رمضان أوله رحمة ... ، مشہور حدیث کی تحقیق
بسم الله الرحمن الرحیم
حدیث : ( رَمَضَان : اَوَّلُہُ رَحْمَة وَاَوْسَطُہُ مَغْفِرَة وَآخِرَہُ عِتْقٌ مِّنَ النَّار ) کے متعلق بعض حضرات کافی سخت الفاظ استعمال کرکے اس روایت کو ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، اورچونکہ یہ حدیث برصغیر کے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں تحریر کررکھی ہے، اس وجہ سے بعض حضرات ان کو تنقید کا نشانہ بناکر شدید نکیر کرتے ہیں ۔
تو
معلوم کرنا تھا یہ حدیث کس درجہ کی ہے ، اور بیان کے قابل ہے یا نہیں ؟
الجواب باسم ملہم الصواب :
یہ حدیث حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی روایت سے مشہور
ہے ، ان سے متعدد اسانید سے وارد ہے ،چند اسانید ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ عن علي بن حُجر
السَّعدي المروزي ، حدثنا يوسف بن زياد ، حدثنا همام بن يحيى ، عن علي بن زيد بن
جدعان ، عن سعيد بن المسيب ، عن سلمان به.
تخریجہ :
أخرجه بهذا الإسناد ابن خزيمة في "صحيحه" (1887) وابن أبي الدنيا في "فضائل رمضان" (41) وابن شاهين في "فضائل
شهر رمضان" (16) والبيهقي في "فضائل الأوقات" (37 و38) وفي "الشعب"
(3336) وغيرهم ۔
اسناد کا حال :
إسناده واه ، فيه يوسف بن زياد ، هو أبو عبد الله البصري . قال البخاري وأبو حاتم والساجي:
منكر الحديث، وقال النسائي: ليس بثقة، وقال ابن حجر : يوسف ضعيف جدا
، كما في "كنز العمال"
(8/ 477) . وذكره العقيلي وابن حبان في
"الضعفاء".وفيه علي بن زيد ، وسيأتي الكلام عليه .
۲۔ عبد الله بن بكرالسَّهمي، عن
إياس بن
أبي إياس ، عن علي بن زَيد ، عن سعيد بن المسيب
،عن سلمان .
تخریجہ :
أخرجه
الحارث في "مسنده" كما في "زوائده"ص112والعقيلي
في "الضعفاء" 1/ 35 وابن أبي حاتم في "علل الحديث" 1/249 ۔
وأخرجه
البيهقي في "شعب الإيمان"
(5/ 223) برقم 3336 فسماه (إياس بن عبد الغفار ).
اسناد کا حال :
قال العقيلي في ترجمة إياس : "مجهول وحديثه غير محفوظ". اهـ.
وقال
الذهبي في " الميزان " (1/282) : إِيَاس بن أبي إِيَاس عَن سعيد
بن الْمسيب لَا يعرف ، وَالْخَبَر مُنكر.
وقال
أبو حاتم في "العلل" 1/249- وقد سأله ابنه عن هذا الحديث - : هذا حديث منكر
غلط فيه عبد الله بن بكر، إنما هو (أبان بن أبي عياش) فجعل عبد الله بن بكر: "أبان"
: "إياس".
3-
يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْعَطَّار ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ سَلْم، عَنْ عَلِيِّ بْنِ
زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ
.
تخریجہ :
أخرجه ابن شاهين في "فضائل شهر رمضان" (15) ۔
اسناد کا حال :
إسناده واه أيضاً، يحيى بن سعيد
العطار قال فيه ابن معين : ليس بشيء ، وقال
العقيلي والجوزجاني :منكر الحديث ، وضعفه ابن حبان .
4-
سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ثَوَابٍ، ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْجُدْعَانِيُّ
القُرشي أبو وهب ، ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ
...
تخریجہ :
أخرجه
المحاملي في "الأمالي" (ص:
286) وابن عدي في "الكامل" (6/512) وابن الشجري كما في "ترتيب الأمالي
الخميسية" (2/ 16) ، وقال : حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ
وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ...إلخ فزاد متابعة قتادة
لعلي بن زيد .
اسناد کا حال :
عبد
العزيز القرشي تكلم فيه ابن عدي. وقال: هو القرشي البصري، ثم ساق له هذا الحديث ، وقال
: عامة ما يرويه لا يتابعه عليه الثقات.( الكامل 6/512 ، ميزان الاعتدال 2/630).
خلاصہ حال اسانید :
جیساکہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث کی کوئی بھی سند ضعیف راویوں
سے خالی نہیں ہے ، مزید بر آں کہ مذکورہ تمام اسانید کا دار ومدار (علی بن زید بن
جدعان ) پر ہے ،جس کے بارے میں نقاد حدیث کا موقف مختلف ہے ، بعضوں
نے اس پر جرح
کی ہے، اور یہاں پر اس کا تفرد بھی پایا جارہا ہے ، مگر بعض محدثین نے اس
کی توثیق بھی کی ہے، اور اس کی بعض روایتوں کی تصحیح یا کم از کم تحسین کی ہے:
امام ترمذی ایک جگہ فرماتے ہیں :حدیث حسن صحیح۔ ذھبی "تلخیص المستدرک" (8543) میں لکھتے ہیں :ابن جدعان "صالح الحديث"،
اور (8699) میں لکھتے ہیں :"اسناده قوى"۔
علامہ ابن الملقن لکھتے ہیں: "وہو حسن الحديث". (تحفۃ
المحتاج)۔
خلاصۂ حال حدیث :
محدثین کی ایک جماعت نے حدیث کی سند میں کمزوری کی وجہ سے ضعیف
کہا ہے، بلکہ بعض علماء نے ضعیف راوی کے تفردکی بناء پر منکر تک کہا ہے،چند احکام ملاحظہ فرمائیں :
ابو حاتم رازی نے "العلل"
میں کہا : (هذا
حديث منكر).
عقيلی نے "الضعفاء
الكبير" میں فرمایا : (قد
رُوي من غير وجهٍ، ليس له طريقٌ ثبتٌ بيّن).
ابن
خزيمہ نے"صحيح"
میں تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے : (إن
صحّ الخبر).
ابن عدی نے روایت پیش کرنے کے بعدراوی کے بارے میں کہا : عامة ما يرويه
لا يتابعه عليه الثقات ۔
ابن
حجر "اتحاف المهرة" میں
تحریر فرماتے ہیں : (مَدارُه على
علي بن زيد، وهو ضعيفٌ).
مگر روایت چونکہ فضائل سے متعلق ہے ، اس لئےمحدثین کی ایک
جماعت جنہوں نے فضائل پرمشتمل احادیث کی کتابیں مرتب کی ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب میں اس روایت کو جگہ دی
ہے ۔ان حضرات کی متابعت میں حضرت شیخ الحدیث صاحب نے بھی رسالہ "فضائل رمضان" میں
تحریر کر رکھی ہے ۔
چنانچہ امام ابوبکر بغدادی (جو ابن ابی الدنیا کے نام سے معروف
ہیں ) (۲۸۱ﮪـ) نے اپنی مشہور کتاب (فضائل رمضان)میں، ابن شاہین بغدادی
(۳۸۵ﮪـ)نے اپنی کتاب(فضائل شہررمضان)میں،مشہورمحدث امام بیہقی(۴۵۸ﮪـ)نےان کی مشہور کتاب (شعب الایمان ۳۳۳۶ اورفضائل اوقات۳۷)
میں، امام ابوالقاسم اصبہانی (۴۵۷ﮪـ)نے اپنی مشہور
کتاب (الترغیب والترہیب ۱۷۵۳) میں ، اسی طرح امام منذری(۶۵۶ﮪـ)نے (الترغيب والترهيب
2/ 57) میں اس حدیث کو( عن سلمان رضی الله
عنہ )کہہ کر نقل کیا ہے.یہ ان کے نزدیک حدیث کےصحیح یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے. لہذا اس روایت کو بالکل ساقط الاعتبار قرار دینا درست نہیں ہے۔
جہاں
تک رمضان کے مبارک مہینہ میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے، بندوں کے گناہوں
کی مغفرت اور جہنم سے چھٹکارے کا تعلق ہے، تو یہ تینوں فضیلتیں احادیث صحیحہ سے ثابت
ہیں، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لیکن رمضان کے تین عشروں میں سے ہر عشرہ کی
خصوصی اہمیت وفضیلت بھی ہے ، تو اس سلسلہ میں مذکورہ بالا حدیث سے یہ رہنمائی ملتی
ہے، اگرچہ ماہ رمضان کا ایک ایک لمحہ ان تینوں فضیلتوں کو شامل ہے۔
جی ہاں ہر
عشرہ کی خصوصی فضیلت جس کا اس حدیث میں ذکر ہوا ہے، اس سے کوئی شخص اختلاف تو کرسکتا
ہے لیکن اس روایت کے ذکر کرنے والے پر سخت الفاظ استعمال کرکے فتوی لگانا جائز نہیں
ہے ،کیونکہ بہرحال بڑے بڑے محدثین نے فضائل پر مشتمل ہونے کی وجہ سے مذکورہ حدیث کو
تسلیم کیا ہے۔
بیان کرسکتے ہیں ؟
اگر
کوئی شخص اس روایت کو صحیح نہیں سمجھتا ہے تو وہ اپنے بیانات اور کتابوں میں ذکر نہ
کرے، لیکن اپنی رائے اور فیصلہ کو آخری فیصلہ سمجھ کر دوسروں پر تھوپنا صحیح نہیں ہے۔اور دوسری جانب جو حضرات البانی کی تضعیف کو مردود قرار
دیتے ہیں ، ان کا موقف بھی غیر منصفانہ ہے ، چونکہ البانی اپنی رائے میں متفرد
نہیں ہیں ، جیساکہ اوپر تفصیلا گذرچکاہے ۔
جمعہ ورتبہ العاجز :محمد طلحہ بلال احمد منيار
مولانا یوسف کاندھلویؒ نے ایک بیان میں یہ حدیث بیان کیا تھا
ReplyDelete"
حضور ﷺ کی ایک حدیث کا مضمون ہے کہ
قیامت میں ایک آدمی لائا جائے گا جس نے دنیا میں نماز ، روزہ ، حج ، تبلیغ سب کچھ کیا ہو گا ، مگر وہ عذاب میں ڈالا جائے گا -
کیوںکہ اسکی کسی بات نے امت میں تفریق ڈالی ہو گی - اس سے کہا جائے گا پہلے اپنے اس ایک لفظ کی سزا بھگت لے ،
جسکی وجہ سے امت کو نقصان پہنچا
اور ایک دوسرا آدمی ہو گا جسے پاس نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کی کمی ہو گی اور وہ خدا کے عذاب سے بہت ڈرتا ہو گا
مگر اس کو بہت ثواب سے نوازا جائے گا - وہ خود پوچھے گا یہ کرم میرے کس عمل کی وجہ سے ہے
اسکو بتایا جائے گا تو نے فلاں موقعے پر ایک بات کہی تھی جس سے امت میں پیدا ہونے والا ایک فساد رک گیا
اور بجائے توڑ کے جوڑ پیدا ہو گیا
یہ سب تیرے اسی لفظ کا صلہ اور ثواب ہے
"
سوال یہ ہے حضرت
کہ اس حدیث کی تخریج چاہیے کہ اس کا مآخذ کیا ہے ؟
اور
اس کے رواۃ اور سند کی صحت کیا ہے
اگر سند مل گیا اس کا بالفرض
(کیونکہ مجھے ابھی تک بہت اہل علم حضرات سے اس کے بارے میں پوچھنے کے باوجود
کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس کا مآخذ کیا ہے
لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا)
جزاک اللہ خیرا
سائل : شوکت علی فرام پاکستان
فضائل اعمال از شیخ زکریا کاندھلویؒ
ReplyDeleteکے مندرجہ ذیل احادیث کی صحت معلوم کرنی ہے
اور کہ ان کو بیان کرنا جائز ہے ؟
1.
377 - قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْخَطِيبُ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الْحَرَّانِيُّ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَعْنٍ، عَنْ جَعْفَرَ بْنِ مُحَمَّدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَاةُ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَحُبُّ الْمَلَائِكَةِ، وَسُنَّةُ الْأَنْبِيَاءِ، وَنُورُ الْمَعْرِفَةِ، وَأَصْلُ الْإِيمَانِ، وَإِجَابَةُ الدُّعَاءِ، وَقَبُولُ الْأَعْمَالِ، وَبَرَكَةٌ فِي الرِّزْقِ، وَرَاحَةٌ لِلْأَبْدَانِ، وَسِلَاحٌ عَلَى الْأَعْدَاءِ، وَكَرَاهِيَةٌ لِلشَّيْطَانِ , وَشَفِيعٌ بَيْنَ صَاحِبِهَا وَبَيْنَ مَلَكِ الْمَوْتِ، وَسِرَاجٌ فِي قَبْرِهِ، وَفِرَاشٌ تَحْتَ جَنْبِهِ، وَجَوَابٌ مَعَ مُنْكَرٍ وَنَكِيرٍ، وَمُؤْنِسٌ فِي قَبْرِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَإِذَا كَانَتِ الْقِيَامَةُ، صَارَتِ الصَّلَاةُ ظِلًّا فَوْقَهُ وَتَاجًا عَلَى رَأْسِهِ، وَلِبَاسًا عَلَى بَدَنِهِ، وَنُورًا يَسْعَى بَيْنَ يَدَيْهِ، وَسِتْرًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ، وَحُجَّةً لِلْمُؤْمِنِينَ بَيْنَ يَدَيِ الرَّبِّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَثِقَلًا فِي الْمَوَازِينِ، وَجَوَازًا عَلَى الصِّرَاطِ، وَمِفْتَاحًا لِلْجَنَّةِ، لِأَنَّ الصَّلَاةَ تَسْبِيحٌ وَتَحْمِيدٌ، وَتَقْدِيسٌ وَتَعْظِيمٌ وَقِرَاءَةٌ، وَدُعَاءٌ وَإِنَّ أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ كُلِّهَا الصَّلَاةُ لِوَقْتِهَا»
تنبیہ الغافلین
2.
ابو اللیث سمرقندیؒ نے قرۃ العیون میں حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے
کہ جو شخص ایک فرض نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے ، اسکا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے
اور اس کو اس میں جانا ضروری ہے
3.
حافظ ابنِ حجرؒ نے ’’مُنَبِّہات‘‘ میں حضرت عثمان غنی صسے نقل کیاہے کہ: جو شخص نماز کی مُحافَظت کرے، اوقات کی پابندی کے ساتھ اِس کا اِہتِمام کرے، حق تَعَالیٰ شَانُہٗ نوچیزوں کے ساتھ اُس کااِکرام فرماتے ہیں: اوَّل یہ کہ اُس کوخود محبوب رکھتے ہیں۔ دوسرے، تندرستی عطا فرماتے ہیں۔ تیسرے، فرشتے اُس کی حفاظت فرماتے ہیں۔ چوتھے، اُس کے گھر میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ پانچویں، اُس کے چہرے پرصُلَحا کے اَنوار ظاہرہوتے ہیں۔ چھٹے، اُس کا دل نرم فرماتے ہیں۔ ساتویں، وہ پل صراط پر بجلی کی طرح سے گزرجائے گا۔ آٹھویں، جہنَّم سے نجات فرمادیتے ہیں۔ نویں، جنت میں ایسے لوگوں کاپڑوس نصیب ہوگا جن کے بارے میں ﴿لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ الآیۃ وارد ہے، یعنی: قِیامت میں نہ اُن کو کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوںگے۔(منبہات، ص: ۷۳)
4.
حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ: نماز دِین کاستون ہے اور اِس میں دس خوبیاں ہیں: چہرے کی رونق ہے، دل کا نور ہے، بدن کی راحت اور تندرستی کا سبب ہے، قبر کا اُنس ہے، اللہ کی رحمت اُترنے کا ذریعہ ہے، آسمان کی کُنجی ہے، اعمال ناموں کی ترازو کا وَزن ہے (کہ اِس سے نیک اعمال کا پَلڑا بھاری ہوجاتا ہے)، اللہ کی رَضا کا سبب ہے، جنت کی قیمت ہے، اور دوزخ کی آڑ ہے؛ جس شخص نے اِس کوقائم کیا اُس نے دِین کوقائم رکھا، اور جس نے اِس کو چھوڑا اُس نے دِین کو گِرا دیا
5.
ایک حدیث میں ہے کہ، نماز شیطان کامنھ کالاکرتی ہے، اور صدقہ اُس کی کمرتوڑ دیتا ہے
This comment has been removed by the author.
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDelete
ReplyDeleteالسلام علیکم مدنرجہ ذیل حدیث کی تخریج اور سند درکار ہے ؟
اور اس کے رواۃ کا حال بھی ؟
مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَزْعُمُونَ أَنَّ رَحِمِي لَا يَنْتَفِعُ، بَلَى حَتَّى تَبْلُغَ حَكَمَ - وَهُمْ أَحَدُ قَبِيلَتَيْنِ مِنَ الْيَمَنِ - إِنِّي لَأَشْفَعُ فَأُشَفَّعُ، حَتَّى إِنَّ مَنْ أَشْفَعُ لَهُ لَيَشْفَعُ فَيُشَفَّعُ، حَتَّى إِنَّ إِبْلِيسَ لَيَتَطَاوَلُ طَمَعًا فِي الشَّفَاعَةِ
ReplyDeleteالسلام علیکم مدنرجہ ذیل حدیث کی سند درکار ہے ؟
اور اس کے رواۃ کا حال بھی ؟
أخرج الْحَكِيم التِّرْمِذِيّ عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم من ولي من أَمر أمتِي شَيْئا فحسنت سَرِيرَته رزق الهيبة من قُلُوبهم وَإِذا بسط يَده لَهُم بِالْمَعْرُوفِ رزق الْمحبَّة مِنْهُم وَإِذا وفر عَلَيْهِم أَمْوَالهم وفر الله عَلَيْهِ مَاله وَإِذا أنصف الضَّعِيف من الْقوي قوّى الله سُلْطَانه وَإِذا عدل مدَّ فِي عمره
ReplyDeleteالسلام علیکم مدنرجہ ذیل حدیث کی سند درکار ہے ؟
اور اس کے رواۃ کا حال بھی ؟
عن ابن عباس قال: يؤتى بالدنيا يوم القيامة في صورة عجوز شمطاء زرقاء، أنيابها بادية، مشوه خلقها، تشرف على الخلائق، فيقال: تعرفون هذه؟ فيقولون: نعوذ بالله من معرفة هذه، فيقال: هذه الدنيا التي تناحرتم عليها، بها تقاطعتم، وبها تحاسدتم، وتباغضتم واغتررتم ثم تقذف في جهنم، فتنادي: أي رب أين أتباعي وأشياعي؟ فيقول الله عز وجل: ألحقوا بها أتباعها وأشياعها. أبو سعيد ابن الأعرابي في الزهد
کنز العمال حدیث نمبر 8579
مندجہ ذیل احادیث کی حیثیت کیا صحت کے لحاظ سے
ReplyDeleteاور انکے رواۃ کا کیا حال ہے ؟
1.
ذكر حماد بن سلمة عن ثابت البناني وحجاج الأسود عن شهر بن حوشب قال إن الله جل ثناؤه يقول للملائكة: "إن عبادي كانوا يحبون الصوت الحسن في الدنيا فيدعونه من اجلي فاسمعوا عبادي فيأخذوا بأصوات من تهليل وتسبيح وتكبير لم يسمعوا بمثله قط"
2.
وقال عبد الله بن الإمام احمد في كتاب الزهد لأبيه حدثني علي بن مسلم الطوسي حدثني سيار حدثنا جعفر حدثنا مالك بن دينار: في قوله عز وجل: {وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ} قال يقيم الله سبحانه داود عند ساق العرش فيقول: "يا داود مجدني اليوم بذلك الصوت الحسن الرخيم فيقول الهي كيف أمجدك وقد سلبتنيه في دار الدنيا قال فيقول الله عز وجل فاني أرده عليك قال فيرده عليه فيزداد صوته قال فيستفرغ صوت داود نعيم أهل الجنة"
=========
ذكر ابن القيم في حادي الأرواح في الباب السابع الخمسون (في ذكر سماع الجنة وغناء):
3.
قال ابن أبي الدنيا حدثني دهثم بن الفضل القرشي حدثنا الأوزاعي قال: بلغني أنه ليس من خلق الله أحسن صوتا من إسرافيل فيأمره الله تبارك وتعالى فيأخذ في السماع فما يبقى ملك في السماوات إلا قطع عليه صلاته فيمكث بذلك ما شاء الله أن يمكث فيقول الله عز وجل: "وعزتي وجلالي لو يعلم العباد قدر عظمتي ما عبدوا غيري وحدثني داود بن عمر الضيبي حدثنا عبد الله ابن المبارك عن مالك بن أنس عن محمد بن المنكدر قال: إذا كان يوم القيامة نادى مناد أين الذين كانوا ينزهون أسماعهم وأنفسهم عن مجالس الله ومزامير الشيطان اسكنوهم رياض المسك ثم يقول للملائكة اسمعوهم تمجيدي وتحميدي"
4.
وقال ابن أبي الدنيا حدثني محمد بن الحسن حدثني عبد الله بن أبي بكر حدثنا جعفر بن سليمان عن مالك بن دينار في قوله عز وجل وان له عندنا لزلفى وحسن مآب قال اذا كان يوم القيامة أمر بمنبر رفيع فوضع في الجنة ثم نودي يا داود مجدني بذلك الصوت الحسن الرخيم الذي كنت تمجدني به في دار الدنيا قال فيستفرغ صوت داود نعيم أهل الجنان فذلك قوله تعالى: {فَغَفَرْنَا لَهُ ذَلِكَ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ}
==========
5.
أخرج أبو نعيم في صفة الجنة في باب: ذِكْرُ إِسْمَاعِ الرَّبِّ تَعَالَى كَلَامَ الْقُرْآنِ أَهْلَ الْجَنَّةِ وَاسْتِمَاعِهِمْ مِنْهُ تَعَالَى
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الطَّبَرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ شَرِيكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ الْبَكْرِيِّ، عَنْ صَالِحِ بْنِ حَيَّانَ , ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: " إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يَدْخُلُونَ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ عَلَى الْجَبَّارِ تَعَالَى فَيَقْرَأُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، وَقَدْ جَلَسَ كُلَّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَجْلِسَهُ عَلَى مَنَابِرِ الدُّرِّ وَالْيَاقُوتِ، وَالزَّبَرْجَدِ، وَالذَّهَبِ وَالزُّمُرُّدِ كُلًّا بِأَعْمَالِهِمْ، فَلَمْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُمْ بِذَلِكَ، وَلَمْ يَسْمَعُوا شَيْئًا قَطُّ أَعْظَمَ , وَلَا أَحْسَنَ مِنْهُ، ثُمَّ يَنْصَرِفُونَ إِلَى رِحَالِهِمْ نَاعِمِينَ قَرِيرَةً أَعْيُنُهُمْ إِلَى مِثْلِهَا مِنَ الْغَدِ
========
6.
أخرج الطبراني في معجمه الأوسط تحت اسم العمارة:
حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ وَثِيمَةَ قَالَ: نَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَزْوَاجَ أَهْلِ الْجَنَّةِ لَيُغَنِّينَ [ص:150] أَزْوَاجَهُنَّ بِأَحْسَنِ أَصْوَاتٍ سَمِعَهَا أَحَدٌ قَطُّ. إِنَّ مِمَّا يُغَنِّينَ بِهِ: نَحْنُ الْخَيْرَاتُ الْحِسَانْ. أَزْوَاجُ قَوْمٍ كِرَامْ. يَنْظُرْنَ بِقُرَّةِ أَعْيَانْ. وَإِنَّ مِمَّا يُغَنِّينَ بِهِ: نَحْنُ الْخَالِدَاتُ فَلَا يَمُتْنَهْ. نَحْنُ الْآمِنَاتُ فَلَا يَخَفْنَهْ. نَحْنُ الْمُقِيمَاتُ فَلَا يَظْعَنَّهْ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ إِلَّا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ "
👌
ReplyDeleteماشاء الله
ReplyDeleteحدیث شب برات کے تحقیق درکار ہے
ReplyDeleteمستفتی فضل معبود حقانی