کھانے کے بعد ہاتھوں کی صفائی کی روایات
کھانے کے بعد ہاتھ دھو کر ہاتھ سے چہرہ کو ملنا صاف کرنا اور تلوے کو
ملنا ۔
کیا یہ عمل سنت سے ثابت ہے ؟ اس عمل کی کیا بنیاد ہے ؟ اس کی تحقیق
فرما دیں ، کرم ہوگا ۔
الجواب :
کھانا اگر آگ پر
پکایا گیا ہو، اور اس کی چکنائی بھی ہاتھ پر لگی ہو ، تو ایسے کھانے کے بعد ہاتھ صاف کرنے کے متعلق احادیث مبارکہ
میں پانچ باتیں ملتی ہیں :
1)
انگلیوں کا چاٹنا
2)
رومال سے پونچھنا
3)
پانی سے دھونا
4)
بدن کے بعض حصوں (ہاتھ،کلائی،تلوے) سے ملنا
5) مٹی اور کنکریوں سے ملنا
5) مٹی اور کنکریوں سے ملنا
(۱) انگلیوں کا چاٹنا :
آپ ﷺ کے کھانے کا طریقہ یہ
تھا کہ :
(۱) آپ تین انگلیوں کو کھانے میں استعمال کرتے تھے عموما ، بلا ضرورت ساری انگلیاں یا ہتھیلی استعمال نہیں کرتے تھے ۔
(۲) اور کھانے سے فراغت پر ان انگلیوں کو چاٹ لیتے۔
(۱) آپ تین انگلیوں کو کھانے میں استعمال کرتے تھے عموما ، بلا ضرورت ساری انگلیاں یا ہتھیلی استعمال نہیں کرتے تھے ۔
(۲) اور کھانے سے فراغت پر ان انگلیوں کو چاٹ لیتے۔
حضرت کعب بن مالک رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں :
"كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ بِثَلَاثِ أَصَابِعَ ، وَيَلْعَقُ يَدَهُ قَبْلَ
أَنْ يَمْسَحَهَا " "[مسلم2032]
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ، اور اپنے ہاتھ مبارک صاف کرنے سے پہلے چاٹ لیتے تھے۔
مسلم کی ایک دوسری روایت
میں ہے :
"أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْكُلُ بِثَلَاثِ أَصَابِعَ، فَإِذَا فَرَغَ
لَعِقَهَا" ۔
ترجمہ : رسول اللہ ﷺ تین انگلیوں کے ساتھ کھانا کھاتے ، اور جب آپ کھانا کھانے سے فارغ ہوجاتے تو ان انگلیوں کو چاٹ لیتے ۔
یہ احادیث تو فعلیہ
ہیں ، نیز احادیث میں انگلیوں کے چاٹنے کا حکم بھی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما حضور ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں :
«إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلاَ
يَمْسَحْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا» [بخاری 5456 مسلم 2032]
ترجمہ : جب تم میں سے کوئی آدمی کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ صاف نہ کرے جب تک کہ اسے خود چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے کو چٹا نہ دے ۔
(۲) رومال سے پونچھنا :
اوپر احادیث میں (مسح
) کی بات گذرچکی ،کہ ہاتھ چاٹنے سے پہلے پونچھنے نہیں چاہئیں ، جس سے معلوم ہوا کہ
پونچھنا دوسرے نمبر پر ہونا چاہئیے ۔
محدثین حضرات نے بھی (مندیل ) کے نام سے ابواب منعقد کئے
ہیں :
بخاری (7/82) باب المندیل
ابوداود (3/366) باب فی المندیل بعد الطعام
دارمی (2/1289) باب فی المندیل عند الطعام
صحیح ابن حبان
(3/437) ذِكْرُ إِبَاحَةِ اقْتِصَارِ
الْمَرْءِ عَلَى مَسْحِ الْيَدِ بِشَيْءٍ مَعَهُ مِنَ الْغَمَرِ دُونَ غَسْلِ
الْيَدَيْنِ مِنْهُ عِنْدَ الْقِيَامِ إِلَى الصَّلَاةِ
تنبیہ : امام قفال مروزی نے محاسن شریعت نامی کتاب میں
تحریر فرمایا ہے کہ : مندیل سے مراد وہ رومال ہے جو کھانے کے بعد ہاتھوں کی تری
اور چکناہٹ وغیرہ دور اور صاف کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ( جیسے ہمارے یہاں
تولیہ،دستی رومال،اور ٹشو معتاد ہے ) رومال سے یہاں غسل ووضوء کے پانی کو صاف کرنے
والا مراد نہیں ہے ، کیونکہ یہ عام استعمال میں ہے ، اور تری وغیرہ کی بو اور داغ اس پر رہے گا جس سے پاس رکھنے اور سر پر باندھنے کی منفعت متاثر ہوگی ، اس کے لئے
الگ کپڑا یا رومال ہی موزوں ہے ۔
حدیث میں کھانے کے
بعد ہاتھ پونچھنے اور رومال استعمال کرنے کا جو جواز مذکور ہے ، اس میں اتنی بات
ضرور ہے کہ پہلے چاٹ لیا جائے ، تاکہ کھانے کا کوئی جزو اور ذرہ ضائع نہ ہو ، اور
نعمت کی ناقدری نہ ہو ۔ ( انعام المعبود شرح ابی داود ص 190) ۔
(۳) پانی سے دھونا :
حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"أَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى
اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتِفًا، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِمِسْحٍ كَانَ تَحْتَهُ،
ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى"
ترجمہ : سرکار دو عالم ﷺ نے بکری کے شانہ
کا گوشت کھایا ، پھر اپنا ہاتھ ٹاٹ سے پونچھ لیا جو آپ کے نیچے بچھا ہوا تھا ، اور
پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھ لی ۔
اس حدیث سے علماء نے
یہ استنباط کیا ہے کہ : کھانا کھانے کے بعد اگر منہ ہاتھ پر چکنائی وغیرہ لگے تو
ان کا دھونا ضروری نہیں ہے ۔ ( مظاہر حق 1/288، شرح ابی داود للعینی 1/442)۔
قال في "مرقاة
المفاتيح" (1/ 368) : وَفِيهِ:
أَنَّهُ لَا كَرَاهَةَ فِي عَدَمِ غَسْلِ الْيَدِ مِنَ الطَّعَامِ ، لَكِنْ
بِشَرْطِ أَنْ يُزَالَ مَا فِيهَا مِنْ أَثَرِهِ بِالْمَسْحِ.
وفي
"فتح الباري" (9/ 579) : قَالَ عِيَاضٌ : مَحِلُّهُ فِيمَا لَمْ
يَحْتَجْ فِيهِ إِلَى الْغَسْلِ مِمَّا لَيْسَ فِيهِ غَمْرٌ وَلُزُوجَةٌ ، مِمَّا
لَا يُذْهِبُهُ إِلَّا الْغَسْلُ ، لِمَا جَاءَ فِي الْحَدِيثِ مِنَ التَّرْغِيبِ
فِي غَسْلِهِ وَالْحَذَرِ مِنْ تَرْكِهِ .
مقصد یہ ہے کہ : ہاتھ
چاٹنے کے بعد اس میں کھانے کی کچھ تری اور چکنائی باقی ہو ، جس کا رومال سے پونچھ
لینا کافی ہو ، تو اس پر اکتفا کرے ، ورنہ پھر پانی سے دھونا ضروری ہے ، اس لئے کہ
حدیث میں اس کی ترغیب آئی ہے ، اور چکنائی کو باقی رکھنے سے خبردار کیا گیا ہے ۔
قاضی عیاض کا اشارہ
اس حدیث کی طرف ہے :
" مَنْ بَاتَ
وَفِي يَدِهِ غَمْرٌ وَلَمْ يَغْسِلْهُ فَأَصَابَهُ شَيْءٌ فَلَا يَلُومَنَ إِلَّا
نَفْسَهُ " . أخرجه أبو داود .
ترجمہ : جس نے رات گذاری اس حال میں کہ اس کے ہاتھ میں
چکناہٹ کی بو تھی ، پس اس کو کوئی چیز پہنچی (یعنی کسی کیڑے نے کاٹ لیا ) تو وہ
ہرگز ملامت نہ کرے مگر اپنے نفس کو ، کیونکہ یہ اسی کی کوتاہی کا نتیجہ ہے ۔
حافظ ابن حجر فرماتے
ہیں کہ : ہاتھ چاٹنے کے بعد اس کو دھونا مستحب ہے ، کھانے کی رائحہ زائل کرنے کے
لئے ، اور اسی پر غسل کی حدیث محمول کی جائے گی ۔
حضرت مولانا سعید
صاحب پالنپوری فرماتے ہیں : اگر کھانے سے
ہاتھ ملوث ہوں تو کھانے کے بعد ان کو اچھی طرح دھولینا مستحب ہے ، اور اگر کوئی
کسی وجہ سے نہ دھوئے تو یہ گنوارپن کی بات ہے ، مگر کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ، مگر
اس حالت میں رات کو سونا ضرر کا سبب ہوسکتاہے ، کیڑوں کی قوتِ شامہ بہت تیز ہوتی
ہے ، وہ بو سونگھ کر آکر ہاتھ چاٹیں گے ، اور ہوسکتاہے کہ کاٹ لیں ، پس سونے سے
پہلے ہاتھ منھ اچھی طرح دھولینے چاہئیں ، تاکہ ہاتھوں پر چکناہٹ نہ رہے اور ضرر کا
کوئی اندیشہ باقی نہ رہے ۔(تحفۃ الالمعی
5/۱99)
وفي "نيل الأوطار" (8/ 190) : وَقَدْ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ تَخْصِيصُ غَسْلِ الْيَدِ
بِأَكْلِ اللَّحْمِ، فَأَخْرَجَ أَبُو يَعْلَى بِإِسْنَادٍ ضَعِيفٍ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ
عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ:
«مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ اللُّحُومِ شَيْئًا فَلْيَغْسِلْ يَدَهُ مِنْ رِيحِ وَضَرِهِ»
۔
الحاصل : ہاتھ دھونے
کو بعض حضرات نے زیادہ چکنائی لگنے یا بو زائل کرنے کے ساتھ مقید کیا ، اور بعض نے
رات کو سونے سے پہلے، یا گوشت کھانے کے ساتھ خصوصا مقید کیا ہے ۔ مگر عموما ہاتھوں
کو اچھی طرح سے صاف کرنا جہاں تک ممکن ہو ، وہ مطلوب ہے ۔
(۴) بدن کےبعض حصوں (ہاتھ،کلائی،تلوے) سےملنا :
یہ جزئیہ سائل کےسوال میں اصلامقصودہے ۔ اس سلسلہ میں
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث مشہور ہے کہ : ان سے آگ پر پکایا ہوا کھانا کھانے
کے بعد وضوء کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا :
لَا، قَدْ كُنَّا زَمَانَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ لَا نَجِدُ مِثْلَ ذَلِكَ مِنَ الطَّعَامِ إِلَّا قَلِيلًا، فَإِذَا
نَحْنُ وَجَدْنَاهُ، لَمْ يَكُنْ لَنَا مَنَادِيلُ إِلَّا أَكُفَّنَا وَسَوَاعِدَنَا
وَأَقْدَامَنَا، ثُمَّ نُصَلِّي وَلَا نَتَوَضَّأُ. [بخاري 5457 ] ونحوه في [ ابن
ماجه 3282 ] .
ترجمہ : نہیں
،ہم لوگوں کو رسول اللہ ﷺ
کے زمانہ میں بہت کم کھانا نصیب ہوتا تھا ،اور ہم لوگوں کو جب کھانا ملتا تو ہمارے
پاؤں، بازو ،اور
ہتھیلیوں کے سوا کوئی رومال نہ ہوتے تھے (ہم لوگ اپنے جسم کے ان ہی حصوں سے پونچھ
لیتے تھے) پھر ہم لوگ نماز پڑھتے لیکن وضو نہیں کرتے تھے۔
اس روایت میں تین باتیں قابل لحاظ ہیں :
پہلی : پکا ہوا کھانا
جس میں چکناہٹ ہو ، ایسا کھانا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہت کم میسر
ہوتا تھا ، عموما سوکھی چیز کھجور وغیرہ ہی میسر تھی ، اس لئے ہاتھ صاف کرنے کی
نوبت کم آتی تھی ۔
دوسری : پکا ہوا
کھانے کے بعد اس کی تری وچکنائی صاف کرنے کے لئے بھی ان حضرات کو ہر وقت اور ہر
ایک کو رومال میسر نہیں ہوتا تھا ، فقر وغربت کی وجہ سے ، اگر ہوتا تو اس سے پونچھ
لیتے تھے ۔
تیسری : صحابہ کرام
میں سے بعض حضرات ہاتھ پر لگی ہوئی چکناہٹ کو صاف کرنے کے لئے جسم کے بعض حصوں پر
مل لیتے تھے ، جیسے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سے ، بازو اور اقدام کے تلوؤں سے ۔ یہ
صرف رومال نہ ہونے کی صورت میں کیا جاتاتھا۔
البتہ خود حضور ﷺ کے عمل سے اس
طرح سے جسم پر ملنا ثابت نہیں ہے ، اسی لئے امام غزالی نے (احیاء) میں جب یہ روایت
پیش کی : (كان مِنديلُه باطنَ قَدَمه) :
تو امام عراقی نے تخریج میں کہا : لا أعرفه
من فعله ، وإنما المعروف فيه ما رواه ابن ماجه من حديث جابر : كنا زمن رسول الله -
صلّى الله عليه وسلم - قليلا ما نجد الطعام ، فإذا وجدناه لم تكن لنا مناديل إلا أكفّنا
وسواعدنا .
جسم پر ملنے کا عمل حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے زیادہ مشہور اور متعدد روایات سے منقول ہے ، ذیل میں ملاحظہ
فرمائیں :
ہاتھوں سے ملنا :
34474 –
عن ابن عمر قال : كان عمر بن الخطاب يؤتى بخبزه ولحمه ولبنه وزيته وبقله وخله ، فيأكل
ثم يمص أصابعه ، ويقول هكذا فيمسح يديه بيديه ويقول : هذه مناديل آل عمر۔ [ المصنف
في الأحاديث والآثار 7 / 97 ]
قدموں سے ملنا :
3690 – عن السائب بن يزيد قال : ربما تعشيت عند عمر
بن الخطاب فيأكل الخبز واللحم ثم يمسح يده على قدمه ، ثم يقول : هذا منديل عمر وآل
عمر.[ الطبقات الكبرى – طبقات البدريين ]
جوتے سے ملنا :
3689 – عن عاصم بن عبيد
الله بن عاصم : أن عمر كان يمسح بنعليه ويقول : إن مناديل آل عمر نعالهم.[ الطبقات الكبرى لابن سعد 3/318 ] ۔
أَنَّ عُمَرَ كَانَ يَمْسَحُ يَدَيْهِ- وَقَدْ أَكَلَ لَحْمًا- بِرِجْلَيْهِ
وَنَعْلَيْهِ وَيَقُولُ: إِنَّ مَنَادِيلَ آلِ عُمَرَ نِعَالُهُمْ. [ جمل من أنساب الأشراف 10 / 399 ]
(۵) مٹی اور کنکریوں سے ملنا :
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الْجَزْءِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ:
«أَكَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فِي الْمَسْجِدِ،
لَحْمًا قَدْ شُوِيَ، فَمَسَحْنَا أَيْدِيَنَا بِالْحَصْبَاءِ، ثُمَّ قُمْنَا نُصَلِّي،
وَلَمْ نَتَوَضَّأْ» [سنن ابن ماجه 2/ 1100]
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء ؓ کہتے ہیں کہ
(ایک دن ) رسول کریم ﷺ کی خدمت میں روٹی اور گوشت (پر مشتمل کھانا ) لایا گیا جب
کہ آپ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے چنانچہ (اس کھانے کو) آنحضرت ﷺ نے بھی کھایا اور
آنحضرت ﷺ کے ہمراہ ہم نے بھی کھایا، پھر کھڑے ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے نماز پڑھی ، آپ
ﷺ کے ساتھ ہم نے بھی نماز ادا کی اور اس سے زیادہ ہم نے کچھ نہیں کیا کہ (کھانے سے
فارغ ہونے کے بعد) اپنے ہاتھوں کو ان کنکریوں سے پونچھ ڈالا تھا جو مسجد میں تھیں ۔
قال في "المرقاة" : ( وَلَمْ نَزِدْ عَلَى أَنْ مَسَحْنَا أَيْدِيَنَا بِالْحَصْبَاءِ
) : مَمْدُودًا أَيْ بِالْحِجَارَاتِ الصِّغَارِ اسْتِعْجَالًا لِلصَّلَاةِ، أَوْ بَيَانًا
لِلْجَوَازِ، وَإِشْعَارًا بِعَدَمِ التَّكَلُّفِ وَالمُبالَغَةِ فِي التَّنْظِيفِ.[ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
7/ 2716]
مطلب یہ ہے کہ :کھانا کھانے کے بعد ہم نے
اپنے ہاتھوں کو پانی سے دھویا نہیں،
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کھانے میں چکنائی نہیں تھی ،یا یہ کہ نماز کے لئے
ہمیں جلدی تھی،
اور یا اس کا سبب یہ تھا کہ ہم نے تکلف کو ترک کر کے رخصت (آسانی ) پر عمل کرنا چاہا تھا، کیوں کہ غیر واجب امور
میں کبھی کبھی رخصت پر عمل کر لینا بھی حق تعالیٰ کے نزدیک اسی طرح پسندیدہ ہے جس طرح وہ اکثر عزیمت پر عمل کرنے کو محبوب رکھتا ہے ۔
خلاصہ : ہاتھوں
پر لگی ہوئی تری یا چکناہٹ کا جسم کے مختلف حصوں سے صفائی کی غرض سے ملنا ، یہ
حضور ﷺکے عمل سے ثابت نہیں ، ہاں صحابہ کرام نے اس طرح کیا ہے رومال نہ ہونے کی صورت
میں ، یا معمولی چکنائی صاف کرنے کے لئے ،یا من باب ترک التکلف ۔اصل تو ہاتھوں کو اچھی طرح پانی صابن سے دھوکر
صاف کرنا چاہئے ، یہی زیادہ پسندیدہ ہے ، اس لئے بعض روایات میں ہے :
" بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ»
" رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَأَبُو دَاوُدَ.وضوء سے یہاں ہاتھ دھونا مراد ہے ۔
سوال میں ہاتھوں کو چہرے پر ملنے کی جو بات ہے ، وہ کسی روایت میں وارد نہیں ہے ، اور شاید ایسا کرنا فطرت سلیمہ کے خلاف بھی ہے ، واللہ اعلم
جمعه ورتبه العبد المذنب محمد طلحة بلال أحمد منيار
جمعه ورتبه العبد المذنب محمد طلحة بلال أحمد منيار
کھانا کھاتے وقت روٹی سے انگلیوں کو صاف کرنا اور پھر روٹی کھا لینا یا نا کھانا غلط ہے یہ نہیں ۔میں نے ایک عالیم کو دیکھا تو اس نے روٹی سے صاف کیا اور روٹی کو دسترخوان پے رکھ لیا
ReplyDelete