ہےبغرض استراحت
(شرح مشکوہ)میں ہے :فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے
لئے آپ ﷺ اس لئے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت الٰہی اور نماز میں مشغول رہنے کی
وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہو جاتا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کر لینے سے ختم ہو جائے اور
فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں ، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت
الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لئے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے
لئے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔
درس ترمذی (2/185 ) : فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لئے
لیٹ جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،لیکن حنفیہ اور جمہور کے نزدیک
یہ لیٹنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنن عادیہ میں سے تھا ، نہ کہ سُنن
تشریعیہ میں سے، یعنی صلوۃ اللیل سے تعب کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر
آرام فرمالیتے تھے، لہذا اگر کوئی شخص اس سُنّتِ عادیہ پر عمل نہ کرے تو کوئی گناہ
نہیں ، اور اگر سُنّتِ عادیہ کی اتباع کے پیشِ نظر لیٹ جایا کرے تو موجبِ ثواب ہے
، بشرطیکہ وہ رات کے وقت تہجد میں مشغول رہا ہو ، لیکن اس کو سُنن تشریعیہ میں سے
سمجھنا ، لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور اس کے ترک پر نکیر کرنا ہمارے نزدیک جائز
نہیں ۔
الدر المنضود (2/533) میں لکھا ہے : حنفیہ کہتے ہیں نہ مکروہ ہے
نہ مستحب ۔ حضور سےیہ ثابت ضرور ہے ، لیکن
گھر میں نہ کہ مسجد میں ، برائے استراحت نہ برائے تشریع وترغیب ۔
تحفۃ الالمعی (2/265) میں ہے : بعض حضرات کے نزدیک گھر میں لیٹنا
سنت ہے اور مسجد میں لیٹنا بدعت ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
گھر ہی میں لیٹتے تھے ، مسجد میں کبھی نہیں لیٹے ۔ مگر یہ قول صحیح نہیں ہے ، اس
لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں تہجد پڑھنے والوں سے فرمایا
کہ : جب تم فجر کی سنت پڑھ چکو تو دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ۔ظاہر ہے یہ حضرات مسجد ہی
میں لیٹیں گے ، لیٹنے کے لئے گھر نہیں جائیں گے
ـــــــ اورایک
قول یہ ہے کہ : یہ لیٹنا تہجد گزاروں کے لئے سنت ہے ، سب مسلمانوں کے لئے سنت نہیں
، یہ فرق معقول ہے ، اور احناف نے جو مباح کہا ہے اس میں سب شامل ہیں تہجد گذار
بھی اور عام مسلمان بھی ۔
۲۔ فجر کی نماز کے
بعد طلوع آفتاب تک سونا :
روایات :
اس باب میں روایات دو طرح کی ہیں : ایک وہ جن میں مذکورہ
وقت کی صراحت ہے ، دوسری وہ ہیں جن میں (صُبحہ یا تصبُّح ) کالفظ وارد ہے ، جس کا
اطلاق دن کے ابتدائی حصہ میں سونے پر ہوتا ہے ، اس معنی کے اعتبار سے مذکورہ بالا
اقسام میں سے دوسری اور تیسری قسم کا سونا دونوں اقسام اس طرح کی روایات میں مراد
ہوسکتیں ہیں ،لیکن چاشت کا وقت اظہر ہے ، جیساکہ ابن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے ، اس
لئے یہاں پر صرف صریح روایات ذکر کی جائیں گی ، اور (صُبحہ یا تصبُّح ) والی
روایات اگلی قسم میں ملاحظہ فرمائیں ۔
فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک سونے کی صریح روایات :
۱۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت :
روایت : عن عثمان بن عفان قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه
وسلم-: "الثابت في مُصَلَّاهُ بعد صلاة الصُّبح يذكرُ اللَّه عز وجل حتى تطلُع
الشمسُ أبلغُ في طَلَب الرزق من الضَّربِ في الآفاق"۔(مسند
الفردوس رقم 6309)۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ''صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ذکر خدامیں لگے رہنا رزق کے حصول
میں زیادہ باعثِ نفع ہے اس بات سے کہ طلب رزق میں دنیا کے کونے کونے میں پھرتا رہے۔
حدیث کا مرتبہ : موضوع ، سند میں ابوداود سلیمان بن عمرو
نخعی ہے ، جو کذاب ہے ۔(میزان 2/216)۔
۲۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
روایت : عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَرَّ بِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ مُتَصبِّحَةٌ، فَحَرَّكَنِي بِرِجْلِهِ، ثُمَّ قَالَ: "
يَا بُنَيَّةُ قُومِي اشْهَدِي رِزْقَ رَبِّكِ، وَلَا تَكُونِي مِنَ الْغَافِلِينَ، فَإِنَّ اللهَ
يَقْسِمُ أَرْزَاقَ النَّاسِ مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ
"
ترجمہ : سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: 'میں صبح کے وقت سوئی
تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور آپ نے مجھے پاؤں سے ہلایا
پھر فرمایا: بیٹی! اٹھو! اپنے رب کی طرف سے رزق کی تقسیم میں شامل ہو جاؤ اور غفلت
شعار لوگوں کی عادت اختیار نہ کرو، اللہ تعالٰی طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک لوگوں کا
رزق تقسیم کرتے ہیں۔ (شعب الایمان،حدیث نمبر4405)۔
حدیث کا مرتبہ : موضوع، حدیث کی سند میں عبدالملک بن ہارون بن
عنترہ راوی کذاب اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والا ہے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے
اسے ضعیف کہا ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کذاب کہا ہے۔ امام ابوحاتم
رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک قراردیاہے۔ دیکھئے :(میزان الاعتدال،ص666،ج2)۔
۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت :
روایت : عن أنس قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-:
"لا تَنَامُوا عن طَلَب أرزاقكم فيما بينَ صلاةِ الفجر إلى طُلوع الشمس"
قال: فسُئل أنسٌ عن معنى هذا الحديثِ ؟ قال: يسبِّح ويكبّر ويستغفر سبعينَ مرةً
فعند ذلك ينزلُ الرزق.( مسند الفردوس
للدیلمی رقم 3868)۔
ترجمہ : تلاشِ رزق کی خاطر نماز فجر سے طلوع آفتاب تک مت
سویا کرو۔ حضرت انس سے اس کی وضاحت طلب کی گئی تو فرمایا کہ : اس وقت ستر مرتبہ
تسبیح تکبیر واستغفار کرنے سے روزی میں برکت ہوتی ہے ۔
حدیث کا مرتبہ : اسناد ضعيف جداً ؛ سند میں اصبغ بن نباتہ
راوی کے بارے میں ذہبی نے (المغنی ) میں کہا :"واهٍ
غالٍ في تَشَيُّعه ، تركه النسائي، وقال ابن معين: ليس بثقة. وقال الحافظ: متروك، رُمي بالرفض.
۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت :
روایت : عن
على مرفوعًا : "ما عَجَّت الأرضُ من شيءٍ كعَجِيجِها من ثلاثة: من دمٍ حرامٍ يُسفَك
عليها، أو غُسْلٍ من زِنى، أو نوم قبلَ طلوع الشمس".(دیلمی)
ترجمہ : زمین کی سطح پر کئے جانے والے تین کاموں کی وجہ سےزمین
اپنی تکلیف کا اظہار کرتی ہے :ناحق خون
بہنے سے، وہ غسل جو زنا کے ارتکاب کے بعد کیا جائے،اور طلوع آفتاب سے پہلے سونےسے۔
حدیث کا مرتبہ : سخاوی نے مقاصد حسنہ(1/418) میں ضعیف کہا
ہے ۔
۵۔ وفي حديث
"إن ما بين طلوع الفجر وطلوع الشمس ساعة تقسم فيها الأرزاق وليس مَن حَضَر
القِسمةَ كمن غابَ". التنوير شرح الجامع الصغير
(3/ 495)۔ولم یسندہ۔
ترجمہ : ایک حدیث میں ہے کہ طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے مابین ایک گھڑی ہے ، جس میں بندوں کی روزی تقسیم کی جاتی ہے ، اور جو تقسیم کے وقت حاضر رہا وہ غائب کی مانند نہیں ہوسکتا ۔
۶۔ اثر ابن مسعود رضی اللہ عنہ : عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: غَدَوْنَا
عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ، فَسَلَّمْنَا
بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ
الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ، فَدَخَلْنَا، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ،
فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا
أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ
أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ
قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ ...
الحديث!( صحیح مسلم)
ترجمہ : حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف گئے اور دروازے سے سلام کیا تو انہوں
نے ہمیں اجازت دیدی، مگر ہم تھوڑی دیر دروازے کے ساتھ ٹھہرے رہے تو ایک باندی آئی اور
اس نے کہا کہ تم اندر کیوں نہیں داخل ہو رہے ہو؟ تو پھر ہم اندر داخل ہوئے تو حضرت
عبداللہ ؓ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ: تمہیں کس چیز نے اندر داخل
ہونے سے روکا ہے جبکہ تمہیں اجازت دیدی گئی تھی؟ تو ہم نے کہا کہ: کوئی بات نہیں سوائے
اس کے کہ ہم نے خیال کیا کہ گھر والوں میں سے کوئی سو رہا ہو۔ تو عبداللہ ؓ نے فرمایا
کہ :تم نے ابن ام عبد کے گھر والوں کے بارے میں غفلت کا گمان کیا؟ راوی نے کہا کہ :پھر
حضرت عبداللہ نے تسبیح پڑھنی شروع کردی یہاں تک کہ پھر خیال ہوا کہ سورج نکل گیا ہے
تو باندی سے فرمایا :دیکھو کیا سورج نکل آیا ہے۔الحدیث
اس وقت میں سونے کا حکم :
احادیث مرفوعہ اس باب میں سب ضعیف ہیں ، اس لئے شرعا کوئی
قباحت تو نہیں ہے ،لیکن بلا حاجت شدیدہ سونا سخت مکروہ اور ناپسندیدہ ہے ، چونکہ
رزق کی تقسیم کا وقت ہے ، متعدد روایات میں ہے کہ: اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع
آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں، یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے
ہیں وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ:یہ ممانعت
صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک پورے درمیانی وقت میں سونے میں ہے ،اور اس وقت
سوناغفلت شعار لوگوں کا رویہ ہے ، اسی طرح سلف کے تعامل کے بھی خلاف ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم
اور صحابہ کرام کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے
تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے، اور ذکر واذکار میں مشغول رہتے ،اس وقت
میں ذکر خدامیں لگے رہنا رزق کے حصول میں زیادہ باعثِ نفع ہے ۔
قرآن کریم میں بھی دو جگہ طلوع آفتاب سے پہلے تسبیح وذکر
میں مشغول رہنے کا امر ہے :
﴿
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ
الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا، وَمِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ، وَاَطْرَافَ
النَّھَارِ، لَعَلَّکَ تَرْضٰی ﴾(طہٰ
۲۰: ۱۳۰) ''اور اپنے رب کی
حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سورج کے طلوع وغروب سے پہلے، اور (اسی طرح) رات میں
بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی تاکہ تم نہال ہو جاؤ۔''
﴿ وَسَبِّحْ
بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ، وَمِنَ
الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ، وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ
﴾(ق ۵۰: ۳۹۔۴۰) ''اور اپنے پروردگار
کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، سورج کے طلوع وغروب سے پہلے، اور رات کے کچھ حصے
میں بھی اُس کی تسبیح کرو، اور سورج کی سجدہ ریزیوں کے بعد بھی''۔
بالخصوص ہمارے دیار میں فجر کی نماز اسفار کے وقت ہوتی ہے ،
اس کے بعد طلوع آفتاب تک کا وقت بہت مختصر ہوتا ہے ، جس میں بیدار رہنا کوئی دشوار
نہیں ۔
البتہ تہجد گزاروں ،معتکفین،مسافرین ، اور دیگر اصحاب اعذار
کے لئے کوئی قباحت نہیں ۔(مزید تفصیل تیسری قسم کے حکم میں ملاحظہ فرمائیں ) ۔
۳۔ طلوع آفتاب کے
بعد سے اشراق وچاشت(دن چڑھے)قبیل ظہر تک سونا :
اس باب میں دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں ، مانعہ ومجیزہ ،
پہلے مانعہ ذکر کی جاتی ہے ، پھر جواز پر دلالت کرنے والی ۔
ممانعت کی روایات ِ مرفوعہ:
۱۔ حضرت عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت : عن عثمان بن عفان قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم
-: "الصُّبْحة تَمنعُ الرزق".(مسند احمد1/547)۔
ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔
حدیث کا مرتبہ : ضعیف جدا ، شبہ موضوع، اس لئے کہ اس کی بعض اسانید
میں اسحاق بن ابی فروہ راوی ہے جو متہم بالکذب متروک الروایت ہے ، اور بعض اسانید میں
سلیمان بن ارقم ہے جو متروک ہے ایضا ۔
طحاوی نے کہا :أهل الإسناد يُضَعِّفُونَ هَذَا الْإِسْنَادَ۔ شرح مشكل الآثار (3/104) ۔
ابن الجوزی نے کہا : هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
الموضوعات (3/68)۔
ذہبی نے کہا : هَذَا حديث منكر ۔(میزان الاعتدال 1/193)۔
زرکشی نے کہا : حَدِيث ضَعِيف لأنه من رِوَايَة إسماعيل بن عَيَّاش عَن إسحاق بن عبد الله بن أبي فَرْوَة ، وَابْن أبي فَرْوَة هَذَا مَتْرُوك ثمَّ هُوَ حجازي وَرِوَايَة إسماعيل بن عَيَّاش عَن الْحِجَازِيِّينَ لَا
يُحْتَجّ بهَا ۔ التذكرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 55)۔
۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
روایت : عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُنْجِي حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ، وَإِنْ كَانَ شَيْءٌ
يَقْطَعُ الرِّزْقَ فَإِنَّ التَّصَبُّحَ يَقْطَعُهُ، وَإِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ
مِنَ الْبَلَاءِ»(مسند الشہاب 2/49)۔
ترجمہ : تقدیر کے آگے تدبیر و احتیاط کچھ فائدہ نہیں دے
سکتی ، اور کوئی چیز اگر رزق کو روکتی ہےتو وہ دن کے اول حصہ میں سوتے رہنا ہے،
اور دعا بلاء کو دفع کرتی ہے ۔
حدیث کا مرتبہ : سند میں حکم بن مروان کا شیخ (محمد بن عبد
اللہ ) مجہول ہے ۔
۳۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت :
روایت : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " كُرِهَ لَكُمْ ثَلَاثَةٌ:
الصُّبْحَةُ، وَأَنْ يَبْرَأَ الرَّجُلُ مِنْ أَخِيهِ، وَفَخْرُهُ عَلَى أَخِيهِ
" (أبو نعيم في تاريخ أصبهان 1/ 179(۔
ترجمہ : تین باتیں ناپسندیدہ ہیں : دن کے شروع میں سونا ،
اپنے بھائی سے براءت ظاہر کرنا ، اس پر عجب وفخر کرنا ۔
حدیث
کا مرتبہ : ضعیف ہے ، سند میں
يحيى بن عبيد الله بن موهب تيمی ہے ، جس پر ابن معین ، امام احمد ، یحیی القطان ،
نسائی ، دارقطنی وغیرہم نے جرح کی ہے ، اور غیر معتبر روایات نقل کرنا ذکر کیا ہے
، اور اس کے والد کا حال بھی غیر معروف ہے ۔ ( تہذیب الکمال 31/451) ۔
ممانعت پر دلالت کرنے والے آثار ِصحابہ وتابعین :
۱۔ اثر حضرت خوات بن جبيررضی اللہ عنہ : عَنْ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنَ
الصحَابَةِ، قَالَ: " النَّوْمُ أَوَّلَ النَّهَارِ خُرْقٌ، وَأَوْسَطَهُ خُلُقٌ،
وَآخِرَهُ حُمْقٌ "۔( شرح مشکل الآثار 3/102) ۔
ترجمہ : حضرت جبیر بن خوات فرماتے ہیں:’’دن کے اول حصہ (نمازِ فجر کے
بعد) کی نیند جہالت‘درمیانی حصہ (نمازِظہر کے وقت قیلولہ) کی نیند اچھی عادت، اور آخری
حصہ(نمازِعصر کے بعد) کی نیند حماقت (بے وقوفی) کا باعث ہے۔‘‘۔
۲۔ اثر عبد اللہ بن عمرو
رضی اللہ عنہ : عن عبد الله بن عمرو بن العاص أنه كان يقول: النَّوْمُ ثَلَاثَةٌ:
فَنَوْمٌ خُرْقٌ وَنَوْمٌ خُلُقٌ وَنَوْمٌ حُمْقٌ ، فَأَمَّا نَوْمَةُ الْخُرْقِ فَنَوْمَةُ
الضُّحَى، يَقْضِي النَّاسُ حَوَائِجَهُمْ وَهُوَ نَائِمٌ ، وَأَمَّا نَوْمَةُ خُلُقٍ
فَنَوْمَةُ الْقَائِلَةِ نِصْفَ النَّهَارِ، وَأَمَّا نَوْمَةُ حُمْقٍ فَنَوْمَةٌ حِينَ
تَحْضُرُ الصَّلَوَاتُ۔( شرح مشکل الآثار 3/101)۔
۳۔ آل زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے آثار :
حضرت زبیر : عن عروة قال: كان الزبير يَنهى بنيهِ عن التصبُّح.
ترجمہ : زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے
منع کیا کرتے تھے۔
ابن الزبیر: عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ
أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ: " يَا عُبَيْدُ بْنَ عُمَيْرٍ
أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْأَرْضَ عَجَّتْ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ
نَوْمَةِ الْعُلَمَاءِ بِالضُّحَى مَخَافَةَ الْغَفْلَةِ عَلَيْهِمْ "۔۔(
شرح مشکل الآثار 3/104)۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن زبیر نے عبید بن عمیر سے کہا : آپ
کو معلوم نہیں کہ زمین خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتی ہے علماء کے چاشت کے اوقات
میں سوتےپڑے رہنے سے ، دینی ذمہ داریوں سے غفلت واقع ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے ۔
عروۃ بن الزبیر : قال
عروة: إنى لأسمع بالرجل يتصبَّح فأزهدُ فيه ۔
ترجمہ : عروہ کہتے ہیں کہ:"میں جس کسی کے بارے میں یہ سنتاہوں کہ
وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے"۔
۴۔ اثرعمر رضی اللہ عنہ: اِيَّاكُمْ
ونَوْمَةَ الْغَدَاةِ فَإِنَّهَا مَبْخَرَة مَجْفَرَة مَجْعَرَة۔ النهایہ فی غريب الحديث والأثر (1/ 101)۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نیند سے منع فرماتے تھے
کہ یہ نیند جسمانی بخار کو بڑھاتی ہے، انسان کو سست کرتی ہے اور طبیعت میں خشکی پیدا
کرتی ہے.
۵۔ اثر ابن عباس رضی اللہ عنہ : مَرَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْعَبَّاسِ بِالْفَضْلِ ابْنِهِ وَهُوَ
نَائِمٌ نَوْمَةَ الضُّحَى، فَرَكَلَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ لَهُ: قُمْ؛ إِنَّكَ لَنَائِمُ
السَّاعَةِ الَّتِي يُقَسِّمُ اللهُ فِيهَا الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ، أَمَا سَمِعْتَ
مَا قَالَتِ الْعَرَبُ فِيهَا؟ قَالَ: وَمَا قَالَتِ الْعَرَبُ فِيهَا يَا أَبَتِ؟
قَالَ: زَعَمَتْ أَنَّهَا مُكْسِلَةٌ مُهْرِمَةٌ مُنْسِأَةٌ لِلْحَاجَةِ، ثُمَّ قَالَ:
يَا بُنَيَّ! نَوْمُ النَّهَارِ عَلَى ثَلَاثَةٍ؛ نَوْمُ حُمْقٍ؛ وَهِيَ نَوْمَةُ الضُّحَى،
وَنَوْمَةُ الْخُلُقِ؛ وَهِيَ الَّتِي رُوِيَ: قِيلُوا فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَا تَقِيلُ،
وَنَوْمَةُ الْخُرْقِ؛ وَهِيَ نَوْمَةٌ بَعْدَ الْعَصْرِ لَا يَنَامُهَا إِلَّا سَكْرَانُ
أَوْ مَجْنُونٌ. (المجالسۃ وجواهر العلم
5/221)۔
ترجمہ :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے فضل کو
چاشت کے وقت سوتے ہوئے پایا ، تو پیر سے ان کو ہلاکر کہا : اٹھ جاؤ ، تم ایسے وقت
سورہے ہو جس میں خدا اپنے بندوں پر روزی بانٹتا ہے ۔ تم نے نہیں سنا عرب اس وقت سونے کے بارے میں کیا کہتے
ہیں ؟ فضل نے کہا : کیا کہتے ہیں بتائیے؟فرمایا : عرب کہتے ہیں کہ یہ وقت سونا
سستی پیدا کرتا ہے ، بڑھاپے کو جلدی لاتا ہے ، اور ضروریات کے پورا ہونے میں تاخیر
کا باعث ہے ۔پھر کہا : بیٹے دن میں نیند تین طرح کی ہے : ’’دن کے اول حصہ(چاشت
) کی نیند جہالت‘درمیانی حصہ کی نیند اچھی عادت،جس کے بارے میں وارد ہے : قیلولہ
کرو چونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ اور آخری حصہ(عصر کے بعد) کی نیند حماقت کا باعث
ہے، اس وقت مجنون یا شرابی لوگ سوتے ہیں۔
۶۔ اثر ابن عباس : الطبراني في "الكبير" عن ابن عباس بلفظ: "
إذا صليتم الفجر؛ فلا تناموا عن طلب رزقكم ".( ولم نجده في الطبراني ).
ترجمہ : جب تم فجر کی نماز پڑھ لو ،تو روزی تلاش کرنے سے
غافل ہوتے ہوئے سوتے مت رہو ۔
۷۔ اثر طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ: عَنْ
طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ: " أَنَّهُ مَرَّ بِابْنٍ لَهُ تَصَبَّحَ،
فَذَكَرَ أَنَّهُ فَقَدَهُ، وَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ
. مصنف ابن ابی شيبہ (5/ 222)۔
ترجمہ : حضرت طلحہ کا
گذر اپنے ایک بیٹے پر ہوا جبکہ وہ صبح کے وقت لیٹا ہواتھا ، تو اس کو کہا
کہ :میں تمہاری خبر گیری کے لئے آیا ، پھر ان کو سونے سے منع فرمایا۔
۸۔ اثر عمر بن عبد العزيز تابعی : وكتب عمر بن عبد العزيز رحمه الله إلى مؤدّب وَلده: خُذهم
بالجَفاء، فهو أمنع لاقدامهم، وترك الصُّبحة، فإن عادتَها تُكسِب الغفلة۔ حياة السلف بين القول والعمل (ص: 546)۔
ترجمہ : حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے اولاد کی تربیت
کرنے والے استاذ کو لکھ کر تحریر فرمایا
کہ : ان کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آئیں تاکہ وہ جریء نہ ہوں ، اور صبح کے وقت سونے
سے منع کریں ، کیونکہ اس کی عادت لا پرواہی کو جنم دیتی ہے ۔
۹۔ اثر علقمہ بن قیس تابعی : عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ،
قَالَ: بَلَغَنَا " أَنَّ الْأَرْضَ تَعُجُّ إِلَى اللهِ مِنْ نَوْمَةِ
الْعَالِمِ بَعْدَ صلَاةِ الصُّبْحِ " شعب الإيمان (6/ 406)۔
اجازت پر دلالت کرنے والی روایات :
۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا : حدیث ام زرع میں بروایت حضرت
عائشہ ہے: (فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا
أُقَبَّحُ، وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ ) صحيح مسلم (4/ 1899)
أَيْ:
أَنَام الصُّبْحَة، وَهِيَ بَعْدَ الصَّبَاح، أَيْ: أَنَّهَا مَكْفِيَّةٌ بِمَنْ
يَخْدُمُهَا فَتَنَامُ. شرح النووي ( 8 /
ص 198).
وقولها:
" وأرقد فأتصبح ": أى أنام الصُّبحة، وهى نوم أول النهار، تريد أنها مُرفَّهة،
عندها من يخدُمها ويكفيها مؤونة بيتها، إذ لا ينام الصبحة إلا من هو بهذه الصفة. إكمال المعلم بفوائد مسلم (7/ 465).
(فعنده أقول فلا أقبَّح) أي: لا يقبح قولي ولا
يرد عليّ لإكرامه لها.(وأرقد فأتصبح) أي: أنام الصبحة، وهي نوم أول النهار فلا أوقَظ
إكرامًا لها أيضًا. التوشيح
شرح الجامع الصحيح (7/ 3272).
ترجمہ :ان کے ہاں میں بولتی تو میری نکتہ چینی کوئی نہ کرتا ،میں دن
چڑھے تک سوتی رہتی اور کوئی مجھے جگا نہیں سکتا تھا۔
تفہیم المسلم (3/708) : اور سوتی ہوں تو صبح کردیتی ہوں ، یا صبح
کے بعد سوتی ہوں ، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گھر کے کام سب نوکر کرتے ہیں ،
نیند پر کوئی پابندی نہیں ۔
خودحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اور دیگر صحابہ تابعین کاطلوع
آفتاب کے بعد سونے کا معمول تھا ، جیساکہ (مصنف ابن ابی شیبہ) میں مستقل ایک باب
بعنوان (من رخص فی التصبح )کے ماتحت منقول ہے ۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
25449
- عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّهَا كَانَتْ تُصَبِّحُ» حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت
عائشہصبح کے وقت سوتی تھیں ۔
25451
- عَنْ مُجَاهِدٍ: «أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَتْ
نَوْمَةَ الضُّحَى» مجاہد نے کہا کہ
:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا جب سورج طلوع ہوجاتا تو اس کے بعد آرام فرماتی تھیں.
25450
- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشَّمَّاسِ، قَالَ: " أَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ
فَوَجَدْتُهَا نَائِمَةً - يَعْنِي: بَعْدَ الصُّبْحِ " حضرت عبد اللہ بن شماس فرماتے ہیں کہ : حضرت ام سلمہ رضی
اللہ عنہا کے پاس آیا توان کو سویا ہوا پایا صبح کی نماز کے بعد ۔
25452
- عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: «أَتَيْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَوَجَدْتُهُ
نَائِمًا نَوْمَةَ الضُّحَى» عبد
الاعلی فرماتے ہیں کہ : میں حضرت سعید بن جبیرکے پاس آیا تو میں نے ان کو صبح کی
نیند کرتے ہوئے پایا۔
25453
- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ ابْنِ
سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ يَتَصَبَّحُ» حضرت ابن سیرین صبح کے وقت سویا کرتے تھے ۔
25454
- غَدَا عُمَرُ عَلَى صُهَيْبٍ فَوَجَدَهُ مُتَصَبِّحًا، فَقَعَدَ حَتَّى
اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ صُهَيْبٌ: أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَاعِدٌ عَلَى
مَقْعَدَتِهِ وَصُهَيْبٌ نَائِمٌ مُتَصَبِّحٌ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: «مَا كُنْتُ
أُحِبُّ أَنْ تَدَعَ نَوْمَةً تُرْفِقُ بِكَ»
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس صبح
کے وقت آئے تو انہیں سویا ہوا پایا، آپ رضی اللہ عنہ نے انتظار کیا جب تک کے وہ
بیدار ہوگئے ، تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : امیر المؤمنین اپنی جگہ
بیٹھے ہوئے ہیں اور صہیب ہے کہ وہ صبح کی نیند سویا ہوا ہے ! حضرت عمر رضی اللہ
عنہ ان سے فرمایا : میں نے یہ بات پسند نہیں کی کہ میں تمہیں بغرض استراحت کی نیند
سے بیدار کروں۔
اس وقت سونے کا حکم :
جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ روایتیں ممانعت اور
اجازت دونوں طرح کی ہیں ، جس سے اجمالا حکم معلوم ہوتا ہے ، یعنی چند وجوہات کی
بناء پر مکروہ ، اور دیگر وجوہات کی بناء پر مباح ،لیکن وجوہِ ممانعت واجازت کی
نشاندہی کرنے سے بات واضح ہوگی ۔
وجوہ ممانعت وکراہت:
۱۔ رزق کی برکت سے محرومی ہوتی ہے (حضرت عثمان)۔
۲۔ دن کے اول حصہ کی نیند جہالت ہے ( حضرت خوات بن جبير)۔
۳۔ کسب معاش اور قضاء حوائج میں تاخیرہوتی ہے (حضرت عبد اللہ
بن عمرو)۔
۴۔ دینی ذمہ داریوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے (حضرت ابن زبیر
)
۵۔ زمین بھی نا پسند کرتی ہے ، اور تکلیف کا اظہار کرتی ہے (حضرت
ابن زبیر ،علقمہ)۔
۶۔ جسمانی بخار کو بڑھاتی ہے، انسان کو سست کرتی ہے اور طبیعت
میں خشکی پیدا کرتی ہے (حضرت عمر)۔
۷۔ بڑھاپے کو جلدی لاتی ہے (حضرت ابن عباس )۔
۸۔ اس کی عادت لا پرواہی کو جنم دیتی ہے (حضرت عمر بن عبد العزیز)۔
۹۔ فرشتوں کو صبح سویرے بندوں کی روزیوں کی تقسیم پر مامور
کیا جاتا ہے ، تووہ سوئے ہوئے کو مستغنی
سمجھ کر طالبِ رزق کی طرف توجہ کرتے ہیں (
التنویر شرح الجامع الصغیر)۔
۱۰۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے صبح سویرے طلب
معاش میں برکت کی دعا سے محرومی ہوتی ہے ۔(ابو داود 2606) شریعت کے اس حکم پر عمل کرنے سے کم
وقت میں زیادہ رزق (یعنی جو آپ کی ضروریات کو کفایت کر سکتا ہے) کمایا جا سکتا ہے۔
ممانعت کی وجوہات کا خلاصہ یہ ہے کہ :رزق کی برکت سے محرومی
، ذمہ داریوں کا ضیاع، کسب معاش میں تنگی ، اور مضر صحت ہونے کی بناء پر نا
پسندیدہ ہے،خصوصا اس کی عادت بنالینابہت سارے مفاسد کا سبب ہے۔
اقوال فقہاء المذاہب :
الحنفية
قال
في الہندیة: ویکرہ في أول النہار وفیما بین المغرب والعشاء
(۵/۳۷۶،
دار الکتاب دیوبند)۔
وَأَمَّا
التَّصَبُّحُ مِنْ غَيْرِ سَهَرٍ. يَعْنِي النَّوْمَ فِي أَوَّلَ النَّهَارِ، مِنْ
غَيْرِ أَنْ يَكُونَ سَاهِرًا بِاللَّيْلِ. فَإِنَّ ذَلِكَ نَوْعٌ مِنَ الْحُمْقِ. تنبیہالغافلين باحاديث سيد الانبياء
والمرسلين للسمرقندي (ص: 195)۔
فتوی دار العلوم دیوبند : Fatwa ID: 487-452/Sn=7/1436-U
اگر
کوئی شخص نماز فجر کے بعد تھوڑی دیر تسبیحات وغیرہ میں لگا رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعدسوئے
تو اس کے حق میں کوئی قباحت وکراہت نہیں رہے گی، بعض بزرگوں کا اس طرح کا معمول
رہا ہے۔
المالكية
[مسألة:
الرجل ينام بعد المغرب وبعد الصبح]
مسألة:
وسئل مالك عن الرجل ينام بعد المغرب، قال: ذلك يكره، قيل له :فالنوم بعد الصبح؟
قال : ما أعلمه حراما . البيان والتحصيل (1/ 352)۔
وَقَالَ الْجُزُولِيُّ: وَيُكْرَهُ النَّوْمُ إذْ ذَاكَ؛
لِأَنَّهُ أَحْرَمَ نَفْسَهُ مِنْ الْفَضِيلَةِ؛ لِأَنَّهُ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ :«الصُّبْحَةُ
تَمْنَعُ الرِّزْقَ» وَاخْتُلِفَ فِي مَعْنَاهُ ، فَقِيلَ : الرِّزْقُ الْمُرَادُ
هُنَا الْفَضْلُ، وَقِيلَ: مَعْنَاهُ كِتَابُ الرِّزْقِ۔ انْتَهَى. مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (2/ 74)۔
وَفِي الِاسْتِغْنَاءِ: لَا يُكْرَهُ نَوْمُ مَنْ اتَّصَلَ
سَهَرُهُ وَقِيَامُهُ مِنْ اللَّيْلِ بِهِ۔ انْتَهَى.
الحنابلة
ظَاهِرُ مَا ذَكَرَهُ الْأَصْحَابُ: أَنَّ نَوْمَ
النَّهَارِ لَا يُكْرَهُ شَرْعًا لِعَدَمِ دَلِيلِ الْكَرَاهَةِ ،إلَّا بَعْدَ
الْعَصْرِ ، وَإِنَّهُ تُسْتَحَبُّ الْقَائِلَةُ. الآداب الشرعیہ والمنح المرعیہ (3/ 161)۔
علامہ
ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "زاد المعاد" میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
صبح کے وقت سونا بہت گھٹیا عمل ہے ،اور
یہ بہت ساری بیماریوں کا سبب ہے، مثلا سستی، رنگ کا پھیکا ہوجانا، جگر کی بیماریوں
کا سبب وغیرہ...
وجوہ جوازواباحت :
۱۔
اپنے کام کاج میں بھرپور
توجہ حاصل کرنے کیلئے کوئی آرام کر لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اسے
دن میں سونے کا وقت ہی اسی وقت ملتا ہو(حضرت صہیب )۔
۲۔ شب بیداروں،تہجد گزاروں ، اور جن کی رات کی ڈیوٹی ہو،یاملازمت
میں رات کی شفٹنگ ہو، اور استراحت کے لئے دوسرا وقت میسر نہ ہو۔
۳۔ طلب معاش ،ملازمت ، باقی ذمہ داریوں ،اور تکسب کے اوقات دن
چڑھے تاخیرسے ہونے کی وجہ سے کوئی خلل نہ
ہو تا ہو۔
۴۔ مسافرین کے لئے دوران سفر ، خصوصا جب سواری میں ہوں ،
اور اس وقت کوئی مشغلہ ممکن نہ ہو ۔
۵۔ جن کے لئے ان کی ذمہ داریوں کی کفایت کرنے والے ہوں،
جیسے خواتین کے لئے گھر کے کام کاج لئے نوکر چاکر ۔(حضرت عائشہ)۔
۶۔ دیگر اصحابِ اعذارکے لئے عموما ۔
۷۔ اتفاقاکبھی بغیر اعتیادکے سونا ، بغرض استراحت وازالۃ تکان ۔
خلاصہ
کلام
صبح کی نیند کے ممنوع ہونے کے بارے میں صراحتا جو روایات وارد ہیں وہ اگرچہ سند کے
اعتبار سے بہت ضعیف ہیں،
لیکن عمومی روایات اور تعامل سلف سے یہ
بات واضح ہوتی ہے کہ صبح کی نیند ناپسندیدہ عمل ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنے
کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیئے، البتہ خاص حالات ، اورعذر کی حالت اس سےمستثنی ہے، اور اس
کے متعلق اباحت کی صحیح روایات اور صحابہ کرام کا عمل موجود ہے۔ اشخاص اور حالات کے اعتبار سے بھی حکم مختلف ہوگا ۔
لیکن افسوس ہے کہامت
کے بعض افراد نے صبح کے بعد سونا زندگی کا لازمی حصہ بنایا ہوا ہے۔آج
معاشرے کا ہر فرد رزق کے بارے میں پریشان ہے،کما کما کے تھک جانے کے بعد بھی دلی
سکون کے نہ ہونے اور ضروریات کے پورا نہ ہونے نے دل دماغ کو بوجھل کر دیا ہے۔
معاشیات کی نظر سے اس کا ذمہ افراط وتفریط زر کو بھی بنایا جا سکتا ہے، لیکن سوچئے تو سہی اور کیا
کمی ہے؟ وہ کمی نبی کی تعلیم پر عمل نہ کرنا ہے ۔ پھر ایسی غفلت پر اگر رزق کی پریشانی ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟َ
یہ
بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں مارکیٹوں کا مزاج ہی رات گئے تک کاروبار کرنا اور صبح
دیر سے کھولنا بن گیا ہے، لیکن کیا اس کا حل صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا ہے۔
یقیناً جواب نفی میں ہے تو اس دعوت کو عام کیجیے، مارکیٹ کلچر تبدیل کرنے میں اپنا
کردار ادا کیجیے۔ سو مایوسی کی کوئی بات
نہیں۔ بس ذرا ہمت کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ :فجر کے بعد کے چھ
گھنٹے استعمال کرنیوالے شخص کے دن روشن، پرسکون ہوتے ہیں، جب کہ دیر سے اُٹھنے
والے کے بوجھل اور ناکامیوں سے عبارت۔اللہ نے کائنات کو ایک فطرت، ایک قانون کے
تحت خلق کیا ہے، سورج صبح طلوع ہوتا ہے، تاریکی کو روشنی میں بدل دیتا ہے، اس کی
کرنوں سے پھول کھلتے، فضائیں مہکتی ہیں، سبزہ چرند پرند قوت و افزائش حاصل کرتے
ہیں۔
جس طرح سورج دوپہر کو طلوع نہیں ہو سکتا، انسان بھی دوپہر کو جاگ کر کامیابی و
سکون حاصل نہیں کر سکتا۔
فجر
کے بعد کے چھ گھنٹوں کی مثال ہماری نوجوانی کی ہے، جس طرح نوجوانی کا دور ہماری
زندگی کا بہترین صلاحیتوں سے بھرا خوابوں کو حقیقت بنانے کا دور ہوتا ہے، اسی طرح
چوبیس گھنٹوں کی نوجوانی صبح کے یہ چھ سات گھنٹے ہیں، جن کے استعمال سے ہم اپنے
مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
اس
وقت انسان کو فطرت کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے، اس لیے وہ بہتر فیصلے کرتا ہے، جبکہ صبح کے گھنٹوں کو سو کر
برباد کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان نوجوانی کو سو کر ضائع کر ڈالے۔طلوع ِ آفتاب کے
وقت جاگنے میں ہی صحت، سکون، ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
دنیا
کی کامیاب قومیں فطرت کے اسی اصول ’’جلدی سونا، منہ اندھیرے جاگنا‘‘ کے تحت ہی
ترقی و ایجادات کی منازل طے کر سکیں۔ چین، جاپان، امریکا، یورپ ہر جگہ لوگ صبح
سویرے دن کا آغاز کرتے ہیں۔
جو قومیں خندہ پیشانی سے جاگتے ہوئے صبح کا استقبال کرتی ہیں،
وہی اس سے بیش بہا فوائد حاصل کرتی ہیں۔ ہمارا دھیان ابھی تک اس باریک اور انتہائی اہم نقطے کی جانب نہیں گیا کہ رات کے اندھیروں میں بلاوجہ جاگنا ہمیں سوائے اندھیروں
کے کہیں نہیں پہنچائے گا۔ روشن مستقبل کے لیے ہمیں روشن صبح کا انتخاب کرنا ہو گا،
جو کہ ترقی یافتہ اقوام کا طرزِ حیات ہے۔
مگرجو لوگ دن کا بہترین وقت
سو کرگزار دیں وہ کبھی ترقی کرسکتے،
نہ ہی نفسیاتی جسمانی الجھنوں سے آزاد خوشگوار زندگی گزارسکتے ہیں۔
بحیثیت والدین بھی ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی اولاد کو صبح جلد اُٹھنے کے اس بہترین ہتھیار
سے ابھی سے لیس کریں ،جو
کہ انھیں اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کل شدت سے درکار ہو گا۔
ہماری ذمہ داری ہے کہمعاشرے
میں موجود غلط روایات کو مثبت طرز ِزندگی میں بدلنے کے لیے اقدامات کریں ،تا کہ ہم بھی فطرت سے ہم
آہنگ ہو کر بھرپور، پُرسکون اور کامیاب زندگی بسر کرسکیں۔
جمعہ ورتبہ : محمد طلحہ بلال احمد منیار، عفا عنہ الرحیم الغفار
ماشاء اللہ۔ اچھا مضمون ہے
ReplyDeleteاللہم بارک۔لامتی۔فی بکورھا
ReplyDeleteاللہم بارک۔لامتی۔فی بکورھا
ReplyDeleteJazakallahu khair , bahu mufeed malumaat hasil huwa.Allah aapku duniya aur aakhirat ki kahir
ReplyDeletebarkat aur bhalayi ata kare. Aamen
ماشااللہ
ReplyDeleteعمدہ