رمضان میں قضائے عمری کی چار رکعت بدعت ہے
سوال:
ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جس
کی اپنی عمر بھر میں نمازیں فوت ہوگئی ہوں اور وہ اسے شمار نہ کرسکتا ہو تو اسے
چاہیے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں کھڑا ہو اور چار رکعات نماز ایک تشہد کے ساتھ ادا
کرے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۃ القدر پندرہ مرتبہ پڑھے، اسی طرح سے
سورۃ الکوثر بھی۔ اور نیت کے وقت یہ کہے کہ: میں نیت کرتا ہوں چار رکعات ان تمام
نمازوں کے کفارے کے طور پر جو مجھ سے فوت ہوئی ہيں۔
سیدنا
ابو بکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یہ چار سو سال کا
کفارہ ہے۔ یہاں تک کہ علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ ہزار سال کا کفارہ ہیں۔
پوچھا گیا کہ جو زائد نمازیں ہيں پھر وہ کس کے کھاتے میں جائیں گی؟ فرمایا: وہ اس
کے والدین، بیوی، اولاد، عزیز واقارب اور شہر کے لوگوں کے لیے ہوجائیں گی۔ پھر
جب نماز سے فارغ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سو مرتبہ کسی بھی
طرح کا درود بھیجے۔ پھر یہ دعاء تین مرتبہ پڑھے:
’’اللهم
يا من لا تنفعك طاعتي، ولا تضرك معصيتي، تقبل مني ما لا ينفعك، واغفر لي ما لا
يضرك، يا من إذا وعد وفى، وإذا توعد تجاوز وعفا، اغفر لعبد ظلم نفسه، وأسألك اللهم
إني أعوذ بك من بطر الغنى وجهد الفقر، إلهي خلقتني ولم أكُ شيئًا، ورزقتني ولم أكُ
شيئًا، وارتكبت المعاصي فإني مقر لك بذنوبي، إن عفوت عني فلا ينقص من ملكك شيء،
وإن عذبتني فلا يزيد في سلطانك شيء، إلهي أنت تجد من تعذبه غيري، وأنا لا أجد من
يرحمني غيرك، اغفر لي ما بيني وبينك، واغفر لي ما بيني وبين الناس يا أرحم
الراحمين، ويا رجاء السائلين، ويا أمان الخائفين، ارحمني برحمتك الواسعة، أنت أرحم
الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات
برحمتك الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات،
والمسلمين والمسلمات، وتابع بيننا وبينهم بالخيرات، رب اغفر وارحم وأنت خير
الراحمين.. وصل الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين‘‘۔
معلوم کرنا ہے کہ اس
حدیث کی کیا حقیقت ہے؟
الجواب
باسم ملهم الصواب :
یہ
جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے، اس جیسی کوئی حدیث احادیث کی معتبر کتب میں موجود ہی
نہيں ہے۔ جس کی نماز فوت ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی
قضاء ادا کرنے میں جلدی کرے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ
نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا
كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ ‘‘( صحيح البخاري، مواقيت
الصلاة 597، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة 684 )
ترجمہ
: (جو
نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے، اس کا اس کے
سوا اور کوئی کفارہ نہیں)۔
ساتھ
ہی اس نماز کے بعد جو دعاء ذکر ہوئی ہے اس میں بھی بعض غیر لائق عبارتیں ہيں جیسے:
’’إلهي
أنت تجدُ مَن تعذّبه غيري‘‘ ( الہی! تجھے تو میرے
علاوہ دوسرے مل جائیں گے عذاب دینے کے لیے )۔
فوت
شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ
بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت
ممنوع ہے ، اور اس کی دین اسلام میں کوئی اصل وبنیاد نہيں اور نہ ہی اس کے
ذریعے ان نمازوں کا کفارہ ادا ہوتا ہے جو آپ نے چھوڑی ہيں۔
قضائے
عمری کے نام سے ایجاد کردہ نماز کے بدعتی افراد رمضان المبارک میں اس مخصوص نماز
کے جھوٹے میسجز پھیلاتے ہیں، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کے فریب کا
شکار ہو جاتا ہے، عام سادہ لوح مسلمان بھی اسے صحیح سمجھ کر اپنی زندگی بھر کی
نمازیں ادا نہیں کرتے، اور اس نماز کو پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں
قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔جبکہ اہل السنت والجماعت کا
نظریہ بالکل الگ ہے ، وہ یہ ہے کہ قضاء شدہ نمازیں نہ تو محض توبہ سے ذمہ سے ساقط
ہوتی ہیں اور نہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو چار رکعات کی مخصوص نماز کو ادا
کرلینے سے ساری نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ بلکہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔
دار
العلوم دیوبند کا ایک فتوی بخصوص
اس پیغام کے
فتوی(م):
47=47-1/1433
مذکورہ
پیغام کی اشاعت صحیح نہیں ہے، روایت موضوع ہے، صحیح یہ ہے کہ جتنی نمازیں قضا ہوئی
ہیں اگر ان کی حتمی تعداد معلوم نہیں ہے تو اندازہ کرے اور جس تعداد پر دل مطمئن
ہوجائے ان سب کی قضا کرے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی کا ایک فتوی قضائے عمری کی نماز کے
متعلق :
واضح رہے کہ مذکورہ بالا قضائے عمری کا ثبوت قرآن وحدیث اور
کتبِ معتبرہ میں نہیں، قضاء نمازوں کے بارے میں شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ قضاء نماز
پہلی فرصت میں ادا کرلی جائے، چاہے نماز کا وقت ہو یا نہیں(سوائے اوقاتِ مکروہ کے)
۔اسی طرح نوافل کے بجائے قضاء پڑھ لیا کرے،اور اگر کسی کا اس حالت میں انتقال ہو جائے
کہ قضاء نمازیں اس کے ذمے باقی ہوں تو ہر نماز کے بدلے میں صدقہٴ فطر کی رقم کے برابر فدیہ ادا کیا جائے۔
البتہ سوال میں جو طریقہ مذکور ہے وہ غلط اور بدعت ہے اور لوگوں
کو نماز کے ترک کرنے پر جریء بنانا ہے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ پر بہتان اوراس میں دخل
اندازی کے مترادف ہے،لہٰذا ایسی مہمل باتوں پر عمل اور یقین نہ کیا جائے۔اھ
امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فالأصلُ فیہ أن کل صلوٰۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوتِ وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا أو سھوا أو بسبب نومٍ ، وسواء کانت الفوائتُ قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (البحر الرائق ج 2 ص 141)۔
ترجمہ :
اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو ۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں ۔بہر حال قضا لازم ہے ۔
علامہ
علی قاری علیہ رحمۃ الباری "موضوعات کبیر" میں کہتے ہیں:
حدیث
''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکلّ صلوٰۃ فاتتهُ فی
عمرہ إلی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات
لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات ، ثم لا عبرةَ بنقل صاحب (النهاية) ولا بقية شُراح (الهداية) لأنهم ليسوا من المحدّثين ولا أسندوا
الحديثَ إلى أحد من المخرّجين . انتهى (الاسرار
الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعہ حدیث 953 ص 242)
ترجمہ
:
حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض
نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی
طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ
سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ۔اور
فرمایا :پھر
"نہایہ" سمیت "ھدایہ" کے باقی شراح کی نقل کردہ عبارت غیر
معتبر ہے،اس لیے کہ وہ محدثین نہیں تھے اور نہ ہی حدیث کےمخرجین میں سے کسی
کی طرف سے سند بیان کی ہے۔
امام
شوكانی (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة ص 54)
میں لکھتے ہیں :
هذا
موضوع بلا شك ولم أجده في شيء من الكتب التي جمع مُصنفوها فيها الأحاديث الموضوعة ،
ولكن اشتهر عند جماعة من المتفقّهة بمدينة صَنعاء في عصرنا هذا ، وصار كثيرٌ منهم
يفعلون ذلك، ولا أدري مَن وضع لهم ، فقبّح الله الكذابين ،انتهى.
ترجمہ:
یہ روایت بلا شک من گھڑت ہے ، مجھے احادیث موضوعہ پر لکھی
گئی کتابوں میں سے کسی کتاب میں نہیں ملی
، البتہ ہمارے زمانہ میں شہر صنعاء کے بعض
فقہاء کے درمیان مشہور ہے ، بہت سے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ، معلوم نہیں یہ
روایت کس نے گھڑی ہے ، اللہ تعالی جھوٹوں کا ناس کرے ۔
امام
ابن حجر شافعی کی "تحفہ شرح منہاج للامام النووی" میں پھر علامہ زرقانی مالکی "شرح مواہب امام قسطلانی" رحمہم ﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:
وأقبح
من ذلک ما اعتِید فی بعض البلاد مِن صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عَقِب صلٰوتھا زاعمین أنھا
تکفّر صلٰوۃ العام أوالعمر المتروکۃ ، و ذلک حرام لوجوہٍ لا تخفی
۔ ( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ 7/110) ۔
ترجمہ
:
اس
سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد
پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں
کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔
اورامام لکھنوی نے اس روایت کی تحقیق میں مستقل ایک رسالہ
بنام (ردع الأخوان عن مُحدَثات آخر جمعة من رمضان) مرتب کیا ہے ، اور
اس میں دلائل نقلیہ وعقلیہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ نماز باطل ہے ۔
اس
کےبعدان فقہاء کےقول
کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہےجو کہتے ہیں کہ جوشخص
نماز فوت نہ ہونے کے باوجود قضاء عمری کرتا ہے تو مکروہ نہیں کیونکہ اس نے احتیاط
اختیار کی ہے ۔
بعض لوگ قضائے عمری کو شب ِقدر یا
آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں
اس ایک نماز سے اداہوگئیں۔ یہ سب
محض باطل ہے۔
Comments
Post a Comment