اللہ تعالی کی رضا اور ناراضگی کی نشانیاں

 

سوال : حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ اللہ تعالی سے پوچھا کہ : یا اللہ جب تو  ناراض ہوتا ہے تو تیری کیا نشانی ہوتی ہے ؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ :

دیکھنا جب بارشیں بے وقت ہوں ، حکومت بے وقوفوں کےپاس ہو، اور پیسہ بخیلوں کے پاس ہو تو جان لینا کہ میں ناراض ہوں، پھر موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ : جب یا اللہ تو  راضی ہوتا ہے تو اس کی کیا نشانی ہے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : موسیٰ جب بارشیں وقت پر ہوں ، حکومت نیک اور سمجھ دار لوگوں کے ہاتھ میں ہو ، اور پیسہ سخیوں(سخاوت کرنے والے) کے ہاتھ میں ہو تو سمجھ لینا کہ میں راضی ہوں۔

اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے ۔ از :مفتی شعیب صاحب

الجواب : یہ روایت مختصرا تو حدیث کی کتابوں میں ہے ، اس میں رضا اور ناراضگی کی ایک ہی علامت مذکور ہے ، چنانچہ ابن ابی الدنیا کی کتاب العقوبات ص ۳۷، حلیۃ الاولیاء ۶/۲۹۰ وغیرہ میں ہے :

وعن قتادة قال: قال موسى: يا رب! أنت في السماء ونحن في الأرض، فما علامة غضبك من رضاك؟ قال: إذا استعملت عليكم خياركم فهو علامة رضائي ، وإذا استعملت عليكم شراري فهو علامة سخطي عليكم.

البتہ یہ پوری روایت کتب ادب عربی جیسے ابن عبد البر کی العقد الفرید(۵/۲۸۸) اور مبرد کی کامل (۱/۲۴۱)میں محمد بن المنتشر تابعی کے واسطے سے بلا سند منقول ہے ، الفاظ یوں ہیں :

 اذا رضي الله عن قوم أنزل عليهم المطر في وقته، وجعل المال في سُمَحائهم، واستعمل عليهم خيارَهم؛ وإذا سخط على قوم أنزل عليهم المطر في غير وقته، وجعل المال في بُخلائهم، واستعمل عليهم شرارَهم.

 بعض مرفوع احادیث میں اس طرح کے کچھ امور مذکور ہیں ، لیکن عموما روایات میں ضعف ہوتا ہے ، سنن ترمذی کی ایک روایت یہ ہے :

 عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إذا كان أمراؤكم خياركم، وأغنياؤكم سُمحاءكم، وأموركم شورى بينكم، فظهرُ الأرض خيرٌ لكم من بطنها. وإذا كان أمراؤكم شراركم، وأغنياؤكم بخلاءكم، وأموركم إلى نسائكم، فبطنُ الأرض خيرٌ لكم من ظهرها.

قال الترمذي: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث صالح المُري، وصالح المري في حديثه غرائب ينفرد بها لا يتابع عليها وهو رجل صالح ۔

ابن ماجہ (۴۱۵۵) میں اس مفہوم کی روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔

نیزحضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ملتی ہے :

" إن الله عز وجل إذا غضب على أمة لم ينزل بها العذاب : غَلَت أسعارُها ، وقَصُرت أعمارها ، ولم تربح تجارتها ، وحُبس عنها أمطارها ، ولم تغزُر أنهارها ، وسُلِّط عليها شرارها " .

رواه الديلمي في " مسنده " وابن عساكر في التاریخ وابن النجار في ذیل تاریخ بغداد ، وهو ضعیف جدا ، کما قال الألباني ۔

ایک اور حدیث یوں ہے : إذا غضب الله على قومٍ جعل صيفهم شتاءً وشتاءهم صيفا . لیکن یہ بے اصل ہے ، یا کسی حدیث کا مفہوم ہے ۔واللہ اعلم

خلاصہ یہ ہے کہ : حضرت موسی علیہ السلام کا مکالمہ بظاہر از قبیل اسرائیلیات ہے ، احادیث وروایات میں اس کے مفہوم میں بعض ضعیف روایات ہیں ، وعظ ونصیحت کے طور پر اس طرح کی روایات بیان کرنے میں حرج نہیں ہے ، کیونکہ اس میں خلاف شریعت کوئی بات نہیں ہے ، اور اہل علم اس باب میں ضعیف اسانید کے سلسلہ میں تسامح وتساہل برتتے ہیں ۔ 


حرره العاجز محمد طلحة بلال أحمد منيار

7/7/2018

 

 

 


Comments

Popular posts from this blog

جنت میں جانے والے جانور

جزی اللہ محمدا عنا ما ھو اھلہ کی فضیلت