دعاء انس رضی اللہ عنہ کی تحقیق
یہ
دعا مشہور صحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، آپ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں ، آپ نے دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے
۔
دعا کا واقعہ یہ ہےکہ:
ایک دن حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف ثقفی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، حجاج نے اپنے اصطبل خانہ کے گھوڑوں کا معاینہ کرواکر تفاخرا
ً حضرت انس سے دریافت کیا کہ : کیا حضور ﷺ کےیہاں بھی ایسے گھوڑے تھے ؟ حضرت انس
رضی اللہ عنہ نے کہا : حضور ﷺ کے گھوڑے تو جہاد کے لئے تھے ، فخر وغرور ونمائش کے
لئے نہیں تھے۔
اس جواب پر حجاج آپ پر غضب ناک ہوگیا
۔ اور اس نے کہاکہ: اے انس اگر تو نے پیغمبر خدا ﷺ کی خدمت نہ کی ہوتی اور امیر المومنین
عبدالملک بن مروان کا خط تمہاری سفارش میں نہ آیا ہوتا کہ اس نے تمہارے ساتھ رعایت
کرنے کے بارے میں لکھا ہے ،تو
میں تمہارے ساتھ وہ کچھ کرتا جو میرا دل چاہتا ۔
حضرت
انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ! نہیں اللہ کی قسم تو ہرگز میرے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا
،اور میری جانب بری آنکھ سے
نہیں دیکھ سکتا ۔بلاشبہ میں نے رسول
ﷺ سے چند کلمات کو سن رکھا ہے ، میں ہمیشہ ان کلمات کی پناہ میں رہتا ہوں اور ان کلمات
کے طفیل میں کسی بادشاہ کے غلبہ اور شیطان کی برائی سے نہیں ڈرتا ۔
حجاج
یہ سن کر ہیبت زدہ ہوگیا اور ایک ساعت کے بعد سر اٹھا کر کہا :اے ابو حمزہ وہ کلمات
مجھے سکھا دو ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ: نہیں میں ہرگز وہ کلمات تمہیں نہیں
سکھاؤں گا کیوں کہ تم اس کے اہل نہیں ہو ۔
جب
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ کے خادم حضرت ابان رضی اللہ
عنہ کے استفسار پر آپ نے ان کو یہ کلمات سکھائے ۔اور کہا کہ انہیں صبح و شام پڑھا
کر اللہ تعالیٰ تجھے ہر آفت سے حفاظت میں رکھے گا ۔
دعاء کے کلمات مختلف کتابوں میں کمی بیشی کے ساتھ اس طرح ہیں :
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ ،
بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِي وَمَالِي ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ أَعْطَانِي رَبِّي ،
بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ ، بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ ،
بِسْمِ اللَّهِ افْتَتَحْتُ، وَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ ،
اللَّهُ اللَّهُ رَبِّي، لَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا ،
أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ، الَّذِي لَا
يُعْطِيهُ أَحَدٌ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ
غَيْرُكَ ،
اجْعَلْنِي فِي عِيَاذِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ، وَمِنْ
كُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ ، وَمِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ،
إِنَّ وَلِيَّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ، وَهُوَ
يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ: حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلهَ
إِلَّا هُوَ، عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
اللّٰهم إني أستَجيرُك مِنْ شَرِّ جَمِيعِ كُلِّ ذِي شَرٍّ خَلَقْتَهُ،
وَأَحْتَرِزُ بِكَ مِنْهُمْ ،
وَأُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيَّ : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ
يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ}، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلَ ذَلِكَ،
وَعَنْ يَمِينِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ فَوْقِي
مِثْلَ ذَلِكَ ، وَمِنْ تَحْتِي مِثْلَ ذَلِكَ ،
وَصَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ.
واقعہ کی تخریج :
عمل
اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)،الدعاء للطبراني (ص: 323)، الفوائد المنتقاة لابن
السماك (ص: 27)،المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (6/ 339)، تاريخ دمشق لابن عساكر
(52/ 259) ، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358)الخصائص الكبرى (2/ 298) ، سبل الهدى
والرشاد في سيرة خير العباد (10/ 228)
واقعہ کی اسانید :
۱۔ أبان بن أبي عياش ، عن أنس بن مالك رضي الله
عنه ۔
عمل اليوم والليلة لابن السني (ص: 307)، تاريخ دمشق لابن عساكر (52/ 259) الخصائص الكبرى (2/ 298) ، سبل الهدى والرشاد في
سيرة خير العباد (10/ 228)۔
2۔ مُحَمَّدُ بْنُ سَهْل بن عُمَيرٍ القصَّارُ، عن أبِيهِ ، عَن أَنَس
بْنِ مَالِكٍ
(الدعاء للطبراني ص:
323) ، مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 358) ، المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ( 6/
339)
3- يَحْيَى بْنُ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ أَبِي أَسْمَاءَ،
عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ
(الثاني من الفوائد المنتقاة
لابن السماك ص: 27)
4- عبد الملك بن خصاف الجزري ، عن خصيف بن عبد الرحمن الجزري ، عن
أنس
شرف المصطفى للخركوشي
5/7
5- علاء بن زيد الثقفي ، عن أنس
مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 359) بدون سند .
مجموع رسائل الحافظ العلائي (ص: 359) بدون سند .
اسانید کا حال :
ابان بن ابی عیاش تو متروک ہے ، تو اس کی روایت اگر تفرد ہو توشدید الضعف ہوگی،
لیکن بقیہ اسانید کے راویوں کی متابعت کی وجہ سے ضعف میں تخفیف ہوگی ۔ بقیہ اسانید وطرق سے نا واقفیت کی بناء
پر بعض حضرات نے اس روایت کو باطل قرار دیا ، جو صحیح نہیں ہے ۔
محمد بن سہل بن عمیر قصار کی توثیق مسلمۃ بن قاسم سے زین الدین قاسم بن
قطلوبغا نے کتاب (الثقات ۸/۳۲۹) میں نقل کی ہے ، البتہ ان کے والد کا حال معلوم
نہیں ھے ۔
یحیی بن عباد، اس کےباپ دادا کا بھی حال معلوم نہیں ہے ، کتابوں میں ترجمہ
نہیں ملا ، توسند میں مجاہیل کی وجہ سے ضعیف
مانی جائے گی ۔
چوتھی سند کا حال ٹھیک ہے ،کسی راوی میں جرح شدیدنہیں ہے ، تو اس کا اعتبار
کرسکتے ہیں ۔
پانچویں سند بھی غیر معتبر ہے ، علاء بن زید متروک منکر الحدیث ہے ۔
پانچویں سند بھی غیر معتبر ہے ، علاء بن زید متروک منکر الحدیث ہے ۔
متن حدیث کے شواہد :
ظالم حاکم سے اندیشہ کے وقت پڑھنے کی جو
دعائیں وارد ہیں ، ان میں اس طرح کے الفاظ منقول ہیں ، جو زیر بحث روایت کی تایید
کرسکتے ہیں ،مثال کے طور پر :
* حديث عبد الله بن مسعود : «إِذَا تَخَوَّفَ أَحَدُكُمُ السُّلْطَانَ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ رَبَّ
السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، كُنْ لِي جَارًا مِنْ
شَرِّ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ " - يَعْنِي الَّذِي يُرِيدُ - " وَشَرِّ
الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، وَأَتْبَاعِهِمْ أَنْ يُفْرُطَ عَلَيَّ أَحَدٌ مِنْهُمْ،
عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ»
رواه ابن أبي شيبة، والطبراني في
الدعاء 1056، والبخاري في الأدب. 707 وهو شاهد لا بأس
به إلا أنه روي مرفوعا وموقوفا.
* حديث ابن عمر:
إِذَا خِفْتَ سُلْطَانًا أَوْ
غَيْرَهُ، فَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ
رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا
أَنْتَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ۔
رواه ابن السني في عمل اليوم والليلة
(345) وهو شاهد ضعيف.
* حديث ابن عباس : إِذَا أَتَيْتَ
سُلْطَانًا مَهِيبًا تَخَافُ أَنْ يَسْطُوَ بِكَ فَقُلِ: اللَّهُ أَكْبَرُ،
اللَّهُ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِهِ جَمِيعًا، اللَّهُ أَعَزُّ مِمَّا أَخَافُ وَأَحْذَرُ،
وَأَعُوذُ بِاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمُمْسِكِ السَّمَاوَاتِ
السَّبْعِ أَنْ يَقَعْنَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ، مِنْ شَرِّ عَبْدِكَ
فُلَانٍ، وَجُنُودِهِ، وَأَتْبَاعِهِ، وَأَشْيَاعِهِ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ،
إِلَهِي كُنْ لِي جَارًا مِنْ شَرِّهِمْ، جَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَعَزَّ جَارُكَ،
وَتَبَارَكَ اسْمُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ (ثَلَاثُ مَرَّاتٍ).
رواه البخاري في الأدب المفرد 708 وابن أبي شيبة 29177 والطبراني في الدعاء 1060. وهو شاهد لا بأس به،
رجاله رجال الصحيح.
اسی طرح (بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِي وَدِينِي، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى
أَهْلِي وَمَالِي ) معرفۃ الصحابہ لأبی
نعيم (1/ 438) میں بدر بن عبد اللہ مزنی رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہیں ۔
(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ) التحیات کی روایات میں حضرت عمر کی روایت سے منقول ہیں ، السنن
الكبرى للبيهقي (2/ 203)۔
(بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ بسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا
يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ) مصنف ابن ابی شيبہ(5/
138)میں حديث24500.
خلاصہ :
دعاء انس صحیح ہے ، اس کے پڑھنے کی اجازت ہے
، متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جن پر شرعا کوئی گرفت ہو ، اس کی اسانید میں
اگرچہ ضعف ہے ، لیکن تعدد طرق سے ضعف کا انجبار ہوجائے گا ، اور اس کے الفاظ کے شواہد
بھی احادیث میں وارد ہیں ۔
ھذا ما تیسر جمعہ وترتیبہ ، والعلم عند اللہ
جزاكم الله احسن الجزاء.....خلاصة رائعة و عادلة
ReplyDeleteماشااللہ بہت ہی خوبصورت
Deleteماشاءاللہ بہت اچھے
ReplyDeleteتحقیق پسندآئی
ReplyDeleteجزاك الله تعالى خيرا آپ کی تحقیق درست .. دعاکے الفاظنہایت پسندیدہ ہیں
ReplyDeleteجزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین
ReplyDelete
ReplyDeleteجزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء فی الدارین
ما شاءاللہ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرماے
ReplyDeleteماشاء اللّٰہ
ReplyDeleteچھوتی سند کیسے ٹھیک ہے، جبکہ اس میں لیث بن الجنیۃ مجہول ہے؟؟؟
ReplyDeleteجزاک اللہ خیرا.
ReplyDelete